صوبے کے نام کی تبدیلی کیلئے ہم نے 62سال تک پُرامن اور آئینی طریقے سے جدوجہد کی. حاجی محمدعدیل

حاجی محمدعدیل عوامی نیشنل پارٹی کے ان چند نمایاں رہنماﺅں میں سے ہیں جن کی ساری زندگی سادہ، شفاف اور بے داغ ہے۔ حاجی عدیل حکیم انٹرویو: رضوان ارشد

عبدالجلیل ندوی مرحوم کے فرزند ہیں۔ حکیم صاحب نے برطانوی راج کیخلاف سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا وہ آل انڈیا کانگریس کمیٹی برائے پشاور کے صدر رہے۔ حکیم صاحب باچا خان کے قریبی ساتھی تھے۔ 1947ء میں جب انگریز برصغیر سے چلا گیا تو حکیم صاحب نے سیاست چھوڑ دی۔ ان کا کہنا تھا کہ اب انگریز یہاں سے چلے گئے ہیں لہٰذا سیاست نہیں کروں گا۔ بعد ازاں خان عبدالقیوم خان نے ان کو وزارت کی پیشکش کی لیکن وہ دوبارہ سیاست میں نہ آنے کا عہد کرچکے تھے۔ حاجی عدیل نے 1950ءمیں میٹرک کیا جبکہ گریجویشن 1964ءمیں کی۔ 1962ءسے عملی سیاست میں آئے خیبرپختونخوا کے وزیر خزانہ اور صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر بھی رہ چکے ہیں اس وقت عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر نائب صدر اور سینٹ کے رکن ہیں۔ گزشتہ دنوں ان سے خصوصی ملاقات میں جو گفتگو ہوئی وہ نذر قارئین ہے۔

س: حاجی صاحب ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں خیبرپختونخوا صوبے کو سب سے زیادہ کرپشن زدہ کہا گیا ہے کیا کہیں گے اس پر؟
ج: میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ سے کلی طور پر انکار نہیں کرتا لیکن اس کے ایک حصے سے مجھے اختلاف ہے۔

س: کس حصے سے آپ کو اختلاف ہے؟
ج: پہلی بات تو یہ ہے کہ تنقید برائے اصلاح کا ہمیشہ سے قائل رہا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسی رپورٹ آنی چاہئے۔ ایسی آوازوں کو لازمی طور پر اٹھنا چاہئے۔ پاکستان میں سرکاری سطح پر کرپشن ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہئے۔ سالانہ ترقیاتی پروگرام میں 40فیصد کے قریب رقم کمیشن مافیا کی نذر ہوجاتی ہے۔ ترقیاتی پروگراموں میں رشوت کی شرح 50فیصد تک چلی جاتی ہے، میں اس سے اتفاق کرتا ہوں۔ اسی طرح جو سروسز کے ادارے ہیں ان میں بھی کرپشن بہت خطرناک حد تک سرایت کرچکی ہے۔ سروسز فراہم کرنے والے جتنے بھی ادارے ہیں وہ چاہے تعمیراتی شعبے سے متعلق ہوں یا نہری و آبی منصوبے ہوں ان میں تقریباً کل رقم کا 40فیصد حصہ کمیشن مافیا کھا جاتا ہے۔ میں آپ کو بتاتا چلوں کہ کسی کو نہیں معلوم کہ ٹینڈر کس طرح پاس ہوتے ہیں اور کس طرح کسی بھی پراجیکٹ کی کوالٹی کو چیک کیا جاتا ہے۔ جب ہم نے ان کاموں پر خود تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام تو کمیشن مافیا اور رشوت خوروں کی نذر ہوجاتے ہیں۔

س: حاجی صاحب یہ بتائیے کہ کرپشن جو اب معاشرے کا ناسور بنتا جارہا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟
ج: دراصل ہمارے اداروں میں کرپشن کے مفہوم کو تبدیل کردیا گیا ہے۔ سرکاری افسر اب اس کو اپنا حق سمجھتے ہیں جب آپ کو کوئی بل پاس کروا کے فنانس ڈیپارٹمنٹ والوں سے چیک ریلیز کروانا ہو تب بھی آپ کو رشوت دینا پڑتی ہے۔ اکاﺅنٹنٹ جنرل کے دفتر سے بل پاس ہوتا ہے وہاں بھی یہی سلسلہ ہے۔ کوالٹی کنٹرول کے معاملے میں تو یہاں تک ہے کہ جتنی خراب کوالٹی، اتنے زیادہ پیسے۔ کتنی ستم ظریفی کی بات ہے کہ ہمارے ہاں حج جیسے مقدس فریضے کی ادائیگی کیلئے مکہ اور مدینہ منورہ میں حاجیوں کی رہائش کیلئے لی جانے والی بلڈنگز میں بھی کمیشن مافیا کا پورا ہولڈ ہے۔ بحیثیت مجموعی ہمارا پورا معاشرہ رشوت کے گرداب میں بری طرح جکڑا ہوا ہے۔

س: حاجی صاحب وطن عزیز میں اعلیٰ عہدیداران پر بھی اس طرح کے الزامات ہیں؟
ج: جی ہاں یہی تو افسوس کی بات ہے، صدر پاکستان پر بھی کرپشن کے الزامات ہیں۔ آبدوزوں کا کیس حال ہی میں سامنے آیا ہے یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ حکومت کو اپنے فنڈز 30جون تک خرچ کرنے ہوتے ہیں، اس لئے عموماً جون میں ہی ٹینڈر نکالے جاتے ہیں سامان اور سپلائی کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اس کے بل بناکر خانہ پری کردی جاتی ہے یعنی جون میں ٹینڈر کی منظوری، جون میں ہی چیک کا ریلیز کروانا بس میرے خیال میں ہر سطح پر کرپشن موجود ہے۔ اس کے علاوہ میں آپ کو بتاتا چلوں کہ رشوت کی چند ایک اور بھی اقسام ہیں جن میں سیاسی سفارشیں، اپنے کام کروانے کیلئے مختلف طریقوں سے اداروں پر دباﺅ وغیرہ شامل ہیں۔

س: حاجی صاحب کرپشن کی یہ جو قسم آپ نے بتائی ہے اس کی تھوڑی سی وضاحت کردیں؟
جواب: جی، جیسے کسی کو سرکاری نوکری حاصل کرنی ہو تو ایم این اے ایم پی اے حضرات اپنے اثرو رسوخ سے میرٹ کے بغیر اپنے حلقے کے افراد کو نوکریاں دلواتے ہیں یہاں میں آپ کو اپنی سابقہ دور حکومت کے دوران کا ایک دلچسپ واقعہ سناتا ہوں۔ میں محکمہ تعلیم میں کرپشن کی تحقیق کررہا تھا تو بیگم نسیم ولی جو اس وقت ہماری پارٹی کی سربراہ تھیں انہوں نے چند افراد کو سیاسی نوکریاں دلائی ہوئی تھیں خود میرے کہنے پر 7افراد رکھے گئے تھے لیکن بعد ازاں ہم نے یہ طے کیا کہ بغیر میرٹ کے کوئی بھرتی نہیں کریں گے۔ کسی کی ٹرانسفر کردی جاتی ہے، عدالتوں میں کیس کی تاریخ کو لمبا کروالیا جاتا ہے میرے خیال میں تو یہ سب کرپشن ہی کے زمرے میں آتا ہے۔

س: ایمنسٹی انٹرنیشنل رپورٹ کے کس حصے سے آپ اختلاف کرتے ہیں؟
ج: رپورٹ میں جو تجزیہ پیش کیا گیا ہے اس میں خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ کرپشن جبکہ پنجاب میں کرپشن کا لیول 52فیصد سے کم ہوکر 48فیصد ہے۔ مجھے تو آج تک سمجھ نہیں آئی کہ کس طرح یہ رپورٹ تیار کی گئی ہے اور اس میں مجھے کہیں نہ کہیں سیاسی عمل دخل بھی نظر آتا ہے۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ صوبے کی بجائے وزارتوں کے نام بتائے جاتے تاکہ ہم بھی اچھے انداز میں انویسٹی گیٹ کرسکتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ جنرل سی بات کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اگر ایمنسٹی انٹرنیشنل والے ہر صوبے میں سے 5سے 10کیس لیتے اور تحقیق کرتے تو صورت حال یقیناً مختلف ہوتی۔ فیصد والی بات متنازعہ ہے۔ ہم نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو دعوت دی کہ وہ ہمارے ہاں آئیں 6ماہ تک ٹھہریں ہم ان کو تمام سہولیات دیں گے۔ کرپشن کیسز ثابت کریں ہم ان افراد کیخلاف بلاامتیاز ایکشن لیں گے جو کرپشن میں ملوث ہوں گے لیکن وہ یہ بات ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ پہلے ہمارے ساتھ ایم او یو سائن کیا جائے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا یہ رپورٹ مرتب کرنے سے پہلے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ہمارے ساتھ ایم او یو سائن کیا تھا۔

س: حاجی صاحب کیا یہ درست ہے کہ قبائلی علاقہ جات میں ڈرون حملے پرویز مشرف اور امریکہ کے درمیان سمجھوتے کا حصہ ہیں؟
ج: جی یہ بات میرے علم میں نہیں ہے، یہ سوال تو کمانڈر انچیف سے کیا جانا چاہئے۔

س: صوبے کے نام کی تبدیلی پر مانسہرہ، ہزارہ، ایبٹ آباد میں ایک پوری تحریک نے جنم لیا ہے، اب کیا مستقبل دیکھتے ہیں کیا پھر کسی 19ویں ترمیم کی ضرورت تو نہیں پڑ جائیگی؟
ج: اصولی طور پر ہم پرامن اور آئینی جدوجہد، تحریک اور احتجاج کے حق میں ہیں لیکن جس تحریک کی ابتداء سے دہشت گردی کو فروغ ملے، لوگوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنی دکانیں اور کاروبار بند رکھیں، لوگوں کو پابند کیا جائے کہ وہ مظاہروں میں لازمی شرکت کریں، پھر ایک ایسی تحریک جو قانون کو اپنے ہاتھ میں لے تو اس تحریک کے ہم خلاف ہیں۔ صوبے کے نام کی تبدیلی کیلئے ہم نے 62سال تک پُرامن اور آئینی طریقے سے جدوجہد کی ہے، تب جاکر ہم اس میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ہم جیل بھی گئے لیکن کبھی سرکاری املاک کو نقصان نہیں پہنچایا اور نہ کسی کو زبردستی کہا کہ ہڑتال کریں۔ ہمارا رویہ ہمیشہ جمہوری اور پُرامن رہا ہے اور جو کوئی اس رویے کو اپنائے گا ہمیں اس پر اعتراض نہیں ہوگا۔

س: اس تحریک سے آپ کو کیا تحفظات ہیں؟
ج: مجھے کیا تحفظات ہونے ہیں، دیکھیں انہوں نے لوگوں کی دکانیں لوٹیں افراد کے درمیان نفاق پیدا کیا۔ طریقہ کار یہ ہونا چاہئے تھا کہ یہ صوبائی اسمبلی میں صوبہ ہزارہ کیلئے قرارداد لے کر آتے جو ان کا آئینی حق ہے۔ میں آپ کو یہاں یہ بتاتا چلوں کہ جب مرکز میں نواز شریف کی حکومت تھی اور سردار مہتاب عباسی صوبے کے وزیراعلیٰ تھے تب بھی صوبے کے نام کی تبدیلی کیلئے صوبائی اسمبلی میں پیش کی جانے والی قرارداد سے صرف 2افراد نے اتفاق نہیں کیا تھا۔ قرارداد کثرت رائے سے منظور ہوئی لیکن قومی اسمبلی میں کالا باغ ڈیم کے معاملے پر اختلاف کی وجہ سے صوبے کے نام کی تبدیلی کی قرارداد مرکز سے پاس نہ ہوسکی لیکن ہم نے اپنی آئینی جدوجہد جاری رکھی اور جب تک آئینی طور پر صوبے کا نام خیبرپختونخوا نہیں ہوگیا ہم نے کبھی بھی سرحد کو خیبر پختونخوا نہیں کہا اور نہ لکھا، لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے گوہر ایوب کہتے ہیں کہ ہزارہ میں داخل ہونے والی ہر گاڑی سے خیبر پختونخوا مٹاکر صوبہ ہزارہ لکھا جائے۔

س: صوبے کے نام کی تبدیلی کی اندرونی کہانی ذرا تفصیل سے بتائیے؟
ج: 18ویں ترمیم پارلیمینٹ سے متفقہ طور پر منظور ہوئی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے آرٹیکل میں صوبے کی تبدیلی کا نام سرفہرست تھا ہم چاہتے تو بات یہیں تک رکھتے مگر ہم نے تمام پارٹیز سے بات چیت کا فیصلہ کیا اور بالآخر 9ماہ 10دن بعد متفقہ طور پر صوبے کا نام تبدیل کیا گیا۔ اس آرٹیکل میں صوبہ سندھ میں Hکا اضافہ کیا اور بلوچستان میں Uکی جگہ Hڈالا گیا اب ان صوبوں کے نام اس طرح سے ہیں۔
SINDHاور BALOCHISTAN صوبے کے نام کی تبدیلی کے سلسلے میں مختلف کمیٹیوں کے 70کے قریب اجلاس ہوئے۔ ہم نے مسلم لیگ (ن) سے بات چیت کی ان میں ہزارہ کی نمائندگی تھی۔ ہم نے 3نام تجویز کئے تھے۔ 1:صوبہ اباسین پختونخوا، 2: خیبر پختونخوا، 3: گندھارا پختونخوا۔ ہمیں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے یہ تجویز موصول ہوئی کہ صوبے کا نام اباسین پختونخوا رکھ دیا جائے ہم نے اپنے تھنک ٹینک کی میٹنگ بلائی اور مسلم لیگ (ن) کی تجویز کو قبول کیا۔ دوسری طرف ہماری مسلم لیگ قائداعظم کے صدر چودھری شجاعت صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا میں پہلے سب اضلاع کی کمیٹیوں کے اجلاس بلاﺅں گا تب فیصلہ کیا جائے گا۔ میں یہ انکشاف کرتا چلوں کہ جس دن آخری میٹنگ تھی مسلم لیگ (ن) نے ہمیں پیغام بھیجا کہ آپ صوبے کا نام خیبر پختونخوا رکھ دیں۔ ہم نے اس موقع پر اپنی پارٹی کی ایمرجنسی میٹنگ بلائی، اسفندیار ولی میٹنگ کی صدارت کر رہے تھے۔ اس موقع پر مجھے مسلم لیگ (ن) سے سخت اختلاف پیدا ہوگیا کہ کبھی یہ کہتے ہیں کہ صوبے کا نام اباسین پختونخوا رکھیں اور کبھی خیبر پختونخوا اب صرف صوبے کا نام پختونخوا ہوگا اس پر اسفندیار ولی نے مجھے سمجھایا اور سردار مہتاب عباسی بھی مجھے منانے کیلئے تشریف لائے، خیبر صوبے کا نام مسلم لیگ (ن) کا ہی تجویز کردہ ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ق) نے ہمیں یہ پرپوزل بھیجا کہ صوبے کا نام سرحد ہی رہنے دیا جائے۔ بہرحال سینٹ میں مسلم لیگ (ق) کے ایس ایم ظفر، وسیم سجاد اور ہمایوں سیف نے ہمیں سپورٹ کیا۔

س: حاجی صاحب اگر مسلم لیگ (ن) نے آپ کو سپورٹ کیا ہے تو ہزارہ میں کھلم کھلا وہ اس بات کا اعتراف کیوں نہیں کرتے اور کیا کچھ اور عوامل بھی ہیں تحریک صوبہ ہزارہ کے پیچھے؟
ج: ہزارہ میں مسلم لیگ (ن) کی اکثریت ہے میں نے آپ کو بتایا نا کہ ہم نے تو نام ہی مسلم لیگ (ن) کا تجویز کردہ رکھا ہے۔ (ن) لیگ کو عوام کے سامنے اس کا اعتراف کرنا چاہئے۔ دوسری بات، جو میں آپ کو بتاتا چلوں کو صوبہ تحریک ہزارہ کے حوالے سے جو جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ آئی ہے اس میں بیرونی طاقتوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم بھی ہزارہ کو صوبہ بنانے کی حمایت اسی بات کے پیش نظر کررہی ہے کہ 2ضلعوں کا صوبہ ہے تاکہ وہ کراچی کو صوبہ بنانے کیلئے کلیم کرسکیں۔ مسلم لیگ (ق) ہزارہ سے بری طرح شکست کھا چکی ہے آئندہ بلدیاتی انتخابات کیلئے صوبے کے نام کو استعمال کیا جارہا ہے لیکن شکست ان کا مقدر بنے گی جنہوں نے صوبے کے لوگوں میں نفاق پیدا کیا۔ کسی بھی چیز کی تقسیم تو نہایت آسان فارمولا ہے۔ ہم ہمیشہ تقسیم کیخلاف رہے ہیں میں آپ کی وساطت سے انتظامیہ سے بھی اپیل کروں گا کہ حالات کو نارمل رکھنے کیلئے وہ اپنا رویہ نرم رکھے۔ میں آپ کے ساتھ کچھ حقائق شیئر کرنا چاہوں گا۔ اس وقت صوبے میں ہندکو بولنے والے افراد کی تعداد 22فیصد ہے، جن میں سے 14فیصد ہزارہ سے باہر رہتے ہیں باقی 8میں سے 2فیصد سرائیکی بولتے ہیں۔ ہزارہ میں 3زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ہندکو، پشتو اور کوہستانی، ہزارہ سے اس وقت صوبائی اسمبلی کے اراکین کی تعداد 19ہے جن میں سے 10ہندکو نہیں بولتے۔ صوبہ سرحد کے 7فیصد لوگ 93فیصد پر اپنا فیصلہ نہیں ٹھونس سکتے۔ ایک اور بات کرتا چلوں کہ جتنے بھی سرکاری ادارے یا افسران بقول (ق) لیگ خیبرپختونخوا کے مخالف ہیں تو میری ان سے گزارش ہے کہ وہ اپنے چیک وصول نہ کیا کریں کیونکہ اس پر بھی تو خیبرپختونخوا لکھا جاتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک ایم پی اے نے مجھ سے کہا کہ میں ہزارہ کو سپورٹ کروں گا۔ میرے خیال میں ہزارہ تحریک کو صرف اور صرف بلدیاتی انتخابات کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ بہرحال 2ضلعوں پر صوبہ نہیں بنایا جاسکتا۔ صوبہ بنانے کیلئے آئین میں طریقہ کار درج ہے لہٰذا وہی طریقہ اگر استعمال ہوتا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ اسی تحریک کو دیکھتے ہوئے کوہستان کو ڈویژن بنانے کی بات ہورہی ہے۔ وہاں 100فیصد لوگ پشتو بولتے ہیں اور یہ فاٹا کے علاقے میں آتا ہے اور اس کیلئے تو صرف ایک ایگزیکٹو آرڈر کی ضرورت ہوگی اور ہم اگر ایسا کرتے ہیں تو بات بہت دور تک جائے گی۔

س: حاجی صاحب دہشت گردی کیخلاف جنگ نے عوام کو عجیب کشمکش میں مبتلا کر رکھا ہے، آپ کس کو ذمہ دار سمجھتے ہیں؟
ج: میں تو انہی کو ذمہ دار سمجھتا ہوں جنہوں نے ان تنظیموں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی ان کا براہ راست نام لینے سے گریز کیا، پنجاب میں تو وزراء کے کالعدم تنظیموں سے رابطے کی باتیں ہورہی ہیں۔ ہم نے انہیں خود بنایا ہے خود تیار کیا ہے سارا قصور ہمارا ہے۔ مریدکے، ڈی جی خان میں کیمپ ہیں ہم نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ ہم نے دہشت گردوں کو سوات میں شکست دی ہے، وزیرستان سے وہ بھاگ رہے ہیں ہمیں اس حقیقت کا بھی اعتراف کرلینا چاہئے کہ پنجاب میں بھی طالبان موجود ہیں کسی بھی جگہ ہونے والے واقعہ کو وزیرستان سے نتھی نہیں کرنا چاہئے۔

س: حاجی صاحب کالا باغ ڈیم سے متعلق آپ کا کیا مؤقف ہے؟
ج: پہلے وفاق ڈیم بناتا تھا جہاں چاہے وہ بنالیتا تھا لیکن 18ویں ترمیم کے ذریعے یہ اختیار اب صوبوں کے پاس ہے۔ صوبہ اجازت دے گا تب ڈیم بنے گا۔ کوئی بھی صوبہ یا وفاق چاہے 100ڈیم بنائے لیکن میرے لئے پانی کا جو کوٹہ مختص کیا گیا، 1991ء کے معاہدے کے تحت وہ میرا پانی مجھ سے نہ لے اور اپنی زمین پر ڈیم بنائے۔ ہمارے حصے کا 2.8بلین پنجاب لے جاتا ہے ابھی ایک پراجیکٹ منظور کیا گیا ہے چشمہ کینال بینک اس پراجیکٹ کی کل لاگت 62ارب روپے ہے لیکن ستم ظریفی دیکھئے ہمیں صرف 41کروڑ دیئے گئے ہیں اگر رقم ہمیں اسی طرح ملتی رہی تو اس منصوبے کی تکمیل میں 16سال لگ جائیں گے۔

س: حاجی صاحب قوم کیلئے کیا پیغام دیں گے؟
ج: میری پوری قوم سے گزارش ہے کہ جمہوری قوتوں کا ساتھ دیں تاکہ جمہوریت مزید مضبوط ہوسکے۔
Rizwan Arshad
About the Author: Rizwan Arshad Read More Articles by Rizwan Arshad: 10 Articles with 235404 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.