ایک شام غزل انصاری کے نام

دنیا میں دو طرح کے انسان زندگی گزارتے ہیں ۔ ایک وہ انسان جس کی روح ان کے وجود کے تابع رہتی ہے اور وجود زندگی گزارتا ہے ۔ ایک وہ ایک انسا ن ہوتے ہیں جن کی روح کے تابع ان کا وجود ہوتا ہے ۔ مجھے جیسے فقیر ایسے انسانوں کو ڈھونڈتے رہتے ہیں مگر نہیں ملتے جن کے وجود ان کی روح کے تابع زندگی گزار رہے ہوں ۔ایسے ہی کچھ انسانوں سے پچھلے دنوں ملاقات کا شرف حاصل ہوا جن کے وجود ان کی روح کے تابع زندگی بسر کر رہے ہیں ۔

ایک شام غزل انصاری کے نام

دنیا میں دو طرح کے انسان زندگی گزارتے ہیں ۔ ایک وہ انسان جس کی روح ان کے وجود کے تابع رہتی ہے اور وجود زندگی گزارتا ہے ۔ ایک وہ ایک انسا ن ہوتے ہیں جن کی روح کے تابع ان کا وجود ہوتا ہے ۔ مجھے جیسے فقیر ایسے انسانوں کو ڈھونڈتے رہتے ہیں مگر نہیں ملتے جن کے وجود ان کی روح کے تابع زندگی گزار رہے ہوں ۔ایسے ہی کچھ انسانوں سے پچھلے دنوں ملاقات کا شرف حاصل ہوا جن کے وجود ان کی روح کے تابع زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ موبائل فون کی گھنٹی بجی دیکھا تو صد قابلِ احترام زاہد شمسی صاحب کی کال موصول کی تو زاہدشمسی صاحب نے حکم صادر کیا کہ اتوار ۲۲ جنوری ۲۰۱۷ کی شام مجھے لاہور میں موجود ااُس گھر میں حاضر ہونا ہے جہاں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح ڈاکٹر سید ریاض علی شاہ صاحب کے پاس آکرٹھہرتی تھیں۔ ڈاکٹر سید ریاض علی شاہ صاحب بانی پاکستان کے ذاتی معالج تھے ۔ آج کل اس گھر میں ڈاکٹر سید ریاض علی شاہ صاحب کی بیٹی یاسمین ریاض شاہ اور ان کے شوہر نامدار برگیڈیئر ریٹائرڈ سید سجاد بخاری مقیم ہیں ۔یاسمین ریاض شاہ ناصرف ایک بلند پائے کی مصورہ ہیں بلکہ وہ ایک اچھی شاعرہ بھی ہیں۔ یاسمین ریاض شاہ صاحبہ اور برگیڈیئر ریٹائرڈ سید سجاد بخاری صاحب ادب نواز ہونے کے ساتھ ساتھ ادب کی ترویج کے لئے بھی سر گرداں رہتے ہیں ۔اسی ادب دوستی ، ادب نوازی اور ادب کی ترویج کی ہی ایک کڑی تھی کہ ۲۲ جنوری ۲۰۱۷ بروز اتوار کو ان کی رہائش گاہ جو کہ تاریخی حوالے سے محترمہ فاطمہ جناح کے حوالے سے ایک مقام رکھتی ہے پر یو کے سے آئے ہوئے مہمان شعراء کے ساتھ ایک شام منائی گئی ۔اس خوبصورت شعری نشست کی صدارت جناب زاہد شمسی صاحب کی فرمائی اور مہمانِ خصوصی یو کے سے آئی ہوئی معروف شاعرہ اور یارک شائر ادبی فورم کی روح رواں محترمہ مہ جبیں غزل انصاری صاحبہ تھیں جبکہ مہمانانِ اعزاز میں یوکے سے ہی آئے ہوئے مہمان شعرا ء جن میں یارک شائر ادبی فورم کے سرگرم بانی رکن جناب اشتیاق میر صاحب اور معرو ف افسانہ نگار اور شاعرہ محترمہ فرحت پروین صاحبہ شامل تھیں ۔ نوجوان شعراء کی طرف سے نمائندگی عمدہ لب و لہجے کے شاعر اور صحافی ندیم اظہر ساگرؔ نے کی ۔اس خوبصورت تقریب کی نظامت نوجوان شاعر شفیق عطاریؔ نے بہت ہی عمدہ طریقے سے کی جس کو تمام شرکاء نے بہت پسند کیا اور بیرونِ ملک سے آئے ہوئے مہمان شعراء نے خاص طور پر شفیق عطاریؔ کی نظامت کو خوب سراہا اور پسند کیا۔اس شعری نشست کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں مشاعرے کو عام روائتی انداز سے ہٹ کرچلایا گیا۔ مہمان شعراء کو زیادہ سے زیادہ کلام سنانے کا موقع دیا گیا اور مہمانِ خاص جن کے لئے یہ شام منعقد کی گئی تھی ان سے تقریباََ ایک گھنٹہ سے زیادہ وقت تک ان کا کلام تحت اللفظ اور ترنم میں سنا گیا۔اس تادیر یاد رہنے والی نشست کی نظامت کرتے ہوئے شفیق عطاری نے اپنے اس خوبصورت کلام
میں کبھی سوچ سے کہتا ہوں کہ معذور ہے تو
میں کبھی سوچ کی پرواز سے ڈر جاتا ہوں
بات یہ ہے میں انجام سے واقف ہی نہیں
بات یہ ہے کہ میںآغاز سے ڈرگیا ہوں
سے اپنی مخصوص مسکراہٹ اور اپنے مخصوص انداز میں سنا کر کیا اور اپنے کلام کا اختتام اپنی ایک بہترین غزل سنا کر کیا جس کا ایک شعر کیا خوبصورت تھا اور محفل میں موجود تمام شرکاء خصوصاََ محترمہ غزل انصاری صاحبہ کو بھا گیاکیوں کہ اس شعر کو انہوں نے بہت ہی شرما کر کہا جو کہ یہ تھا
تو کسی وقت بھی آجا تجھے انکار نہیں
غزل جیب میں ہر وقت پڑی رہتی ہے
نوجوان شعراء کی نمائندگی کرتے ہوئے جناب ندیم اظہر ساگرؔ نے جب اپنا کلام پیش کیا تو محفل میں ہر طرف واہ واہ اور کیا خوب کلام ہے کی آوازیں گونج گئیں ان کا کچھ نمونہ کلام حاضر خدمت ہے جو انہوں نے اس شعری نشست میں سنایا۔
نفرتوں کی سیاہ راتوں میں
عشق سے تھوڑی روشنی مانگو
اس سے پہلے کہ خواب مر جائیں
اپنے خوابوں کی زندگی مانگو
ندیم اظہر ساگرؔ نے اپنی ایک بہت ہی خوبصورت نظم بھی سنائی جو کہ حاضرین اور شرکاء محفل کو بہت پسند آئی ۔
محبت توڑ دیتی ہے
سبھی رشتے سبھی ناطے
کدورت کے عداوت کے
محبت تنگ نظری سے بچاتی ہے
کشادہ دل بنا کر مسکراتی ہے
نہیں ایسا فقط ایسا نہیں ہوتا
کبھی انجان منزل کے کسی
گمنام رستے پر
اکیلا چھوڑ دیتی ہے
ندیم اظہرساگر ؔ کا کلام تمام حاضرین کو اتنا بھایا کہ نظامت کے فرائض انجام دینے والے شفیق عطاریؔ نے اپنا ایک شعر ان کی نظر کیا
کچھ لوگ تیرے حسنِ تکلم کے گرفتار
کچھ لوگ تیری شعلہ بیانی سے بندھے ہیں
اب کلام پیش کرنے کے لئے یاسمین ریاض شاہ صاحبہ کو دعوت دی گئی تو انہوں نے تمام مہمانوں کی آمد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ زاہد شمسی ؔ صاحب میرے استاد ہیں اور وہ ایسی معیاری اور ادبی نشستوں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں اور اد ب کی ترویج اور ادب کے فروغ کے لئے ایسی ادبی محفل کے لئے میرا گھر حاضر ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاعر اور ادیب میرے گھر آتے ہیں تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے ۔ ان لوگوں کے آنے سے ہماری عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔انہوں نے اپنے شوہر برگیڈیئر سجاد بخاری صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میرے میاں ایک فوجی ہوتے ہوئے بھی ادبی محفلوں اور ادب سے وابستہ لوگوں کو پسند کرتے ہیں اور میرے ساتھ گھر میں اس طرح کی محفل کی میزبانی میں ہر طرح کا تعاون کرتے ہیں ، آپ جیسے لوگوں کے آنے سے میرے گھر میں ایک خوشبو اور یادیں رچ بس جاتی ہیں جو کہ ہم بہت محسوس کرتے ہیں ۔انہوں نے شفیق عطاری ؔ ، ندیم اظہر ساگر ؔ اور راقم الحروف کو ڈھیر ساری دعائیں بھی دیں اور راقم الحروف کے کالموں کا مجموعہ ’’آوارگی ‘‘ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے میری کتاب امریکہ میں اپنے بیٹے سید احمد جمال شاہ کو تحفے میں دی اور انہوں نے بھی کتاب کو بے حد پسند کیا اور اپنی لائبریری میں اس کتاب کو شامل کیا ۔ یاسمین ریاض شاہ نے جو کلام سنا کر داد سمیٹی اس کا نمونہ آپ صاحبان کے سامنے پیش ہے ۔
عجب سا روز منظر دیکھتی ہوں
میں قطرے میں سمندر دیکھتی ہوں
چمکتا ہے وہ بن کر ماہِ تاباں
جِسے میں دل کے اندر دیکھتی ہوں
بہت باریک بین ہیں میری نظریں
تجھے میں ہر شے کے اندر دیکھتی ہوں
اسے مجھ سے محبت سے اس قدر
ذرا اس سے بچھڑ کر دیکھتی ہوں
وہی ہے خواب جو صدیوں پرانا
اسے اب بھی برابر دیکھتی ہوں
لطافت اس میں کتنی یاسمیں ہے
گلوں کو اُس سے کمتر دیکھتی ہوں
اب کلام پیش کرنے کومہمان شاعر جناب اشتیاق میر ؔ صاحب کو دعوت دی گئی۔ اشتیاق میرؔ صاحب انگلینڈ میں رہتے ہیں آج کل پاکستان کے دورے پر ہیں۔ اشتیاق میرؔ صاحب ادبی سرگرمیوں کے تیسرے بڑے مرکز انگلینڈ میں گزشتہ چھتیس سال سے مسلسل ادب کی خدمت کر رہے ہیں ۔انہوں نے وہاں اپنی تہذیب اور تمد ن کو سامنے رکھ کر اس کے مطابق مشاعرے منعقد کروائے ۔ بہت سے ادبی ایوارڈ بھی حاصل کئے ہیں ۔محترمہ غزل انصاری سے مل کر یو کے میں یار ک شائر ادبی فورم قائم کیا جس کو سات سال ہو چلے ہیں ۔اشتیاق میرؔ صاحب نے اپنا کلام تحت اللفظ بھی پیش کیا اور ترنم کے ساتھ بھی پیش کیا ۔جو کلام انہوں نے ترنم کے ساتھ پیش کیاجس میں ان کی اپنے وطن سے محبت اور یاد جھلکتی ہے وہ ملاحظہ کریں ۔
وطن میں کوئی کہیں اک نشاں ہے تو سہی
جلا ہوا ہے مگر اک مکان ہے تو سہی
کبھی رُلاتی تو ہوگی تجھے بھی یاد میری
یقین مجھ کو نہیں پر گمان ہے تو سہی
زبان گنگ ہے کہنے سے کچھ قاصر ہے
پر آنکھ دل کی میرے ترجمان ہے تو سہی
فقیرِ شہر کو آسائشوں سے کیا مطلب
سَروں پہ چھت نہ سہی آسمان ہے تو سہی
یہ اور بات کوئی بولتا نہیں کچھ بھی
ہر ایک شخص کے منہ میں زبان ہے تو سہی
اب اور جاؤں کہاں لے کے اپنی بوڑھی ماں
بس یہ اک ایدھی کا دارالامان ہے تو سہی
انا کے مارے ہوئے میرؔ سبھی ہم لوگ
انا ہماری طلب کا نشان ہے تو سہی
اشتیاق میر صاحب کے ترنم سے کلام پیش کرنے پر برگیڈئیر سجاد بخاری صاحب نے جمیل الدین عالی کی ذکر چھیڑ دیا کہ اس ادا سے وہ کلا م سنایا کرتے تھے تب اشتیاق میر ؔ صاحب نے موقع کی مناسبت سے جمیل الدین عالی صاحب کے لئے اپنا قطع سنایا ۔
خلا خالی محسوس ہوتا ہے ادب میں
نشست اُن کی ہوئی ہے جب سے خالی
بہت سے اور بھی ہیں میرؔ شاعر
بس عالی تھے جمیل الدین عالی
معروف افسانہ نگار اور شاعرہ فرحت پروین نے اپنے کچھ چیدہ چیدہ اشعار پیش کئے جو کہ یہ تھے ۔
؂ طفلِ معصوم ہوں حیران ہوں گم گشتہ ہوں
یہ ماہ و سال میری عمر کا پیمانہ نہیں
؂ مے کشو سب کے مقدر میں کہاں
حدِ ادب ،کہہ دیا نا یہ میری آنکھیں ہیں میخانہ نہیں
مہمانِ شام جس کے نام یہ شام تھی مہ جبیں غزل انصاری صاحبہ کا کلام بیان کرنے سے پہلے ان کے بارے مختصر بتاتا چلوں ۔ مہ جبیں غزل انصاری صاحبہ یوکے میں مقیم ہیں جب کہ شہرِ کراچی سے ہجرت کرنے والی خاتون شاعرہ ہونے کے ساتھ ایک بہت اچھی اور قابل وکیل ہیں ۔ خاص بات یہ کہ انہوں نے وکالت کی تعلیم اس وقت حاصل کی جب ان کی بیٹی بھی وکالت کی تعلیم حاصل کر رہی تھی ۔یہ بات ہیڈس سپیریئر یونیورسٹی میں ریکارڈ ہے کہ ایک ہی یونیورسٹی میں دونوں ماں بیٹی نے وکالت کی تعلیم ایک ساتھ مکمل کی۔غزل انصاری اور اشتیاق میر نے دوسرے بہت سے مخلص دوستوں کے ساتھ مل کر یارک شائر ادبی فورم کی بنیاد رکھی اور یہ پاکستان سے باہر یوکے میں اپنی نوعیت کی واحد ادبی تنظیم ہے جس کو آج سات سال ہونے کو ہیں مگر اس میں شامل تمام اراکین میں کبھی کوئی کسی قسم کی پھوٹ نہیں پڑی ۔غزل انصاری صاحبہ نے ادب کی خدمت اپنے گھر سے شروع کی کہ انہوں کے اپنے بچے گھر میں اردو بولتے اور لکھتے ہیں اور یہاں تک کہ ہر ہونے والی ادبی تقریب کے انتظامات بھی ان کے بچے کرتے ہیں ۔یہ بات خاص کر قابلِ ذکر ہے جس کا ذکر نہ کرنا شاید میری کم عقلی ہو گی وہ یہ کہ یارک شائر ادبی فورم کے پلیٹ فارم سے مہ جبیں غزل انصاری صاحبہ اور ان کی ٹیم اپنا نام ظاہر کئے بناء اپنے ملک پاکستان میں وہ شاعر ،ادیب جو مالی طور پر کمزور ہیں ان کی مالی امداد اوران کی بیٹیوں کی شادی کے اخراجات بھی کرتے ہیں روز گار کے مواقع اور ان کے بچوں کی بہتر تعلیم کے انتظامات بھی کرتے ہیں ۔یار ک شائر ادبی فورم کی طرف سے ہر سال پاکستان میں ادبی ایوارڈ بھی دیا جاتا ہے جس کے ساتھ پچاس ہزار روپے بھی دیئے جاتے ہیں ۔اس سال پاکستان میں یہ ایوارڈ جناب انور شعور کو دیا گیا۔ میرا خیال ہے کہ یارک شائر ادبی فورم کے اتحاد کی مثالیں کتابوں میں ملتی ہیں یا کہانیوں میں۔ایک بات اور یہ کہ غزل انصاری صاحبہ کے شوہر ڈاکٹر نسیم الحق انصاری بھی یو کے میں غزل انصاری صاحبہ کی رہائش گاہ پر ہونے والی ادبی نشستوں میں برگیڈئیر سجاد بخاری صاحب کی طرح تمام مہمانوں کی میزبانی کرتے ہیں ۔غزل انصاری صاحبہ کے تین شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں پہلا ’’ادھورے خواب‘‘ دوسرا’’ سنہرے خواب‘‘ اور تیسرا شعری مجموعہ ’’زندگی ‘‘ کے نام سے ہے ۔ابھی ان کا سفر اپنی ذات کے اندر جاری ہے اور باہرنکلنے کا سفر ابھی باقی ہے ۔ان کا خوبصورت کلام جو انہوں نے پیش کیا اس میں سے منتخب کلام دیکھیں ۔
؂ ادھورے خواب کی وہ کرچیاں سنبھالے ہوئے
زمانہ بیت گیا آرزو کو پالے ہوئے
سبھی اٹھاتے رہے فیض تیری محفل سے
ہیں تیری بزم سے ناکردہ ہم نکالے ہوئے
اسی دیار کو ہم اب بھی یاد کرتے ہیں
ادھورے خواب جہاں سب تیرے حوالے ہوئے
؂ آنکھوں میں ٹھہرے کچھ خواب سنہرے ہیں
دل پر اب تیری یادوں کے پہرے ہیں
خواب سنہرے ٹوٹیں گے تو دُکھ ہو گا
میرے دکھ دریاؤں سے بھی گہرے ہیں
ان کی اپنے دیس سے پیار اوردیس سے ہجرت کے دکھ میں ان کی کہی ہوئی ایک نظم کیا خوب ان کے خیالات کی عکاسی کرتی ہے ۔
میں اکثر سوچا کرتی ہوں
کیوں دیس کو ہم نے چھوڑا تھا
ہم دوسرے درجے کے شہری رہتے ہیں
سدا رہ کر بھی یہاں
پھر یاد ہم اس کو کرتے ہیں
جس دیس کو ہم نے چھوڑا تھا
خوشبو ہے نہ پھولوں کلیوں میں نہ رونق یہاں کی گلیوں میں
روحوں کو تھکا دینے والی تنہائی رگوں میں پلتی ہے
سردی کی ٹھٹھرتی شاموں میں
جب دیس کبھی یاد آتا ہے
آواز لگاتا پھلی گرم وہ ٹھیلہ یاد آجاتا ہے
کھاتے تھے میوے اور گجک سردی کی ٹھٹھرتی راتوں میں
سنتے تھے کہانی دادی سے ہم گھس کر گرم لحافوں میں
اب خواب ہوئے وہ دن سارے
بچوں کو ہیں کمپیوٹر پیارے
اب کون کہانی سنتا ہے
دل تانے بانے بُنتا ہے
یہ سوچ کے کُڑھتا رہتا ہے
کیوں دیس کو ہم نے چھوڑا تھا
جانا بھی جو چاہیں واپس
مزدود ہیں اب تو راہیں سب
اک بار وطن سے جو نکلا
وہ واپس نہ لوٹا گھر کو
بس آج اور کل میں بیت گیا
جیون کا سفر چپکے سے یہاں
جب عمر کی نقدی ختم ہوئی
تو دل نے چپکے سے پوچھا
کیوں دیس کو تم نے چھوڑا تھا
پردیس سے ناطہ جوڑا تھا
ماں باپ کا دل کیوں ٹوڑا تھا
سب رشتوں سے منہ موڑا تھا
کیوں دیس کو تم نے چھوڑا تھا
مہ جبیں غزل انصاری نے اپنی مشہور اور زبان زدِ عام غزل جو کہ یو کے میں موجود بہت سے گلو کاروں نے اپنی آواز میں گائی بھی ترنم کے ساتھ سنائی ذرا دیکھیں کتنی اچھی غزل ہے۔
دِل جسے چاہے وہ مل جائے ضروری تو نہیں
دِل کا ہر زخم ہی سِل جائے ضروری تو نہیں
جو میرے دِل میں رہا پھول خوشبو کی طرح
وہ کلی بن کے بھی کھل جائے ضروری تو نہیں
جس کا خوابوں میں لگا رہتا ہے آنا جانا
وہ حقیقت میں بھی مل جائے ضروری تو نہیں
سسکیاں لے کے ہر ارمان نے دم توڑدیا
عرش فریاد سے ہِل جائے ضروری تو نہیں
صدرِ محفل جناب زاہد شمسی صاحب نے اپنا صدارتی کلام سنانے سے پہلے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ ہمیں روح کے مسافروں کی تلاش رہتی ہے اور آج ہمارے ہاں جو غزل انصاری صاحبہ، اشتیاق میر صاحب اور فرحت پروین تشریف لائے ہیں وہ روح کے مسافر ہیں ۔ ان کے آنے سے ایک خو شبو محسوس ہو رہی ہے ۔ ان احباب کے پیار کی خوشبو، خلوص کی خوشبو، محبت کی خوشبو ، ان کی آمد کی خوشبو ، مزاج کی خوشبو اور بہت سی خوشبوؤں کا بسیراء لے کر آئے ہیں ہمارے یہ مہمان ۔ خوشبو کا یہ خاصا ہے کہ خوشبو جہاں بھی جاتی ہے کم نہیں ہوتی بلکہ جہاں جاتی ہے اس مقام کو مہکا کر آگے بڑھ جاتی ہے۔اسی موقع پر زاہد شمسی صاحب نے بتایا کہ ان کے نعتیہ مجموعہ ’’سبز خوشبو ‘‘ کا نام بھی اسی گھر میں یاسمین ریاض شاہ صاحبہ کے ساتھ گفتگو میں طے ہوا جس کی بابت اللہ نے چاہا تو اپنے کسی کالم میں تٖفصیل کے ساتھ تحریر ضرور کروں گا۔ زاہد شمسی صاحب نے بے حد عمدہ کلام سنایا اور خو ب داد سمیٹی ان کے کلام سے راقم الحروف کو جو بہت زیادہ کلام پسند آیا خود فرمائش کر کے سنا وہ آپ صاحبان کی نظر کرتا ہوں
؂ کبھی سنی ہے پرندو ہوا کی سرگوشی
تو کیسی ہوتی ہے بولو! دُعا کی سگوشی
وہ کوئی چیخ تھی ، نوحہ تھا، بین تھا، کیا تھا؟
کہ دل خراش بہت تھی صدا کی سرگوشی
سماعتیں حدِ ادراک میں مقید ہیں
سُنیں گی کیسے بھلا انتہا کی سرگوشی
مری فضاؤں کو شاید سنائی دیتی ہو
حدِ نگاہ سے باہر خلا کی سرگوشی
میں ایک اسم کو اپنا حصار کرتا ہوں
سنائی دیتی ہے جب بھی بلا کی سرگوشی
گزشتہ رات مصلے نے میرے ساتھ سُنی
مرے جھکے ہوئے دل سے خدا کی سرگوشی
زمانے بھر کی صداؤں کے شور پر زاہدؔ !
محیط کر دی گئی ہے حرا کی سرگوشی
اس یاد گار شعری نشست جو بھولے سے بھی نہ بھولے گی کے اختتام پر یاسمین ریاض شاہ صاحبہ اور برگیڈیئر سید سجاد بخاری صاحب کی طرف سے چائے کا اہتمام ہوا جو کہ چائے نہیں بلکہ پُر تکلف اور پُر لطف کھانا تھا جس سے تما شرکاء نے اپنے اپنے طور پر بھر پور انصاف کیا ۔ یوں کھانے اور چائے کے اختتام کے ساتھ یہ خوبصورت اور یاد گار شام بھی اختتام پذیر ہوئی ۔رپورٹ لکھ دی گئی ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔
Shehzad Aslam Raja
About the Author: Shehzad Aslam Raja Read More Articles by Shehzad Aslam Raja : 18 Articles with 18458 views I am Markazi General Secratary of AQWFP (AL-QALAM WRITERS FOURM PAKISTAN) and Former President of Bazm-e-Adab Govr Sadique Abbas Digree college Dera N.. View More