بھارتی فوج نے کشمیر کی جنگ بندی الائن پر
گلہ باری اور فائرنگ سے شہریوں کو شہید کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
سماہنی سیکٹر میں ایک شہری نذیر اعوان کی شہادت چکوٹھی ، ٹیٹوال اور دیگر
سیکٹرز پر پاکستان اور بھارت کی فوج میں پھولوں اور مٹھائیوں کے تبادلے کے
چند دن بعد ہوئی ہے۔ شہری کی لاش کو بھی بھارتی فوج اپنے ساتھ لے گئے۔ جنگ
بندی لائن پر بھارتی فوج آزاد کشمیر کے کسانوں کو گندم کی فصل کاشت کرنے کی
بھی اجازت نہیں دے رہی ہے بلکہ ان پر فائرنگ کر رہی ہے۔ 26جنوری کو جب
بھارت کا یوم جمہوریہ تھا۔ اس دن مقبوضہ کشمیر اور شمال مشرقی بھارتی
رہاستوں میں بھارت کے اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر منایاجا رہا تھا۔ کیوں
کہ بھارت کا یہ دن نام نہاد یوم جمہوریہ ہے۔ بھارتی جمہوریت صرف انتہا پسند
ہندؤں کے لئے ہے۔ کشمیریوں، مسلمانوں اور شمال مشرقی بھارت کے قبائیلی عوام
کو اس جمہوریت کا کوئی فائدہ نہیں۔ کیوں کہ ان کے حقوق پامال کئے جا رہے
ہیں۔ یہ سلسلہ 47ء سے جاری ہے۔ جنگ بندی لائن پر جب بھی گولہ باری ہوتی ہے
تو بھارت اس کا الزام پاکستان پر لگا دیتا ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان
دراندازی کے لئے یہ گولہ باری کر رہا ہے۔ اسی بہانے سے اوڑی کا حملہ ہوا۔
اس کی آڑ میں سرجیکل سٹرائیکس کئے گئے۔ یہ وہ سرجیکل سٹرائیکس تھے جن میں
پاکستان کے خارجہ سیکریتری اعزاز احمد کے مطابق ستمبر2016سے جنوری2017تک
بھارت نے 310بار جنگ بندی لائن کی خلاف ورزی کی۔ اور آزاد کشمیر کے کم ازکم
47معصوم اور نہتے شہریوں کو شہید کر دیا ۔ سماہنی میں شہری کی شہادت کے بعد
اس تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔ نذیر اعوان کا کیا قصور تھا۔ وہ لکڑیاں یا
گھاس کاٹ رہا تھا۔ جب اسے گولہ باری سے شہید کیا گیا۔ اس کی لاش بھی بھارتی
فوجی اٹھا کر لے گئے۔ اس سے قبل وادی نیلم کے دینجر گاؤں میں بھارتی فوج نے
پھینکے گئے گرنیڈ نما کھلونہ بم سے دن کم سن بچوں کو معذور کر دیا۔ ایک کی
آنکھ ضائع ہو چکی ہے۔ انہیں ابھی تک حکومت نے کوئی امداد نہیں دی ہے اور نہ
ہی ان کا مفت علاج یقینی بنایا گیا۔ ایک گھر کے چار بچوں کی معذوری کوئی
معمولی بات نہیں۔ بھارتی صدر پرناب مکھر جی نے بھارتی پارلیمنٹ کے مشترکہ
سیشن سے خطاب میں بھی سرجیکل سٹرائیکس کا دفاع کیا۔ بھارتی صدر نے تسلیم
کیا کہ بھارت نے جنگ بندی لائن پر 29ستمبر2016سے کئی سرجیکل سٹرائیکس کیں۔
لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان سرجیکل سٹرائیکس میں آزاد کشمیر اور
پاکستان کے کم ازکم 48معصوم شہری شہید اور لا تعدادبچے اور خواتین معذور ہو
گئے۔ بھارتی صدر نے ان معصوم شہریوں پر اپنی فوج کی جارحیت کا دفاع کیا۔ جب
کہ بھارتی آرمی چیف بپن راوت کہتے ہیں کہ پاکستان کی گولہ باری سے گلیشیئر
ٹوٹ گئے اور برفانی تودوں تل بھارتی فوج دب کر ہلاک ہو گئے اور خطے میں
گلوبل وارمنگ بھی تیز ہوئی۔ وہ یہ سچ نہیں بول سکتے کہ بھارت نے جنگ بندی
لائن اور دیگر علاقوں میں نئے مورچہ اور کیمپ قائم کر لیئے ہیں۔ ان کی
کھدائی کے دوران ہی لینڈ سلائیڈنگ اور گلیشیئرز کے ٹوٹنے کی فضا پیدا کی
گئی۔ لیکن الزام پاکستان پر لگا دینا بھارت کا معمول بن چکا ہے۔
پاکستان جذبہ خیر سگالی کے تحت بھارت کو اس کے یوم جمہوریہ اور یوم آزادی
پر پھول اور مٹھائیاں پیش کرتا ہے۔ بھارت اس کے جواب میں گولہ باری سے
معصوم شہریوں کی لاشوں کے تحفے دیتا ہے۔ بھارتی فوجی چیف سے لے کر صدر
مملکت، وزیر دفاع سے وزیراعظم تک سبھی پاکستان کے خلاف الزامات عائد کرنے
میں دیر نہیں لگاتے۔ پاکستان نے جو بھی اعتماد سازی کے اقدامات کئے۔ انہیں
بھارت مسلسل نظر انداز کر رہا ہے۔ بھارت کے دباؤ اور اور اثر میں امریکہ نے
پروفیسر حافظ محمد سعید کو نشانے پر رکھ لیا ۔ حافظ سعید اور جماعت الدعوۃ
اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے دیگرچار عہدیداروں کو پنجاب حکومت کی وزارت
داخلہ کے حکم پر 90یوم کے لئے نظر بند کیا گیا ہے۔صوبائی حکومت نے وفاقی
وزارت داخلہ کی ہدایت پر کارروائی کی ہے۔ پاکستان نے بھی امریکی خوشنودی کے
لئے دھمکیوں کے بعد عمل در آمد سے پروفیسر صاحب کو نظر بند کرنے کا اعلان
کر دیا۔ ان پر 2008میں ممبئی حملے کا الزام ہے۔ اس حملے میں 6امریکی شہریوں
سمیت166افراد ہلاک ہوئے۔ امریکہ نے اس کے بعد حافظ سعید کی گرفتاری میں مدد
دینے پر ایک کروڑ ڈالر انعام کا اعلان کیا۔حافظ سعید اس سے پہلے بھی گھر پر
نظر بند رکھے گئے۔ اس کے خلاف جماعت الدعوۃ نے عدالت میں کیس کیا۔ عدالت نے
ناکافی شواہد پر نظربندی ختم کر دی اور انہیں رہا کرنے کا حکم دیا۔ اگر
حافظ سعید کی نظر بندی ایک پالیسی فیصلے کے تحت ہوئی اور اس میں ریاست کا
قومی مفاد ہے ، تو اس بارے میں عدالت سے رجوع کرنا زیادہ بہتر ہے۔ ماورائے
عدالت کوئی بھی گرفتاری یا کسی قسم کی سزا غیر قانونی ہو گی۔ اگر حکومت کسی
شہری پر عائد کسی الزام کے بعد کیس عدالت میں دائر کرتی ہو تو وہ عدالت کو
اس کے ثبوت بھی فراہم کرے یا اگر امریکہ اور بھارت کوئی ٹھوس شواہد پیش
کرتے ہیں تو بھی عدالت ہی کوئی حتمی فیصلہ کرنے کی مجاذ ہے۔ قانون نافذ
کرنے والے ادارے قابل قدر ہیں لیکن وہ عدل و انصاف کے سلسلے میں از خود
کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔بھارت اور امریکہ کا کام ہی الزامات عائد کرنااور
پاکستان کو بدنام کرنا ہے۔ پاکستان جو مرضی کرلے، امریکہ اور بھارت مزید
کارروائی کا مطالبہ کریں گے۔وہ پھول اور مٹھائیاں پیش کرنے کیجواب میں بم
اور گولے برسا کر ہمارے شہریوں کی لاشوں کے تحفے پیش دیتے رہیں گے۔ |