عطأ الحق قاسمی’ کالم نگار،شاعر ، ادیب‘ 73 ویں سالگرہ پر
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
|
اردو کے معروف ادیب، شاعر، دانش ور و کالم
نگارعطأ الحق قاسمی سے محبت اور عقیدت رکھنے والی جماعت ’’محبان عطأالحق
قاسمی‘‘ نے 2 فروری بروز پیر2015ء کو لاہور میں اپنے مُحِبّ کا جنم دن
منایاتھا۔ اس اعتبار سے اب قاسمی صاحب ایک سیڑھی اور اُوپر چڑھ گئے ۔ گویا
اب وہ 73کے ہوگئے ماشاء اللہ ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ انہیں صحت مند زندگی
عطا کو عطا فرمائے اور وہ اسی طرح ھَشاش بَشاش ، خوش وخرم، باغ باغ، شاداں
و فراواں، ہنستے مسکراتے سیڑھیوں پر سیٹرھیاں چڑھتے رہیں اور ہم ان کے قلم
کی خوشبوں سے اپنی دل و ماغ کو منور کرتے رہیں۔ سابقہ سال قاسمی صاحب سے
عقیدت و محبت رکھنے والی تنظیم محبان عطأالحق قاسمی نے باقاعدہ سالگرہ کی
تقریب کا انعقاد کیا تھا جس میں تقریب کے دولھا یعنی عطأ الحق قاسمی صاحب
بہ نفس نفیس موجود ہی نہیں تھے بلکہ اپنی تعریف کے پُل باندھنے والوں کی
باتوں سے پھولے نہ سمارہے تھے۔ بہت ممکن ہے کہ محبانِ قاسمی اس سال بھی
تاریخ کو دھراتے ہوئے تقریب کا اہتمام کریں ، کرنا بھی چاہیے ، ویسے بھی اب
پی ٹی وی کے چیئ مینی کا تاج بھی تو قاسمی صاحب کے سرپر آب تاب دکھا رہا ہے
۔ تقریب کو کسی نجی چینل میں جگہ ملے یا نہ ملے قاسمی صاحب کے جنم دن کی
تقریب سرکاری چینل پر یقیناًجگہ پائے گی۔
سابقہ سال قاسمی صاحب کی سالگرہ کی خوشی میں منعقد ہونے والی تقریب کے موقع
پر ہم نے بھی ادیب اور کالم نگار برادری کا معمولی حصہ ہو نے کا حق ادا
کرتے ہوئے عطأالحق قاسمی کی تقریب کے حوالے سے ایک کالم بعنوان ’’ ادیب
،شاعر ، دانش ور عطأ الحق قاسمی72 کے یا 43کے‘‘قلم بند کیا تھا جو 18فروری
کو سوشل میڈیا کی معروف ویب سائٹ ’’ہماری ویب‘‘ پر آن لائن ہوا تھا ، جسے
اب بھی آن لائن حوالے
https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=57574پر پڑھا جا سکتا
ہے۔کالم کو یہ عنوان دینے کی وجہ بھی قاسمی صاحب ہی تھے۔ انہوں نے روزنامہ
جنگ میں اپنا کالم بعنوان ’72 ویں یا 43 ویں سالگرہ ؟ ‘ کے عنوان سے آنکھو
ں دیکھا حال خوبصورت پیرائے میں ، ادبی چاشنی کے ساتھ قلم بند کیاتھا۔قاسمی
صاحب سے اپنا تعلق نبھاتے ہوئے ان کی 74ویں سالگرہ پر اپنا حصہ ڈال رہا
ہوں۔ سابقہ تقریب کے حوالے سے صرف اتنا ہی لکھنا چاہوں گا کہ اُ س یاد گار
تقریب کے دو اہم مقرر جنہوں نے قاسمی صاحب کو بہت ہی خوبصورت الفاظ میں
خراج تحسین پیش کیا تھا اب ہمارے درمیان میں نہیں ان میں سے ایک معروف
افسانہ نگار ، کالم نگار ، ادیب جناب انتظار حسین اور دوسرے معروف ناول
نگار ’اداس نسلیں‘ کے خالق جناب عبداللہ حسین ہیں۔ انتظار حسین صاحب کی
گفتگو کا کیا کہناتھامحسوس ہوتا تھا کہ منہ سے پھول چھڑ رہے ہیں، دھیمی
آواز، شیریں الفاظ، نفیس انداز گفتگو کی حامل یہ شخصیت اپنی مثال آپ تھی۔
عبد اﷲ حسین تقریب کے مہمان خصوصی تھے اپنی صدارتی تقریر میں انہوں نے کہا
تھا کہ ’عطا ء الحق قاسمی کا ذہن پنجاب کی زمین کی طرح زرخیز ہے کہ اس کے
ہاں بھی ایک فصل کے بعد دوسری فصل تیار ہوتی ہے‘۔ اﷲ قاسمی صاحب کو تادیر
زندہ رکھے۔ بہادر شاہ ظفر نے دعا ئیہ شعر کہا جس کے جواب میں غالب ؔ نے
بہادر شاہ ظفر کو طویل عمر کی دعا دیتے ہوئے دعائیہ شعر کہا ۔ دونوں اشعار
دیکھئے
بہادر شاہ ظفرؔ :
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
مرزا اسد اﷲ خاں غالبؔ
تم جیو ہزاروں سال
سال کے دن ہوں پچاس ہزار
قاسمی صاحب کی لکھت کا کیاکہنا، خوب لکھتے ہیں، سنجیدہ موضوع کو بھی ایسے
بیان کردیتے ہیں کہ پڑھتے ہوئے بات گراں نہیں گزرتی۔ البتہ سیاسی سوچ اور
فلسفے کے اعتبار سے وہ پکے نوازیے ہیں، اپنے کسی بھی کالم میں نواز شریف
اور نواز لیگ کی شان میں کبھی منفی بات نہیں لکھتے۔ عمران خان کی کبھی
اچھائی بیان نہیں کرتے ، زرداری کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ہر ایک کو آزادی ہے
پھر پسند اپنی اپنی۔ قاسمی صاحب کی مستقل مزاجی دیکھئے عرصہ دراز سے میاں
صاحب کے ساتھ ہیں۔ نہیں معلوم انہوں نے باقاعدہ نون لیگ کی رکنیت کیوں نہیں
اختیار کی ۔ میں نہیں کہتا لوگ کہتے ہیں کہ میاں صاحب نے قاسمی صاحب کو
اپنی حمایت کے صلے میں اپنے پہلے دو ادوار میں سفارت عطا فرمائی یعنی وہ
1997سے1999 ناروے میں اور 1999 میں تھائی لینڈ میں پاکستان کے صفیر
رہے۔موجودہ دور حکومت میں پنجاب کی گورنری خالی ہوئی لیکن قاسمی صاحب کے
نمبر کم ، کسی اور کے زیادہ تھے ۔ اس لیے انہیں پی ٹی وی کے چیئ مینی دے کر
خوش کردیا گیا۔ میاں صاحب ہی کی دین ہے کہ قاسمی صاحب کو ان ہی کے دور
حکمرانی کے مختلف ادوار میں صدارتی تمغہ برائے حسن کار کردگی، ستارہ امتیاز
اور ہلال امتیاز سے سرفراز کیا گیا۔ قاسمی صاحب کی علمی و ادبی خدمات سے
انکار نہیں کیا جاسکتا۔ وہ پاکستان کے ان چند ادیبوں، شاعروں، دانش وروں
میں سے ہیں جو روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ شاید یہ شعر علامہ اقبالؔ نے قاسمی
صاحب جیسی شخصیات کے لیے ہی کہا ہوگا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
عطأ الحق قاسمی صاحب کو میں اُس وقت سے دیکھ رہا ہوں جب برقی میڈیا متعارف
نہیں ہوا تھا۔ قاسمی صاحب اپنی شاعری اور نثری تحریروں کے ساتھ اخبارات کی
ذینت بنا کرتے تھے۔ برقی میڈیا کے آجانے کے بعد انہیں ٹیلی ویژن پر بھی
دیکھا۔ کبھی شرف ملاقات حاصل نہ ہوا۔ نہ ہی قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہی
ہوا۔کالج سے ریٹائرمنٹ (2009) کے بعد 2010 میں مَیں سرگودھا یونیورسٹی کے
شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس سے بحیثیت ایسو سی ایٹ پروفیسر وابستہ
ہوگیا۔ کیمپس میں رہائش ٹیچرز ہاسٹل کے کمرہ نمبر5میں تھی۔ کمرہ نمبر2 میں
شعبہ اردو کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر طاہر تونسوی رہائش رکھتے تھے۔ ذہنی ہم
آہنگی کہئے، مزاج میں مطابقت کہا جائے ، ہم عمرہونا کہا جائے ، کچھ بھی سہی
وہ میرے دوست ہوگئے ۔ سردیوں کا موسم تھا۔ سرگودھا کی سردی ، کراچی والوں
کے لیے تو برداشت سے باہر تھی، اب سرگودھا کی سرد شامیں میرے کمرے میں
گزرنے لگیں، مغرب کی نماز کے بعد بیٹھک ہوتی اور دنیا کا شاید ہی کوئی
موضوع ایسا ہو جس پر گفتگو نہ ہوتی ہو۔ اس دوران کئی احباب ہماری محفل کا
حصہ بننے لگے ، ان میں ڈاکٹر ظفر اقبال اور ڈاکٹرعبدالرشید رحمت ڈین فیکلٹی
آف اسلامک اینڈ اورینٹل لرنگ، ڈاکٹر خالد ندیم ، ڈاکٹر شاہد راجپوت ‘ شعبہ
کے ایک شاگرد، طارق کلیم (اب ڈاکٹر طارق کلم ) وغیر ہ شامل تھے۔اسی سال
عالمی اردو کانفرنس کا اہتمام ہوا۔جس میں اردو ادب کی عالمی اور قومی شہرت
یافتہ شخصیات شریک ہوئیں۔ قاسمی صاحب تونسوی صاحب کے دوست ہیں اس حوالے سے
وہ میرے دوست بھائی ہوئے۔ کانفرنس کے اختتام پر مشاعرہ بھی ہوا مشاعرے میں
قاسمی صاحب نے جو کلام سنا یا اس کا ایک شعر مجھے یاد رہ سکا ۔ شعر یہ ہے
میں وہ دعا ہوں عطاؔ جو ہر ایک لب پر ہے
بس اتنا ہے کہ ابھی عرصہء قبول میں ہوں
قاسمی صاحب کا جسہ اگر بیان کیا جائے تو وہ میری رائے میں کچھ اس طرح کا
بنتا ہے ۔گندمی رنگ ، غلافی آنکھیں، کشادہ پیشانی، کتابی چہرہ، درمیانہ قد،
چوڑا سینہ، مضبوط جسم، چہرے پر مسکراہٹ، آنکھوں میں سوجھ بو جھ کی چمک،
کلین شیو،داڑی موچھ سے پاک صفا چٹ میدان، اونچی مگر پھیلی ہوئی ناک، گھنی
بھنویں، ہونٹ قدرے موٹے، چھوٹی آنکھیں، سنجیدہ طرز گفتگو، معلومات کا
خزانہ،ہر موضوع پرتفصیلی اور حوالائی گفتگو، گفتگو میں بر محل خوبصورت
اشعار کا استعمال، دل میں اتر جانے والی مسکراہٹ، المختصر صورت شکل، وضع
قطع،چہرے مہرے سب سے شرافت، تحمل ، وضع داری اور معصومیت کا خوشگوار
اظہار۔ابھی دو ماہ قبل دسمبر 2015میں آرٹس کونسل میں منعقد ہونے والی عالمی
ادبی کانفرنس میں قاسمی صاحب کو قریب سے دیکھنے اور ان کی خوبصورت باتیں
سننے کا اتفاق ہوا۔ خوب لکھتے اور خوب بولتے بھی ہیں۔ ان کی 15سے زیادہ
کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ان میں کالموں کے مجموعے، شاعری اور تنز و مزاح اور
سفر نامے شامل ہیں۔
جناب عطا ء الحق قاسمی شاعر تو اچھے ہیں ہی وہ مزاح کی حس بہت عمدہ رکھتے
ہیں۔ مزاح لکھنے کی جو صلاحیت ان میں پائی جاتی ہے وہ منفرد اور اعلیٰ ہے۔
اس حس کے ساتھ ان کی تحریر پڑھنے والے کو بور اور اداس نہیں ہونے
دیتی۔معاشرے میں موجود برائیوں ، خرابیوں اور نہ انصافیوں پر ان کے کالم
پڑھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ان کی تحریر کااچھوتا انداز ہے۔ جمہوریت پسند ہیں،
ڈکٹیٹر اور ڈکٹیٹر شپ کو سخت نہ پسند کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ڈکٹیٹر شپ کے
خلاف مسلسل لکھتے رہے ہیں۔ڈرامہ نویس بھی ہیں۔ ان کے کئی ڈرامے ٹی وی پر
ٹیلی کاسٹ ہوچکے ہیں ان میں خواجہ اینڈ سنز، شب دیگ، شیدا ٹالی اور سارے
گامہ شامل ہے۔قاسمی صاحب ناول نگار اور سفر نامہ نگار کی حیثیت بھی رکھتے
ہیں ان کا سفر نامہ نما ناول ’شوقِ آوارگی‘ شائع ہوچکا ہے۔ صفِ اول کے کالم
نگار وں میں شمار کیے جاتے ہیں۔2001سے روزنامہ جنگ میں’روزن دیوار‘ کے
عنوان سے مسلسل کالم لکھتے رہے ہیں۔جنگ سے قبل روزنامہ نوائے وقت میں کالم
لکھا کرتے تھے۔ کچھ باتیں ذاتی قسم کی بھی عرض کردوں ، قاسمی صاحب یکم
فروری 1943کو ہندوستان کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئے ان کے والد کا نام بہا
الحق تھا جنہوں نے قیام پاکستان کے وقت ہندوستان سے ہجرت کر کے وزیرآباد کو
آباد کیا، ابتدائی تعلیم وزیر آباد میں ہی حاصل کی ایم اے او کالج لاہور سے
ایف اے اور اسی کالج سے 1964میں بی اے کیا،1966میں اورینٹل کالج لاہور سے
اردو میں ایم کی سند حاصل کی۔ ابتدا میں استاد بھی رہے، 1968سے2001تک نوائے
وقت میں کالم لکھے، 1977میں انکی کالموں پر مشتمل کتاب ’’روزنِ دیوار‘‘ کو
رائیٹرز گلڈ آدم جی ایوارڈ دیا گیا۔۔ قاسمی صاحب میرے بھی آئیدیل کالم نگار
وں میں سے ہیں اﷲ انہیں آئندہ برس ہی نہیں بلکہ طویل عرصہ زندگی دے اور وہ
ادب کی اسی طرح خدمت کرتے رہیں۔ عطا الحق قاسمی صاحب کی ایک غزل پیش ہے
بھٹک رہی ہے عطا خلق بے اماں پھر سے
سروں سے کھینچ لیے کسی نے سائیباں پھر سے
دلوں سے خوف نکلتا نہیں عذابوں کا
زمیں نے اوڑھ لیے سر پر آسماں پھر سے
میں تیری یاد سے نکلا تو اپنی یاد آئی
ابھر رہے ہیں مٹے شہر کے نشاں پھر سے
تیری زباں پہ وہی حرف انجمن آرا
میری زباں پہ وہی رائیگاں پھر سے
ابھی حجاب سا حائل ہے درمیاں میں عطاؔ
ابھی تو ہوں گے لب و حرف رازداں پھر سے
(یکم فروری 2016) |
|