بسم اﷲ الرحمن الرحیم
امریکہ کی طرف سے جماعۃالدعوۃ کیخلاف کاروائی کے دھمکی آمیز مطالبہ کے اگلے
دن ہی حافظ محمد سعید سمیت چار دیگر رہنماؤں کو نظربند کر دیا گیا ہے۔وزارت
داخلہ نے جماعۃالدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو واچ لسٹ شیڈول ٹو میں
شامل کیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 2010ء میں
تنظیم پر پابندی عائد کی تھی لہٰذا جو اقدامات پہلے نہیں کر سکے تھے وہ اب
کئے جارہے ہیں۔ حافظ محمد سعید کی نظربندی اور ان کی رہائش گاہ کو سب جیل
قرار دینے کی خبر بین الاقوامی میڈیانے بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کی جبکہ
بھارتی میڈیا میں تو جشن کا سماں دکھائی دیا۔ ٹی وی چینلز کے نیوز کاسٹر،
اینکر اور تبصرہ نگا ر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ نو منتخب امریکی
صدر کی مودی سے ٹیلیفونک گفتگوکے دوران طے کی گئی باتوں اور الیکشن مہم کے
دوران ٹرمپ کی بھارت کو کروائی گئی یقین دہانیوں پر عمل درآمد کا آغاز ہو
گیا ہے۔ حافظ محمد سعید اور دیگر رہنماؤں کی نظربندی سے اب تک بھارتی میڈیا
میں یہ خبر سب سے بڑی بریکنگ نیوز کے طور پرنشر کی جارہی ہے۔ ہندوستانی
اخبارات بھرے پڑے ہیں اور ہندو انتہاپسند تنظیموں کے لیڈر خوش ہیں کہ ٹرمپ
نے آتے ہی پاکستان پر دباؤ ڈال کر انڈیا کے مطالبہ کو حکومت پاکستان سے
تسلیم کروا لیا ہے۔پاکستانی حکام شاید سمجھتے ہوں کہ جماعۃالدعوۃ کے
رہنماؤں کیخلاف کاروائی ان کے کریڈٹ میں جارہی ہے تو حقیقت میں ایسا نہیں
ہے۔مودی اور ٹرمپ کی یاری کے نتیجہ میں اس قدر جلد دباؤ کا شکار ہوجانے سے
ان کی اپنی حیثیت اور پوزیشن بہت کمزور ہوئی ہے۔اس وقت ہر کسی کی زبان پر
ایک ہی بات ہے کہ سابق حکمرانوں کو ایک ٹیلیفون کال پر ڈھیر ہونے کا طعنہ
دینے والے تو بغیر کسی ایسی کال کے ہی ڈھیر ہو گئے ہیں اور ایسے اقدامات
اٹھانے کا آغاز کر دیا گیا ہے جن کی کسی صورت توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔
دنیا حیران ہے کہ وزیر اعظم نوازشریف اور ان کی کابینہ کو اچانک کیا ہو گیا
ہے؟۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں کی طرف سے یہ کہنا کہ اقوام متحدہ کی
لسٹنگ کے بعد کچھ اقدامات کرناہوتے ہیں اسلئے جو کام ہم نے پہلے نہیں کئے
تھے حکومت اب وہ کر رہی ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ یہ انتہائی بودی دلیل ہے۔
2008ء میں ممبئی حملوں کے بعد سلامتی کونسل کی 1267کمیٹی نے جو قرارداد پاس
کی اس کے مطابق یہ اعلان کیا گیا تھا کہ تنظیم کے رہنما بین الاقوامی سفر
نہیں کر سکتے۔ ان کے اثاثے منجمندہوں گے اور ان کے نام پر اسلحہ لائسنس
وغیرہ نہیں بن سکتے۔اگرچہ میں اسے درست نہیں سمجھتا اور اسے کھلم کھلا
پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور پاکستان کی سالمیت و خودمختاری
پر حملہ ہی کہا جاسکتا ہے تاہم اس کے باوجود میرا موقف ہے کہ یہ پابندیاں
تو پہلے سے ہی موجود ہیں اور ان پر اسی وقت سے عمل درآمد کیا جارہا
ہے۔وزارت خارجہ اگر بھارتی پروپیگنڈا کا شکار امریکیوں کو یہ بات نہیں
سمجھا سکی کہ سلامتی کونسل کی طرف سے جو اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیاگیا
تھا ہم تو پہلے سے ہی اس پر عمل درآمد کر رہے ہیں تو یہ اس کی اپنی نااہلی
ہے۔انہیں اپنی ناکامیوں کا ملبہ دوسروں پر نہیں ڈالنا چاہیے۔یہ سب فضول
باتیں ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ سفارتی محاذ پر پاکستان صحیح معنوں میں انڈیا
کا مقابلہ نہیں کر پا رہا۔انڈیا غاصب اور جارح ہونے کے باوجود کشمیریوں کی
جدوجہد آزادی کیخلاف دنیا بھر میں جھوٹا پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ اس کے سب
سفارت خانے اور سفارتی مشن اسی کا م پر لگے ہوئے ہیں۔ وہ غلط پروپیگنڈا
کرکے امریکہ کے ذریعہ پاکستان پر دباؤ بڑھاتا ہے اوریہ محب وطن شخصیات اور
تنظیموں کیخلاف اقدامات اٹھانے کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں۔ اب بھی وہی
پرانی مشق دہرائی گئی ہے۔ جماعۃالدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید نے حریت
رہنماؤں کے ہمراہ جس دن اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے 2017ء کو
کشمیر کا سال قرار دیا اور کہاتھا کہ ہم کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیلئے
کراچی سے پشاورتک جلسے، کانفرنسیں ،کشمیرکارواں و ریلیوں کا انعقاد کریں گے
اور یہ کہ کشمیری الحاق پاکستان کی بات کرتے ہوئے گلی کوچوں میں پاکستانی
پرچم لہرا رہے ہیں تو ہم بھی جماعتی تشخص سے بالاتر ہو کر تمام جماعتوں کو
ساتھ ملا کر ملک کے کونے کونے میں جائیں گے اور مظلوم کشمیری بھائیوں سے
یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے صرف پاکستانی پرچم لہرائیں گے‘ اسی دن سے توقع
کی جارہی تھی کہ بھارتی میڈیا نے جماعۃالدعوۃ کے اس اعلان پر جس طرح شور
شرابا اور واویلا شروع کر رکھا ہے حکومت بھارتی و امریکی دباؤ کا شکار ہو
کرانہیں مطمئن کرنے کیلئے کچھ نہ کچھ ضرور کرے گی اور پھر یہی ہوا اسلام
آباد میں ایک بڑی قومی مجلس مشاورت ہوئی جس میں ملک بھر کی سیاسی، مذہبی و
کشمیری جماعتوں کی قیادت موجود تھی۔ سب کی طرف سے متفقہ طور پر ایک مضبوط
پیغام جانے سے کشمیریوں کے حوصلے بلند ہوئے اور انڈیا کا ظالمانہ چہر ہ
دنیا پر بے نقاب ہوا۔ اسی طرح چند دوسرے شہروں میں ضلعی سطح پر آل پارٹیز
کانفرنسوں کا انعقاد کیا گیا‘ جلسے اور کانفرنسیں ہوئیں۔ابھی عشرہ کشمیر چل
رہا ہے۔ یکم سے پانچ فروری تک طلباء، وکلاء، علماء، کسانوں ، اساتذہ اور
سول سوسائٹی سمیت دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے الگ سے
پروگرام ترتیب دیے گئے ہیں ۔خاص طور پر پانچ فروری کو پورے ملک میں بڑے
کشمیر کارواں، جلسوں اور یلیوں کا انعقاد ہوناہے‘ غرضیکہ چاروں صوبوں و
آزاد کشمیر میں جدوجہد آزادی کشمیر کے حوالہ سے ایک زبردست تحرک دیکھنے میں
آرہا ہے تو یہ چیز بھارت کو کیسے برداشت ہو سکتی تھی لہٰذا مودی نے ٹرمپ کی
منت سماجت کی اور پھر واشنگٹن نے پاکستان سے فوری طور پر جماعۃالدعوۃ، فلاح
انسانیت فاؤنڈیشن اور اس کی قیادت کیخلاف کاروائی کا مطالبہ کر دیا۔ہم دیکھ
رہے ہیں کہ یہ ٹرائی اینگل کئی برسوں سے اسی طرح چلتا آرہا ہے۔امریکی دھمکی
پر جس جماعۃالدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کیخلاف اقدامات اٹھائے جارہے
ہیں بھارت وامریکہ اسے اپنے مذموم منصوبوں کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ سمجھتے
ہیں۔ فلاح انسانیت اور جماعۃالدعوۃ نے تھرپارکر سندھ اور بلوچستان کے دور
دراز علاقوں میں جہاں علیحدگی کی تحریکیں تھیں وہاں سالانہ کروڑوں روپے خرچ
کر کے ہزاروں واٹر پروجیکٹس مکمل کئے ہیں۔ سولر انرجی کے منصوبوں سے پہلی
مرتبہ ہے کہ تھرپارکر کے کچھ علاقوں میں گندم اور چاول کی فصل ہوئی ہے۔
ہزاروں ہندوؤں کی مدد سے ان کے دلوں میں پاکستان سے محبت کے جذبے پیدا ہوئے
اور انہوں نے مودی کی طرف سے ہندوستان آنے کی پیشکش کو جوتے کی نوک پر
رکھتے ہوئے ٹھکرا دیا۔ اسی طر ح بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں سے تعلق
رکھنے والے نوجوان بھی ایف آئی ایف اور جماعۃالدعوۃ کی رفاہی سرگرمیوں سے
متاثرہو کر قومی دھارے میں شامل ہو رہے ہیں اور بندوق چھوڑ کر نہ صرف یہ کہ
خدمت خلق کی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں بلکہ آواران، خضدار اور مشکے جیسے
ان علاقوں میں پاکستان زندہ باد ریلیاں نکالی جارہی ہیں جہاں ماضی میں اس
کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔میں سمجھتاہوں کہ یہ وطن عزیز پاکستان کے
دفاع کیلئے اتنا بڑا کردار ہے کہ جسے تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے
گا۔ مجھے یہاں مسلم لیگ کے سینئر لیڈر راجہ ظفر الحق کی بات یاد آرہی ہے
انہوں نے کئی سال قبل اسلام آباد میں ڈاکٹرز کے ایک سیمینار کے دوران خطاب
کرتے ہوئے کہا تھا کہ جماعۃالدعوۃ اور فلاح انسانیت کی رفاہی سرگرمیوں سے
سندھ اور بلوچستان میں علیحدگی کی تحریکیں دم توڑ رہی ہیں۔ان کی یہ بات آج
بالکل درست ثابت ہوئی ہے۔ آج قوم پرست جماعتوں کے لیڈر حافظ محمد سعید کے
کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے دکھائی دیتے ہیں اور مظلوم کشمیریوں کی مدد
کیلئے ان کی ہر ممکن مددوحمایت کے اعلان کئے جارہے ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات
نہیں ہے۔ آج جماعۃالدعوۃ کی رفاہی سرگرمیوں سے سی پیک محفوظ ہوا ہے اور
انڈیا ان علاقوں میں اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود اپنے مذموم منصوبے
پروان چڑھانے میں کامیاب نہیں ہو پارہا۔ حافظ محمد سعید کو جب اپنی اوردیگر
ساتھیوں پروفیسر ظفر اقبال، عبداﷲ عبید، عبدالرحمن عابد اور قاضی کاشف
نیازکی نظربندی کے آرڈر موصول ہوئے تو ان کا کہنا تھاکہ یہ صرف ہماری
نظربندی کا ہی آرڈر نہیں بلکہ کشمیر کی جدوجہد آزادی کو سبوتاژ کرنے کی بین
الاقوامی سازشوں کا حصہ ہے تاہم بھارت و امریکہ اگر سمجھتے ہیں کہ
نظربندیوں اور پابندیوں سے مسئلہ کشمیر پس پشت ڈالا جاسکتا ہے تو ایسا ممکن
نہیں ہے۔ میرا جرم یہ ہے کہ ہم کشمیر کیلئے کھڑے ہیں۔ میں پاکستانی حکام کو
چیلنج کرتا ہوں کہ وہ ملک میں جماعۃالدعوۃ کے کسی کارکن کیخلاف ایک ایف آئی
آر بھی نہیں دکھا سکتے۔ ہم ملک کی سالمیت وخودمختاری کا تحفظ کرنے والے لوگ
ہیں۔میں کشمیری بھائیوں کو حوصلہ دیتا ہوں کہ ہماری جدوجہد ایک ہے۔یہ تحریک
اب دبے گی نہیں اور زیادہ پروان چڑھے گی۔حافظ محمد سعید نے جماعۃ الدعوۃ کے
کارکنان کوخاص طور پر تلقین کرتے ہوئے کہاکہ وہ صبر و استقامت سے کام لیں
اور اپنے مشن کو جاری رکھیں۔میں کارکنوں،جماعتوں اور قوم کو پیغام دیتا ہوں
کہ 5فروری کو ہر حال میں پچھلے برسوں سے بڑھ کر قومی یکجہتی کے ساتھ
کشمیریوں سے اظہاریکجہتی کیا جائے۔ان کی یہ مختصر گفتگو بہت ایمان افروز
تھی۔ میں سمجھتاہوں کہ جماعۃالدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی ریلیف
سرگرمیوں پر اگر کوئی زد پڑتی ہے تو اس سے تھرپارکر سندھ و بلوچستان کے پسے
ہوئے طبقات، دور دراز علاقوں میں جاری واٹر پروجیکٹس کی تکمیل، ہزاروں کی
تعداد میں وہ ہندو جن کی امداد کی جاتی ہے، ہسپتال، ڈسپنسریاں، ایمبولینسوں
کو وسیع نیٹ ورک، بیوگان، یتامیٰ، کشمیری مہاجرین اور تعلیم و صحت کے
منصوبہ جات کو نقصان پہنچے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی حکام اپنے
دوستوں و دشمنوں میں فرق کریں ، بیرونی سازشوں کو سمجھیں اور قومی سلامتی
واستحکام کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسیاں ترتیب دیں۔لاہور ہائی کورٹ اور
سپریم کورٹ نے پہلے بھی جماعۃالدعوۃ کے حق میں فیصلے دیے اب بھی عدالتوں سے
انہیں ان شاء اﷲ انصاف ملے گا۔ |