گلی محلے کے مسائل ہوں یا کسی بستی اور گاؤں کے معاملات،
کوئی قبیلہ ہو یا کمیونٹی، انسانی فطرت اور ہماری سماجی اور اجتماعی زندگی
کا تقاضا ہے کہ ہم کچھ لوگوں کو چُن کر انھیں اپنے فیصلوں کا اختیار دے
دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنھیں متعلقہ انسانی گروہ میں سب سے زیادہ
عقل مند، دیانت دار، بالغ نظر، جرأت مند اور قیادت کے لیے مطلوبہ دیگر
خصوصیات کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ ان سے سنجیدگی اور بردباری کی توقع کی جاتی
ہے۔ انھیں رول ماڈل سمجھا جاتا ہے۔ قبائلی معاشرت سے جدید جمہوریت تک دنیا
کے ہر خطے میں یہی روایت رہی ہے۔ لیکن ہم دوسروں سے خاصے الگ ہیں۔
ہم اپنے معاملات نمٹانے اور مسائل کے حل کے لیے جو قیادت منتخب کرتے ہیں،
وہ کیسی ہے؟ اس کا نظارہ گذشتہ دنوں ’’مقدس ایوان‘‘ میں نظر آیا۔ نعرے بازی
اور شورشرابا تو خیر دستور میں ترمیم پر قادر اس ایوان کا دستور ہے ہی،
لیکن اس روز تو نازیبا اشارے، تھپڑ، گالیاں، ہاتھا پائی، یعنی وہ سب کچھ
تھا جو کسی چوک پر لڑنے والے جاہل افراد کی لڑائی میں ہوسکتا ہے۔ قومی
اسمبلی میں برپا ہونے والے اس طوفانِ بدتمیزی سے کچھ روز پہلے ہی سندھ
اسمبلی میں حزب اختلاف کی ایک خاتون رکن سے بدتمیزی پر مبنی سلوک کیا گیا
اور اس کے بعد خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں صوبے میں برسراقتدار
تحریک انصاف اور حزب اختلاف ن لیگ کے ارکان آپس میں لڑ پڑے۔ کچھ عرصہ قبل
قومی اسمبلی کی ایک خاتون رکن کو ایک وزیر نے نہایت بے ہودہ لقب دے کر اپنے
اخلاقی گراوٹ ثابت کی تھی۔
اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ منتخب اور عوامی نمائندہ ہونے کے نام پر اس
غریب اور منہگائی کی ماری قوم سے بھاری بھرکم مراعات وصول کرنے والے منتخب
ایوان میں آنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتے، آجائیں تو اونگھتے رہتے ہیں۔
یوں عوامی نمائندگی کا فریضہ بہ خوبی ادا کیا جاتا ہے۔ انھیں طویل قطاروں
میں لگ کر ووٹ دینے والے عوام توقع رکھتے ہیں کہ ان کے منتخب نمائندے
اسمبلیوں میں جا کر ان کے حقوق کی بات کریں گے، ان کی مسائل ایوان میں
اٹھائیں گے، قومی معاملات پر کھل کر رائے دیں گے، لیکن یہ نمائندے کم ہی اس
توقع پر پورے اترتے ہیں۔ ہاں جب بات اپنے مشاہرے اور مراعات کی ہو، معاملہ
اپنے استحقاق کا ہو تو حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے ارکان ایک جان دو قالب
نظر آتے ہیں اور ایسی قراردادیں آن کی آن میں منظور اور ایسے فیصلے جھٹ پٹ
ہوجاتے ہیں۔
چلیے صاحب اس مفلوک الحال قوم کے خون پسینے کی کمائی سے جتنی چاہے مراعات
لیجیے، جتنا چاہے عیش کیجیے، شاہ خرچیاں کیجیے، کیوں کہ ہمارے جمہوریت کے
قرینے میں عوام اور ان کا جان مال سب آپ کے لیے ہے، مگر ملک کو رسوا تو نہ
کیجیے، آپ اس قوم اور ہماری نسلوں کے لیے پہلے ہی نہ جانے کتنی بُری مثالیں
قائم کر چکے ہیں، ان مثالوں میں مزید اضافہ تو نہ کیجیے۔
بعض لوگ ایوانوں کی ان ہنگامہ آرائیوں کو بھی جمہوریت کا حصہ سمجھتے اور
اسے عام سی بات قرار دیتے ہیں۔ اس حوالے سے وہ دیگر ممالک کی مثال بھی دیتے
ہیں، جہاں جمہوریت مستحکم بنیادوں پر استوار ہے۔ لیکن یہ مثال دیتے ہوئے وہ
بھول جاتے ہیں کہ ان ممالک کے منتخب ایوانوں میں ارکان کی حاضری کا تناسب
ہم سے کہیں زیادہ ہوتا ہے، وہاں اگر برسوں میں ایک دو مرتبہ ارکان آپس میں
گتھم گتھا ہو بھی جاتے ہیں، تو باقی کے پورے عرصے کے دوران وہ عوام کے
مسائل اور ملک کے معاملات پر ہونے والی بحثوں میں پورے جوش وخروش سے حصہ
لیتے ہیں، ان ممالک کے منتخب ایوانوں میں ملک کے تمام اہم معاملات لائے
جاتے اور ان پر فیصلے کیے جاتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں بڑے بڑے معاملات میں
ایوان بالا اور ایوان زیریں کو نظرانداز کرتے ہوئے بالا بالا فیصلے کر لیے
جاتے ہیں۔ اہم قومی معاملات تو رہے دور کی بات ہمارے ہاں تو وزیراعظم بھی
ایوان میں کم کم ہی آتے ہیں۔ ہماری قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیاں
بھی اگر ان ممالک کے جمہوری ایوانوں کی طرح صحیح معنوں میں فیصلہ ساز
ہوجائیں، یہاں عوام کے حقیقی مسائل پر بحث مباحثہ ہو، ان مسائل کے حل کے
لیے قانون سازی کی صورت میں کوششیں کی جائیں، ارکان اور حکم راں ان ایوانوں
میں اپنی حاضری معمول بناتے ہوئے اس بات کا ثبوت دیں کہ انھیں ملک اور عوام
کے مسائل سے دل چسپی ہے اور ان ایوانوں کو وہ واقعتاً اہم ترین اور مقدس
سمجھتے ہیں، تو ایسی ہنگامہ آرائیوں کو بھی برداشت کیا جاسکتا اور جمہوریت
کا حصہ سمجھا جاسکتا ہے۔ دوسری صورت میں یہ سب لہو گرم رکھنے کے بہانے اور
عوام کو دل کسی ایکشن فلم سے بہلانے کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
ہماری پارلیمنٹ میں ہونے والے اس طرح کے واقعات، خصوصاً گالی گلوچ اور
خواتین کی ہتک کے معاملات، جہاں ہماری سیاسی قیادت کا چہرہ دکھاتے ہیں وہیں
یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہمارے ملک کے بالائی طبقات یا بہ الفاظ دیگر اشرافیہ
کی ذہنی سطح اور اخلاقی حالت کیا ہے۔ مجموعی طور پر پارلیمنٹ میں پیشوں کے
لحاظ سے چونتیس فی صد ارکان زمین دار، اٹھائیس فی صد تاجر اور سترہ فی صد
وہ ہیں جو سیاست کو اپنا پیشہ قرار دیتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ سیاست پیشہ خواتین
وحضرات مزدور کسان تو ہو نہیں سکتے، ان کا ذریعہ معاش زراعت یا صنعت و
تجارت ہی ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے سیاست
کو اپنا پیشہ یا کمائی کا ذریعہ قرار دے دیا۔ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے
ان ارکان کے رویوں سے صاف عیاں ہے کہ وہ اختلاف کو برداشت نہیں کر سکتے اور
عورت کا احترام ان کے لیے محض ایک مذاق ہے۔ سو ہمارے یہ نمائندے اور منتخب
ارکان لاکھ پردوں میں چہرہ چھپائیں کبھی کبھی بے نقاب ہو ہی جاتے ہیں اور
اس طرح ہماری سیاست اور اشرافیہ کا وہ روپ ہمارے سامنے آتا ہے جو ہمارے
مسائل اور مشکلات کا سبب ہے۔ |