غالب کے امرجہ سے متعلق الفاظ کی تہذیبی حیثیت

افعال کے ہونے یا کرنے میں جگہوں کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ بعض جگہیں کسی مخصوص کام کے لئے وقف ہوتی ہیں لیکن بہت سی جگہیں کسی کام کے لئے مخصوص نہیں ہوتیں اور وہاں مختلف نوعیت کے کام ہوتے ہیں۔ مخصوص کاموں سے متعلق جگہوں پر دوسری نوعیت کے کاموں کے ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا ۔بعض حالات میں وہاں ایسے کام وقو ع میں آجاتے ہیں کہ جن کا وہاں وقوع میں آنے سے متعلق قیاس بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ گھر رہنے کے لئے ہوتے ہیں۔ گھر سیاسی ڈیرہ بن جاتا ہے، فحاشی کا اڈہ بنا لیا جاتا ہے ، چھوٹے اور محدود نوعیت کے تجارتی کام بھی ہوتے ہیں ۔خانقاہیں اور مساجد کے حجرے منفی استعمال میں بھی آنے لگتے ہیں۔
کرداروں کی جملہ کارگزاری میں امرجہ کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔ ان کے حوالے سے کرداروں سے سرانجام ہونے والے کاموں کی حیثیت ، نوعیت اور اہمیت واضح ہوتی ہے۔ نفسیاتی سطح پر جگہیں ، کسی نشان کا مدلول (Signified)سامنے لاتی ہیں ۔ جگہوں کے حوالہ سے کرداروں سے متعلق شخصی رویہ ترکیب پاتا ہے۔ مسجد میں بوٹوں سمیت گھس آنے والے کے خلاف مسلمانوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے۔ اصطبل میں کوئی جوتے اتار کر نہیں جاتا، ایسا کرنے والا ہنسی کا نشانہ بن جاتا ہے ۔میدانِ جنگ میں سینے پر گولی کھاتا سپاہی باوقار اور محترم ٹھہرتا ہے جبکہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جانے والا نفرت کی علامت بن جاتا ہے کہ اسے خون پسینے کی کمائی سے کھلایا پلایا گیا ہوتا ہے۔
جگہوں کے حوالہ سے نہ صرف افعال کے سرانجام ہونے کے مختلف حوالے سامنے آتے ہیں بلکہ انسانی رویے بھی کھلتے ہیں۔ غالبؔ نے اپنی اردو غزل میں بہت سی جگہوں کا استعمال کیا ہے۔ یہ جگہیں کرداروں کے قول وفعل کو واضح کرتی ہیں ۔ان جگہوں کا جودال(Signifier) بھی ہیں کے مخصوص مدلول سے ہٹ کر ، اور مدلول بھی سامنے آتے ہیں۔ امرجہ سے کلی واقفیت ، تشریح و تعبیر اور تفہیم میں کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔ اگلے صفحات میں غالبؔ کے ہاں استعمال ہونے والی جگہوں سے متعلق اہم معلومات فراہم کرنے کی سعی کی گئی ہے تاکہ قاری کا ان کے کرداروں کے متعلق ایک مخصوص رویہ بن سکے۔ یہ بھی کہ کرداروں کے افعال کی تشریح کا عمل ہر بار نئے حوالوں سے متحرک رہے۔ جگہوں سے متعلق معلومات کے حوالے سے بہت سے نئے مدلول دریافت ہوسکیں گے اور تشریح کے نئے امکان روشن ہوجائیں گے۔
آتش کدہ:
وہ مکان جہاں آتش پرست آگ کی پوچا کرتے ہیں اور وہاں کی آگ کبھی بجھنے نہیں دیتے ۔ اسے آگ کا گھر بھی کہہ سکتے ہیں۔ مجاز اً بہت گرم مکان(۱) مولف’’ نو اللغات ‘‘نے بھی یہی معنی درج کئے ہیں جبکہ مولف ’’فرہنگ آصفیہ ‘‘نے سند میں اسیر کا یہ شعر درج کیا ہے
بسکہ آتش شرم روئے یار سے آب آب صاف ہر آتشکدہ میں اب ہے عالم آپ کا
فیروز اللغات کے مطابق آتش خانہ اور آتش کانہ ہم معنی ہیں اور یہ آتش پرستوں کے معبد کے لئے استعمال ہوتے ہیں(۱)’’فرہنگ آصفیہ‘‘ میں آتش خانہ کے دو مفاہیم سے آگ کی جگہ وہ طاق یا آلہ جومکان کے اندر جھاڑوں میں آگ جلانے کے لئے مکان گرم رکھنے کے لئے بناتے ہیں اور:(۲) آگ پرستوں کے ہاں آگ رکھنے کی جگہ مفاہیم درج ہیں۔ (۳)’’ آئینہ اردو‘‘ لغت میں آتش خانہ کو وہ مکان جہاں پارسی لوگ آگ پوجتے ہیں جبکہ آتش کدہ وہ جگہ جہاں سردیوں میں تاپنے کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ (۴) معنی درج کئے گئے ہیں ۔ اردو جامع انسائیکلو پیڈیاکے مطابق ’’۔۔۔۔۔۔ وہ جگہ جہاں مقدس آگ رکھی جاتی ہے۔ عموماً ہر آتشکدہ ہشت پہلو بنایا جاتا ہے ۔ جس کے وسط میں آتش دان ہوتا ہے۔ (۵) آتشکدے / آتش خانے کو ہمیشہ سے تہذیبی اہمیت حاصل رہی ہے۔ سردیوں میں اکثر جگہوں پر الاؤ روشن کرکے اس کے ارد گرد لوگ بیٹھ جاتے ہیں اور مختلف موضوعات پر گپ شپ کرتے ہیں۔ متوسط گھروں میں انگیٹھی جلا کر ایک کمرے کو گرم رکھا جاتا ہے ۔ وہاں گھر کے جملہ افراد بیٹھ کر آگ تاپتے ہیں ، ساتھ میں گفتگو کا سلسلہ بھی چلتا رہتاہے ۔ گویاآتش خانہ اپنے تہذیبی حوالے رکھتا ہے ساتھ میں مل بیٹھنے کی علامت بھی رہا ہے ۔
مذہب زرتشت میں آگ کو مقدس سمجھا جاتا ہے۔ اس کی پوجا کی جاتی ہے اور آتشکدہ ان کی عبادت گاہ ہے۔ ہندومذہب میں بھی آتش نمایاں مقام کی حامل ہے۔ غالبؔ نے لفظ آتشکدہ بڑی عمدگی اور بالکل نئے معنوں میں استعمال کیا ہے
جاری تھی اسد ؔ داغ جگر سے مرے تحصیل
آتشکدہ ، جاگیر سمندر (۶)نہ ہوا تھا
ایک دوسرے شعر میں بھی آتشکدہ سے مراد آگ جلنے کی جگہ لی گئی ہے۔ عبادت سے متعلق کوئی حوالہ موجود نہیں
آتشکدہ ہے سینہ مرارازِنہاں سے
اے وائے ! معرضِ اظہار میں آوے
سینے کا مثلِ آتشکدہ ہونا جہاں کبھی آگ ٹھنڈی نہ ہوتی ہو، کی علت’’ راز نہاں ‘‘ موجو د ہے ۔ آدمی اپنے سینے میں بات چھپا نہیں سکتا وہ چاہتا ہے اپنی بات کسی نہ کسی سے کہہ دے۔
اردو شاعری میں آتشکدہ بطور عبادت گاہ کبھی نظم نہیں ہوا ۔ اس کے ایسے بہت سے حوالے سامنے آئے ہیں جوشخصی کرب کے ساتھ ساتھ وسیب کی اقدارو روایات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس ضمن میں چند مثالیں ملاحظہ ہوں
* سخنِ عشق نہ گوشِ دلِ بے تاب میں ڈال
مت یہ آتشکدہ اس قطرہ سیماب میں ڈال(۷) سوداؔ
آگ جلنے کی جگہ ، کنایہ عشق کی متواتر جلنے والی آگ ۔ دل کو قطرہ سیماب کا نام دیا ہے۔ سیماب کو کبھی قرار نہیں اوپر سے اسے آتشکدہ بنا دیا جائے ۔ ایسے میں جو صورتحال سامنے آئے گی اس کا تصور بھی لرزہ براندام کردیتا ہے۔
نواب حسن علی خاں عبرتؔ حضرت ابراہیم ؑ کے حوالہ سے بات کرتے ہیں ۔ نار نمرود، گل و گلزار ہوگئی تھی۔ دل آتشکدہ تھا جونہی وصل میسر آیا گلستان کی شکل اختیار کرگیا۔ عبرتؔ نے دلیل کے ساتھ بات کی ہے کہ آتشکدے کا گلستان میں تبدیل ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں کیونکہ پہلے ایسا ہوچکا ہے
رشک خلیل وہ گلِ خنداں نظر پڑا
آتش کدے میں دل کے گلستاں نظر
پڑا(۸)عبرتؔ
آستان:
فارسی اسم مذکر ہے چوکھٹ(۹) ڈیوڑھی،دروازہ، بزرگوں کے مزار کا دروازہ(۱۰) درگاہ بادشاہ کی بارگاہ ، بزرگ کا مقبرہ(۱۱) وغیرہ کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں ۔ یہ لفظ روحانی ، رومانی اور غلامانہ احساسات اجاگر کرتاہے ۔ ہمارے ہاں زیادہ تر شیوخ اور محبوب کی جائے رہائش کے لئے استعمال ہوتاہے۔’’ آستانہ‘‘اسی کاروپ ہے اور یہ لفط شیوخ کی بارگاہ کے لئے صدیوں سے مستعمل چلا آتا ہے۔ آستان شیخ کا ہوکہ محبوب کا ، اپنے مخصوص تہذیبی حوالے رکھتا ہے۔ ہر دو کے لئے محبت اور احترام کے جذبے کارفرما رہتے ہیں۔ شیوخ کے آستانوں پر مختلف امرجہ سے متعلق لوگ حاضر ہوکر نذرانہء عقیدت پیش کرتے ہیں۔ تمیز و امتیاز کے سارے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ باہمی محبت کے بہت سے روپ اور تعاون و امداد کے باہمی حوالے نظر آتے ہیں۔ معاشرے میں ’’ وڈیرا‘‘ کا درجہ حاصل کرنے والوں کو آستانے کے باہر خاص و عام کے جوتے سیدھے کرتے دیکھا جاسکتا ہے، بغیر کسی مجبوری اور جبر کے ۔ وہ اسے اپنے لئے اعزاز خیال کرتے ہیں۔
آستان محبوب کی پوزیشن قطعی مختلف رہی ہے ۔ وہاں کسی دوسرے کا وجود کیا اس کے متلعق کوئی بات، سایہ ، واہمہ یا احساس بھی گراں گزرتا ہے ۔ محبت اس آستان سے بھی وابستہ نظر آتی ہے ۔
اردو غزل میں یہ لفظ مختلف حوالوں سے نظم ہوتا چلا آتا ہے۔ غالبؔ کے ہاں سنگِ آستان بدلنے کے حوالہ سے محبوب سے وابستہ ایک روّ یے کی نشاندہی کی گئی ہے :
گھستے گھستے مٹ جاتا، آپ نے عبث بدلا ننگِ سجدہ سے میرے، سنگِ آستاں اپنا
انعام اللہ یقین ؔ کے ہاں دو آستانوں کا تقابلی حوالہ پیش کیا گیا ہے۔ محبو ب کا آستان کس قدر محبوب اورمعتبر ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ یقینؔ کے اس شعر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے:
سریر سلطنت سے آستانِ یار بہتر تھا مجھے ظلِ ہما سے سایہ ء دیوار بہتر تھا(۱۲) یقینؔ
میرؔ صاحب کے ہاں آستان سے محبت ، عقیدت اور احترام وابستہ نظر آتا ہے :
سجدہ اس آستاں کا نہیں یوں ہوا نصیب رگڑا ہے سرمیانہ ء محراب روز وشب (۱۳)میرؔ
بازار:
فارسی اسم مذکر، کاروبار ، تجارت کی جگہ ، نفع ، میلہ ، رونق ، رواج ، معاملہ (۱۴)دوکانوں کا سلسلہ ، منڈی ، نرخ (بھاؤ)ساکھ ، بکری ، خریدوفروخت (۱۵) برسرِ عام ، جہاں بات پھیل جائے وغیرہ ۔ کاروباری حوالہ سے ’’بازار‘‘ شروع سے انسان کی معتبر ضرورت رہا ہے ۔ بازار دراصل دام لگنے کی جگہ ہے ۔ جہاں کوئی بھی سودا ہوگا وہ بازار کے زمرے میں آئے گا۔ مختلف امرجہ کے لوگ یہاں ملتے ہیں۔ سودابازی کے ساتھ ساتھ زبانوں کے الفاظ، رویے، رواج، روایات وغیرہ ، ایک دوسرے کے ہاں منتقل ہوتے ہیں۔ سماجی اقدار ، روایات اور معاشرتی نظریات کا تصادم بھی سامنے آتا ہے۔
لفظ’’بازار ‘‘ سنتے ہی آنکھوں کے سامنے مختلف نسلوں، قبیلوں اور جدازبانیں بولنے والے آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔ مختلف قسم کی اشیاء کی دوکانوں کا نقشہ آنکھوں کے سامنے ابھرنے لگتا ہے ۔ یہاں ہر شے مہنگے سستے داموں مل جاتی ہے، بک جاتی ہے ۔ اشیا کی قدر و وقعت ان کے استعمال کی جگہوں پر ہوتی ہے۔ سستے پن اور بے وقعتی کا احساس یہاں پر ابھرتا ہے۔ بعض رویوں سے متعلق تحسین و آفرین اور بعض کے متعلق حقارت جنم لیتی ہے ۔ دھوکہ دہی ، بددیانتی ، ہیر اپھیری اور کمینگی کے بہت سے پہلو سامنے آتے ہیں۔ (۱۶) بازار میں نظریں لڑتی ہیں ، برسوں کے بچھڑے مل جاتے ہیں۔ لہجوں کا تبادلہ ہوتا ہے ،بہت کچھ بک جاتا ہے ، چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
سے جرم ناکردہ کی مرے عفو خریدار تا گرم ہے بازار تری بیع سلم کا (۱۷) قائم ؔ
جنسِ دل کے وہ خریدار ہوئے تھے کس دن یہ یوں ہی کوچہ و بازار کی افواہیں ہیں (۱۸) شیفتہؔ
چندے یونہی ہے عشق زلیخا کی گرکشش یوسف ؑ کو آج کل سرِ بازار دیکھنا (۱۹) مجروعؔ
تینوں شعر بازار کے کسی نہ کسی تہذیبی حوالے ، اصول اور روّیے کو واضح کررہے ہیں ۔اب غالبؔ کے ہاں اس لفظ کا استعمال دیکھئے:
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا ساغر جم سے مراجام سفال اچھا ہے
جہاں بہت ساری دوکانیں ہیں ان میں ایک برتنوں کی دوکان ،جہاں خریداری کی جاتی ہے، جہاں اشیاء دستیاب رہتی ہیں۔
غار تگرِ ناموس نہ ہو گر ہوس زر! کیوں شاہد گل باغ سے بازار میں آوے
زرکی ہوس ’’ناموس‘‘ تک کو بازار میں لے آتی ہے ۔ بازار ایسی جگہ ہے جہاں بولی لگتی ہے ۔ زیادہ بولی دینے والا خریدار ٹھہرتا ہے ۔
باغ :
فارسی اسم مذکر، گلزار ،چمن پھلواڑی(۲۰)عمومی سنس میں اس سے وہ قطعہ اراضی مرادلیا جاتا ہے جہاں پھولوں کے پودے لگائے جاتے ہیں ۔ پھل دار درختوں کے ذخیرے کو بھی باغ کا نام دیا جاتا ہے ۔ اس سے آل اولاد ، بال بچے ، دنیا ، خوب آباد، بارونق ، معمور ، پرفزامعنی بھی لئے جاتے ہیں (۲۱)
باغ کے لئے گلستان ، گلزار ، گلشن ، چمن وغیرہ ایسے دوسرے الفاظ بھی بولے جاتے ہیں ۔بہر طور باغ:
ا۔ آبادی کالازمہ اور لوازمہ رہے ہیں
ب۔ نفسیاتی تسکین کاذریعہ رہتے ہیں
ج۔ ذوقِ جمال کا مظہر ہوتے ہیں
د۔ ماحول کی بقا کے ضامن ہوتے ہیں
ھ۔ تہذیبی ضرورت رہے ہیں
غالب ؔ کے ہاں باغ اور اس کے مترادفات کا استعمال پرُلطف معنویت کا حامل ہے:
باغ میں مجھ کو نہ لے جاؤورنہ مرے حال پر ہر ایک گل ترایک چشم خوں فشاں ہوجائے گا
* باغ سے متعلقات نہایت حساس (Sensitive) ہوتے ہیں۔
کوئی دنیا میں مگر باغ نہیں واعظ خُلد بھی باغ ہے خیر آب وہوا ور سہی
باغ تازہ آب وہوا کے لئے اپنا جواب نہیں رکھتے۔ باغ دنیا میں جنت سے کم نہیں ہوتے۔
باغ، پاکر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے سایہء شاخِ گل افعی نظر آتا ہے
غلام رسول مہر ، ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
’’مغلیہ عہد کے باغ ویران پڑے ہیں ۔شام کے وقت شاخوں کا عکس سبزے پر بعینہ سانپ کی طرح نظر
آتا ہے ۔ یہ بھی کہ نباتات نے دست انسانی کی قطع برید سے آزادی پاکر ایک عجیب آوارگی اختیار کرلی ہے ‘ ‘(۲۲)
اردو شاعری میں باغ مختلف تہذیبی ضرورتوں کے حوالہ سے استعمال میں آیا ہے:
تو ہو اور باغ ہو اور زمزمہ کرنا بلبل تیری آواز سے جیتاہوں ، نہ مرنا بلبل(۲۳) تقیؔ
پھلواڑی ، جہاں پھولوں کے پودے ہوں
کچھ دل ہی باغ میں نہیں تنہا شکستہ دل ہر غنچہ دیکھتاہوں تو ہے گا شکستہ دل (۲۴) دردؔ
دنیا معمورہ
دل کو کیا باندھے ہے گلزارِ جہاں سے بلبل حسن اس باغ کا اک روز خزاں ہووے گا (۲۵) قائمؔ
دنیا ،جہاں ،
ہر سہ شعر ا کے ہاں ’’باغ‘‘ مختلف حوالوں سے وارد ہوا ہے ۔ دردؔ اور قائمؔ نے بطور استعارہ نظم کیا ہے ۔ دردؔ نے دنیا کے رویوں کو واضح کیا ہے ۔یہاں دکھ دینے والوں کی کمی نہیں جبکہ قائمؔ نے فنا کا فلسفہ اجاگر کیا ہے ۔
گلستان:
یہ لفظ ’’گل‘‘ کے ساتھ ’’ستان‘‘ کا لاحقہ بڑھانے سے تشکیل پایا ہے، یعنی پھولوں کی جگہ۔ گویا یہ لفظ ایسے باغ کے لئے مخصوص ہے جہاں پھولدار پودے ہوں۔ اسم ظرف مکان ، باغ جہاں پھول کھلتے ہیں۔(۲۶) پھولوں سے بھرپور اور پھولدار مقامات انسانی مزاج پر خوشگوار اثر ات مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ صحت کی بہتری اور بحالی کے لئے نمایاں حیثیت واہمیت کے حامل رہے ہیں۔ یہی نہیں غمی وخوشی کے حوالہ سے ان کی ہر چند ضرورت رہی ہے۔ اردو غزل میں اس کا مختلف حوالوں سے استعمال رہاہے :
حالات ، موسموں، سماوی آفات وغیرہ رنگ میں بھنگ ڈالتے رہتے ہیں :
گلستان جہاں کی دید کیجو چشم عبرت سے کہ ہر اک سروقد ہے اس چمن میں نخل ماتم کا(۲۷) (درد)ؔ
میرزا علاؤالدین آرزوؔ کے نزدیک پھولوں کو ہاتھ بھی لگانا ، گلستان کی بربادی کے مترادف ہے:
لگائیں ہاتھ بھی جھوٹوں تو یوں کہے بلبل کہ آج لوٹے ہے گل چیں یہ گلستاں کیسا (۲۸) آرزوؔ
غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہو:
لے گئے خاک میں ہم داغِ تمنائے نشاط تو ہو اور آپ بصد گلستاں ہونا
پھولو پھلو(۲۹) باغ باغ ہوکر ، شادوخرم رہو(۳۰)
مجھے اب دیکھ کر ابر شفق آلودہ یاد آیا کہ فرقت میں تری آتش برستی تھی گلستاں پر
موسم اور ماحول انسانی موڈکی پیروی کرتے ہیں ۔ غلام رسول مہر کا کہنا ہے :
’’ مناظر کی دلآویزی بجائے خود کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی ،بلکہ سب کچھ انسان کی دل کی کیفیت پر موقوف ہے۔
اگر وہ خوش ہے تو غیر دلچسپ مناظر سے بھی شادمانی کے اسباب پیدا کرے گا۔ اگر وہ ناخوش ، رنجیدہ اور مصیبت
زدہ ہے تو بہتر سے بہتر منظر بھی اس کے لئے سوزش اور جلن کاباعث ہوگا۔‘‘(۳۱)
غالب کے بعد کروچے نے بھی تو یہی تھیوری پیش کی ہے :
اک نو بہارِ ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ چہرہ فروغِ مے سے ، گلستاں کئے ہوئے
سرخی ، رنگینی (۳۲)سرخ رنگین (۳۳) خوبصورتی ، حسن ، رنگا رنگی ، حسن انسان کے اندر ہے جب بھی غیر فطری رکھ رکھاؤ سے باہر آتا ہے ، یہ ازخود واضح ہوجاتاہے ۔
گلشن:
یہ لفظ بھی ’’گل‘‘ کے ساتھ ’’شن‘‘ کالاحقہ بڑھانے سے ترکیب پایا ہے ۔ اسم ظرف مکان ، باغ(۳۴) معنی مراد ہیں۔ لیکن گلزار کی طرح یہ بھی پھولوں والی جگہ کے لئے مخصوص ہے۔ لغت سے ہٹ کر کنایۃًکوئی سے معنوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ میرؔ صاحب کے ہاں پھولوں والی جگہ کے معنوں میں نظم ہوا ہے ۔
گل شرم سے بہہ جائے گا گلشن میں ہوکر آب سا
برقع سے گرنکلا کہیں چہرا ترا مہتاب سا(۳۵) میرؔ
میرؔ صاحب کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسانی حسن (ونزاکت ) کے سامنے کوئی حسن (ونزاکت ) ٹھہر نہیں سکتا ۔ ’’گلشن ‘‘ کے ساتھ حسن وابستہ کردیا گیا ہے ۔ گلشن حسن کا منبع ہے لیکن انسانی حسن کے سامنے صفر (پاتال) ہوجاتا ہے۔
بہارِ داغ تھی جب دل پہ، قائمؔ عجب سرسبز تھا گلشن ہمار ا(۳۶) قائمؔ
قائمؔ نے گلشن سے سبزہ اور ہریالی منسلک کی ہے ۔ یہ انسانی صحت ومزاج کے لئے نمایا ں حیثیت کی حامل رہی ہیں۔
آفتابؔ کے خیال میں گلشن حسن اور رنگا رنگی (کسی کی) کی آماجگاہ ہے ۔ لیکن انسانی حسن پر حسد کرنا یا ششدر رہ جانا غیر فطری بات نہیں
مت اس اداو ناز سے گلشن میں کرگزر ڈرتا ہوں میں ، مبادا، کسی کی نظر لگے (۳۷) آفتابؔ
غالب ؔ کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ فرمائیں:
گلشن میں بندوبست برنگ دگر ہے آج
قمری کا طوق حلقہء بیرون در ہے آج
گلشن بمعنی گلستان (۳۸) محفل (۳۹) برتا گیا ہے
گلشن کو تری صحبت از بسکہ خوش آئی ہے ہر غنچے کاگل ہونا آغوش کشائی ہے غالبؔ
گلستان ، باغ (۴۰) انجمن ، بزم محفل
اشخاص کی صحبت قوموں کے مزاج روّیے اور روایات بدل کررکھ دیتی ہے۔تابع اذہان بلوغت اختیار کرلیتے ہیں
گلزار:یہ لفظ بھی گل + زار کا مجموعہ ہے ۔ زار اسم ظرف مکان کی علامت ہے ۔ گل زار جہاں پھول ہی پھول ہوں ۔(۴۱) پھلیرے کی دوکان پر بہت سی قسموں کے پھول ہوتے ہیں لیکن اسے گلزار کا نام نہیں دیا جائے گا۔ وہ دوکان ہی کہلائے گی۔ گلزار سے مراد ایسی جگہ / خطہ اراضی جہاں پھولوں کے پودے اگائے گئے ہوں۔ پھول ہمیشہ سے سماجی ضرورت رہے ہیں۔ گلستان ، گلشن اور گلزار در حقیقت ایک ہی قماش کے لفظ ہیں ۔ اردو غزل میں گلزار کا استعمال مختلف سماجی اور انسانی رویوں سے پیوست نظر آتاہے ۔ مثلاً
ہوا زیبا بدن گلرو تمہارا خلق جس دن سے
نہ دیکھا وہ زمانے میں کسی گلزار میں صورت (۴۲) چنداؔ
انسانی خلق رنگا رنگ پھولوں کے حسن اور خوشبو سے کہیں بہتر ہوتا ہے ۔ پھول اپنے حسن اور خوشبو کے حوالہ سے متاثر کرتے ہیں۔ لوگوں کو قریب آنے کی دعوت دیتے ہیں ۔بعینہ ہی انسانی حسن اور خلق کی صورت ہوتی ہے۔ انسان میں ان دونوں عناصر کاہونا گلزار کی مانند ہوتا ہے ۔
گلزار:
پھلنا پھولنا ،پنپنا، سکہ رہنا
اس قدر افسردہ دل کیوں ان دنوں ہے آفتابؔ
دیکھ کر ہوتا ہے تجھ کو تنگ ، دل گلزار کا (۴۳) آفتابؔ
محفل ، انجمن ، دنیا ، احباب ، قدردان
زمانے کا عمومی چلن ہے کہ وہ سکھ میں ساتھ دیتا ہے۔ دکھ اور افسردگی میں دل تنگ کرتا ہے ۔پھول اور پھولدار پودے خوشگوار موڈ پسند کرتے ہیں ۔ اسی میں ان کے پھلنے پھولنے کا راز مخفی ہوتا ہے۔
غالبؔ کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہو:
سائے کی طرح ساتھ پھر یں سرو و صنوبر تواس قد دلکش سے جو گلزار میں آوے
سرو وصنوبر سے واضح ہورہا ہے کہ گلزار سے پھولوں کاخطہء اراضی مراد ہے۔گلزار میں (شخصی )بلند قامتی معتبر و معزز ٹھہراتی ہے۔ غلام رسول مہر لکھتے ہیں:
’’محض بلندی قامت کوئی خوبی نہیں ، قداتنا ہی بلند ہونا چاہئے جتنا کہ موازنیت کے باعث دل کو لبھائے ،
نری بلند قامتی بعض اوقات نازیبا بن جاتی ہے ۔ (۴۴)
چمن: یہ لفظ بھی ’’باغ‘‘ گروپ سے متعلق ہے۔ اردو شاعری میں اس لفظ کا بڑا عام استعمال ملتاہے:
اس نازنین دہن سے حرف اس ادا سے نکلا گویا کہ غنچہء گل صحن چمن میں چٹکا
خوبصورت ادائیگی صحنِ چمن میں غنچہء گل کے چٹکنے سے کسی طرح کم نہیں ۔ لہجہ اعتماد بحال کرتاہے ۔غلط لہجہ جھگڑے کا سبب بن سکتا ہے ۔ بے مزگی کی صورت نکل سکتی ہے ۔ کرخت اور کھردرا انداز تکلم بے وقار کرکے رکھ دیتا ہے ۔ غنچے کا چٹکنا اپنے دامن میں بے پناہ حسن رکھتا ہے ۔
کسی ’’ آنگن ‘‘ میں جوانی ، زندگی کے ذائقے ہی بدل کر رکھ دیتی ہے :
مرغان چمن کے چہچہے ہیں اور کبک دری کے قہقہے ہیں (۴۵) مجروحؔ
مرغان چمن کے چہچہوں کا جواز۔۱۔ہریالی ۔۲۔ پھول ۔۳۔ پھل ہیں ۔ مجروح نے چمن کو باغ کے معنوں میں اندراج کیا ہے۔
اب غالب ؔ کے ہاں اس لفظ کی کارفرمائی ملاحظہ ہو:
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کرنہیں سکتی چمن زنگار آئینہ باد بہاری کا
چمن:گلبن و اشجار و برگ و بار(۴۶) اظہار لطافت(۴۷) بادِبہاری کے اظہار کا وسیلہ (۴۸)
ہے جوشِ گل بہار میں یاں تک کہ ہر طرف اُڑتے ہوئے الجھتے ہیں مرغِ چمن کے پانوء غالبؔ
چمن ، جہاں بہت سارے درخت ہوں اوران کی بہت سی شاخیں اِدھراُدھربکھری ہوئی ہوں کہ بلبل کو پرواز میں دشواری محسوس ہوتی ہو۔ بے ترتیبی حرکت میں خلل کا سبب بنتی ہے۔ بہتات نعمت سہی لیکن اس کا ترتیب میں لانا اور ضروری قطر برید حرکت میں دشواری کا موجب نہیں بنتی ۔ پنجابی مثل معروف ہے ’’پانا سب کو آتا ہے لیکن ’’ٹمکانا‘‘ کوئی کوئی جانتا ہے۔ چمن کی خوبی تو ہر کوئی چاہتا ہے لیکن پودوں کی دیکھ بھال ، توازن ، سیمٹری قائم کرکے حظ فراہم کرنا کوئی کوئی جانتا ہے ۔میسّر کی بہتات ، سلیقے کی محتاج ہے جبکہ سلیقہ ، توازن اور سٹمری کاضامن ہوتا ہے ۔
بت خانہ:
فارسی اسم مذکر۔ بت رکھنے کی جگہ ، مندر ، شوالہ ، شیودوارہ (۴۹) بتکدہ ، صنم کدہ ، مورتی پوجا کی جگہ (۵۰)انسان نے اپنے محافظ ، معاون ، نجات دہندہ ، پوجیور کو مجسم اور چشم بخود دیکھنے کی خواہش ہمیشہ کی ہے۔ دکھ ، تکلیف اور مصیبت میں ان سے مدد چاہی ہے ۔ دیوی دیوتاؤں کے ساتھ بھلے اور انسان دوستوں کے بت بنا کر انہیں احترام دیا گیا ہے ۔ ان کی یاد میں بت گھر بنائے گئے ہیں ۔ یہاں تک کہ کعبہ کو بھی بت گھر بنا دیا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ بت اوربت خانے انسانی تہذیبوں کا محورو مرکز رہے ہیں ۔ مذہبی اشخاص کی تصاویر اورمجسموں کااحترام عیسائیوں اور مسلمانوں کے ہاں بھی پایا جاتا ہے ۔(۵۱)
جبرواستبدادسے متعلق قوتیں، انسان اور انسانیت سے برسر پیکار رہی ہیں۔کچھ لوگ ان قوتوں کے سامنے ہمیشہ جھکے اور انہیں اپنی قسمت کامالک ووارث سمجھتے چلے آئے ہیں جبکہ کچھ لوگ ان قوتوں سے نبردآزما رہے ہیں۔ اس جنگ کے فاتحین کوبھی عزت و احترام دیا گیا ہے ۔ گویا دونوں ، منفی اور مثبت قوتیں طاقت کی علامت ٹھہر کر پوجیور کے درجے پر فائز رہی ہیں۔ ماہرین بشریات کا کہناہے کہ فرد کی شخصیت پیدائشی قوتوں کے زیر اثر نہیں بلکہ معاشرتی حالات کے نتیجے میں تشکیل پاتی ہے۔ (۵۲)یہی وجہ ہے کہ ’’بت‘‘ (۵۳) بہت بڑا معاشرتی حوالہ رہے ہیں۔ بعض کو ان کے عمدہ کردار(۵۴) اور بعض کوجبری(۵۵) عزت دینے پر انسان مجبور ہا ہے ۔
طوائف گاہ اوربازار حسن کو بھی غالبؔ ’’بتکدہ ‘‘کانام دیتے ہیں:
شب ہوئی پھر انجمن رخشندہ کا منظر کھلا اس تکلف سے گویا بتکدے کا درکھلا
اردوشاعری میں ’’بت خانہ‘‘ عام استعمال کا لفظ رہا ہے ۔مثلاً
کہیں عشقِ حقیقی ہے کہیں عشقِ مجازی ہے
کوئی مسجد بناتا ہے کہیں بنتا ہے بت خانہ(۵۶) شریںؔ
’’ بت خانے ‘‘ کا استعمال بطور پوجا گاہ ہو اہے :
چشم اہل قبلہ میں آج اس نے کی جوں سرمہ جا
حیف ایسا شخص جوخاکِ دربت خانہ تھا (۵۷) سوداؔ
مجازی اور غیرحقیقی پوجاگاہ
مسجد میں بتکدے میں کلیسا میں دیر میں
پھرتے تری تلاش میں ہم چار سو رہے (۵۸) شیداؔ
بت کدہ ، بیت الصنم ، صنم خانہ ، ’’بت خانہ ‘‘ کے مترادف الفاظ ہیں:
اللہ رے کیا عشق بتاں میں ہے رسائی
یہ کعبہ ء دل اپنا صنم خانہ ہوا ہے (۵۹) ذکاؔ
کسی شخص کا باطن جودنیوی حوالوں سے لبریز رہا ہو۔
کافر ہمارے دل کی نہ پوچھ اپنے عشق میں بیت الحرام تھا سو وہ بیت الضم ہوا (۶۰)
شیخ تفضل حسین عزیز ’’آستانِ صنم‘‘ کانام دے رہے ہیں:
دیر وحرم سے کام بھلا اس کو کیا رہے جس کاکہ آستانِ صنم سجدہ گاہ ہو (۶۱) عزیزؔ
محبوب کا آستانہ عشاق کی سجدہ گاہ رہا ہے
غالب ؔ کے ہاں لفظ بت خانے کا استعمال ملاحظہ ہو:
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
یقین استواری کانام ہے ۔ کبھی اِدھر کبھی اُدھر ایسوں کو عہد جدید ’’ لوٹے‘‘ کانام دیتا ہے بت خانہ بتوں کے رکھنے کی جگہ کوکہا جاتا رہا ہے ۔ یہ لفظ مندر، شوالہ ، دیر، شیودوارہ کے لئے بولا جاتاہے ۔بت خانہ سے وابستہ روایات تہذیبی حوالوں سے جڑی رہی ہیں اور ان کے اثرات نادانستہ بت شکنوں کے ہاں بھی منتقل ہوئے ہیں۔
بیاباں:
فارسی اسم مذکر، ریگستان ، جنگل ، ویرانہ ، اجاڑ ، جہاں کوسوں تک پانی اور درخت نہ ہوں(۶۲)
عشق اوربیاباں لازم و ملزوم حیثیت کے حامل ہیں۔وہ اس لئے :
ا۔ عشق میں جب بھی وحشت لاحق ہوگی تو وحشی (عاشق ) ویرانے کی طرح دوڑے گا۔
ب۔ عشق ویرانی چاہتا ہے تاکہ عاشق اور معشوق بلا خوف مل سکیں اورباتیں کرسکیں۔
غالب ؔ کے ہاں لفظ’’بیاباں‘‘ کا استعمال ملاحظہ ہو:
گھر ہمارا ، جونہ روتے بھی تو ویراں ہوتا بحر گر بحر نہ ہوتا توبیاباں ہوتا
* جہاں پانی دستیاب نہ ہو، ویرانہ
میرؔ صاحب جنوں کو بیابان کا نام دے رہے ہیں ۔بیاباں ہولناک وسعت ویرانی کاحامل ہوتا ہے ۔ خوف اس سے وابستہ ہوتا ہے جنون کی حد پیمانوں سے بالا ہوتی ہے ۔ بقدر ضرورت حالات(ویرانی) اور وسعت میسر نہ آنے کا خوف اور خدشہ رہتا ہے۔ ان امور کے پیش نظر میرؔ صاحب نے ’’بیاباں جیون ‘‘کی ترکیب جمائی ہے :
میں صیدِر میدہ ہوں بیابانِ جنون کا رہتا ہے مراموجب وحشت ، مراسایا (۶۳) میرؔ
شکیبؔ جلالی یاس کے ساتھ بیابان کارشتہ جوڑتے ہیں یاس بیابان سے مما ثل ہوتی ہے ۔ یاس کی حالت میں امید کے دروازے بند ہوجاتے ہیں کسی حوالہ سے بات بنتی نظر نہیں آتی
تازہ کوئی ردائے شب ابر میں نہ تھا بیٹھا تھا میں اداس بیابان یاس میں (۶۴) شکیبؔ
کسی بھی نوعیت کا جنون سوچ کے دروازے بند کردیتا ہے ۔ یا س اداس کردیتی ہے ۔ ہر دوصورتیں معاشرتی جمود کاسبب بنتی ہیں ۔ معاشرتی جمود تخلیق و تحقیق کے لئے سم قاتل سے کم نہیں ہوتا۔ جنوں ہوکہ یاس مثلِ بیابان ( بے آباد، ویران بنجر، تخلیق وتحقیق سے معذور) ہوتے ہیں۔
دشت: فارسی اسم مذکر: بیابان ، صحرا ، جنگل ،میدان (۶۵) ویرانہ ، شیفتگی کاٹھکانہ ، اردو شاعری میں یہ لفظ مختلف مفاہیم کے ساتھ نظم ہوا ہے ۔ حاتم ؔ اور قاتمؔ نے اسے ویرانہ اور بیابان کے معنوں میں باندھا ہے :
ہم دوانوں کو، بس ہے پوشش سے دامنِ دشت وچادرمہتاب (۶۶) قائمؔ
ہوامجنوں کے حق میں دشت گلزار کیا ہے عشق کے ٹیسونے بن سرخ (۶۷) حاتمؔ
اب غالب ؔ کے ہاں اس لفظ کے استعمال ملاحظہ ہو
یک قدم و حشت سے درسِ دفتر امکاں کھلا جاہ ، اجزائے دوعالم دشت کا شیراز تھا
وحشت اور دشت ایک دوسرے کے لئے لازمہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ وحشت کی صورت میں دشت کی ضرورت ہوگی۔ جنون ووحشت امکان کے دروازے کھولتے ہیں۔ آبادی میں رہتے ہوئے سوچ کو یکسوئی میسر نہیں آسکے گی ۔ یہ دشت میں ہی ممکن ہے ۔
صحرا:
عربی اسم مذکر۔ جنگل ، بیابان(۶۸) میدان ، جہاں درخت وغیرہ کچھ نہ ہوں، ویرانہ ، ریگستان (۶۹) تنگ جگہ جہاں گھٹن ہو۔
غالبؔ نے مجنوں کے حوالہ سے صحرا سے بیابان معنی مراد لئے ہیں:
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار صحرا مگر بہ تنگی چشم حسود تھا
صحرا وسیع و کشادہ ویرانہ ہوتا ہے ۔ بقول غالبؔ اسے کوئی سر نہیں کرسکتا ۔ یہ اعزاز صرف مجنوں کو حاصل ہوا ہے ۔ ’’ عام روایات کے مطابق اس کی ساری عمر بیابان کی خاک چھاننے میں بسر ہوئی ۔(۷۰)۔ صحرا گردی عشق کا لازمہ رہا ہے ۔
شیفتہؔ صحرا سے پر آشوب ویران مقام مراد لیتے ہیں :
گاؤں بھی ہم کو غنیمت ہے کہ آبادی تو ہے آئے ہیں ہم پر آشوب صحرا دیکھ کر (۷۱) شیفتہؔ
بیدل حیدری ویرانی ، خشکی ، پشیمانی ، بدحالی وغیرہ کے معنوں میں نظم کرتے ہیں:
باد ل یہ آنکھ کے صحرا کو کیا ہوا کیوں ڈالتے نہیں ہیں بگولے دھمال ، سوچ (۷۲) بیدلؔ
حاتمؔ نے صحرا سے سبزہ گاہ ، جہاں ہر یالی ہو معنی مراد لئے ہیں:
میاں چل سیر کر ابر و ہوا ہے ہو اہے کوہ و صحرا جابجا سبز(۷۳) حاتمؔ
جنگل: فارسی اسم مذکر۔ بیابان ، جھاڑی ،بن، نخلستان، صحرا، میدان ، ریگستان ، بنجر ، افتادہ زمین ، ویران جگہ،
چراگاہ، بادشاہی شکار گاہ صید گاہ(۷۴)
حاتمؔ نے بے آباد جگہ جبکہ چنداؔ نے چوپایوں کی چراگاہ ،معنی مراد لئے ہیں:
وے پری رویاں جنھیں ڈھونڈے تھے ہم جنگل کے بیچ
بعد مدت کے یکا یک آج پائیں باغ میں (۷۵) حاتم ؔ
رہیں کیونکہ بستی میں اس عشق کے ہم جو آہو کوجنگل سے رم دیکھتے ہیں (۷۶) ( چندا)ؔ
غالب ؔ نے جنگل کوبیابان ، دشت اور صحرا کے معنوں میں استعمال کیا ہے :
ہر اک مکان کو ہے مکین سے شرف اسدؔ مجنوں جو مرگیا ہے تو جنگل اداس ہے
بیابان ، دشت ، صحرا،جنگل اورویرانہ وحشت پیدا کرنے والے الفاظ ہیں ۔ قدرتی یا پھر انسان کی اپنی تیار کردہ آفات انسانی تباہی کا موجب رہی ہیں۔ طاقتور طبقے ، بیماریاں یا پھر سماوی آفات، آبادیوں کو ویرانوں میں بدلتی رہتی ہیں۔بہر طور یہ الفاظ سماعت پر ناگوار گزرتے ہیں۔ سماعت ان سے جڑی تلخی برداشت نہیں کرتی۔ ان حقائق کے باوجود عشاق، زاہد حضرات اور تدبر وفکر سے متعلق لوگوں کو یہ جگہیں خوش آتی رہی ہیں ۔ ان مقامات پر موجود آثار، مختلف حوالوں سے متعلق امور کی گھتیاں کھولتے ہیں ۔ عبرت یا پھر دلیلِ جہد بن جاتے ہیں۔
جنت
جنت: لفظ جنت، درحقیت بعد از مرگ ایک مستقل ٹھکانے / گھر کے لئے مستعمل ہے۔ اس کے حسن اور آسودگی کا سن کر آدمی اپنے زمینی گھر کو جنت نظیر بنانے کی سعی کرتا ہے۔ لفظ جنت ایک پرسکون ، پرراحت اور پرآسائش گھر کا تصور دیتا ہے۔ انسان اس کے حصول کے لئے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی کوشش کرتا ہے۔ سخاوت اور عبادت و ریاضت سے بھی کام لیتا ہے۔
قرآن مجید اور دیگر مذہبی کتب میں بھی بعد از مرگ اچھے کرموں کے صلہ میں عطاء ہونے والے اس بے مثل گھر کانقشا ملتا ہے :
* جنت وہ باغات(۷۷) ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں (۷۸)
* اس باغ کی وسعت سات آسمان اور زمین کے برابر ہے (۷۹)
* یہ امن اور چین کا گھر ہے (۸۰)
* یہ گھر مستقل ہوگا(۸۱)
* وہاں آزادی ہوگی(۸۲)
* آسائش ہوگی(۸۳)
* میوے سدا بہارہوں گے ۔ چھاؤں بھی میسر ہوگی(۸۴)
* یہ نہال کردینے والا گھر ہوگا(۸۵)
* یہ گھر بڑا عمدہ اور اس میں کسی قسم کی تکلیف اوررنج نہ ہوگا(۸۶)
* یہاں جھروکے ہوں گے ، ضیافتوں کا اہتمام ہوگا۔ پھل ،عزت اور (ہر) نعمت میسر ہوگی(۸۷)
* اونچے محل اوربالا خانے میسر ہوں گے(۸۸)
گویا جنت ہر حوالہ سے مثالی ہوگا۔ وہاں کسی قسم کا رنج اور دکھ نہ ہوگا بلکہ ہر نوع کی سہولت میسر ہوگی۔ جنت میں انسان کو کسی دوسرے پر انحصار نہیں کرنا پڑے گاجبکہ زمین پر بقول روجرز:
’’ضروریات کی تسکین کے لئے انسان کودوسروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے اوراسے معاشرتی رسم ورواج اور اقدار
کی پابندی کرنا پڑتی ہے ‘‘۔(۸۹)
غالبؔ نے جنت کامختلف حوالوں سے ذکر کیا ہے ۔ ہر بارنئی معنویت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے :
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
آغا باقر: ’’ نافہموں کے لئے ایک سبز باغ ‘‘ (۹۰)
شاداں بلگرامی : ’’ نادانوں کا گھر‘‘(۹۱)
غلام رسول مہر: ’’ دل خوش رکھنے کا ذریعہ ‘‘ (۹۲)
مترادفاتِ جنت کا تذکرہ بھی کلامِ غالب میں ملتا ہے :
بہشت:
فارسی اسم مونث ، جنت، فردوس ، باغ، عیش آرام کا مقام (۹۳)
سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف سب درست لیکن خدا کرے وہ ترا جلو ہ گاہ ہو
آغا باقر: ’’ جہاں محبوب کا جلوہ نصیب ہوگا‘‘ (۹۴)
غلام رسول مہر ’’ وہ مقام جہاں محبو ب کا دیدار میسر آئے(۹۵)
خلد: عربی اسم مونث، جنت، بہشت ، فردوس (۹۶)
کیاہی رضوان سے لڑائی ہو گی گھر ترا خلد میں گریاد آیا
آغا باقر: ’’باغ ‘‘ (۹۷)
غلام رسول مہر: ’’ دریچہ باغ ‘‘ (۹۸)
شاداں بلگرامی : ’’ آٹھ طبقات بہشت میں سے ایک طبقہ کا نام‘‘(۹۹)
تصور محبوب ، پرآسائش مقام ، خوبصورت جگہ ، محبوب کے گھر سے کم تر اورجہاں محبو ب کی عدم موجودگی کے باعث بے چینی اور بیقراری ہوگی۔
فردوس :عربی اسم مذکر ۔ باغ ، گلشن ، بہشت ، جنت، بینکٹھ ، بہشت کا اعلیٰ طبقہ(۱۰۰)
لطفِ خرام ساقی وذوق صدائے چنگ یہ جنت نگاہ وہ فردوسِ گوش ہے
میٹھی ، پرکیف ، پرسرور
باغ رضوان:
وہ بہشتی باغ جس کادربان نگران رضواں ہے
ستائش گرہے زاہد اس قدر جس باغِ رضواں کا وہ اک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طاقِ نیساں کا غالبؔ
باغ رضوان جنت کے کسی ایک حصے کا نام ہے ۔جنت کے دوسرے حصوں کا ذکر بھی غالب کے ہاں ملتا ہے مثلاً حوض کوثر جس کے ساقی جناب امیرؑ ہوں گے۔
کل کے لئے کر آج نہ خست شراب میں یہ سوئے ظن ہے ساقی کوثر کے باب میں
کوثر نام ایک نہر بہشت میں اس کا پانی دودھ سے سفید اور شہد سے میٹھا (۱۰۱)
حوض کوثر ،خیر کثیر (۱۰۲)
بے شمار خوبیاں (۱۰۳)
اس پانی کو جو ایک مرتبہ پیئے گا پیاس نہیں لگے گی (۱۰۴)
نام حوض ست کہ در آخرت خواہد بود (۱۰۵)
غالب نے بھی کوثر سے مراد حوض ہی لیا ہے:
غالب کے ایک شعر میں باغ ارم کا ذکر آتا ہے :
جہاں تیر ا نقش قدم دیکھتے ہیں خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں
ارم: عربی اسم مذکر ۔بہشت ،جنت ،شداد کی بنائی ہوئی بہشت کا نام (۱۰۶) ایک شہر کا نام جو شداد سے منسوب تھا اور وہی اس کا شہرۂ آفاق باغ بتایا جاتا تھا ۔اب یہ لفظ مطلق بہشت کے لئے مستعمل ہے۔ (۱۰۷) باغ جنت (۱۰۸) محبوب کا ہر نقش قدم(۰۹ا) یوں جیسے پھولوں کی کیاری ہو (۱۱۰)
اردو شاعری میں اس خوبصورت مقام کا مختلف حوالوں سے ذکر ملتا ہے:
تیرا نام ہر دم کوئی لیوتا ٹھکانہ جنت بیچ اوس دیوتا (۱۱۱) اسماعیل امروہوی
خوبصورت ٹھکانہ / گھر ،صلہ ء عبادت ،اجر ،انعام
باغ بہشت آنکھوں سے اب گر گیا مرے دل میں بسا وہ سبزخط روئے یار ہے (۱۱۲) چندا
ہرا بھرا سبز باغ، نہایت خوبصورت باغ ،بہشت کا سبزہ مگر خط روئے یار سے کم تر
اوسی وقت بھیجا خدا پاک نے بہشتاں تے حوراں ایحال منے (۱۱۳) اسماعیل امروہوی
بہشتاں ،جمع بہشت ۔وہ جگہ جہاں خوبصورت عورتیں اقامت رکھتی ہیں ۔
کیا ڈھونڈتی ہے قوم ،آنکھوں میں قوم کی خلد بریں ہے طبقہ اسفل جحیم کا (۱۱۴) شیفتہ
خلد ،
حسین سپنا ،خوش فہمی ،مٹی سے بنے انسان کا سپنا
ہاں طلب گارِ جناں آؤ درحضرت پر یہ مکاں وہ ہے جسے خلد بنا کہتے ہیں ( ۱۱۵) مجروح
در حضور ،کنایتہ اسلام :
ساکن کُو کو ترے کب ہے تماشے کا دمانح آئے فردوس بھی چل کر نہ ادھرکو جھانکا (۱۱۶) میرؔ
محبوب کے کوچے کو ’’فردوس ‘ ‘پر تر جیح دی جارہی ہے کہ یہ جازبیت ،حسن و جمال ،تعلق وغیرہ کے حوالہ سے بر تر ہے۔فردوس کے متعلق پڑھنے سننے میں آتا ہے جبکہ محبوب کا کوچہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔لوگ اس کوچے کے متعلق اظہار خیال کرتے ہیں ۔اس کی جازبیت اور خوبصورتی پر کہتے ہیں ۔فردوس سننے کی چیز ہے جبکہ یہ دیکھنے اور سننے سے علاقہ رکھتی ہے۔
ؔ تمہارے روضہ جنت نشاں کے جو کہ درباں ہیں
رکھے ہیں حکم رضواں ،حضرت خواجہ معین الدیں (۱۱۷)آفتابؔ
رضوان جو جنت کے ایک باغ کا درباں ہے اس پر زمین باسی ،اللہ کے ولی کا حکم چلتا ہے اور اس کا روضہ جنت نشاں ہے ۔ روضے کو جنت نشاں قرار دے کر رضوان (موکل )کی دربانی کا جواز آفتاب ؔ نے بڑی خوبی سے نکالا ہے ۔
ہے جو چشم تر بہر ابن علی بہ از چشمہ آب کوثر ہے وہ (۱۱۸) قائمؔ چاند پوری
قائمؔ چاند پوری نے حسین ؑ کے غم میں بہتی آنکھ کو چشمہ آب کوثر قرار دیا ہے۔یقیناوہ آنکھ جوئے کوثر کو بہت پیچھے چھوڑ جاتی ہے۔
گل گشت دو عالم سے ہو کیوں کر وہ تسلی زائر ہو جو کوئی ترے کوچے کے ارم کا (۱۱۹) قائمؔ چاند پوری
قائم رسالت ﷺکے کوچہ کو ارم کا نام دیتے ہیں ۔رسالت مآب ﷺ کے کوچے کا زائر گل گشت دو عالم میں اطمینان محسوس نہیں کرتا ۔ قلبی تسلی کا جو ذائقہ وہاں ہے یہاں کب میسر آتا ہے ۔
جنت کا حسن اور آسایش متاثر کر تا ہے ۔شداد اس متاثر ہوا ۔ اس نے باغ بنوایا ۔انسان اپنے زمینی گھر کے لئے ایسی ہی صورتوں کا متمنی رہا ہے ۔کبھی گھر کے اند ر اور گھر کے باہر سبزے سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کر تا ہے ۔شہروں کو باغات سے آراستہ کرتاہے۔ حسن و آرائش انسان کی نفسیاتی کمزوری ہے۔ وہ سنی سنائی جنت کے لوازمات جمع کرنے کی سعی و جہد کرتا چلا آیا ہے۔حسن و آرائش موڈ پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔موڈ پر رویے اور رویوں پر تہذیبی روایات اٹھتی ہیں ۔جنت کے حوالہ سے ان عناصر کو تہذیبوں کی رگوں میں رواں دیکھا جاسکتا ہے ۔حسن اور آرائش و آسودگی جنت ہی کا تو پر ہیں ۔
خانقاہ:
عربی اسم مونث ۔خانقہ بھی لکھنے میں آتا ہے۔درویشو ں اور مشائخ کے رہنے کی جگہ صومعہ کسی درویش یا پیر کا مقبرہ (۱۱۹) خان بمعنی شاہ، قاہ تبادل گاہ بمعنی جائے شاہ بوجہ عظمت مزار فقرا کے معنی ہیں (۱۲۰) خانقاہیں ہمیشہ سے قابل احترام رہی ہیں مخصوص مسالک سے متعلق لوگ یہاں سے :
۱)۔روحانی آسودگی پانے کی توقع رکھتے ہیں
۲)۔ باطنی تربیت کی امید رکھتے ہیں
۳)۔حاجات روی کا منبع خیال کرتے ہیں
خانقاہوں کا اسلامی معاشروں میں سیاسی کردار بھی رہا ہے ۔خانقاہی نظریات معاشروں میں کبھی بالواسطہ اور کبھی بلاواسطہ پھلے پھولے ہیں اور ان کا انسانی کر دار پر اثر مرتب ہوا ہے ۔مخصوص پہناوے دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ایسی صورت خانقاہی رسومات کی علامت رہی ہیں ۔خانقاہیں صلح و آتشی کا سرچشمہ رہی ہیں ۔اتحاد و یکجہتی کی علامت بھی قرار پاتی ہیں ۔مسجد کلچر سے ان کا تصادم اور بیر رہا ہے ۔مولوی کے لئے خانقاہوں سے متعلق لوگ کبھی گوارا نہیں رہے۔ مولوی کی کوشش کے باوجود خانقاہی کلچر کو فروغ حاصل ہوا ہے۔
غالب ؔ نے میکدے کو مسجد ،مدرسہ اور خانقاہ کے برابر لا کھڑا کیا ہے۔ میکدہ بطور کنایہ استعمال میں آیا ہے ۔شعر ملاحظہ ہو:
جب میکدہ چھٹا ،تو پھر اب کیا جگہ کی قید مسجد ہو ،مدرسہ ہو، کوئی خانقاہ ہو
یہ لفظ اردو اور فارسی شاعری میں استعمال ہوتاآیا ہے ۔مثلاً
دیر میں کعبے گیا میں خانقہ سے اب کی بار راہ سے میخانے کی اس راہ میں کچھ پھیر تھا (۱۲۱) میرؔ
خانقہ خالی شدو صوفی بماند گرداز رخت آں مسافری فشاند (۱۲۲) مولانا روم
منم کہ گوشہ ء میخانہ خانقاہ منست دعائے پیر مغان(۱۲۳)ورد صبح گاہ منست(۱۲۴)حافظ شرازی
حجرہ :
حجرہ ،عبادت ،تعلیم و تر بیت کے علاوہ مولوی صاحب کی نشت گاہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔یہ عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے لغوی معنی کوٹھری ،مسجد کی کوٹھری ،وہ خلوت خانہ جس میں بیٹھ کر عبادت کریں ۔(۱۲۵)غرفہ(۱۲۶) وغیرہ ہیں ۔گویا یہ لفظ اسلامی تہذیب میں بھرپور معنویت کا حامل رہا ہے۔ اس کے متعدد حوالے رہے ہیں ۔مثلاً
ا) مشائخ و عارف حضرات کے کمرۂ ریاضت کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے
ب) حجرے میں بیٹھ کر علماء سے طلباء تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں
ج) علماء تنہائی میں یہاں مطالعہ کرتے ہیں
د) دنیا بیزار حضرات اور عشاق کا تنگ و تاریک کمرہ حجرہ کہلایا ہے
ھ) مولوی صاحبان اسے استراحت کے لئے استعمال میں لاتے ہیں
و) بد فعلی کے لحاظ سے حجرہ بد نام بھی ہے
بہر طور یہ مقام تقدس مآب ہے۔ مولانا روم کے ہاں اسے کمرہ کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے:
رخت از حجرہ بروں آور داو تا بجزبندندآں ہمراہ جو (۱۲۵) مولاناروم
(اس نے حجرے سے سامان باہر نکالاتاکہ وہ ساتھیوں کو تلاش کرنے والے (صوفی) گدھے پر لادیں)
غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال دیکھئے ۔
ہنوز ،اک پر تو نقش خیال یار باقی ہے دل افسردہ ، گویا حجرہ ہے یوسف کے زنداں کا
غالب نے ’’حجرہ ‘‘ بطور مشبہ بہ نظم کیا ہے ۔یوسف کا پیوند تلمیح ٹھہراتاہے
شاداں بلگرامی: چھوٹا کمرہ کوٹھری (۱۲۶)
آغا باقر : تنگ و تاریک کوٹھری (۱۲۷)
غلام رسول مہر: قید خانے کا حجرہ (۱۲۸)
غالبؔ کے ہاں چھوٹے بڑے کمرے پر زور نہیں تاہم کامن سنس کی بات ہے کہ حجرہ چھوٹا کمرہ ہوسکتا ہے۔اصل زور اس کے ماحول (افسردگی )پر ہے ۔ انسان کے موڈکا تعلق ماحول اور سچویشن سے ہے ۔بہت بڑی حویلی یا عالیشان محل ملکیت میں ہو وہ تب ہی خوش آئے گا جب وہاں :
۱)۔ چہل پہل ہوگی ۔اس رونق میں کوئی پوچھنے والا ہوگا۔ جس سے کہا سناجاسکے گا
۲)۔ خوف کا پہرہ نہیں ہوگا
۳)۔ کسی قسم کی پابندی نہیں ہوگی
ہرسہ شارح حجرہ سے کمرہ /کوٹھری مراد لے رہے ہیں ۔اس حوالہ تخصیص کے لئے کسی سابقے کی ضروت محسوس ہوتی ہے ۔ مثلاًعاشق کا حجرہ ، خانقاہ کا حجرہ ،جیل کا حجرہ وغیرہ سابقہ پیوست نہ کرنے کی صورت میں اسے مسجد والا حجرہ سمجھنا پڑھے گا ۔
دبستان :
مکتب (۱۲۹)سکول ۔مدرسہ (۱۳۰) غلام رسول مہر : ادبستان کا مخفف ،مکتب ،تعلیم پانے کی جگہ (۱۳۱)
دبستان ، مدرسہ ، مکتب ’’درس گاہ ‘‘ کے تین نام ہیں ۔تینوں لفظ غالبؔ نے بڑی خوبی اور نئی معنویت کے ساتھ باندھے ہیں
فناتعلیم درس بے خودی ہوں ،اس زمانے سے
کہ مجنوں لام ۔الف لکھتا تھا دیوار دبستاں پر
دبستان کی دیوار پر ’’ لا ‘‘لکھنا:
ا)۔ یہاں سے کچھ حاصل ہونے کا نہیں
ب)۔یہاں کے پڑھے کو زوال ہے
ج)۔ کچھ باقی رہنے والا نہیں ،درسگاہ بھی نہیں
د)۔ اصل تعلیم ’’ کل من علیہافان ‘‘ ہے جو یہاں کے نصاب میں نہیں لہذا دبستان کی تعلیم ادھوری ہے
دوسرے شعر ء میں بھی ’’فنا‘‘ کو واضح کیا گیا ہے۔ اس شعر میں لفظ مکتب استعمال ہواہے:
لیتا ہوں مکتب دل میں سبق ہنوز لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا
دنیا ٹھہرنے کی جگہ نہیں ، چل چلاؤ کا مقام ہے۔
ایک تیسرے شعر میں ’’مدرسہ ‘‘ نظم ہواہے ۔اس شعر میں میکدے کو مسجد ، مدرسے اور خانقاہ کے برابر لاکھڑا کرتے ہیں :
جب میکدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید مسجد ہو،مدرسہ ہو، کوئی خانقاہ ہو
دبستان ، مکتب ،مدرسہ کو ہر معاشرے میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔قوموں کی ترقی ، مثبت روایات کے تشکیل پانے اور ان کے پنپنے کاانحصاراسی ادارے پر ہے ۔جہاں یہ ادارہ اور اس کے متعلقات صحت مند اور باوقار ہوں گے وہاں معاشرہ صاف ستھرا ترکیب پائے گا۔ اس معاشرے کے رویے اور اطوار توازن تہی نہیں ہوں گے ۔انسان نے تحصیل علم و فن میں عمریں بتادیں ۔اس معاملہ میں اپنے بچوں کے لئے حساس رہا ہے۔
لفظ مکتب ،دبستان ، مدرسہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو دوڑتا ،بھاگتا شرارتیں کرتے اور روتے بسورتے آنکھوں کے سامنے لے آتا ہے آزاد ماحول سے پابند ماحول کی طرف مراجعت انہیں پریشان کر دیتی ہے۔اس لفظ کے حوالہ سے ایک اور نقشہ بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ ایک عالم فاضل شخص علم کے خزانوں کے دروازے کھولے بیٹھا ہے ۔اس کے سامنے بیٹھے طلباء یہ مرواریدی خزانے جمع کر رہے ہیں ۔یہ ادارہ شعور، ادراک اور آگہی سے متعلق ہے۔ اسی لئے انسان :
ا) کتاب کی طرف رخ کرتا ہے
ب) علم و فن سے متعلق شخص / اشخاص کی طرف رجوع کرتا ہے
ج)َ مالی تنگی سختی میں بھی کتاب دوستی سے منہ نہیں موڑتی
دامگاہ :
شکارگاہ (۱۳۲) وہ مقام جہاں شکار کے لئے جال بچھاہوا ہو (۱۳۳)
دامگاہ،شکار گاہ کے مترادف مرکب ہے تاہم اسے جال کے ساتھ شکار کرنے تک محدود کر دیا گیا ہے ۔شکار کی ضرورت اور شوق انسان کے ہمیشہ سے ساتھی رہے ہیں ۔چڑیوں سے شیر تک اس کے حلقہ شکار میں رہے ہیں ۔اپنی شکاری فطرت سے مجبور ہوکر انسانوں اور معاشی غلاموں کا شکارکرتا آیا ہے۔ ناقص ،ناکارہ اور بیکار مال کی فروخت کے لئے دام لگاتارہتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک پہلے سے بہتر اور کار گزاری میں بڑھ کر مال تیار کر لینے کے بعد پہلے کی فروخت کے لئے دام بچھاتے رہتے ہیں ۔عورتوں سے پیشہ کروانے والے یا پیشہ سے متعلق عورتیں دام لگاتی رہتی ہیں ۔تاجر ،دلال ،پراپرٹی ڈیلر زوغیرہ اپنے اپنے دام کے ساتھ معاشروں میں موجود ہے ہیں ۔ان امرجہ کودامگاہ کہا جائے گا ۔بادشاہی محلات شازشوں کے حوالہ سے دامگاہ رہے ہیں ۔غالبؔ کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہو:
بزم قدح سے عیش تمنا نہ رکھ کہ رنگ صیدزدام جستہ ہے اس دام گاہ کا
دام گاہ کی حقیقت ،اصلیت اور اس کے اندر کی اذیت وہی بتا سکتا ہے جو اس میں رہ کر کسی وجہ یا سبب سے بچ نکلا ہو یا ڈنک کھاکر واپس آیا ہو ۔ورنہ اتنی بڑی حقیقت ،بزم قدح سے عیش تمنا نہ رکھ ۔۔۔ اتنے وثوق اور اعتماد کے ساتھ کہنا ممکن نہیں ہوتی۔
در:
فارسی اسم مذکر ہے۔جس کے معنی دروازہ ، دوارا ، چوکھٹ ، درمیان ، اندر ، بیچ ، بھیتر ہیں ۔تحسین کلام کے لئے بھی آجاتا ہے ۔(۱۳۴) کسی دوسرے لفظ کے ساتھ جڑ کر معنویت اجاگر کر تاہے۔ دوسرا لفظ نہ صرف اسے خصوص کے مرتبے پر فائز کرتا ہے۔ بلکہ اس کی تخصیص کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔ ’’پیوند ‘‘ سے واضح ہوتاکہ کون سا اور کس کا’در‘ ۔غالبؔ کے ہاں اس کی کارفرمائی دیکھئے :
بزم شہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا رکھیو یا رب! یہ درگنجینہ ء گو ہر کھلا
غلام رسول مہر ؔ :’’ گوہروں کے خزانے کا دروازہ‘‘ (۱۳۵)
شاداں بلگرامی: ’’ بارہ گاہِ شاہی درہائے مضامین گنجینہ یا بوجہ فیض و عطا جواہر کانہ ہے ‘‘ ( ۱۳۶)
بادشاہ کے حضور علم ودانش سے متعلق لوگ جمع رہتے ہیں ۔ اسی حوالہ سے بادشاہ کوعلم و دانش کا منبع قراردیا جاتا ہے ۔ بادشاہ کی نظر عنایت کسی بھی معاشی حوالہ سے کایاہی پلٹ سکتی ہے۔ بادشاہ کے انصاف پر مبنی فیصلے معاشرے پر انتہائی مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔ درشاہی پرہنر وکمال کی پذیرائی ہوتی ہے اوریہ روایت تہذیب انسانی کا حصہ رہی ہے۔ درِ گنجینہ گوہر کاکھلا رہنا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ قدرومنزلت حضرتِ انسان کو نفسیاتی سطح پر اکساتی رہتی ہے ۔ گنجینہٗ گوہر ، درکو واضح کررہا ہے ۔ غالبؔ کا ایک شعر دیکھئے:
بعد یک عمر و ر ع بار تودیتا بارے کاش رضواں ہی دریار کا درباں ہوتا
آغا باقر: ’’ محبوب کا گھر‘‘ (۱۳۷)
شاداں بلگرامی: ’’ دربارحبیب‘‘ (۱۳۸)
محبوب کی چوکھٹ
یار حقیقی ہوکہ مجازی ، انسان کے لئے معتبر اور محترم رہاہے اس تک رسائی کے لئے ہر طرح جتن کرتا رہا ہے ۔ یہاں تک کہ جان تک کی بازی لگادیتا ہے۔ انسان نے جہاں دوسروں کو تابع کرنے کی کوشش کی ہے وہاں مطیع ہونے میں بھی اپنی مثل آپ رہا ہے ۔ اس حوالہ سے اس کا سماجی و تیرہ دریافت کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔
اردو شاعری کے لئے یہ لفظ نیا نہیں۔ مختلف مفاہیم اور کئی سماجی حوالوں سے اس کا استعمال ہوتا چلا آتا ہے ۔ مثلاً
ذکر ہر در سے ہم کیا لیکن کچھ نہ بولا وہ دل کے باب میں رات (۱۳۹) قائمؔ چاندپوری
مختلف انداز ، جداجداحوالوں کے ساتھ
جاوے درقفس سے یہ بے بال و پرکہاں صیاد ذبح کیجوپر اس کو نہ چھوڑیو (۱۴۰) دردؔ
ذریعہ و وسیلہ نہ رکھنے والا جبر و استحصال کا شکار ہوتا ہے ۔ زندگی کے دوسرے حوالوں سے دور ہتا ہے ۔ اس کی حیثیت کنویں کے مینڈک سے زیادہ نہیں ہوتی۔
دیار:
عربی اسم مذکر ۔ دارکی جمع اور اس کے معنی ، گھر ، خانہ ، ملک اور بلاد کے ہیں (۱۴۱)
دیار کے ساتھ کسی دوسرے لفظ کی جڑت سے اس کے معنی واضح ہوتے ہیں اور اسی حوالہ سے اس کا سماجی Status سامنے آتا ہے ۔ مثلاً غالبؔ کا یہ شعر ملاحظہ ہو :
مجھ کودیار غیر میں مارا، وطن سے دور رکھ لی مرے خدانے ،مری بے کسی کی شرم
دیارِ غیر:
پردیس ۔ اجنبی جگہ ، ایسی جگہ جہاں کوئی اپنا شناسانہ ہو۔
دیس سے محبت ، فطری جذبہ ہے۔ دیار غیر میں اس کی حیثیت مشین سے زیادہ نہیں ہوتی۔ وہاں کے دکھ سکھ سے لاپرواہ ہوگا۔ نفع نقصان سے قلبی تعلق نہ ہوگا۔ اس کے برعکس اپنے دیس کی ہر چیز کو یاد کرکے آنسو بہاتا ہے۔’’ غیر‘‘دیار کی نہ صرف معنوی حیثیت واضح کررہا ہے بلکہ اس کے معاشرتی Status کو بھی اجاگر کررہا ہے ۔
کوچہ:
فارسی اسم مذکر اور کو کی تصغیر ہے ۔ اس کے معنی گلی ، سکڑ راستہ ، محلہ ، ٹولہ ہیں ( ۱۴۲) کوچہ عام استعمال کا لفظ ہے ۔ جب تک کوئی دوسرا لفظ اس سے پیوند نہیں ہوتا اپنی پوزیشن اور شناخت سے معذور رہتا ہے ۔کسی سابقے لاحقے کے جڑنے کے بعد اس کی معاشرتی حیثیت کا تعین ممکن ہوتا ہے۔ مثلاًً غالبؔ یاکہ شعر دیکھئے :
علاوہ عید کے ملتی ہے اوردن بھی شرا گدائے کوچہ میخانہ نامراد نہیں
جس محلے میں میخانہ ہے وہاں اور بھی گھر ہوں گے اور گھروں کے سبب یہ کوچہ کہلایا۔ جبکہ میخانے کہ وجہ سے یہ کوچہ معروف ہوا ۔ اور گھروں کی پہچان ،میخانہ ہے ۔ اور گھروں کی وجہ سے یہ کوچہ کہلایا ۔ اس کوچے میں دیگر امرجہ سے متعلق میخوار آتے ہیں۔ لامحالہ اپنے علاقوں کی روایات اور زبانیں لے کرآتے ہیں۔ میخانے کی اپنی روایات ہوتی ہیں۔ ان تینوں امور کے حوالہ سے میخانے سے متعلق کوچے کی روایات ، رویے، اطوار، رسم ورواج ، لسانی سیٹ اپ اپنا ہوتا ہے ۔ مجازاً ’’ کوچہ میخانہ ‘‘ کوپیر خانہ ، عالم دین یا کسی مجتہد کا ٹھکانہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان تینوں امورکے حوالہ سے اطوار اور لسانی سلیقے مختلف ترکیب پائیں گے۔
کوچہ اردو غزل میں عام استعمال کا لفظ ہے ۔ چنداؔ نے عام محلے کا ذکر کیا ہے لیکن اس محلے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہاں سے ’’ماہ‘ ‘ کا گزر ہوا ہے :
اے یارِ بے خبر تجھے اب تک خبر نہیں کب کا گزار ہوگیا کوچے میں ماہ کا ( ۱۴۳) چنداؔ
غلام حسین بیدل ؔ نے کوچہ کے ساتھ ’’جاناں‘‘ لاحقہ جوڑ کر توجہ کا مرکز ٹھہرایا ہے :
پاؤں رکتا ہے کوئی کوچا جاناں سے مرا دل کے ہاتھوں نہ گیا آج تو کل جاؤں گا (۱۴۴) بیدلؔ
گلی:
محلے کوچے کی کوئی گزر گاہ جس کے دونوں طر ف مکانات تعمیر ہیں یا کم از کم ایک طرف مکان موجود ہیں۔ محلوں کوچوں میں سینکڑوں گلیاں ہوتی ہیں ۔ ان گلیوں کی وجہ سے محلہ، محلہ کہلاتا ہے۔ گلی وہی معروف ہوگی جس کے ساتھ کوئی حوالہ منسوب ہوگا۔ یہ حوالہ اس گلی کی وجہ شناخت ہوگا۔ غالبؔ کے ہاں استعمال میں آنے والی گلی ایسے شخص کی وجہ سے معروف ہے جو ’’ خداپرست ‘‘ نہیں
ہاں وہ نہیں خدا پرست ، جاؤ وہ بے وفا سہی جس کو ہو دین و دل عزیز ، اس کی گلی میں جائے کیوں
جہاں خدااور وفاسے لاتعلق رہتا ہو لیکن ہوپٹاخا، وہاں نہ جانے کے لئے سمجھانا ے کار اوربے معنی ٹھہرتا ہے۔ شعر میں گلی کو’’ اس کی ‘‘ نے وجہء شہرت اور وجہء تخصیص بنا دیا ہے ورنہ لفظ گلی اپنے اندر کوئی جازبیت نہیں رکھتا اور نہ ہی معلومات میں اضافے کا سبب بنتا ہے ۔ محلوں میں بے شمار گلیاں ہوتی ہیں۔ کسی کا پتا دریافت کرنے کے لئے بتانا پڑتا ہے کہ کون سے گلی۔ مثلاکوٹ اسلام پورہ، گلی سیداں ، قصور یعنی شہر قصور کے محلہ اسلام پورہ کی گلی سیداں والی‘‘۔
اردوغزل میں مختلف حوالوں سے ’’گلی‘‘ کا استعمال ہوتا آیا ہے ۔ مثلاً
جنت میں مجھ کو اس کی گلی میں سے لے گئے کیا جانیے کہ مجھ سے ہوا آہ کیا گناہ (۱۴۵) احسانؔ
جنت میں یا کسی جنت نظیر گلی میں بھی کوئی دل آزار اور ناپسندیدہ شخصیت کا قیام ہے جو اس گلی سے گزرنا ناگوارگزرتا ہے ۔ زندگی کا چلن دیکھئے خوبی کے ساتھ خرابی ہمرکاب رہتی ہے۔
اسی قماش کا ایک اور شعر ملاحظہ کیجئے :
اس کی گلی میں آن کے کیا کیا اٹھانے رنج خاکِ شفاملی تو میں بیمار ہوگیا ( ۱۴۶) صابرؔ
دونوں اشعار کی بساط ’’اس کی ‘‘ پراستوار ہے ۔ غالبؔ ، احسانؔ اور صابرؔ نے ؔ ؔ ’’اس کی ‘‘ کے حوالہ سے محبوبوں کو کھول کر رکھ دیا ہے کہ یہ کس انداز سے دل آزاری کا سامان کرتے ہیں۔ یہ بھی کہ اچھائی کے ساتھ برائی ،خیر کے ساتھ شرنتھی رہتی ہے ۔ جانتے ہوئے بھی آدمی شر سے پیوست رہتا ہے ۔
دوزخ:
یہ بنیادی طور پر فارسی زبان کا لفظ ہے اور اسم مونث ہے جبکہ اردوبول چال میں مذکر بھی استعمال ہوتا ہے ۔ جہنم ، نرک ، یم لوک ، وہ ستوں طبقے جو تحت الثرےٰ میں گناہگاروں کی سزاکے لئے خیال کئے جاتے ہیں۔ (۱۴۷) برے ، بے سکون، تکلیف دہ ٹھکانے ، برے حالات ، پریشان کن اور تکلیف دہ سچویش، تنگی سختی ، بدحالی ، مفلسی ، انتطار وغیرہ کے لئے بولا جانے والا بڑاعام سا لفظ ہے ۔ غالبؔ کا کہنا ہے کہ آتش دوزخ میں اتنی تپش نہیں جتنی ’’غم ہائے نہانی‘‘ میں ہوتی ہے۔ غم ،دوزخ سے بڑھ کر عذاب ہے :
آتشِ دوزخ میں یہ گرمی کہاں سوز غم ہائے نہانی اور ہے
آغا باقر ؔ : آتش کی نسبت سے بطور مونث ، آگ ( ۱۴۸)
غلام رسول مہر : تکلیف ، دکھ ، غموں کی جلن ( ۱۴۹)
وہ جگہ جہاں آگ جل رہی ہو۔ بے حد تپش ہو۔ آگ اور تپش اذیت دینے والی چیزیں ہیں۔جودکھ پر دہ میں ہوں ۔ اظہار میں نہ آئیںیا نہ آسکیں یا ان کا اظہارمیں لانا مناسب نہ ہو۔ یقیناً ان کی اذیت دوزخ کی اذیت سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ اظہار کی صورت میں تلخی میں کمی آتی ہے ۔ آسودگی ملتی ہے ۔ توڑ پھوڑ( شخصی یا معاشرتی) وقوع میں نہیں آتا۔’’غم پنہاں‘‘ معاشروں کی جڑیں ہلا کر رکھ دیتا ہے ۔ انقلاب برپا کردیتا ہے ۔ غالبؔ کا ایک اور شعر ملاحظہ ہو :
جلوہ زارِ آتش دوزخ ہمارا دل سہی فتنہ ء شورِ قیامت کس کے آب و گل میں ہے
آغا باقر’’ دل میں بھری ہوئی آگ ‘‘ ( ۱۵۰)
غلام رسول مہر ’’ عاشق کا دل‘‘ (۱۵۱)
شاداں بلگرامی ’ ’ آتش عشق (۱۵۲)
اردو شاعری میں اس لفظ کا عام استعمال ملتاہے :
ٹیک چند بہار ؔ کے ہاں حقیقی معنوں میں نظم ہوا ہے:
ہمیں واعظ ڈراتا کیوں ہے تو دوزخ کے دھڑکوں سے
معاصی گوہمارے بیش ہیں ، کچھ مغفرت کم ہے ( ۱۵۳) بہارؔ
میر عبدالحئی تاباںؔ کے نزدیک جنت میں کسی ناپسندیدہ شخصیت کی موجودگی دوزخ کے عذاب سے کم نہیں ۔ ایسی ہی صورتحال معاشرے میں پیدا ہوتی ہے ۔ شخص معاشرے / ملک کو بام عروج پرلے جاتا ۔ ناپسندیدہ اور بدکردار شخص / ملک کا ستیاناس مار کررکھ دیتا ہے ۔ شخص قدریں بدل دیتا ہے ۔ معاشرے کا مزاج تبدیل کردیتا ہے :
اگر میں خوف سے دوزخ کے جنتی ہوں شیخ جو توہوواں تو بھلا یہ عذاب کیا کم ہے (۱۵۴) تاباںؔ
شیخ اپنے کرتوے کے اعتبار سے معززو محترم اور ذی وقار خیال کیا جاتا ہے ۔ اس سے تقدس اور پوترتا کی توقع بندھی رہتی ہے لیکن زیادہ تر عملی حوالہ سے یہ سکون غارت کرتا رہا ہے ۔ وابستہ امیدیں خاک میں ملتی رہی ہیں۔ تاباںؔ کادوسرا مصرع اس تجربے کا نچوڑ ہے ۔ بالکل اسی طرح مکتب کو آگ لگنے پر بچے کو دکھ نہیں ہوتا ، جتنا ’’ماسٹر ‘‘کے بچ جانے پر ہوتا ہے ۔ بکری کو لاجواب چارہ کھانے کو دو جب اس کاپیٹ بھر جائے شیر کا چہرہ کروادو، سب غرق ہوجائے ، جنت کی آسودگی شیخ کا چہرہ ہوجانے کے بعد مٹی میں مل کر خدشے کے کینسر میں مبتلا ہوجائے گی۔ آسودگی ، پریشانی کے حاویہ میں پل بھر کو بھی نہ ٹک پائے گی۔
میرؔ صاحبؓ نے بڑی عمدگی او رصفائی سے ایک معاشرتی رویے اور روایت کے جبر کو فوکس کیا ہے :
آہ میں کب کی کہ سرمایہء دوزخ نہ ہوئی کون ا شک مرامنبع طوفاں نہ ہوا (۱۵۵) میرؔ
میرؔ صاحب کا کہنا ہے کہ فریا د کرنے والے کے لئے زندگی دوزخ کا ایندھن بن جاتی ہے۔ یہاں کا وتیرہ ہے کہ ظلم سہو اور خوشی خوشی سہو، حرف شکایت ہونٹوں تک نہ لاؤ۔ بالکل اسی طرح ’’حاکم نے نہایت مہربانی فرماتے ہوئے آپ کو ملازمت سے نکال دیا ہے ‘‘ حاکم کا ہر اچھا برا حکم اس کی عنایت اور مہربانی پر محمول ہوتا ہے ۔ اس کے خلاف بولنا جرم اور کفرانِ نعمت کے زمرے میں آتا ہے۔
زنداں:
زنداں فارسی اسم مذکر۔ قید خانہ ، جیل (۱۵۶)
زنداں کا ریاستی نظام میں بڑا عمل دخل رہا ہے ۔ اس کی ہر جگہ مختلف صورتیں رہی ہیں:
حوالات : یہ منی جیلیں ابتدائی تحقیق وتفتیش کے لئے قائم رہی ہیں۔ یہاں ملزموں پر ذہنی اور جسمانی تشدد اور انسانیت سوز سلوک روا رکھا جاتارہا ہے ۔ یہاں چارقسموں کے ملزموں کو رکھا جاتاہے :
(۱) نامزد ملزم (۲) مشتبہ افراد (۳) حکومت وقت کے مخالفین (۴) مہنگائی کے توڑ اور ذاتی
عیش وتعیش کے لئے رشوت یا تہواری وصول کے لئے کسی کو بھی پکڑ کر بندکردیا جاتا ہے
ضروری نہیں ہوتا کہ پکڑے گئے افراد کاروزنامچہ میں اندراج کیا جائے یاپھر تفتیش کے لئے بالا اتھارٹی سے پروانے حاصل کیا جائے۔ یہ زیادہ ترتھانیدار صاحبان کی اپنی صوابدید پر انحصار کرتاہے ۔
جیل:
تفتیش اورچالان مکمل کرکے ملزموں کو جیل بھیج دیا جاتاہے ۔ عدالت کے سزا یافتہ یہاں اپنی سزا مکمل کرتے ہیں۔
نظربندی:
سیاسی قیدیوں کو ان کے گھر میں یا کسی بھی عمارت میں نظر بند کردیاجا تا ہے ۔ ان کے معاشرتی رابطے منقطع
کردئیے جاتے ہیں۔
* جنگی قیدیوں ، غیر ملکی جاسوسوں ، حکومتی مخالفوں ، غداروں کے لئے الگ سے عقوبت خانے بنائے جاتے ہیں۔
* جاگیرداروں ، وڈیروں ، حکمرانوں حکومتی عہدے دارو ں وغیرہ نے اپنے جیل بنائے ہوتے ہیں جہاں وہ اپنے
مخالفین کو ٹارچر کرتے ہیں۔
* پیشہ ور بدمعاشوں نے تاوان یا مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لئے ’’ زنداں‘‘ بنا رکھے ہوئے ہیں۔
* ذہنی معذوروں کو گھر کے کسی کمرے / پاگل خانے میں بند کرکے ان کے معاشرتی تعلقات پر قدغن لگادیا جاتاہے ۔
لفظ ’’زنداں‘‘ ہیجانی کیفیت پیداکرنے والا لفظ ہے۔ بے گناہ اور گنہگار قیدیوں کی حالت اور ان پر تشدد کاتصور احساس کی کرچیاں بکھیر دیتاہے ۔ زنداں سے کچھ اس قسم کی کیفیات منسلک نظرآتی ہیں:
۱ اترا ہوا چہرا (۱۵۷)
۲ گالیاں اور بددعائیں (۱۵۸)
۳ بے چینی ، بے چارگی ، بے بسی ،بے ہمتی (۱۵۹)
۴ اعصابی تناؤ کے باعث لرزہ (۱۶۰)
۵ خوف ڈر اور طرح طرح کے خدشات
۶ منتشر اور غیر مربوط سوچوں کا لامتناہی سلسلہ
۷ آزادی کی خواہش اور اس کے سہانے سپنے
۸ کسی معجزے کی توقع
۹ مذہب سے رغبت
۱۰ آنسوؤں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر
۱۱ انتقامی جذبے
۱۲ تشنہ تکمیل ضد
۱۳ جرم کی طرف رغبت
۱۴ ذہنی پسماندگی
۱۵ جسمانی فرار، تنگی ، تاریکی اور کڑی پابندیاں
غالبؔ کے ہاں یہ لفظ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ ہر استعمال کے ساتھ دکھ اورکرب وابستہ نظر آتا ہے :
احباب چارہ سازی وحشت نہ کرسکے زنداں میں بھی خیال بیاباں نورد تھا
وحشت کم کرنے یا وحشت کا علاج کرنے کی غرض سے قید خانے میں ڈالا جانا ( ۱۶۱)
ہنوز اک پرتو نقشِ خیال یارباقی ہے دل افسردہ گویا حجرہ ہے یوسف کے زنداں کا
تنگ وتاریک قید خانہ (۱۶۲) ؂
کیاکہوں تاریکی زنداںِ غم اندھیرہے پنبہ نو ر صبح سے کم جس کے روزن میں نہیں
دکھ ، پریشانی ، رنج وغیرہ بھی مثل زنداں ہیں۔ ان کی گرفت میںآنے والا بے سکون ہوتا ہے ۔ بے چارگی اور بے بسی کی زندگی بسرکرتاہے ۔
چنداؔ نے زنداں کو ’’ اسیر گاہ ‘‘ کے معنوں میں لیا ہے ۔ غم کا حصار ہوتاہے اور انسان اسی حصارمیں مقید رہتا ہے ۔ اسی حوالہ سے غم کو زنداں کا نام دیا گیا ہے :
اسیرغم کوزنداں سے نکالا بے سبب پھر کیوں
سناہے غل بھی تونے نالہٗ زنجیر سے اپنے ( ۱۶۳) چندا
میر مہدی مجروح عشق کو بھی زنداں کا نام دیتے ہیں ۔ جواس میں گرفتا ر ہوتاہے۔ ایک طرف عشق کی کافرمائیاں ہوتی ہیں تو دوسری طرف اس کی عمرانی سرگرمیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ معاشرتی واسطے اور حوالے ختم ہوجاتے ہیں :
حضرتِ عشق میں کچھ پوچھ بزرگی کی نہیں .
اس میں یوسف ؑ بھی رہے قیدی زنداں ہوکر (۱۶۴) مجروحؔ
شکیب ؔ جلالی نے بھی زنداں سے مراد قیدخانہ لیا ہے:
یوں بھی بڑھی ہے وسعتِ ایوانِ رنگ وبو دیوار گلستان درِ زنداں سے جاملی (۱۶۵) شکیبؔ
مختلف جانوروں اورپرندوں کی انسانی معاشرت میں بڑی اہمیت رہی ہے ۔انسان اپنے شوق کی تکمیل کے لئے جنون میں پرندوں کو ان کی خوبصورتی اور دلربااداؤں کی پاداش میں بندی بناتا چلا آیا ہے ۔
’’قفس‘‘ پرندوں کے قید خانے کے لئے بولا جاتاہے ۔ لفظ قفس سنتے ہی کسی معصوم پرندے کی بے بسی اور تڑپنا پھڑکنا آزادی کے لئے قفس کی دیواروں سے سرٹکرانا آنکھوں کے سامنے گھوم جاتاہے ۔
قفس فارسی اسم مذکر ہے ۔ اہل لغت اس کے پنجرا ، جال ، پھندا، قالب خاکی ، جسم (۱۶۶) معنی مراد لیتے ہیں ۔ اس لفظ کو زنداں کامترادف بھی سمجھا جاتاہے ۔ مولانا روم نے زنداں کو قید خانہ کے معنوں میں استعمال کیا ہے ۔آقا کے ملازم کا رویہ زنجیر زنداں سے کم نہیں ہوتا:
چاکرت شاہا خیانت می کرد آں عرض ، زنجیر و زنداں می شود (۱۶۷)
غالبؔ کے ہاں قفس، پنجرے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور اسے اسیر کے لئے بطور مشبہ بہ نظم کیاہے:
مثال یہ میری کوشش کی ہے کہ مرغ اسیر کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لئے
قیدی ، قید میں اپنی ایڈجسٹمنٹ کے لئے آزاد ماحول ایسا سامان پیدا کرنے کی سعی لاحاصل کرتا ہے ۔
چنداؔ نے قفس کو ’’جائے اسیر عاشق‘‘ کے معنوں میں استعمال کیا ہے ؂
گردام سے اپنے ہمیں آزاد کروگے پھر کس سے یہ کنج قفس آباد کروگے (۱۶۸) چنداؔ
ذوقؔ نے بھی پنجرہ معنی مراد لیئے ہیں:
یاد آیا جع اسیران قفس کو گلزار مضطرب ہوکے یہ تڑپے کہ قفس ٹوٹ گئے (۱۶۹) ذوقؔ
میرمہدی مجروح ؔ کے ہاں قربت ، تعلق ، اپنا لینا کے معنوں میں استعمال ہوا ہے :
قفس میں دام سے ڈالا ہے ایک عمر بعد ہزار شکر،ہوا کچھ تو مہرباں صیاد (۱۷۰) مجروحؔ
شعرا نے عشاق کو مثل پرندہ قرار دے کرقفس میں بند کئے رکھا ہے ۔ گویا محبوب کوئی’’ چڑی مار‘‘ قسم کی چیز ہوتاہے جوعشاق کو پکڑ پکڑ کر قفس میں بند کئے جاتاہے ۔عشاق قفس کی دیواروں سے سرٹکرا ٹکرا کر عمر گزار دیتے ہیں ۔ غزل کے شعرا کا یہ نظریہ عملی دنیا میں ایسا غلط بھی نہیں لگتا۔
زیارت گاہ:
زیارت گاہ زیارت عربی زبان کا لفظ ہے جب کہ گاہ فارسی لاحقہ ہے اور مونث استعمال ہوتا ہے ۔ لغوی معنی کسی متبرک جگہ کا دیکھنا ، یاترا ، حج ، مقدس جگہ کا نظارہ، مقبرہ ، مزار ، آستانہ ، درگاہ ،پرستش گاہ (۱۷۱) پیروں ، عاشقوں ، قومی ہیروز اور بڑے کام کرنے والوں کی قبریں توجہ کامرکز رہی ہیں۔ یہ بھی روایت رہی ہے کہ بادشاہ جھروکے میں بیٹھ جاتاتھا ۔رعایا اس کی زیارت کے لئے گزرتی تھی خیال کیا جاتا تھا کہ بادشاہ کی زیارت کے بعد دن اچھا گزرے گا۔ زیادہ روزی میسر آئے گی۔ آج بھی سننے میں آتاہے کہ لوگ کام سے باہر نکلتے ہیں توکہتے ہیں ’’یااللہ کسے نیک دے متھے لاویں‘‘ اچھا برا ہونے کی صورت میں کہتے ہیں۔ ’’پتہ نہیں کس کے متھے لگے تھے ‘‘۔ گویا زیارت گاہ کا اس حوالہ سے معاشرے میں بڑا اہم رول ہے ۔ ہمارے ہاں تو عشاق کی قبریں عشاق حضرات کے لئے بڑی بامعنی ہیں۔
شاہ حسین نے لفظ ’’درگاہ‘‘ خدا کے ہاں حاضری کے معنوں میں لیا ہے :
بھٹھ پئی تیری چٹی چادر چنگی فقیراں دی لوئی
درگاہ وچ سہاگن سوامی ، جوکھل کھل نچ کھلوئی (۱۷۲) شاہ حسین
غالبؔ کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہو:
پسِ مُردن بھی ، دیوانہ زیارت گاہ طفلاں ہے شرار سنگ نے تربت پہ مری گلفشانی کی
ساحل :
عربی اسم مذکر ، سمندر یا دریا کا کنارہ (۱۷۳) بے رونقی ، ویرانی (۱۷۴) ہجر کی افسردگی (۱۷۵) خمیازہ ،
میں لینے والا (۱۷۶) دریا کاہم وسعت ، تشنہ کام ، ناقابل تسکین تمنا (۱۷۷)
ساحل انسانی تہذیبوں کے جنم داتا رہے ہیں ۔ ابتدا میں آبادیاں کناروں کا رخ کرتی تھیں ۔ دریا آبادیوں کو نگلتے رہے اس کے باوجود ’’ساحل ‘‘ انسان کے لیے کبھی بے معنی نہیں ہوئے۔ ساحلوں کا مزاج، انسانی مزاج پراثر انداز ہوتا رہاہے۔ یہ مزاجی تبدیلوں کا عمل محتلف تغیرات سے گزر کر مختلف حالات سے نبردآزما ہو کر روایت کی شکل اختیار کرتا رہا ہے۔ غالب ؔ کے ہاں ساحل کا استعمال ، اس کے جدت طراز ذہن کا عکاس ہے :
دل تا جگر کہ ساحل دریائے خوں ہے اب اس رہگزر میں جلوہء گل ، آگے گرد تھا
ایک اور انداز ملاحظہ فرمائیں:
بقدر ظرف ہے ساقی خمار تشنہ کامی کا جو تو دریائے مے ہے تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا
غالب ساحل کا مترادف ’’ کنارہ ‘‘ بھی استعمال میں لائے ہیں :
سفینہ جب کہ کنارے پر آکر لگا غالبؔ خدا سے کیا جوروستم ناخدا کہیے
کنارے کو کونہ ، ایک طرف ، کامیابی اور فتح کے معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کنار ہ حوصلہ اور عبرت کے پہلو بھی واضح کرتاہے۔ نزع کا عالم ، موت کا وقت ، صبر کا پیمانہ لبریز ہونا اور صبر کی آخری حد کے لیے کسی نہ کسی واسطے سے یہ لفظ بول چال میں آتا رہتا ہے ۔
اردو شاعری کے لیے یہ لفظ نیا نہیں ۔ چنداستعمالات ملاحظہ ہوں:
کرم اللہ خاں درد ؔ کاکہنا ہے دریا کے دوکنارے آپس میں باہم ہوسکتے ۔ دو ایک سی متضاد سمت میں چلنے والی چیز آپس میں مل نہیں سکتیں :
کنارے سے کنارہ کب ملا ہے بحر کا یارو
پلک لگنے کی لذت دیدہ ء پر ٓاب کیاجانے(۱۷۸) کرم اللہ وردؔ
قائمؔ چاند پوری نے عمر کو دریا ،جسم کو کنارہ کہاہے:
عمر ہے آب رواں اور تن ترا غافل کنار دم بدم خالی کرے ہے موج اس ساحل کی تہ(۱۷۹قائمؔ
شکیبؔ جلالی نے لفظ ساحل کا کیا عمدگی اور نئی معنویت کے ساتھ استعمال کیا ہے:
ساحل سے دور جب بھی کوئی خواب دیکھے جلتے ہوئے چراغ تہ آب دیکھے(۱۸۰شکیبؔ
شبستان :
فارسی اسم مذکر ، پلنگ ، سونے کا ، شب خوابی کا کمرہ ، آرام گاہ ، عشرت گاہ ، بادشاہوں کے سونے کا کمرہ ، حرم سرا ، خلوت گاہ ، مسجد کی وہ جگہ جہاں رات کو عبادت کرتے ہیں ، خانہ کعبہ کا احاطہ (۱۸۱)خواب گاہ ، رات کو آرام کرنے کی جگہ، (۱۸۳) قیام گاہ شب(۱۸۴) یہ لفظ شب کے ساتھ ستان کی بڑھوتی سے ترکیب پایا ہے ۔
مقامِ شب بسری کو انسانی زندگی میں بڑی اہمیت حاصل ہے دن بھر کی بھاگ دوڑ کے بعد اس کی اہمیت و ضرورت واضح ہوجاتی ہے ۔ ان حقائق کے حوالہ سے دیکھنے میں آتا ہے لوگ مقام شب بسری کی تعمیر اور آشائش و تزئین پر لاکھوں روپیہ صرف کرتے ہیں اور یہ سب لایعنی معلوم نہیں ہوتا ۔ انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایسی جگہ شب بسر کرے جہاں اسے کوئی ڈسٹرب نہ کرے ۔ یہ لفظ تھکے ماندے اعصاب اور دماغ کے لیے نعمت کا درجہ رکھتا ہے ۔ جسم ڈھیلا پڑنے لگتا ہے اور وہ آرام کی سوچنے لگتاہے۔ ان معروضات کے تناظرمیں غالب ؔ کے اس شعر کا مطالعہ کریں :
سفر عشق میں کی ضعف نے راحت طلبی ہر قدم سائے کو میں شبستاں سمجھا
خوابگاہوں کو پر سکون ، آرام دہ ، شب بسری کے جملہ لوازمات سے آراستہ اور محفوظ ترین بنانے کی انسانی کوشش لایعنی اور بے معنی نہیں ۔سویا مویا ایک برابر ہوتاہے۔ سوتے میں کوئی جانور ، سانپ وغیرہ یا دشمن نقصان پہنچا سکتا ہے ۔ مشقت اور محنت کے بعد سکون کی نیند لازم ہوجاتی ہے ۔ اس لیے خواب گاہ کا عمدہ اور حسب ضرورت ہونا لازم سی بات ہے۔
شبنمستان:
فارسی کا اسم مذکر ،وہ مقام جہاں شبنم بکثرت پڑتی ہو (۱۸۵)وہ مقام جہاں سبزے اور پودوں پر بکثرت شبنم پڑتی ہے(۱۸۶)شبنم، را ت کی تری۔ ستان کثرت کے لیے(۱۸۷) وہ مقام جہا ں اوس پڑی ہو(۱۸۸) ستان کے لاحقے سے جگہ ، مقام واضح ہو رہا ہے ۔ ایسی جگہ جہاں شبنم ہی شبنم ہو ۔ اردو میں جگہ کے لئے’’ ستان ‘‘کا لاحقہ بڑھادیتے ہیں ۔ یہی رویہ فارسی میں ملتا ہے۔
جہاں سبزے پر کثرت سے شبنم پڑتی ہو ، کیا رومان پر ور منظر ہوتا ہے لوگ ننگے پا سبزے پر چلتے ہیں ۔یہ صحت کے لیے مفید ہوتا ہے ۔ آنکھوں کو ٹھنڈک میسر آتی ہے ۔ آسودگی اور سکون سا ملتاہے ۔ معاملہ مشاہدے سے علاقہ رکھتاہے۔ اس لفظ کی نزاکت لطافت مماثلت سے اقبال ایسے شاعر جدید نے بھی فائدہ اٹھایا ہے :
ابھی مجھ دل جلے کو ہم صیفرو اور رونے دو کہ میں سارے چمن کو شبنمستان کرکے چھوڑوں گا
غالبؔ کے ہاں اس لفظ کا استعمال واضح کررہا ہے کہ اسے اس جگہ کی نزاکت اور اس کے حسن سے کس قدر دلچسپی ہے:
کیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ ، ترے جلوے نے کرے جو پر تو خورشید ، عالم شبنمستان کا
شہر: شہر عموماً’’ بازار ‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے تاہم اس کے لغوی معنی بڑی آبادی ، بلدہ ، نگر(۱۸۹) بستی ، کھیڑہ (۱۹۰) وہ جگہ جہاں بہت سے آدمی مکانات میں رہتے ہوں اور میونسپلٹی/ کارپوریشن کے ذریعے انتظام ہوتا ہو (۱۹۱) آرزوں کا شہر (۱۹۲)

شہر بہت سے آدمیوں کی مکانات میں اقامت کے سبب وجود حاصل کرتے ہیں ۔ ان کا ایک سماجی ، عمرانی ، سیاسی ، معاشی سیٹ اپ تشکیل پاتا ہے ۔ نظریات اور روایات مرتب ہوتی ہیں ۔ ایک مجموعی مزاج اور رویہ بنتاہے۔ لفظ شہر سننے اور پڑھنے کے بعد کوئی خاص تاثر نہیں بنتا۔ تاثر اور توجہ کے لیے کسی سابقے اور لاحقے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ مثلاً شہر محمد ﷺ ۔ شہر قائد ، شہر اقبال وغیرہ ۔ غالبؔ کے ہا ں شہر آرزو کا ذکر ہوا ہے ۔ اس شہر کا مادی وجود تو نہیں لیکن یہ اپنی حثییت میں بے وجود بھی نہیں ۔ دل میں ہزاروں مختلف قسم کی آرزوئیں پلتی ہیں۔ اپنی رنگا رنگی اورہما ہمی میں شاید ہی اس کی کوئی مثل ہو:
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے بہت نکلے مرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے
گویا دل کسی بڑے شہر کی طرح گنجان آباد ہوتا ہے ۔ آرزو ں کے ساتھ شہر کا لاحقہ کثرت کو واضح کرتا ہے۔
شاکر ناجی نے جگہ جگہ جبکہ میرؔ صاحب نے دل کو شہر کا نام دیا ہے۔
لے جاہے شہر شہر پھراتا ہے دشت دشت کرتا ہے آدمی کو نہایت خراب دل (۱۹۳)ناجیؔ
شہر دل آہ عجیب جائے تھی پر اس کے گئے ایسا اجڑا کہ کسی طرح بسایا نہ گیا(۱۹۴)میرؔ
ظلمت کدہ:
ظلمت عربی اسم مونث ،تاریکی ، اندھیرا سیاہی (۱۹۵) کد ہ ، علامت ، اسم ، ظرف مکان۔ عربی اسم ظلمت پر فارسی لاحقہ کدہ کی بڑھوتی سے یہ مرکب تشکیل پایا ہے ، بمعنی تاریک مقام ، دنیا(۱۹۶)تاریک گھر (۱۹۷)
جب جبروستم ، بے انصافی ، سیاسی و معاشی استحصال اور نفرت حد سے بڑھ جائے تو لفظ ’’ اندھیر نگری ‘‘ بولا جاتا ہے۔ یہ لفظ ’’ ظلمت کدہ‘‘ کا ہی مترادف ہے ۔ ’’اندھیر نگری‘‘ کے لغوی معنی جہاں ناانصافی ، لاقانونیت اور اندھا دھند لوٹ مچی ہو(۱۹۸) کے ہیں۔
یہ لفظ انسانی نفسیات پر دو طرح کے اثرات مرتب کرتا ہے:
اول ۔ اندھیرے( ظلم زیادتی اور ناہمواری ) کو قبول کرکے
ا موجودہ حوالوں کے ساتھ ایڈجسمنٹ کرلی جائے
ب خود فراموشی اختیار کرلی جائے
ج ایک چپ سو سکھ پر عمل کیا جائے
دوم : اندھیرے ( ظلم زیادتی اور ناہمواری ) کے ساتھ جنگ کرئے:
ا روشنی تلاش کی جائے
ب لڑتے لڑتے موت کو گلے لگا لیا جائے
’’ مختلف لوگ ایک ہی ہیجان کا مختلف طریقوں سے اظہارکرتے ہیں ‘‘ (۱۹۹) کیونکہ جو جیسا محسوس کرئے گا یا جس ماحول یا حالات میں پرورش پا رہا ہوگا اس کا ردعمل بھی اس کے مطابق سامنے آئے گا۔ اس لیے ظلمت کدے کا تصور مختلف قسم کے خیالات ، رحجانات اور کیفیات سامنے لاتا ہے۔
ا اندھیرے کی گھمبرتا
ب ظلم و زیادتی وغیرہ کا راج
غالب ؔ کے شعر کے تناظر میں مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں
ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے
اک شمع ہے دلیل سحر ، سو خموش ہے
عہد غالبؔ پر نظر ڈالیے برصغیر’’ ظلمت کدہ ‘‘ دکھائی دے گا۔ یہ غزل بعد ۱۸۲۶کی ہے۔ (۲۰۰) ۱۸۲۶کے بعد حالات پر نظر ڈالئے،برصغیر ’’ اندھیر نگری ‘‘ سے کچھ زیادہ ہی تھا ۔ ۱۷۵۴کے بعد دن بدن سیاسی ، معاشی اور انتظامی حالات خراب ہی ہوئے۔شمع ( بادشاہ ) سیاسی قوت کی علامت تو تھی ۔ لوگوں کی اس سے توقعات وابستہ تھیں ۔ یہ توقعات لایعنی اور بے معنی تو نہ تھیں ۔ لوگ امید کر رہے تھے کہ شمع روشن ہوگی ۔ اندھیرے چھٹ جائیں گے۔ روشنی ہوتے ہی لوٹ کھسوٹ کا خاتمہ ہوگا۔
اندھیرے کی گھمبیرتا کے حوالے سے غلام رسول مہر لکھتے ہیں :
’’ میرے اندھیرے گھر میں شب غم کے جوش و شدت کا یہ عالم ہے کہ صبح کی علامتیں ناپید ہیں ۔ صرف ایک نشان
رہ گیا ہے اور وہ بجھی ہوئی شمع ہے ۔ اندھیرے کی شدت کو واضح کرنے کے لئے جس شے کو صبح کی دلیل ٹھہرایا
(ہے) _______ وہ خود بجھی ہوئی ہے ، یعنی اندھیرے کے تصور میں اضافہ کررہی ہے ۔‘‘ (۲۰۱)
غالبؔ بہت بڑے ذہن کا مالک تھا۔ بات کرنے کے ڈھنگ سے خوب آگاہ تھا۔ اندھیرے کی شدت ( شب غم کا جوش) والا مضمون برا نہیں ۔ بڑ ا آدمی ذات سے بالاتر کہتاہے۔ اس کا کرب و سیب کا کرب ہوتاہے۔ لہذا ’’ظلمت کدے‘‘سے اس کا گھر مراد لینا درست نہیں۔ سیاسی و معاشی ناانصافی ناہمواری وغیرہ کا ماتم تو گھر گھر تھااس لیے’’ ظلمت کدہ‘‘سے مراد پورا برصغیر لینا ہوگا۔ تاہم اندھیرے کی شدت کے حوالہ سے بھی مضمون برانہیں ۔
عرش:
عربی اسم مذکر ، چھت ، تخت ، آسمان ، جہاز کی چھتری
(۲۰۲) وہ جگہ جو نویں آسمان کے اوپر ہے جہاں خدا کا تخت ہے (۲۰۳)تخت شاہی ، (۲۰۴)تخت، نظام بطلیموس میں اسے ستاروں سے سادہ اور محدود جہات مانتے ہیں ۔ اس لیے چرخ اطلس کہتے ہیں ۔ ( عرش بلند مقام ہے اور غالبؔ کے نزدیک ) ہمارا مکان تو عرش سے بھی اونچا ہے۔ (۲۰۵)
عرش دو طرح سے معروف چلا آتاہے:
۱ بلندی کے معنوں میں، کہا جاتا ہے ۔ حالات نے اسے عرش سے فرش تک پہنچا دیا ہے ‘‘
۲ مظلوم کی آہ سے بچو کہ وہ عرش تک پہنچتی ہے ۔
یہ لفظ مذہبی حوالہ سے تہذیب میں سفر کرتا دکھائی دیتاہے۔ غالبؔ کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہو :
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے ہیں ادھر ہوتا کاشکے مکاں اپنا
فرش: عربی اسم مذکر۔ بچھونا ، بستر ، زمین ، چونے وغیرہ سے پختہ کی ہوئی زمین (۲۰۶)عالم انتظار جس کی عالم مکاں کی طرح چھ طرفین ہیں ( پورب، پچھم ، اتر ، دکھن ، اوپر ، نیچے)(۲۰۷)
انسان بہتر سے بہتر اور نئی سے نئی اشیا ، صورتوں اور موقعوں اور حالات کی تلاش میں رہتا ہے۔ تخلیق کے ساتھ ساتھ تزین و آرائش کا فریضہ بھی سرانجام دیتا چلا آتا ہے۔ وہ کسی نئی اطلاع کا منتظر رہتا ہے ۔ غالب ؔ نے فرش کے ساتھ شش جہت کو منسلک کرکے اسے دوسری کائناتوں سے منسلک کردیا ہے جس کی وجہ سے لفظ فرش قابل توجہ بن گیا ہے۔ شعر ملاحظہ ہو :
کس کا سراغ جلوہ ہے ، حیرت کو، اے خدا آئینہ فرش شش جہت انتظار ہے
قتل گاہ / گہ:
مقتل کا مترادف ہے ۔ وہ جگہ جہاں محبوب اپنے عشاق کو قتل کرنے کے لیے مکمل تیاری(۲۰۸) کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔(۲۰۹) یہ لفظ کسی طرح کے نقشے آنکھوں میں باندھ دیتاہے:
۱۔ میدان جنگ ۲۔ ڈاکووں کی غارت گری ۳۔ بوچڑ خانہ
۴ ۔ حقوق طلب کرنے والوں پر تنگی سختی ، بے دردی اور غارت گری
۵۔ کسی بٹوارے کے وقت کی سنگینی ، چھینا جھپٹی ، قتل و غارت۔
۶۔ وہ کرسی جو عوام پر ٹیکس عائد کرنے کی ’ ’ ترکیبیں ‘‘ سوچتی ہے۔
۷۔ انصاف کے ایسے ادارے جہاں انصاف بے دردی سے قتل ہوتا ہے۔
۸۔ وہ امرجہ جہاں ناقص مال فروخت کرکے عوام کا معاشی قتل کیا جاتاہے۔
۹۔ معرکہ حق و باطل
۱۰۔ میدان کربلا
لفظ قتل گہ خوف ہراس اور موت کا تاثر رکھتا ہے۔ اس لفظ سے اعصابی کچھاؤ پیدا ہوتا ہے ۔ غالب ؔ نے’’ عشرت ‘‘کو اس لفظ کا ہم نشست بنا کر اس جگہ سے محبت کو ابھارا ہے۔ محبوب سے (مجازاً) قتل ہونے کی تمنا ہر قسم کی ناخوشگواری ختم کردیتی ہے۔ شعر ملاحظہ ہو :
عشرت قتل گہ اہل تمنا، مت پوچھ عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا
کعبہ:
عربی اسم مذکر ، چار گوشوں والی چیز ، مربع، مکہ مکرمہ، اہل اسلام کے مقدس اور متبرک مقام کا نام جہاں ہر سال حج ہوتا ہے یہ عمارت چار گوشوں والی ہے(۲۱۰)نرو کے کھیل کا بڑا مہرا ، ہر مربع گھر، جھروکہ ، خانہ کعبہ، بیت اللہ ، الحرم جو مکہ میں ہے (۲۱۱) احتراماًکسی محترم شخص اوروالدین کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں ۔ دل کو بھی کعبہ کہا جاتاہے۔ کعبہ کے لیے حرم اور قبلہ کے الفاظ بھی استعمال میں آتے ہیں ۔
اہل اسلام کے لیے یہ مقام بڑا محترم ہے ۔ اسلام سے قبل بھی اسے خصوصی اہمیت حاصل تھی ۔ مذہبی حیثیت کے علاوہ تہذیبی ، سماجی اور سیاسی حوالہ سے اسے بڑا اہم مقام حاصل تھا۔ آج کل یہ محض مذہبی رسومات اور عبادات کے لیئے مخصوص ہے۔ حج کی فکری و فطری روح یہ کہ ہر سال دنیا کے مسلمان یہاں جمع ہوں مذہبی فرائض کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے ملیں ، اپنے معاملات اور مسائل پر گفتگو کریں ، ختم ہوگئی ہے۔
غالبؔ کے ہاں اس لفظ کا بڑی خوبی سے استعمال ہوا ہے:
بندگی میں وہ آزادہ و خود بیں ہیں کہ ہم الٹے پھر آئے ، در کعبہ اگر وانہ ہوا
اس شعر میں شخص کی انا ہی کو واضح نہیں کیا گیا بلکہ برصغیر کی انا اور خود داری کو بھی فوکس کیا گیا ہے۔ قدرت نے شخص میں یہ عنصر رکھ دیا ہے کہ اسے نظر انداز ہوناخوش نہیں آتا بالمقابل چاہے کوئی بھی ہو۔ اودو غزل میں یہ لفظ نظم ہوتا چلا آتا ہے۔ ،مثلاًخواجہ دردؔ نے حرم، دل کے معنوں میں استعمال کیاہے:
دل کو سیاہ مت کر کچھ بھی تجھے جو ہوش ہے کہتے ہیں کعبہ اس کو اور کعبہ سیاہ پوش ہے۲۱۲)دردؔ
چندا ؔ نے بھی کعبہ سے مراد دل لیا ہے:
کعبہء دل توڑ کر کرتے نہ ہم بت خانہ آباد اب ہوتی اگر ہم کو صنم کی بے وفائی کی خبر (۲۱۳)چنداؔ
آفتاب ؔ نے حرم ، قبلہ کے معنوں میں نظم کیا ہے :
صرف کعبہ میں نہ کر اوقات کو ضائع توشیخ ڈھونڈ جا کر ہر طرف نقش قدم دلدار آفتاب ؔ
کعبہ بہر طور تقدس مآب رہا ہے ۔ اگر دل معنی مراد لیئے ہیں تو یہاں محبتیں پروان چڑھتی ہیں ۔پروفیسر محمد اشرف کہتے ہیں:
’’ کعبہ کو پہلی بار فرشتوں، دوسری مرتبہ حضرت آدمؑ ، تیسری مرتبہ حضرت شیتؑ جبکہ چوتھی مرتبہ حضرت ابراہیم ؑ نے تعمیر کیا۔ ابراہیمی تعمیر کی شکل یہ تھی زمین سے نو ہاتھ بلند ، دروازہ بغیر کواڑ کے ، سطح زمین کے برابر دیواریں ، چھت نہیں ڈالی گئی تھی ۔ حضرت ابراہیمؑ کے بعد بنو جرہم نے تعمیر کا نقشہ وہی رہنے دیا۔ اس کے بعد قبیلہ عمالیق نے بنایا اور تبدیلی نہ کی ۔ حضورﷺ کی پیدائش سے دو سو سال پہلے قصیٰ بن کلاب نے تعمیر کیا۔ چھت پاٹ دی اور عرض میں کچھ حصہ کم کردیا۔ بعد میں قریش نے اٹھارہ ہاتھ بلند کردیا اور بھی تبدیلیاں کیں پھر عبداللہ ابن زبیر نے اس کے بعد حجاج بن یوسف نے تعمیر کیا‘‘(۲۱۴)
کعبہ کی تعمیر کی کہانی کے مطالعہ کے بعد واضح ہوجاتا ہے کہ انسان کعبہ سے کس قدر متعلق رہا ہے اوراس کے معاملہ میں کس قدر حساس رہاہے۔ اچھی خاصی آمدنی کا ذریعہ بھی بنا رہاہے۔ اس سے انسان کے تہذیبی اور سماجی حوالے بھی منسلک رہے ہیں ۔
کلیسا:
کلس سے ترکیب پایا ہے۔
یونانی اسم مذکر ، قوم نصاریٰ کا مبعد ، گرجا، بت خانہء کفار(۲۱۵) دنیاکی تمام تہذیبوں میں کلیسا کا اپنا کردار رہا ہے۔ چرچ کے پاس سیاسی بالادستی بھی رہی ہے۔ ہندو اور مسلم راجوں میں پنڈتوں اور مولویوں کا سکہ چلا ہے۔پنڈت اور مولوی راجہ اور بادشاہ کی بولی بولتے آئے ہیں۔ جبکہ چرچ آزاد اور خود مختار رہا ہے۔ ملکی اقتدار بھی اس کے ہاتھ میں تھا ۔
یہ لفظ سنتے ہی توجہ حضرت عیسیٰ ابن مریم ؑ کی طرف چلی جاتی ہے۔ کانوں میں گرجے کی گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں ۔ غالبؔ کے ہاں کلیسا کے سیاسی کردار کے حوالہ سے گفتگو کی گئی ہے:
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے مجھے کفر کعبہ مرے ے پیچھے ہے ، کلیسامرے آگے
شکیب ؔ جلالی کے ہاں بھی بطور سکول آف تھاٹ استعمال میں آیاہے۔ ؂
جنت فکر بلاتی ہے چلو دیر و کعبہ سے کلیساؤں سے دور (۲۱۶) شکیبؔ
کنشت:فارسی اسم مذکر ، آتشکدہ ، یہودیوں کا مبعد(۲۱۷)
غالب ؔ کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہو:
کعبے میں جارہا ہوں ، تو نہ دو طعنہ ، کیا کہیں بھو لا ہو حق صحبت اہل کنشت کو (؟!)
بت خانہ (۲۱۸) آتشکدہ ، معبد آتش پرستاں و یہوداں (۲۱۹) غالبؔ نے آتشکدہ ( عشق دیار محبوب) ہی مراد لیا ہے(۲۲۰) عشق کا انسانی تہذیبوں میں بڑا مضبوط کردار رہا ہے۔ عشق آگ ہی کا دوسرا نام ہے۔ خواجہ دردؔ کے ہاں اس لفظ کا استعمال دیکھیئے:
شیخ کعبے ہوکے پہنچا ، ہم کنشت دل میں ہو دردؔ منزل ایک تھی ٹک راہ ہی کا پھیر تھا(۲۲۱) (درد)
دیر:
یہ لفظ بھی عبادت گاہ سے متعلق ہے۔ فارسی اسم مذکر ہے۔ بت کدہ ، بت خانہ ، کنایتہ دنیا (۲۳۲) کافروں کی عبادت گاہ (۲۲۳)معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ بتکدہ انسانی تہذیبوں میں اہم کردار کا حامل رہا ہے۔ غالبؔ کے ہاں عبادت گاہ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے :
دیر نہیں ، حرم نہیں ، درنہیں ، آستاں نہیں بیٹھے ہیں رہ گذر پہ ہم ،غیر ہمیں اٹھائے کیوں
خواجہ دردؔ کے ہاں بھی بطور عبادت گاہ استعمال میں آیا ہے:
مدرسہ یاویر تھا یا کعبہ یا بت خانہ تھا ہم سبھی مہماں تھے ،واں تو ہی صاحب خانہ تھا ۲۲۴) دردؔ
مسجد : یہ لفظ مسلمانوں کی عبادت گاہ کے لئے استعمال میںآتا ہے بمعنی سجدہ کرنے کی جگہ ، نماز پڑ ھنے کی جگہ ، مسلمانوں کا عبادت خانہ(۲۲۵) پیشانی(۲۲۶) مسجد:
* مسلمانوں کی عبادت گاہ کے علاوہ مقام اجتماع( اسمبلی ہال ) رہی ہے
* مشاورت کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے
* درس و تدریس کا کام بھی یہاں ہوتا آیا ہے
* مہمان گاہ کے طور پر بھی استعمال ہوتا رہاہے
* صلح صفائی کے لئے اس کی حیثیت معتبر اور محترم رہی ہے
* محفوظ پناہ گاہ رہی ہے
غرض بہت سے تہذیبی ، سماجی اور عمرانی امور مسجد سے نتھی رہے ہیں ۔ یہ لفظ وقار، عظمت ،رہنمائی ، آگہی وغیرہ کے احساسات لے کر ذہن کے کواڑوں پر دستک دیتاہے۔
غالب ؔ کے ہاں کمال عمدگی سے اس لفظ کا استعمال ہوا ہے:
جب میکدہ چُھوٹا ، تو پھر اب کیا جگہ کی قید مسجد ہو، مدرسہ ہو،کوئی خانقاہ ہو
ایک اور شعر دیکھئے :
مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے بھوں پاس آنکھ قبلہء حاجات چاہیئے
میر ؔ صاحب نے بطور عبادت گاہ استعمال کیا ہے:
شیخ جو ہے مسجد میں ننگا، رات کو تھا میخانے میں
جبہ ، خرقہ ، کرتا، ٹوپی مستی میں انعام کیا (۲۲۷) میرؔ
قائمؔ کے ہاں کچھ یوں نظم ہوا ہے:
مسجد میں خدا کو کبھی بھی کیجئے سجدہ محراب نہ ہو خم، جو برائے سجدہ (۲۲۸) قائم
گھر:
گھر ہندی اسم مذکر ، مکان ، خانہ ، رہنے کی جگہ ، ٹھکانہ ،
خول ، بھٹ ، کھوہ ، بل ، گھونسلہ ، آشیانہ ، وطن ،
دیس ، جائے پیدائش، خاندان ، گھر انہ(۲۲۹)
گھر روز اول سے شخص کی سماجی و معاشرتی ضرورت اور حوالہ رہا ہے۔ آج کھدائی کے دوران ملنے والی عمارات اپنے عہد کے فنی و فکری حوالوں اور شخصی ضرورتوں کو اجاگر کرتی ہیں ۔ ان عمارتوں کا تعمیری میٹریل کا بھی تجزیہ کیا جاتا ہے۔ گھر سے متعلق ان عمارات کے حوالہ سے سماج میں موجود نظام ہائے حیات زیر غور آتے ہیں ۔ بناوٹ کے نقشہ و سلیقہ کے توسط سے فرد کا سوچ احساسات ، سماجی معیارات اور ان کے تضادات کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ یہ بھی کہ وہ کن کن الجھنوں کا شکار رہا۔ کن معاملات میں دوسروں پر انحصار کرتا رہا ہے۔ گھر انسان کی ہمیشہ سے نفسیاتی کمزوری رہا ہے۔ گھر کے متعلق مختلف نوع کے سپنے بنتا رہاہے۔ مثلاً
۱ اس کا اپنا ایک گھر ہو ۔ اس میں کسی دوسرے کی مداخلت نہ ہو
۲ وہ کھلا ، کشادہ اور آرام دہ ہو
۳ ہر طرح سے محفوظ ہو
۴ گردوپیش میں ہم خیال لوگوں کا بسیرا ہو
۵ زندگی سے متعلق ضرورتیں اس گھر میں میسر ہوں
۶ علاقہ میں تفریحی مقامات موجود ہوں
۷ ہریالی اور پانی کی کمی نہ ہو
۸ سکول ہسپتال وغیرہ قریب ہوں
جس کے پاس پہلے گھر موجود ہوں وہ خواہش کرتا ہے کہ وہ گھر :۔
۱ ہر حوالہ سے انفرادیت کا حامل ہو
۲ کسی آسائش کی کمی نہ ہو
۳ مزید بہتری کے لئے کیا کیا تبدیلیاں کی جائیں
۴ موسمی تغیرات سے کیونکر بچا یاجائے
گھر ہمیشہ سے عزت ،تحفظ اور وقار کی علامت رہا ہے۔یہ درحقیقت خاندانی ایکتا کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اس کے حصول اور حفاظت لے لئے خون بہائے جانے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا ۔ گھر ایک شخص ، ایک کنبے ، اور ایک قوم کا ہوسکتا ہے۔
غالبؔ کے ہاں اس لفظ کا مختلف حوالوں سے استعمال ہواہے۔ وہ جگہ جہاں پڑاؤ کرلیا جائے اسے گھر کہا جائے گا یعنی ٹھکانا :
جب گھر بنا لیا ترے در پر کہے بغیر جائے گا اب بھی تو نہ مرا گھر کہے بغیر
کنبے اور خاندان کے افراد کی قیام گاہ
تم ماہ شب چار دہم تھے مرے گھرکے پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور
ایک دوسرے شعر میں مکان (۲۳۰) جائے رہائش(۲۳۱) کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں
چھوڑانہ رشک نے کہ ترے گھر کا نام لوں ہراک سے پوچھتا ہوں کہ جاؤں کدھر کو میں
اب قدما کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہو :
بولے دونوں بھا ئی اے بابا کہاں؟ ہماری نہ ماں ہے گی گھر کے مہاں (۲۳۲) اسماعیل مروہویؔ
مکان ،گھر کے (اند ر ، میں ، بیچ)
کیتے دن کو سوداگر آاپنے گھر پوچھا اپنی عورت سوں تکرار کر (۲۳۳)فقیر دکنیؔ
اقامت گاہ ، گھر آنا ، واپسی
عہد غالبؔ میں بھی قریب ان ہی معنوں میں استعمال ہوتا رہا۔ مثلاً
غم کہتا ہے دل میں رہوں میں ، جلوۂ جاناں کہتا ہے
کس کو نکالوں کس کو رکھوں، یہ جھگڑے گھر کے ہیں (۲۳۴) ذوقؔ
گھر کا جھگڑا : ذاتی ، نجی، اندرون خانہ ، پرائیویٹ

میخانہ :
فارسی اسم مذکر ، شراب پینے اور شراب بکنے کی جگہ ۔(۲۳۵)شراب اور شراب خانہ ہونے کاانسانی ثقافت کا حصہ رہے ہیں ۔ انسان کی اس سے وابستگی کا اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ قرآن مجید میں جنت میں اس کے عطاہونے کا بار بار وعدہ کیا گیا ہے۔ اہل عرفان نے مے اور میکدہ کے قطعی الگ معنی لیے ہیں ۔ ’’مے‘‘ وہ ذوق جس کی وساطت سے سالک پر مقام حقیقی ظاہر ہوتا ہے۔ میخانہ سے مراد قلب و اصلان ہیں (۲۳۶) میخانہ عارف کامل کا باطن ، لاہوت ، عالم محویت(۲۳۷)
خواجہء شیراز فرماتے ہیں :
صبحدم بکشاد خماری درمیخانہ را قلقل آواز صراحی جان دہد مستانہ را
’’ صبحدم حضور رسولﷺنے شراب محبت الہی کا مشغلہ شروع کردیا ۔عاشقان الٰہی نے اس ذکر صفات باری تعالیٰ سے جان ڈال دی‘‘
عیش کوشوں کے لئے شراب عیش کا ذریعہ ہے۔ اس طرح وہ بعض اپنی نفسیاتی کمزوریوں کا مداوا کرتے ہیں۔ مایوس لوگ غم غلط کرتے ہیں ۔ غالبؔ کے ہاں ’’میخانہ ‘‘ کچھ کم حیثیت کا نہیں :
علاوہ عید کے ملتی ہے اور دن بھی شراب گدائے کوچہء میخانہ نامراد نہیں
میخانے کا مترادف میکدہ بھی استعمال میں لائے ہیں :
جب میکدہ چھٹا ، تو پھر اب کیا جگہ کی قید مسجد ہو، مدرسہ ہو، خانقاہ ہو
انعام اللہ یقینؔ کے ہاں اس لفظ کی کارفرمائی دیکھئے
نہیں معلوم ا ب کے سال میخانے پہ کیا گذرا
ہمارے توبہ کے کرنے سے پیمانے پہ کیا گذرا (۲۲۸) یقینؔ
غالبؔ کے ہاں شہروں اور ملکوں کے حوالہ سے بھی گفتگو ملتی ہے۔ ان میں سے ہر شہر تہذیبی ثقافتی اور فکری پس منظر کا حامل ہے۔ کوئی نہ کوئی تاریخی واقعہ اس سے ضرور منسوب ہوتا ہے۔ غالبؔ ان کی ان حیثیتوں سے اپنے اشعار میں فائدہ اٹھاتے ہیں۔
دلّی:
یہ ۱۲۰۶ء سے دارالحکومت چلا آرہا ہے ۔ علمی ، ادبی ، عسکری ، فکری اور سماجی روائتوں کا منبع و امین رہا ہے ۔ بہت سی یادگار عمارتیں اس کی ثقافتی پہچان ہیں ۔ غالبؔ اس کے محلہ بلی ماراں اقامت رکھتے تھے ۔ آگرہ سے آئے پھر دلی نے انہیں واپس جانے نہ دیا ۔ دلی سے اپنے قلبی تعلق اور انگریز کے ہاتھوں اس کی بربادی کا ذکر اپنے خطوط میں کرتے ہیں ۔ ان کا یہ شعر بھی کرب سے بریز ہے:
ہے اب اس معمورہ میں قحط غم الفت اسدؔ ہم نے مانا کہ دلّی میں رہیں ، کھائیں گے کیا
کنعان :
حضرت نوحؑ کے نافرمان بیٹے کا نام (۲۳۹)کنعان حضرت یوسفؑ کے حسن ، فراق پدر ، بھائیوں کی دغا بازی ، حضرت یعقوبؑ کے دور میں پڑنے والے قحط کی وجہ سے شہرت عام رکھتا ہے ۔ غالبؔ کے ہاں بھی یہی حوالہ ملتا ہے ۔ پیش نظرشعر میں یوسف زلیخا کے حوالہ سے ایک رویہ بھی اجاگر کیاگیا ہے:
سب رقیبوں سے ہوں ناخوش پر زنان مصر سے ہے زلیخا خوش کہ محو ماہ کنعاں ہوگئیں
اردو شاعری میں بطور تلمیح اس کا استعمال ہوتا آیا ہے ۔ مثلاً
صبا میں بویہ تھی کس کی کہ سوئے مصر حسر ت کے
روانہ قافلے کے قافلے ہیں شہرکنعاں سے (۲۴۱) ( مرزا حاجی شہرتؔ )
پستی چاہ ترے حاہ و حشم کی ہے دلیل تیرا انجام بخیر اے مہ کنعان ہوگا(۲۴۲) نواب مہدی علی خاں حسنؔ
چاہ بے جا نہ تھی زلیخا کی ماہِ کنعاں عزیز کوئی تھا(۲۴۲) میرؔ
مصر:
عرب ممالک کا سب سے بڑا ملک، آبادی ۹۲فیصد مسلمان ، عربی ملک کی سرکاری زبان ۔۳۲۰۰ق م میں بالائی وزیریں ملک کو متحد کر کے حکومت قائم کی گئی۔ بادشاہوں کے اہرام ، ۲۶۵۰ق م اور ۲۵۰۰ق م کے درمیانی حصہ میں تعمیر ہوئے ۔ ۵۲۵ ق م فاسسی کے قبضہ میں تھا ۔ اس کے بعد یونانیوں اور رومیوں کی حکومت رہی ۔ ۶۴۰ء میں حضرت عمرؓ ( خلیفہ ثانی) کے عہد میں سلطنت اسلامیہ کا حصہ بنا(۲۴۳) حسنِ یوسف ،عشق زلیخا ، حضرت موسیؑ اور فرعون مصر کے حوالہ سے معروف ہے۔
غالبؔ نے اس کا زلیخا کے حوالے سے ذکر کیا ہے ۔ کہ شرفا کی عورتیں خوبصورت مرد رکھتی تھیں اور اس پر اتراتی تھیں
سب رقیبوں سے ہوں ناخوش ، پر زنان مصرسے ہے زلیخا خوش کہ محو ماہ کنعاں ہوگئیں
اردو شاعری میں مصر کا مختلف حوالوں سے ذکر آیا ہے مثلاًمیر ؔ صاحب نے حضرت یوسف ؑ کے حوالہ سے نظم کیا ہے :
فائدہ مصر میں یوسف رہے زنداں کے بیچ بھیج دے کیوں نہ زلیخا اسے کنعاں کے بیچ (۲۴۴) میرؔ
قائم ؔ چاند پوری کے ہاں بھی حضرت یوسفؑ کے حوالہ سے نظم ہو اہے :
سب خراج مصر دے کر تھا زلیخا کو یہ سوچ
مول یوسف ؑ سے پسر کا ، کارواں نے کیا کہا؟(۲۴۶) قائمؔ
ہندوستان:
ہند استھان یا ہند سنتان
ہند حضرت نوح ع کے پوتے تھے یعنی ہند بن حام بن نوح
برصغیر پاک و ہند تہذیبی ادبی ، جغرافیائی ، سیاسی و ثقافتی لحاظ سے دنیا کا حساس ترین خطہ ء ارض رہا ہے۔ جنگوں ، جنگوں میں غداری، دیومالائی قصوں کہانیوں کے حوالہ سے پوری دینا میں شہرت رکھتا ہے ۔ اب تین ( بھارت، پاکستان ، بنگلہ دیش ) حصوں میں منقسم ہے ۔غالب ؔ کے ہاں ’’ ہندوستان ‘‘ کا استعمال ملاحظہ ہو :
بیٹھا ہے جو کہ سایہء دیواریار میں فرماں روائے کشورِ ہندوستان ہے
حواشی
۱۔ لغات نظامی ناظر حسین زیدی،ص۴ ۲۔ فیروز اللغات، مولوی فیروزالدین، ص۹
۳۔ فرہنگ آصفیہ ، مولوی سعید احمد ،ج۱، ص۴ ۴۔ آئینہ اردولغت علی حسن چوہان وغیرہ ،ص۱۵۳
۵۔ جامع انسائیکلوپیڈیا، حامد علی خان (مدیر اعلیٰ) ،ج۱،ص۱۰۵
۶۔ سمندر وہاں پیدا ہو گا جہاں آگ کبھی ٹھنڈی نہ ہوتی ہو اور یہ آتش پرستوں کے ہاں ہی ممکن ہے۔ غالبؔ نے بالکل نیا
مضمون نکالاہے اور سمندرکا بڑاعمدہ استعمال کیا ہے ۔
۷۔ کلیات سوداج اے مراز محمد رفیع سودا،ص۹۲
۸۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا۔سعادت خاں ناصر ، مرتبہ مشفق خواجہ ج ۱،ص۵
۹۔ فرہنگ عامرہ ، عبداللہ خویشگی، ص۵ ۱۰۔ فیروز اللغات ، مولوی فیروزالدین ،ص۱۹
۱۱۔ آئینہ اردو لغت ، علی حسن چوہان، ص۱۶۵ ۱۲۔ تذکرہ خوش معرکہ زیباج ۱ سعادت خاں ناصر، ص۱۱۷
۱۳۔ کلیات میر ج ۱، مرتب کلب علی خاں فائق ،ص ۲۱۱ ۱۴۔ فرہنگ عامرہ ،ص۶۶
۱۵۔ فیروزاللغات، ص ۱۰۸ ۱۶۔ نفرت اور سستے پن کے لئے لفظ’’ بازاری ‘‘بولنے میں آتاہے
۱۷۔ کلیات قائم ؔ ج ا، ص۲ ۱۸۔ دیوان شیفتہ ، نواب مصطفی خاں شیفتہ ،ص۸۱
۱۹۔ دیوان میر مہدی مجروح، میر مہدی مجروح، ص۷۷ ۲۰۔ فیروزاللغات ، ص۱۶۹
۲۱۔ فرہنگ آصفیہ ج ا، ص۳۵۳ ۲۲۔ نوائے سروش، ص۱۶۹
۲۳۔ (میر محمد تقی المعروف بہ میر گھاسی )تذکرہ مخزن نکات ، قائم چاند پوری،ص۱۶۷
۲۴۔ دیوان درد، خواجہ درد، ص ۱۵۵ ۲۵۔ کلیات قائم ج۱، ص۴۳
۲۶۔ فرہنگ فارسی ،مولف ڈاکٹر عبدالطیف ،ص۷۷۰ ۲۷۔ دیوان درد،ص۲۹
۲۸۔ تذکرہ گلستان سخن ج۱ ،ص۲۲۷ ۲۹۔ بیان غالب، آغا باقر ص۷۳
۳۰۔ نوائے سروش، غلام رسول مہر،ص۷۳ ۳۱۔ نوائے سروش، ص۲۲۱
۳۲۔ بیان غالب ، ص۴۲۰ ۳۳۔ نوائے سروش، ص۷۳۳
۳۴۔ فرہنگ فارسی،ص۷۷۱ ۳۵۔ کلیات میر ج ۱، ص۱۱۱
۳۶۔ کلیات قائم ج۱، ص۳۴ ۳۷۔ شاہ عالم ثانی آفتاب احوال و ادبی خدمات ،محمد خاور جمیل، ص۲۱۱
۳۸۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب ،شاداں بلگرامی، ص ۲۰۴
۳۹۔ نوائے سروش، ص۱۹۳ ۴۰ بیان غالب ، ص۳۵۰
۴۱۔ فرہنگ فارسی ،ص۵۰۳ ۴۲ دیوان مہ لقا مائی چندا،ؔ ص۱۰۲
۴۳۔ شاہ عالم ثانی آفتاب ، احوال و ادبی خدمات ،ص۱۸۳
۴۴۔ نوائے سروش ،ص۵۶۸،۵۶۹ ۴۵۔ دیوان میر مہدی مجروح، ص۱۸
۴۶۔ افکار غالب ، خلیفہ عبدالحکیم ،ص۱۵۳ ۴۷۔ بیان غالب، ص۱۲۴
۴۸۔ نوائے سروش، ص۱۷۳ ۴۹۔ لغات نظامی، ص۸۶
۵۰۔ فیروزاللغات، ص۱۷۸
۵۱۔ مزید تفصیلات کے لئے دیکھیے اردو جامع انسائیکلوپیڈیا ج۱ ،حامد علی خاں (مدیر اعلیٰ)، ص۲۱۵
۵۲۔ نفسیات ، حمیر ہاشمی،ص۵۲۷ ۵۳۔ وہائٹ ہاؤس
۵۴۔ روحانی پیشواؤں کی درگاہیں ۵۵۔ زمینی فرعون
۵۶۔ تذکرہ بہارستان ناز، ص۱۶۰ ۵۷۔ کلیات سودا ، ج ا ، ص ۳۴
۵۸۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا، ص۳۴۸ ۵۹۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا،ص۲۳۸
۶۰۔ کلیات میرج ۱،ص۱۴۵ ۶۱۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا، ص۵۵۴
۶۲۔ فیروز اللغات، ص۲۵۰ ۶۳۔ کلیات میر ج ا،ص۱۸۱
۶۴۔ روشنی اے روشنی، ص۳۱ ۶۵۔ نوراللغات ج ا ، نوالحسن ہاشمی ، ص۳۹
۶۶۔ کلیات قائم ج ا، ص۵۷ ۶۷۔ دیوان زادہ ،شیخ ظہور الدین حاتم، ص۱۵
۶۸۔ نوراللغات ج ا، ص۴۸۱ ۶۹۔ فیروزاللغات ،ص۸۶۰
۷۰۔ نوائے سروش، ص۲۰ ۷۱۔ دیوان شیفتہ ، ص۴۴
۷۲۔ دیوان زادہ، ص۷ ۷۳۔ پشت پہ گھربیدل حیدری ، ص۶۹
۷۴۔ نوراللغات ج ا، ص۱۰۹۲ ۷۵۔ دیوان زادہ ، ص۱۷
۷۶۔ دیوان مہ لقا بائی چندا، ص۱۳۶ ۷۷۔ باغات سے مراد ایسا خطہ جس میں پھولدار درخت ہوں ۷۸۔ ۲:۲۵ ۷۹۔ ۴: ۱۳۳
۸۰۔ ۸ :۱۲۷ ۸۱۔ ۱۰:۲۱
۸۲۔ ۸:۴۶۱ ۸۳۔ ۱۱:۱۰
۸۴۔ ۱۳:۳۵ ۸۵۔ ۱۷:۵۹
۸۶۔ ۱۴:۳۱ ۸۷۔ ۲۱:۵۸،۲۱:۱۹،۲۳:۴۲
۸۸۔ ۲۳:۲۰ ۸۹۔ نفسیات ،ص ۵۴۷
۹۰۔ بیان غالب ،ص۳۳۵ ۹۱۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب، ص۳۹۴
۹۲۔ نوائے سروش،ص۵۷۸ ۹۳۔ فیروزاللغات ،ص۲۲۷
۹۴۔ بیان غالب ، ص۲۵۶ ۹۵۔ نوائے سروش، ص۴۳۱
۹۶۔ فرہنگ آصفیہ ج ا، ص۲۰۲ ۹۷۔ بیان غالب ، ص۶۲
۹۸۔ نوائے سروش، ص۵۹ ۹۹۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب ، ص۱۲۹
۱۰۰۔ لغات نظامی، ص۵۴۲
۱۰۱۔ قرآن مجید ، شارح عبدالقادر محدث دہلوی ، تاج کمپنی لاہور ، س ن، ص۱۰۱۰ ۱۰۲۔ قرآن مجید ، شارح مولانا سید فرمان علی ، شیخ علی اینڈ سنز ، کراچی۱۹۸۳ ،ص۸۳۳
۱۰۳۔ قرآن مجید ، شارح احمد رضا خاں بریلوی ، تاج کمپنی لمیٹڈ ۱۹۸۹، ص۹۶۲
۱۰۴۔ قرآن مجید ، شارح عبدالعزیز ، ملک دین محمد اینڈ سنز ، لاہور ، ۱۹۵۲،ص۵۶۰
۱۰۵۔ قرآن مجید ، شاہ ولی اللہ دہلوی ، مکہ ، ۱۴۱۶ھ ، ص۱۶۴
۱۰۶۔ فیروز اللغات، ص۸۳ ۱۰۷۔ نوائے سروش، ص ۳۱۲
۱۰۸۔ بیان غالب ، ص۱۹۹
۱۰۹۔ جوتے کی پشت پر بنے نقوش چلتے میں زمیں پر ثبت ہو جاتے ہیں ۔ غالبؔ نے ان نقوش کو خیابان ارم کا نام دیا ہے ۔
۱۱۰۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب ،ص۲۶۷ ۱۱۱۔ اردو کی دو قدیم مثنویاں مولف اسماعیل امرہوی ،ص۱۶۰
۱۱۲۔ دیوان مہ لقا بائی چندا، ص۱۴۳ ۱۱۳۔ اردو کی دو قدیم مثنویاں، ص۱۰۹
۱۱۴۔ دیوان شیفتہ ، ص۲ ۱۱۵۔ دیوان میر مہدی مجروح ،ص۱۶۶
۱۱۶۔ کلیات میرج،مرتبہ کلب علی خاں فائق ج۱،ص۱۶۳
۱۱۷۔ شاہ عالم ثانی آفتاب ، احوال و ادبی خدمات، ص۱۹۹
ٌ۱۱۸۔ کلیات قائم ج ا، ص۱۸۲ ۱۱۹۔ فیروزاللغات ،ص۵۸۳
۱۲۰۔ نوائے سروش، ص۴۳۰،۴۳۱ ۱۲۱۔ کلیات میر ج ا، ص۱۰۰
۱۲۲۔ مثنوی مولانا روم ج ۲ ، ص ۶۳
۱۲۳۔ آتش کا پیر ، کنایہ مرشد کامل عبداللہ عسکری ، شرح دیوان حافظ ج ا، ص۱۱۱
۱۲۴۔ شرح دیوان حافظ ج ا، ص۱۱۱ ۱۲۵۔ مثنوی مولانا روم دفتر دوم ، مترجم قاضی سجاد حسین
۱۲۶۔ مثنوی مولانا روم ج ۲،ص۶۳ ۱۲۷۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب،ص۱۲۲
۱۲۸۔ بیان غالب ،ص۵۴ ۱۲۹۔ نوائے سروش،ص۴۹
۱۳۰۔ فرہنگ عامرہ ،ص۲۱۹ ۱۳۱۔ فیروز اللغات، ص۳۲۹
۱۳۲۔ نوائے سروش ،ص۲۱۸ ۱۳۳۔ بیان غالب ،ص۱۱۲
۱۳۳۔ نوائے سروش،ص۱۶۷ ۱۳۴۔ لغات نظامی ،ص۳۴۲
۱۳۵۔ نوائے سروش،ص۵۳ ۱۳۶۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب،ص۱۲۸
۱۳۷۔ بیان غالب،ص۱۰۱ ۱۳۸۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب،ص۱۶۵
۱۳۹۔ کلیات قائم،ج ا ص۵۹ ۱۴۰۔ دیوان درد، ص۱۸۸
۱۴۱۔ لغات نظامی،ص۳۷۱ ۱۴۲۔ لغات نظامی، ص۶۱۶
۱۴۳۔ دیوان ماہ لقا بائی چندا، ص۹۵ ۱۴۴۔ تذکرہ گلستان سخن ج ا، ص ۳۱۳
۱۴۵۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج۱، ص ۱۳۶ ۱۴۶۔ تذکرہ گلستان سخن ج ا، ص۱۱۱
۱۴۷۔ فرہنگ آصفیہ ج ا، ص۲۸۴ ۱۴۸۔ بیان غالب، ص۳۰۹
۱۴۹۔ نوائے سروش،ص۵۲۸ ۱۵۰۔ بیان غالب، ص۳۰۳
۱۵۱۔ نوائے سروش،ص۵۱۸ ۱۵۲۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب، ص۳۶۲
۱۵۳۔ تذکرہ مخزن نکات، قائم چاندپوری، ص۶۴ ۱۵۴۔ تذکرہ مخزن نکات،ص۱۴۸
۱۵۵۔ کلیات میر ج ا، ص۱۸۸ ۱۵۶۔ فیروزاللغات،ص۷۵۲
۱۵۷۔ ’’دکھ اور رنج میں چہرا اتر جاتا ہے‘‘ نفسیات ، ص۴۵۶
۱۵۸۔ ’’غصے اور رنج کی حالت میں انسان بطور رد عمل مختلف قسم کی حرکتیں کرتا ہے اور اس کی یہ حرکات باہم مربوط نہیں ہوئیں
نفسیات ،ص۱۵۱
۱۵۹۔ نفسیات ،ص۱۵۱ ۱۶۰۔ نفسیات،ص۴۵۴
۱۶۱۔ بیان غالب ،ص۴۷ ، روح المطالب فی شرح دیوان غالب، ص۱۲۲
۱۶۲۔ نوائے سروش،ص۱۴۹ ۱۶۳۔ دیوان ماہ لقا بائی چندا،ص۱۴۵
۱۶۴۔ دیوان میر مہدی مجروح ،ص۱۳۲ ۱۶۵۔ روشنی اے روشنی ،ص۸۸
۱۶۶۔ فیروزاللغات ،ص۹۶۰ ۱۶۷۔ مثنوی مولانا روم دفتر دوم،ص۱۰۲
۱۶۸۔ دیوان مہ لقا بائی چندا، ص۱۴۶ ۱۶۹۔ انتخاب ذوق ابراہیم، ص۴۶
۱۷۰۔ دیوان میر مہدی مجروح، ص۱۲۱ ۱۷۱۔ لغات نظامی،ص۷۲۳
۱۷۲۔ کلام شاہ حسین ، شاہ حسین، ص۸۴
۱۷۳۔ مترادفات القران مولوی عبدالرحمن ،ص۷۱۱، المنجد کے مطابق سمندر کے کنارے کو ساحل بولا جاتا ہے۔
۱۷۴۔ نوائے سروش، ص۳۶ ۱۷۵۔ روح المطالب کی شرح دیوان غالب، ص۱۱۳
۱۷۶۔ روح غالب ص۹۵ ۱۷۷۔ افکار غالب، ص۱۰۶
۱۷۸۔ تذکرہ مخزن نکات ص۱۱۷ ۱۷۹۔ کلیات قائم ج ۱، ص۱۷۸
۱۸۰۔ روشنی اے روشنی ،ص ۹۳ ۱۸۱۔ آئینہ اردولغت،ص۱۶۷
۱۸۲۔ نوائے سروش، ص۱۳۳ ۱۸۳۔ بیان غالب ، ص۱۰۶
۱۸۴۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب، ص۱۷۱ ۱۸۵۔ آئینہ اردو لغت، ص۱۰۶۶
۱۸۶۔ نوائے سروش، ص۱۱۷ ۱۸۷۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب، ص ۱۲۰
۱۸۸۔ بیان غالب ،ص ۵۳ ۱۸۹۔ فیروز اللغات، ص۴۵۵
۱۹۰۔ فرہنگ عامرہ ، ص۳۱۹ ۱۹۱۔ آئینہ اردو لغت، ص۱۰۹۰
۱۹۲۔ روح غالب، ص۱۱۲ ۱۹۳۔ تذکرہ مخزن نکات،ص۴۹
۱۹۴۔ کلیات میر ج ۱، ص ۱۴۹ ۱۹۵۔ فیروزاللغات ، ص۸۸۵
۱۹۶۔ فیروز اللغات ، ص۸۸۵ ۱۹۷۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب،ص۳۸۴
۱۹۸۔ فیروز اللغات، ص۱۲۹ ۱۹۹۔ نفسیات،ص۴۶۵
۲۰۰۔ دیوان غالب(کامل ) مرتبہ کالی داس گپتا رضا،ص ۲۷۲
۲۰۱۔ نوائے سروش، ص۵۵۸ ۲۰۲۔ فرہنگ عامرہ ، ص۳۵۰
۲۰۳۔ آئینہ اردو لغت ،ص۱۱۴۹ ۲۰۴ مصباح اللغات ،ص۶۴۳، المنجد ،ص۶۴۲
۲۰۵۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب،ص۱۱۸۶ ۲۰۶۔ فیروز اللغات ، ص۵۰۰
۲۰۷۔ نوائے سروش، ص۷۰۷ ۲۰۸۔ بن سنورکر
۲۰۹۔ نوائے سروش، ص۳۳ ۲۱۰۔ فیروزاللغات، ص
۲۱۱۔ المنجد ،ص۸۸۲ ۲۱۲۔ دیوان درد، ص۱۹۵
۲۱۳۔ دیوان مہ لقا بائی چندا ، ص۱۱۸ ۲۱۴۔ الحاج پروفیسر سید محمد اشرف ، سید اکادمی ،لاہور ۱۹۸۶، ص۲
۲۱۵۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب ،ص۴۶۷
۲۱۶۔ روشنی اے روشنی،ص۹۵ ۲۱۷۔ نور اللغات ج۲ ،ص ۳۸۲
۲۱۸۔ نوائے سروش،ص۴۰۴ ۲۱۹۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب، ص۳۰۵
۲۲۰۔ حقیقی ہو کہ عشق مجازی ۲۲۱۔ دیوان درد، ص۱۲۰
۲۲۲۔ نور اللغات ج۲، ص ۱۳۰ ۲۲۳۔ نوائے سروش ، ص۳۹۷
۲۲۴۔ دیوان درد، ص۱۱۶ ۲۲۵۔ فیروزاللغات، ص۶۳۳
۲۲۶۔ فرہنگ عامرہ ، عبداللہ خویشگی،ص۴۷۸ ۲۲۷۔ کلیات میر ج۱ ، ص۱۰۲
۲۲۸۔ کلیات قائم ج۲، ص۴ ۲۲۹۔ فیروز اللغات، ص۱۱۲۲
۲۳۰۔ بیان غالب،ص۱۸۷ ۲۳۱۔ نوائے سروش ، ص۲۲۸
۲۳۲۔ اردو کی دو قدیم مثنویاں،ص۱۳۷ ۲۳۳۔ سنگاسن پچسی ، فقیر دکنی، ص۴
۲۳۴۔ انتخاب ابراہیم ذوق،محمدابراہیم ذوق ، ص۵۵ ۲۳۵۔ آئینہ اردو لغت، ص۱۶۷۳
۲۳۶۔ پشتو اردو بول چال ، پروفیسر محمد اشرف ، ص ۱۵۲ ۲۳۷۔ اقبال ایک صوفی شاعر ، ڈاکٹر سہیل بخاری ، ص ۳۷۱
۲۳۸۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا، سعادت خاں ناصر، ص ۱۱۶
۲۳۹۔ شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا، ص ۱۳۶۸ ۲۴۰۔ تذکرہ گلستان سخن ج ۲ ، ص ۷۷
۲۴۱۔ تذکرہ خوش معرکہ زبیاج ا ، ص ۸۰ ۲۴۲۔ کلیاتِ میر ج ا ، ص ۱۴۳
۲۴۳۔ اردو جامع انسائیکلو پیڈیا ج ۲، ۱۵۷۲، ۱۵۳۰ ۲۴۴۔ کلیات میر ج ا ، ص ۲۲۲
۲۴۵۔ کلیات قائم ج ا، قائم چاندپوری ، ص

 
مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 211044 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.