امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا اس میں کیا
کردار ہے۔ پاکستان کو بھی اس فہرست میں شامل کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ یہ
کہا گیا ہے کہ پاکستان بھی امیگریشن پابندی کی فہرست میں شامل ہو سکتا
ہے۔پاکستان کو تشویش اس بات پر ہونا چاہیئے کہ ہماری غیر ملکی کرنسی کی
کمائی میں کمی کیوں آ رہی ہے۔ہماری غیر ملکی قرضہ ہماری آمدن کی رفتار سے
بہت زیادہ ہے۔ڈالر کی قدر میں اضافہ پہلے سے ہو رہا ہے۔2013میں ایک وقت
ایسا بھی آیا جبٹماٹر اور ڈالر کی قیمتیں برابر ہو گئیں۔اس کی بھی کئی
وجوہات تھیں۔سب سے بڑی وجہ ہماری پیداوار میں جمود ہے۔آج 2017میں ڈالر کی
قدر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ڈالر کی زر مبادلہ اور در آمدات برآمدات کے لئے
طلب ہے۔ ہماری ترسیلات زر میں اضافہ بھی اس رفتار سے نہیں ہو رہا ہے۔ یعنی
کہ ہوم ریمیٹنس اضافہ چاہتی ہیں۔ اس میں تیز رفتاراضافہ کی ضرورت ہے۔ سٹیٹ
بینک کا اعتراف ہے کہ ملکی زر مبادلہ کے زخائر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر زر
مبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں تو ہمارے روپے کی قدر میں کمی کیوں آ رہی ہے۔
ڈالر کی طلب بہت زیادہ اس لئے ہے کہ ملکی بر آمدات اور در آمدات کا
انحصارڈالر پر ہی ہے۔ ہم باہر سے اتنا مال منگواتے ہیں کہ ڈالر میں ادائیگی
کرنا پڑتی ہے۔ جولائی 2013میں زرمبادلے کے زخائر 10ارب ڈالر سے زیادہ
تھے۔20جنوری 2017کو یہ ذخائر بڑھ کر 23.2ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔سٹیٹ بینک نے
بتایا کہ ان میں ایک ہفتہ میں 54.7ملین ڈالر کا اضافہ ہوا۔ وزیر اعظم میاں
نواز شریف نے جب 5جون 2013کو تیسری بار حکومت سنبھالی ، اس وقت یہ زخائر
11ارب ڈالر سے زیادہ تھے۔ دنیا میں سب سے زیادہ زرمبادلہ چین کے پاس ہے۔
36ہزار ارب ڈالر۔ ہماری نظریں پاک چائینا اقتصادی راہداری منصوبے پر ہیں۔
وہ ہماری معیشت کو اوپر لے جا سکتا ہے۔ لیکن ہمارے لئے زیادہ اہمیت خود
انحصاری کی ہو گی۔یہی ہمیں معاشی پاور بنا سکتی ہے۔
زرمبادلے کے زخائر میں اضافہ یا کمی کا براہ راست اثر ملکی معیشت پر پڑتا
ہے۔ اگر بارٹر سسٹم کے تحت مال کے مال کی تجارت ہو تو پاکستان کے لئے یہ
بہتر تھا۔ ہم باہر سے تیل منگواتے، یا دفاعی ٹیکنالوجی یا آئی ٹی کا ساز و
سامان ۔ اس کے بدلے یہاں سے ٹماٹر،پیاز دالیں فروخت کر سکتے تھے۔ لیکن ہم
اب اس زرعی پیداوار سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کی وجہ پہلے سیلاب
بتائی جاتی رہی۔ یہ ایک بہانہ ہے۔ دوسری وجہ افغانستان میں امریکی اور نیٹو
فوج ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے یہاں سے مال ا فغانستان جاتا ہے۔ اس لئے اس کی
قیمت بڑھ جاتی ہے۔ یہ بھی ایک بہانہ ہی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم دن بدن کام
چور یا آرام طلب بن رہے ہیں۔ اس وجہ سے ہماری طلب بڑھ رہی ہے اور رسد میں
کمی ہو رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بیٹھے بٹھائے ہمیں سب کچھ مل جائے گا۔
ایسا ناممکن ہے۔یہ درست ہے کہ اﷲ تعالیٰ پتھر میں کیڑے مکوڑے تک کو رزق
دیتے ہیں۔ وہ رزاق ہیں۔ لیکن اﷲ تعالیٰ ہی نے تلاش معاش اور رزق حلال کے
لئے محنت کرنے حکم دیا ہے۔
ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ اس کی وجہ ملکی پیداوار میں کمی ہے۔ یہ سچائی
مسلسل بیان کرنے کی ضرورت ہے کہ ملکی پیداوار بڑھانے کے لئے حکومت ہی زمہ
دار نہیں ہوتی ہے۔ اس کے لئے ہر فرد کو کام کرنا ہے۔ گھر کے ہر فرد کو
مصروف ہونا ہے۔ ہماری تعلیم کا نظام بھی عجیب ہے۔لوگ ماسٹرز، پی ایچ ڈی تک
پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن کام نہیں کرتے۔ ہم پڑھتے ہی ملازمت کے لئے ہیں۔ ڈاکٹر
، انجینئر بننے کے لئے ڈونیشن دیتے ہیں۔ ڈگریاں خرید کر ڈاکٹر بنیں گے تو
انجام یہی ہو گا۔ لوگ چل کر ہسپتال جاتے ہیں۔ اور ان کی لاشیں اٹھا کر لائی
جاتی ہیں۔ ڈاکٹر بھی دو نمبر اور ادویات بھی دو نمبر۔
اگر ٹماٹر پیاز کی ملک میں پیداوار نہ ہو تو ہم اسے باہر سے منگواتے ہیں۔
ضروری نہیں کہ مہنگی اشیاء استعمال کی جائیں۔ جو بھی چیز مہنگی ہے۔ ضروری
نہیں اسے کھائے بغیر چین نہیں آئے گا۔ مہنگی چیز کو بھول جائیں ۔ قیمت خود
بخود کم ہو جائے گی۔ لیکن یہ کوئی منطق نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہم لوگ اپنے
گھروں میں کچن گارڈن کی روایت ترک کر چکے ہیں۔ ہمارے لوگ گاؤں میں کئی کئی
کنال زمین کے مالک ہیں۔ لیکن کام نہیں کرتے۔ فصل نہیں اگاتے۔ پودے نہیں
لگاتے۔ ہم پھل دار پودوں کے بجائے صدا بہار پودوں کو ہی پسند کرتے ہیں۔ صدا
بہار پودے گرمیوں میں ٹھنڈک دیتے ہیں۔ پھل دار پودے بھی سائیہ دیتے ہیں۔ یہ
بھی کسی سے کم نہیں۔لیکن چونکہ پھل دار پودے پھل بھی دیتے ہیں، اس لئے ہم
ان کی اہمیت سے انکار کر دیتے ہیں۔آج ایک بار پھر شجر کاری کا موسم آ چکا
ہے۔ ہم پودے لگا سکتے ہیں۔ لوگ دیہات سے بلا وجہ شہروں کی طرف دوڑ پڑتے
ہیں۔ سہولیات کی کمی ایک بہانہ ہے۔ دیہات میں صاف ستھرا ماھول چھوڑ کر شہر
کی بھاگم دوڑ، دھواں، آلودگی۔ ہر قسم کا پولوشن۔ شہر میں سبزیاں، فصل، پھل
کی پیداوار کے ساتھ ساتھ ڈیری یعنی دودھ کی مصنوعات کی طرف توجہ دے سکتے
ہیں۔ شہد کی مکھیاں پال سکتے ہیں۔ تعلیم حاصل کرنے کا یہ مطلب یہ نہیں کہ
آپ کا مقصدصرف نوکری ہو۔آپ گاؤں میں بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ صرف لگن کی ضرورت
ہے۔ کام کی ضرورت ہے۔ آپ سردیوں اور گر میوں میں فصلیں پیدا کر سکتے ہیں۔
تازہ دودھ، سبزیاں کھا سکتے ہیں۔ اپنے تازہ میوے خود بھی کھا سکتے ہیں اور
انہیں فروخت کر کے اپنی آمدن میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
ہر ایک فرد جس کے پاس چند مرلے زمین ہے، وہ ملکی پیداوار میں اضافہ کر سکتا
ہے۔ وہ بوجھ بننے کے بجائے قومی بوجھ کم کر سکتا ہے۔ آگاہی کی ضرورت ہے۔
اگر ہم نے ملکی پیداوار میں اضافے کے لئے اپنا حصہ، جس قدر بھی ہو ، ڈالنے
کا عزم کر لیا تو ٹماٹر، انڈے، دودھ، سبزیاں، پھل، آٹا ہی کیا ڈالر سمیت ہر
چیز کی قیمت کم ہو گی۔ کیوں کہ پیداوار میں اضافہ آمدن کو بڑھا سکتا ہے۔ آپ
تازہ اشیاء استعمال کریں گے تو نقلی ڈاکٹروں اور نقلی ادویات کی ضرورت بھی
پیش نہیں آئے گی۔ یہی مہنگے ڈالر کا علاجہے۔پھر ہمیں امریکی امیگریشن
قوانین کی پاکستان پر کسی سختی سے پریشان ہونے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہو
گی۔ |