کراچی میں مصطفی کمال اور پاک سرزمین پارٹی کا کامیاب پاور شو اور ایک سوال !
(Fareed Ashraf Ghazi, Karachi)
سید مصطفی کمال کے نام سے کون واقف نہیں،وہ
پہلے کیا تھے اورآج کیا ہیں، اب یہ باتیں پاکستان کا ہر باشندہ جانتا ہے ۔گزشتہ
ایک ماہ سے جس بات کا بہت چرچہ تھا وہ 29 جنوری 2017 کو مصطفی کمال کی جانب
سے اپنی نئی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی کے پلیٹ فارم سے کراچی میں تبت
سینٹر پر واقع ایم اے جناح روڈ کی شاہراہ پر جلسہ عام کے انععقاد کا اعلان
تھا جسے نہ صرف کراچی کی سیاست بلکہ پورے پاکستان کی سیاست کے حوالے سے
نہایت اہم سمجھا جارہا تھا کہ پاک سرزمین پارٹی اپنا یہ پاور شو صرف کراچی
والوں کے مسائل کو حل کرنے اور ان کو قانونی و آئینی حقوق دلوانے کے لیئے
نہیں بلکہ پاکستان بھر میں بسنے والے کروڑوں محب وطن عوام کو جگانے کے لیئے
منعقد کرنے جارہی تھی جس پر نہ صرف کراچی میں سیاست کرنے والی سیاسی
جماعتوں بلکہ ملک گیر سطح پر سیاست کرنے والی بڑی سیاسی پارٹیوں کی نظریں
بھی لگی ہوئی تھیں جس کی وجہ یہ تھی کہ کراچی جسے منی پاکستان اور روشنیو ں
کا شہر کہا جاتا ہے ملکی سیاست میں نہایت اہمیت کا حامل ہے اور یہاں کی
سیاست سے منہ موڑ کر یا کراچی کو نظر انداز کرکے کوئی بھی چھوٹی یا بڑی
سیاسی جماعت زیادہ دیر تک اقتدار پر فائز نہیں رہ سکتی کہ کراچی کا ماضی اس
بات کا گواہ ہے کہ یہ شہر شروع سے ہی سیاستدانوں اور حکمرانوں کے سروں پر
تاج سجانے اوران کے سروں کے تاج اتارنے میں کلیدی کردار ادا کرتا چلا آرہا
ہے۔
ایم کیو ایم اور الطاف حسین کا گڑھ کہلائے جانے والے کراچی میں 29 جنوری
2017 کو مصطفی کمال اور پاک سرزمین پارٹی نے نہ صرف ایک کامیاب پاور شو کا
انعقاد کیا بلکہ اس جلسہ عام میں الطاف حسین اور ایم کیو ایم پرپی ایس پی
کی قیادت کی جانب سے جس طرح کھل کر تنقید کی گئی وہ اس سے قبل کراچی میں
جلسہ عام کرنے والا کوئی دوسرا سیاست دان گزشتہ ایک سال کے دوران نہیں
کرسکا ۔جلسے کے اس پہلو سے جہاں پاک سرزمین کے سربراہ مصطفی کمال کی بے
خوفی ،بے باکی ،دلیری اور شعلہ بیانی کا اظہار ہوتا ہے وہیں اس جلسہ عام
میں کراچی کے اردوبولنے والوں کے ساتھ مختلف قومیتوں کے افراد کی ہزاروں کی
تعداد میں شرکت سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ کراچی کے باشندے اب خوف
ودہشت اور بدامنی و بدحالی کو جنم دینے والی لسانی سیاسی جماعتوں سے تنگ
آچکے ہیں جس کی وجہ سے انہوں نے مصطفی کمال اور پاک سرزمین پارٹی کا ساتھ
دینے کا فیصلہ کرکے سب کو بتا دیا ہے کراچی بدل رہا ہے اور پاکستان کی
معاشی شہ رگ سمجھے جانے والے اس شہر میں لسانیت کی سیاست اب آخری سانسیں لے
رہی ہے اور وہ دن دور نہیں جب کراچی کے باشندے لسانی سیاست کے جنازے کو
ہمیشہ کے لیئے دفن کرکے قومی دھارے میں شامل ہوکر کراچی اورحیدرآباد سمیت
پورے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
مصطفی کمال کے پاور شو میں کتنے آدمی تھے اس حوالے سے متضاد دعوے کیئے
جارہے ہیں کوئی اسے لاکھوں کا مجمع قرار دے رہا ہے اورکسی کے خیال میں یہ
چند ہزار افراد کا اجتماع تھا لیکن ایک بات کافی خوش آئند نظر آئی کہ بیشتر
میڈیا رپورٹ ،سیاسی مبصرین اور اخبارات نے افراد کی تعداد کا ذکر کیئے بغیر
کراچی میں 29 جنوری کو ہونے والے پاک سرزمین پارٹی کے اس جلسہ عام کو مصطفی
کمال کا کامیاب پاور شو قرارد یا ہے لیکن کچھ روائتی سیاسی مخالفین نے اس
کامیاب پاور شو کو بھی ہمیشہ کی طرح ایک ’’ جلسی ‘‘ قرا ردیا ہے لیکن اس
حلقے کی رائے کومصطفی کمال کے جلسے میں عوام کی بڑی تعداد میں شرکت اور
جلسے میں کی گئی پاکستانیت کے اظہار پر مبنی بہت سی مثبت باتوں کی وجہ سے
کسی بھی جانب سے اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا ۔
پاک سرزمین پارٹی کے اس کامیاب جلسہ عام میں مصطفی کمال ،انیس قائم خانی
،رضا ہاروں ،افتخار رندھاوا ،انیس ایڈوکیٹ،ڈاکٹر صغیر ،وسیم آفتاب اور دیگر
رہنماؤں نے اپنی تقریروں میں جو باتیں کیں، ان میں سے بیشتر باتوں کا تعلق
براہ راست کراچی کے باشندوں کو درپیش مسائل اور مشکلات سے تھا اس لیئے ان
باتوں کو بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی جبکہ کچھ باتیں پورے پاکستان کی
سیاست کے حوالے سے بھی بہت مثبت انداز میں کی گئیں جن کا اثر یقینا ہر
پاکستانی کے دل پر ہوا ہوگا کہ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں اور کراچی وہ امانت
ہے جو پاکستان کی ترقی کی ضمانت ہے کے مصداق پاک سرزمین پارٹی کے اس جلسہ
عام نے مجموعی طور پر بہت اچھا تاثر چھوڑا ہے ۔اس پاور شو میں سب سے زیادہ
اہم اور مثبت باتیں پاک سرزمین پارٹی کے چئیرمین مصطفی کمال نے کیں ،انہوں
نے اپنی طویل تقریر میں کراچی کے باشندوں کے مسائل اور ان کے حل کے لیئے
کھل کر بات کرتے ہوئے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ کراچی کی سٹی گورنمنٹ کو
مالی اختیارات دیئے جائیں تاکہ وہ کراچی کے شہریوں کو درپیش فوری مسائل کو
حل کرکے کراچی کو کچرے کے ڈھیر،ٹوٹی ہوئی سڑکوں اور ناکارہ سیوریج سسٹم سے
نجات دلا سکیں۔مصطفی کمال نے حکومت وقت سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ کراچی میں
بن قاسم اور کینپ کے مقام پر لگائے جانے والے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں
میں سے کراچی کے باشندوں کو بھی کم سے کم 20 فیصد حصہ دیا جائے جو کہ کراچی
والوں کا جائز حق ہے کہ کراچی سندھ اورپاکستان کو سب سے زیادہ ٹیکس ادا
کرنے والا شہر ہے اور یہاں ملک کے ہر حصے سے تعلق رکھنے والے لوگ رہائش
پذیر ہیں لہذا اس شہر کا حصہ بھی ہر منصوبے میں سب سے زیادہ ہونا
چاہیئے۔انہوں نے اپنے پر اثر اور پرجوش خطاب میں وزیراعظم پاکستان ،صدر
پاکستان اور سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ 30 دن کے اندر کراچی اور
حیدرآباد سمیت پورے ملک کے عوام کو گلی محلوں میں درپیش بلدیاتی مسائل کو
حل کریں ورنہ آئندہ و ہ جلسہ نہیں کریں گے بلکہ اپنے لائمہ عمل کا اعلان
کریں گے،دوسرے لفظوں میں مصطفی کمال نے وفاقی اور صوبائی حکومت کوعوامی
مسائل کے حل کے لیئے 30 دن کا الٹی میٹم دیا ہے ۔ مصطفی کمال نے حکمرانوں
کے علاوہ پاکستان کے موجودہ آرمی چیف سے بھی مطالبہ کیا کہ کراچی اور
حیدرآباد کے لوگوں کو بھی پاکستان کے دیگر صوبوں میں بسنے والے باشندوں کی
طرح محب وطن سمجھا جائے اور ملک کے دیگر حصوں کی طرح کراچی میں 4 کیڈٹ کالج
اور حیدرآباد میں 2 کیڈٹ کالج کھولے جائیں تاکہ اردو بولنے والے نوجوانوں
کو بھی پاکستان کی فوج میں اپنے ملک اور قوم کی ترقی ،استحکام اور حفاظت کے
لیئے کام کرنے کے مواقع حاصل ہوسکیں۔مصطفی کمال نے اپنے اس تاریخ خطاب کے
آخر میں پارٹی کے ایک اور سرگرم رہنما رضا ہارون کو اسٹیج پر بلا کر انہیں
قوم کے سامنے ’’قرارداد کراچی ‘ ‘ کے نام سے پاک سرزمین پارٹی کی جانب سے 8
نکاتی مطالبات پیش کرنے کو کہاجنہوں نے بڑی وضاحت کے ساتھ یہ تمام مطالبات
پڑھ کر حاضرین جلسہ کو سنائے جس کے بعد مصطفی کمال اور رضا ہارون کی جانب
سے پیش کیئے گئے ن مطالبات کی تائیداور منظوری جلسے میں موجود شرکا ء نے
ہاتھ اٹھا کر اورتالیاں بجا کردی کہ یہ سب مطالبات وہ ہیں جو نہ صرف کراچی
کے ہر باشندے بلکہ ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہیں۔
مصطفی کمال نے کہا کہ کراچی کے اردو بولنے والوں کا مینڈیٹ حاصل کرنے والوں
نے اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات ،عہدوں اورمراعات کے عوض بھارتی ایجنسی ’’
را‘‘ کے ہاتھوں کراچی والوں کامینڈیٹ کئی بار اس بنیاد پر بیچا کہ کراچی
صرف الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو ماننے والوں کا شہر ہے اور اگر ہماری
کرپشن ،دہشت گردی یا مجرمانہ سرگرمیوں کو روکا گیا تو ہم اس مینڈیٹ کے زور
پر کراچی کوبند کرکے ملکی معیشت کو نقصان پہنچاتے رہیں گے یعنی کراچی والوں
کے دیئے گئے مینڈیٹ کے بل بوتے پر حکومتوں کو بلیک میل کرکے حکومتی عہدے
اورمراعات حاصل کی جاتی رہیں لیکن اب وقت بدل چکا ہے کراچی والوں نے آج پاک
سرزمین پارٹی کے اس جلسے میں بھرپور شرکت کرکے لسانی سیاست کرنے والوں سے
بیزاری کااظہار کردیا ہے اور یہ بحث بھی ختم کردی ہے کہ کراچی کس کا ہے ؟
کراچی اب الطاف حسین یا ایم کیو ایم کا نہیں بلکہ ان کے ساتھ ہے جو پاکستا
ن کے پرچم کو تھام کر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کراچی کی سیاست میں ایک
نئی پہچان کے ساتھ کراچی سمیت پورے پاکستان کے عوام کو ان کے حقوق دلوانے
کے لیئے کام کرنے آئے ہیں۔ مصطفی کمال نے یہ بھی کہا کہ میں یہ چاہتا ہوں
کہ اردوبولنے والوں یعنی مہاجروں کے ساتھ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کا
ٹیگ نہ لگایا جائے کہ ایم کیوایم اورالطاف حسین کے نام کو کسی بھی صورت میں
زندہ رکھنے والے ہی مہاجروں کے سب سے بڑے دشمن ہیں اگر اردوبولنے والوں نے
اپنی شناخت کے ساتھ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کا لگا ہوا ٹیگ نہ ہٹایا تو
ہمارے ساتھ ہماری آنے والی نسلیں بھی ’’ را‘‘ کے ایجنٹ کے طور پر پہچانی
جائیں گی اور جب بھی اردو بولنے والے مہاجروں کا ذکر کیا جائے گا تو اس کے
ساتھ ہی الطاف حسین اور ایم کیو ایم کا مجرمانہ اور دہشت گردانہ کردار کا
تذکرہ بھی کیا جائے گا جو کراچی اور حیدرآباد میں بسنے والے کروڑوں اردو
بولنے مہاجروں کے ساتھ ظلم ہے ۔ہم نے پاک سرزمین پارٹی قائم ہی اس لیئے کی
ہے کہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مہاجروں یعنی اردوبولنے والوں کو بھی
دیگر قومیتوں کی طرح سچا محب وطن پاکستانی سمجھا جائے انہیں بھی پاکستانی
فوج کا حصہ بنایا جائے اور ہمارے اردو بولنے والے نوجوان بھی اس ملک وقوم
کی ترقی او ر استحکام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکیں۔
مذکورہ بالا تما م مثبت اور دلوں پر اثر کرنے والی اچھی اور سچی باتیں کرنے
کے ساتھ مصطفی کمال نے اس شاندار جلسہ عام میں خطاب کرتے ہوئے ایک بات ایسی
بھی کہی ہے جسے اگر ان کی جانب سے نہ کہا جاتا تو یہ خود ان کے لیئے اور ان
کی قائم کردہ نئی سیاسی جماعت ’’پاک سرزمین پارٹی ‘‘ کے مستقبل کے لیئے بہت
اچھا ہوتا کہ 29 جنوری کے جلسہ عام میں پاکستانی جھنڈوں کی بہارکے ساتھ
پاکستانیت اور حب الوطنی کے مظاہرے سمیت کراچی ،حیدرآباد اور پاکستان کے
عوام کے دلوں کو چھو لینے والی متعدد پر اثر باتوں نے جو زبردست پیغام
پاکستانی عوام اور مقتدر حلقوں تک پہنچایا تھا اس کا اثر مستقبل میں پاک
سرزمین پارٹی کے لیئے نہایت مفید ثابت ہوتا لیکن نہ جانے کس مصلحت کے تحت
مصطفی کمال نے اس اہم ترین جلسہ عام میں ملک کے برسراقتدار حلقوں اور فوج
سے مطالبہ کر ڈالا کہ:’’ کراچی اور حیدرآباد کی جیلوں میں قید سنگین جرائم
میں ملوث بدنام زمانہ ٹارگٹ کلرز،دہشت گرد اور بھتہ خوروں کو بھی بلوچستان
کے جرائم پیشہ افراد کی طرح کوئی پیکچ دے کر جیلوں سے رہا کردیا جائے کہ یہ
لوگ پیدائشی طور پر مجرم نہیں تھے انہیں مجرم بنادیا گیاان کو مجرم بنانے
والا الطاف حسین تھا جس کی نفرت اور لسانیت پر مبنی سیاست کو آج ہم نے دفن
کردیا ہے لہذا میں چاہتا ہوں کہ جیلوں میں برسوں سے قیدان افراد کو رہا
کیاجائے تاکہ یہ لوگ اپنے جرائم سے توبہ کرکے اور تائب ہوکر معاشرے میں ایک
اچھے پاکستانی کی طرح زندگی گزارسکیں‘‘۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس اہم ترین جلسہ عام کے موقع پر مصطفی کمال
نے کس مصلحت یا ضرورت کے تحت یہ غیر ضروری مطالبہ کرتے ہوئے 12 مئی کے
بدترین قتل عام اور بلدیہ فیکٹری جیسی انسانیت سوزسفاکانہ کاروائی میں ملوث
قاتلوں اوردہشت گردوں کے سفاکانہ کردار کو فراموش کربیٹھے ۔ ایک دن میں55
انسان کو قتل کردینا یا سیکڑوں انسانوں کو آگ لگا کر زندہ جلادینا کوئی
معمولی بات نہیں ہے کہ جسے کسی بھی سیاسی مصلحت یا ضرورت کے تحت نظرانداز
کردیا جائے جبکہ اس طرح کے سنگین جرائم میں ملوث ہونے والا کوئی بھی شخص
اخلاقی ،شرعی ،قانونی اور آئینی طور پر ذرا سی بھی ہمدردی اورحمایت کا
مستحق نہیں بلکہ سخت ترین سزا کا حقدار ہے ۔ اس جلسہ عام سے قبل بھی مصطفی
کمال اپنے کئی ٹی وی انٹرویوز میں بہت کھل کر حماد صدیقی کی حمایت کرتے رہے
ہیں جن کا نام نہ صرف بلدیہ فیکٹری کے حوالے سے شامل تفتیش ہے بلکہ اس
سانحے میں ملوث پائے جانے والے کئی دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز نے اپنی
متعدد جے آئی ٹیز میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بلدیہ فیکٹری کے انسانیت
سوز واقعے سمیت قتل وغارت گری کے دیگر کئی معاملات میں حماد صدیقی ہی انہیں
ہدایات جاری کرتا تھا۔اس طرح کے متنازعہ بیانات جاری کرکے مصطفی کمال اپنے
اور اپنی پارٹی کے لیئے لوگوں کو تنقید کرنے کا موقع فراہم کررہے ہیں جس کا
سب سے بڑ ا ثبوت اس جلسے کے اختتام کے فورا ً بعد مختلف ٹی وی چینلز پر
ہونے والے ٹاک شوز ہیں جن میں مصطفی کمال کی جانب سے حالیہ جلسے میں دہشت
گردانہ کاروائیوں میں ملوث اور مطلوب نوجوانوں کی حمایت میں دیئے جانے والے
بیان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔
12 مئی ،بلدیہ فیکٹری اور سٹی کورٹ میں وکیلوں کو زندہ جلائے جانے جیسے
سفاکانہ اور افسوسناک واقعات کراچی کے ماتھے پر بدنما داغ کی مانند ہیں اور
ان جرائم میں ملوث ہر شخص قابل نفرت اور سزا کا مستحق ہے لہذا ان سنگین قسم
کے جرائم میں مبینہ طور پر ملوث پائے جانے والے کسی بھی شامل تفتیش شخص کی
کھل کر حمایت کرنا نہ صرف پاک سرزمین پارٹی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور
کامیابی کو منزل پر پہنچنے سے پہلے زمین بوس کرسکتی ہے بلکہ جرائم پیشہ
افراد کے حق میں یا ان کی ہمدردی میں دیئے جانے والے یہ غیر ضروری قسم کے
بیانات خود مصطفی کمال کی ذات پر بھی انگلیاں اٹھانے کا جواز مہیا کردیں گے
کہ آخر مصطفی کمال ان جرائم پیشہ افرار کی حمایت کرکے کیا سیاسی فوائد حاصل
کرنا چاہتے ہیں؟ لہذا مصطفی کمال کو اپنی اور اپنی پارٹی کی مقبولیت
اورساکھ کو برقرار رکھنے کے لیئے حماد صدیقی اور جیلوں میں قید دیگر دہشت
گردوں،قاتلوں اورجرائم پیشہ افراد کی حمایت سے دستبردار ی کا راستہ اختیار
کرنا ہوگا ورنہ یہ کراچی ہے جہاں سیاسی مسابقت اور مقابلے کی فضا پاکستان
کے دیگر شہروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے یہاں سیاست کرنے والوں میں
الطاف حسین اور ان کی ایم کیوایم لندن ،فاروق ستار کی ایم کیو ایم پاکستان
،عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف ،پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر کئی
چھوٹی بڑی سیاس اور مذہبی جماعتیں کراچی کے ووٹرز کی ہمدردیاں سمیٹ کر
انتخابی میدان میں کامیابی کے لیئے کوشاں ہیں اور کوئی بھی ایک غلط فیصلہ
مصطفی کمال اور پاک سرزمین پارٹی کی تیز رفتار مقبولیت اور سیاست کو پٹری
سے اتارکر پھینک سکتا ہے لہذا سوچنے ،فیصلہ کرنے اور فیصلے کا اعلان کرنے
سے قبل کسی بھی بات کے نتائج پرنظر رکھ کر بات کرنے کی ضرورت ہے ۔زیادہ
اچھی بات یہ ہوتی کہ پاک سرزمین کی قیادت کی جانب سے یہ کہا جاتا کہ مبینہ
طور پر سنگین جرائم میں ملوث حماد صدیقی سمیت کراچی اور حیدرآبادکے جیلوں
میں قید افراد پر عدالتوں میں جلد از جلد مقدمات چلا کرشہادتوں اور دلائل
کی روشنی میں بحث کی جائے اور اگر ان پر جرم ثابت ہوجائے تو ان کو ملکی
آئین اور قانون کے مطابق سزائیں دی جائیں اور اگر ان پر جرائم میں ملوث
ہونا ثابت نہ ہوسکے تو ان کو باعزت رہا کردیا جائے تاکہ وہ بھی معاشرے کا
ایک اچھا انسان بن کر اپنی بقیہ زندگی اپنی فیملی کے ساتھ ایک عام پاکستانی
کی طرح گزارسکیں۔
مصطفی کمال کی صورت میں کراچی والوں کو بہت طویل عرصے کے بعد ایک سچااور
اچھا محب وطن بہادر سیاسی رہنما نصیب ہوا ہے جسے یہاں کے باشندے کھونا نہیں
چاہتے جبکہ پاکستانیت کے جذبے سے سرشار پاک سرزمین پارٹی بھی بہت تیزی کے
ساتھ پورے پاکستان کے عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنارہی ہے لہذا اگر کسی
جانب سے مصطفی کمال کی ذات یا پاک سرزمین پارٹی پر مثبت تنقید کی جائے تو
اسے خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کے ساتھ مستقبل میں ایسی باتوں سے اجتباب
کیا جانا چاہیئے جن کی وجہ سے کراچی کے شہریوں کے لیئے امید کی کرن بن کر
ابھرنے والے مصطفی کمال اور پاک سرزمین پارٹی کی نیک نامی پر اثرپڑے ااور
لوگ انہیں بھی کراچی میں مصروف عمل دیگر مفاد پرست اور مصلحت پرست سیاسی
لیڈروں اور جماعتوں کی طرح نظر انداز کرنے پر مجبور ہوجائیں ۔خدا نہ کرے کہ
ایساہو لیکن اگر ایسا ہوا تو یہ کراچی والوں کی امنگوں کا خون ہوگا جس کا
سارا گناہ ان سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے نامہ اعمال میں لکھا جائے
گا جو بڑی بڑی اور اچھی اچھی باتیں تو کرتے ہیں لیکن جب اﷲ تعالیٰ ان کی
محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے اور وہ سیاست کے میدان میں کامیاب
ہوجاتے ہیں تو اسی روائتی مصلحت آمیز اور مفاد پرستانہ سیاست کا شکار
ہوجاتے ہیں جس کی مخالفت کرتے ہوئے وہ میدان سیاست
میں ایک نئی پہچان اور امید کی نئی کرن کے طور پرزور وشور کے ساتھ قدم
رکھتے ہیں ۔اﷲ تعالی مصطفی کمال اور پاک سرزمین پارٹی کی قیادت کو اس دورخی
اور منافقانہ سیاست سے باز رکھے کہ لوگ ان سے بہت زیادہ امیدیں لگابیٹھے
ہیں۔ |
|