یوپی الیکشن :وزارتِ عالیہ کی کرسی کا حق دارکون

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سعیدالرحمٰن عزیز
آنے والے اْترپردیش الیکشن میں وزیراعلٰی کے عْہدے پر جو چہرے منظرِعام پر آئے ہیں وہ وہی گھِسے پِٹے ہیں جو ہم بچپن سے دیکھتے آرہے ہیں اور سب پارٹیوں نے وزارتِ عالیہ پر قدم رکھ کر اپنی کارکردگی دکھا چکے ہیں اور ہم سب دیکھ چْکے، وہی پْرانے پْرانے لْبھانے کے لئے وعدے، پیسوں کی لالچ، شراب کی درآمدگی، مہنگائی کی روک تھام کی لالچ، نئی سڑکیں بنانے کا وعدہ، سرکاری اسکولوں کی مرمّت، وغیرہ وغیرہ۔آنے والے الیکشن میں بی۔جے۔پی کو وزارتِ عالیہ کے طور پر دیکھنا اپنے آپ کے لیے گناہ سمجھیں۔ڈائریکٹ ووٹ دینا تو دور کی بات نظر میں یہ بھی رکھیں کہ ہم جس پارٹی کو ووٹ دے رہے ہیں کہیں اْس سے ووٹ کا بٹوارہ نہ ہوجائے اور اِن ڈائریکٹ بی۔جے۔پی کو فائدہ پہونچے، یہ مْدّا بھی ذہن نشین کرلیں کہ مسلمانوں کی چھوٹی پارٹیوں کو ووٹ دینا بی۔جے۔پی کو فائدہ پہونچانا ہوا کیونکہ مسلم کی چھوٹی پارٹیاں مسلمانوں کے ووٹ کو بکھیر کر ہندو کے ووٹ کو یَکجْٹ کردینگی اور فائدہ نہ یادو سرکار کو ہوگا نہ کانگریس کو اور نہ ہی بہوجن کو ہوگا بلکہ صرف اور صرف بی۔جے۔پی کو فائدہ ہوگا.سماج وادی پارٹی بنام یادو سرکار جو اپنے عہد کے 5 سالوں میں مسلمانوں کی نظروں سے مکمل گر چکی ہے۔مظفر نگر اور دادری جیسے کانڈوں کے لیئے اور مسلم کْشی میں اسپیشلسٹ ثابت ہوچکی ہے، یادوں سرکار کو بے۔جے۔پی کی دست راست کہنا بھی غلط نہ ہوگا، اور ابھی کانگریس بھی یادوں سرکار کی آغوش میں آچکی ہے کیونکہ کانگریس نے اپنے کئی سالہ عہدِ اقتدار میں اپنی نااہلی ثابت کرچکی ہے، کانگریس اپنی منافقانہ رویہ سے عام ہوچکی تھی اْس کے دَور میں بے شمار بم دھماکے ہوئے، دنگے فساد کی کوئی انتہا نہیں،بے قصور مسلمانوں سے جلیوں کو بھر دیا گیا، کانگریس کے اوّل دورِ اقتدار میں جلیوں میں پھنسے نوجوان بْڑھاپے کی عمر میں بے جْرم ثابت ہوکر نکل رہے ہیں جن پر کوئی کیس اور ثبوت نہ ملنے پر انھیں قید بامشقت سے آزادی مل رہی ہے،مسلمانوں کی نسل کْشی میں سب سے آگے کانگریس ہی رہی ہے ہمیشہ۔اقتدار میں رہتے ہوئے بھی کسی قسم کا مثبت اقدام نہیں کیا نہ بم بلاسٹ کے لئے، نہ دنگا فساد کے لئے، نہ بے قصور مسلمانوں کی حفاظت کے لئے، اتنا ہی نہیں کانگریس اپنے دورِ اقتدار میں ترقیات سے بھی پیچھے رہی، اِن تمام وجوہات کی بنا پر کانگریس نسل کْش اور منافق ثابت ہوئی ہے۔اب رہی صرف ایک پارٹی جو وزیرِ اعلیٰ کی امّید وار ہے وہ ہے بَسپا سے مایاوتی،اِن کی بھی کوئی بہت اچھی کارکردگی نہیں ہے یہ پارٹی بھی وعدہ خلاف ثابت ہوئی ہے اْس کے شواہد میرے پاس موجود ہیں۔لیکن! بہ نسبت دوسری پارٹیوں کے یہ کچھ قابلِ اعتمادہے اور اگر وسعتِ نظری سے دیکھا جائے تو وزارتِ عالیہ پر پہونچنے کے لئے اِسی پارٹی کا سپورٹ کرنا بہتر ثابت ہوگا،بہوجن سماج پارٹی نے 97 کنڈیڈیٹ مسلم کو اپنی پارٹی میں جگہ دی ہے جس کی کْل امّید وار کی تعداد 210 ہے،یہ اصول بھی درست ہے کہ انفرادی مسائل سے کہیں بہتر ہے کہ اجتماعی مسائل کو دیکھا جائے، اور بہتر پارٹی کی حکمرانی اجتماعیت کو فائدہ پہنچاتی ہے۔مجلس اتحاد المسلمین وزارت تک نہیں پہونچ سکتی کیونکہ اْس نے صرف 35 کنڈیڈیٹ کھڑا کیئے ہیں یہ 30 جنوری کی رپورٹ ہے وزارتِ عالیہ کی شکل میں مایاوتی کو دیکھنے اور اْسے کامیاب بنانے کے لیئے اْس نے خود کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ کی شکل میں مایاوتی کو دیکھنا چاہتا ہوں۔کیونکہ ریاست کی کرسی کے قابل بی۔جے۔پی،سماج وادی پارٹی اور کانگریس نہیں ہیں، رہی ایک ہی پارٹی وہ ہے بسپا یعنی بہوجن سماج پارٹی، ریاستی لحاظ سے دیکھا جائے تو مایاوتی سے بہتر کوئی نہیں،یہ مجلس کا یوپی میں پہلا الیکشن ہوگا اگر 35 سیٹوں میں سے 20 سے زیادہ سیٹ نکالتی ہے تو اگلے 2021ء میں آنے والے الیکشن میں وہ پورے یوپی سے لڑ سکتی ہے اْس وقت جب ساری سیٹوں سے مجلس کنڈیڈیٹ کھڑا کرے گی تو ہم سب اْس کا سپورٹ کھْل کر کرینگے، ابھی ہمیں ریاست کو دیکھنا ہے اگر مایاوتی کا سپورٹ نہ کیا گیا تو اکھلیش اور بی۔جے۔پی آجائیں گے اور اْسے روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔پھر 5 سال مظفرنگر، دادری، بابری کرتے رہ جائیں گے۔
Shuaiburrahman Aziz
About the Author: Shuaiburrahman Aziz Read More Articles by Shuaiburrahman Aziz: 14 Articles with 22134 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.