عشق رسول ﷺ ’’ جان ایمان ہے‘‘
(Peer Muhammad Tabasum Bashir Owaisi, Narowal)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
حضور نبی کریم ، رؤف الرحیم ،محبوب رب العٰلمین ،شفیع المذنبین ،باعث کون و
مکان ،احمد مجتبیٰ ،محمد مصطفےٰ ﷺ کی ذات با برکات از روئے شریعت اور از
روئے عقل دونوں جہتوں سے قابل محبت ہے ۔جس مسلمان کے دل میں ذرہ بھر بھی
ایمان ہے ۔اسے علم ہے کہ آپ ﷺ ہی لائق محبت ہستی ہیں بلکہ ایمان ہی حضور ﷺ
کی محبت کے طفیل ملا ہے ۔
محمد (ﷺ)کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے
اگر چہ آپ ﷺ کی سیرت و صورت پاک اور اخلاق کریمہ پر قرآن ،کتب احادیث و کتب
سیرت طیبہ گواہ ہیں جس ذات پاک ﷺ کی تعریف خود رب جلیل کرے۔ تمام انبیائے
کرام جس ذات اقدس کی آمد کی خوشخبری سنائیں بلکہ آپ ﷺ کے اُمتی ہونے کی
آرزو کریں ۔ تمام صحابہ رضی اﷲ عنہم ،تابعین ،تبع تابعین جس ذات والا شان
کی مدح سرائی کریں تمام آئمہ ،مجتہدین اولیائے اُمت جس ذات با برکات کی نعت
خوانی کریں ۔بھلا مجھ جیسا انسان اس ذات اقدس کی شان میں کیا کہہ اور لکھ
سکتا ہے ۔
لیکن صرف اس اُمید سے کہ میں آپ ﷺ کے ثناخوانوں میں شمار ہو جاؤ ں اور یہی
میرا ذریعہ نجات ہو ۔
محبت از روئے شریعت:از روئے شریعت آپ ﷺ سے محبت دلائل قطعی سے ثابت ہے ۔جس
طرح آفتاب آسمان پر چمکتا ہے اور اہل بصارت کو انکار کی گنجائش نہیں ہوتی
بالکل اسی طرح آپ ﷺ کی محبت قرآن و حدیث کے ایسے مضبوط دلائل سے ثابت ہے کہ
جس سے اہل بصارت و بصیرت کو انکار کی گنجائش نہیں ۔ہاں بے بصارت بے بصیرت
اگر انکار کرے تو یہ اسکی اپنی کمزوری ،جہالت اور بد نصیبی ہے ۔جس بندہ کو
حضور ﷺ سے محبت نہیں ۔خدا کی قسم! اﷲ تبارک و تعالیٰ بھی اس سے محبت نہیں
فرماتا ۔اﷲ تعالیٰ اپنے کلا م پاک قرآن مجید فرقان حمید میں فرماتا ہے :قل
ان کان ابائکم وابنائکم و اخوانکم و ازواجکم وعشیرتکم و اموال ن قترفتموھا
وتجارہ تخشون کسادھا و مسٰکن ترضو نھا احب الیکم من اللّٰہ ورسولہ وجھادفی
سبیلہ فتربصو حتیٰ یاتی اللّٰہ بامرہ ط واللّٰہ لا یھدی القوم الفٰسقین
۔’’آپ ﷺفرما دیجئے !اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور
تمہاری بیویاں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے
نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان ۔یہ چیزیں اﷲ اور اسکے رسول
ﷺ اور اسکی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں ۔تو پھر انتظار کرو اس وقت کا
جب اﷲ تعالیٰ اپنا حکم (عذاب) نازل کرے بیشک اﷲ ایسے سرکشوں کو ہدایت نہیں
دیتا۔‘‘(التوبہ آیت24)
دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :’’قل ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی یحببکم
اللّٰہ و یغفرلکم ذنوبکم ۔
’’فرما دیجئے!اگر تم لوگ اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری تابعداری کرو ۔اﷲ
تعالیٰ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دیگا۔‘‘
سبحان اﷲ !غور کا مقام ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی محبت اور گناہوں کی مغفرت
کو اپنے حبیب ﷺ کی اتباع سے مشروط کر دیا ہے اور اتباع اس وقت تک ہو ہی
نہیں سکتی جب تک حضور ﷺ سے کامل محبت نہ کی جائے ۔حضور اکرم ﷺ سے شرعاً
محبت کرنے پر بکثرت دلائل موجود ہیں جن سے سیرت پاک ﷺ کی کتب بھری پڑی ہیں
۔
محبت از روئے عقل: بلا شبہ انسان کی طبیعت میں پیدائشی طور پر یہ بات رکھی
گئی ہے کہ وہ صاحب حسن جمال سے یا اپنے محسن سے محبت و چاہت رکھے الغرض کہ
محبت کا سبب حسن ہو یا احسان یہ تمام اسباب سید السادات ،منبع فیوض و برکات
ﷺ میں ثابت و موجود ہیں اور حضور ﷺ ان تمام معانی کے جامع ہیں جو موجب محبت
ہیں ۔
آپ ﷺ کا حسن و جمال بصورت ظاہر :حضرت جابر بن سمرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ایک
حدیث شریف میں آپ کے حسن کے متعلق ہے :
عن جابر ابن سمرۃ قال رأیت رسول ﷺ فی لیلۃ اضحیان وعلیہ حلۃ حمراء فجعلت
انظر الیہ والی القمر فھو عندی احسن من القمر۔’’حضرت جابر ابن سمرہ رضی اﷲ
عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے روشن ترین راتوں میں سے ایک رات
حضور ﷺ کو سرخ جوڑا زیب تن فرمائے دیکھا تو کبھی حضور ﷺ سراپا حسن و جمال
کو دیکھتا اور کبھی چاند کی طرف پس میرے نزدیک حضور پاک ﷺ چاند سے زیادہ
خوبصورت تھے ۔(شمائل ترمذی شریف)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کا وجود
مبارک اتنا حسین تھا جیسا کہ چاندی سے ڈھالاگیا ہو ۔‘‘(شمائل ترمذی شریف)
حضور ﷺ کے بال مبارک کنڈل دار (خمیدہ) تھے ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ کے
ارشاد کی روشنی میں حضور ﷺ چاندی کے زیور کی طرح پیدا کئے گئے تھے ۔یہ
تشبیہ حضور ﷺ کے جسم مبارک کی نرمی ملائمت اور چمک کی وجہ سے ہے ۔نہ خالص
سفیدی کی وجہ سے ۔اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضور ﷺ کے تمام اعضاء
مضبوط اور متناسب تھے ۔چہرۂ اقدس اور وجود مقدس کی نورانیت اپنی پوری شان
کیساتھ جلوہ گر تھی ۔
ابو اسحٰق نے کہا !ایک شخص نے برا بن عاذب رضی اﷲ عنہ سے دریافت کیا کہ
حضور ﷺ کا رخ انور تلوار کی طرح تھا انہوں نے کہا نہیں بلکہ چاند کی طر ح
تھا ۔
’’امیر المومنین جناب علی ابن ابی طالب کرم اﷲ وجہہ الکریم نے فرمایا ۔حضور
ﷺ نہ دراز قد تھے اور نہ پست قد ۔آپ ﷺ کے ہاتھ کی ہتھیلیوں اور پاؤں کے
تلوے پر گوشت تھا ۔سر اقدس موزوں بڑا تھا ۔جوڑوں کی ہڈیاں ڈلدار تھیں ۔سینہ
مبارک سے لیکر ناف تک ایک لمبی لکیر تھی ۔جب آپ ﷺ چلتے تھے تو بلا رکاوٹ
آگے کو جھکے ہوئے چلتے تھے ۔گویا نشیب کی طرف قدم اٹھارہے ہیں ۔میں نے آپ ﷺ
سے پہلے اور آپ کے بعد آپ ﷺ کی مثل حسن و خوبی میں کسی ایک کو نہیں دیکھا
۔(شمائل ترمذی شریف)
حضرت امام حسن ابن امیر المؤمنین علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ
میں نے اپنے ماموں ہند ابن ابی ہالہ سے پوچھا (کیونکہ)وہ حضور سید دو عالم
ﷺ کا بہت ہی زیادہ حلیہ مبارک بیان فرمایا کرتے تھے اور مجھے بڑا شوق تھا
کہ وہ میرے لئے سرکار دو عالم ﷺ کا حلیہ مبارک بیان کریں تاکہ میں اسکے
ساتھ تعلق پیدا کروں پس انہوں نے فرمایا کہ حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ نفس نفیس
عظیم و بزر گ تھے اور دوسروں کی نظروں میں بھی بڑے معظم و محترم تھے ۔چہرہ
انور چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا تھا ۔آپ ﷺ درمیانہ قد سے ذرا بڑے
تھے اور لمبے تڑنگے قد سے چھوٹے تھے ۔آپ ﷺ کا سر اقدس موزوں بھاری تھا ۔آپ
ﷺ کے بال مبارک کنڈل دار تھے ۔اگر سر اقدس کے بالوں کی مانگ نکل آتی تو
رہنے دیتے ورنہ نہیں ۔آپ ﷺ کے سر اقدس کے بال مبارک جب لمبے ہوتے تھے تو
کانوں کی لو سے ذرا نیچے ہوتے تھے ۔آپ ﷺ کا رنگ مبارک انتہائی سفید اور
چمکدار تھا ۔آپ ﷺ کشادہ پیشانی والے تھے ۔آپ ﷺ کے ابرو کمان کی طرح خمیدہ
اور انتہائی باریک تھے جو کہ پورے ایک دوسرے سے ملے ہوئے نہ تھے ۔دونوں
ابروؤں کے درمیان رگ تھی جو کہ جلال کے وقت اُبھر آتی تھی ۔آپ ﷺ کی ناک
مبارک اونچی تھی جس سے نور پھوٹ پھوٹ پڑتا تھا ۔جو شخص غور سے دیکھتا وہ آپ
ﷺ کو بلند بینی والا خیال کرتا(حالانکہ ایسا نہ تھا ) آپ ﷺ کی داڑی مبارک
گھنی تھی ۔آپ ﷺ کے رخسار مبارک ہموار تھے ۔آپ ﷺ کشادہ دہن تھے ۔آپ ﷺ کے
سامنے والے دانتوں میں کشادگی تھی ۔آپ ﷺ کے سینہ مبارک سے ناف تک بالوں کی
باریک لکیر تھی ۔آپ ﷺ کی گردن مبارک نہایت ہی خوبصورت اور چمکدار تھی جو کہ
چاندی کی طرح صاف تھی ۔ آپ ﷺ کے وجود مبارک کا ہر عضو انتہائی متناسب تھا
۔آپ ﷺ کے اعضاء ایک دوسرے کو مضبوط پکڑے ہوئے تھے یہ نہیں کہ ڈھیلے اور
لٹکے ہوئے تھے ۔آپ ﷺ کا پیٹ اور سینہ بالکل برابرتھا ۔سینہ مبارک کشادہ تھا
۔آپ ﷺ کے دونوں شانوں کے درمیان مناسب فاصلہ تھا ۔آپ کے ہڈیوں کے جوڑ مضبوط
تھے ۔آپ ﷺ کا جسم اطہر نور علی نورتھا ۔ آپ ﷺ کے حلقوم سے لے کر ناف تک
بالوں کی ایک لکیر تھی ۔دونوں بازوؤں مونڈھوں اور سینہ اقدس کے اُوپر کے
حصہ پر بال تھے ۔آپ ﷺ کی کلائیاں لمبی تھیں ۔ آپ ﷺ کی ہتھیلیاں اور پاؤں کے
تلوے پر گوشت تھا ۔آپ ﷺ کی انگلیاں خوبصورت لمبی تھیں ۔پاؤں کے تلوے گہرے
تھے ۔
آپ ﷺ کے قدم مبارک ہموار تھے ۔جب ان پر پانی ڈالا جاتا تو بہہ جاتا ۔آپ ﷺ
مضبوط قدم اُٹھاتے اور آہستہ آہستہ چلتے ۔آپ تیز رفتار بھی تھے ۔جب چلتے تو
یوں معلوم ہوتا کہ بلندی سے پستی کی طرف جارہے ہیں ۔جب آپ ﷺ کسی کی طرف
توجہ فرماتے تو پوری توجہ فرماتے ۔آپ ﷺ نیچی نظر سے دیکھتے تھے ۔آپ ﷺ کی
نظر اکثر زمین کی طرف ہوتی ۔کبھی کبھی آسمان کی طرف بھی دیکھتے ۔آپ ﷺ اپنے
صحابہ کرام کو چلتے وقت اپنے سے آگے کر دیتے تھے ۔آپ ﷺ جس سے بھی ملتے سلام
میں پہل فرماتے ۔حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ۔
واحسن منک لم تر قط عینی
واجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبرء من کل عیب
کانک قد خلقت کما تشاء
’’یا رسول اﷲ !(ﷺ)میں نے آپ ﷺ سے زیادہ حسین ہر گز کسی کو نہیں دیکھا (اور
حقیقت یہ ہے کہ ) آپ سے زیادہ خوبصورت کسی عورت نے جنا ہی نہیں ۔یا رسول اﷲ
!(ﷺ) آ پ ﷺ کو اﷲ تعالیٰ نے ہر عیب سے پاک پیدا فرمایا ہے اور آپ ﷺ کو ایسے
پیدا فرمایا گیا کہ جیسے آپ نے خود چاہا ہو ۔‘‘(ترجمہ حدیث نمبر7شمائل
ترمذی)
آپ ﷺ کے چہرہ مبارک ،چشم مبارک ،گوشہ ہائے مبارک ،جبین مبارک، بھنویں
مبارک، دہن مبارک ،لعاب دہن مبارک ،تبسم مبارک ، موئے مبارک، داڑھی مبارک
،گردن مبارک ،منکبین مبارک ،سینہ اقدس مبارک، قلب اطہر ،بغل شریف پشت مبارک
و مہر نبوت ،دست ہائے مبارک، قدم مبارک ،پنڈلیاں ،قامت زیبا ،رنگ مبارک ،
رفتار مبارک ،پسینہ و فضلات مبارک، خوشبوئے بدن مبارک ،بول مبارک کے بیان
سے قرآ ن کے اوراق ،کتب حدیث اور سیرت مبارکہ کی لاتعداد کتب بھری پڑی
ہیں۔اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مجدد دین و ملت پاسبان ناموس رسالت مولانا شاہ
احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :
لم یات نظیرک فی نظر
مثل تو نہ شد پیدا جانا
’’یا رسول اﷲ ﷺ آپ کی طرح صاحب حسن و جمال ۔جامع الصفات و الکمالات ذات
کبھی آنکھوں نے نہ دیکھی اور نہ آپ کی طرح آپ کی مثل کوئی پیدا ہوا ہے نہ
پیدا ہو گا۔‘‘ آگے فرماتے ہیں :ایک اور شاعر فرماتے ہیں:
میں وہ شاعر نہیں جو چاند کہہ دوں روئے انور کو
میں ان کے ناخن پا پر قمر قربان کرتا ہوں
اب ایک سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ آپ ﷺ تو اب اس جہان رنگ و بو میں
تشریف فرما نہیں بلکہ اپنی قبر انور میں تشریف فرما ہیں تو کیونکر آپ ﷺ کے
مثل حسن کا دیدار کیا جا سکتا ہے؟
اسکے متعلق عرض ہے کہ آپ ﷺ سے محبت کے جملہ احکامات ،نتائج و ثمرات قیامت
تک کے لئے ہیں لہٰذا جو بھی مسلمان بہ اعتبار عشق و محبت اپنے تمام افعال و
کردار مشروعہ اپنے مال و جان و اولاد کا حضور ﷺ کو مختار مانے اسے حضور ﷺ
کا دیدار خواب میں نصیب ہو جاتا ہے ۔
حضرت جابر رضی اﷲ عنہ کی روایت میں ہے : ’’جس نے مجھے خواب میں دیکھا
۔یقینا اسنے مجھے ہی دیکھا۔‘‘
مطلب یہ کہ اگر حق تعالیٰ نے شیطان کو قدرت دی ہے کہ خوبصورتی چاہے اختیار
کرے لیکن اسے حضور ﷺ کی صورت مبارکہ میں آنے کی قدرت نہیں دی گئی ۔اس لئے
کہ حضور ﷺ مظہر ہدایت ہیں اور شیطان مظہر ضلالت و گمراہی اور ہدایت و ضلالت
ایک دوسرے کی ضدیں ہیں جن کا باہم ملنا محال ہے اور مسلم شریف کی حدیث ہے
:’’جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو وہ بہت جلد مجھے بیداری میں دیکھے گا۔‘‘
حالت بیداری میں آپ ﷺ کی رویت کا وقوع اولیائے کرام کی خبروں سے حد تواتر
تک ثابت ہو چکا ہے جس سے ایسا قوی علم حاصل ہو جاتا ہے جس سے کسی قسم کا شک
و شبہ باقی نہیں رہتا ۔یہاں ’’بھجۃ الاسرار‘‘جو کہ شیخ ابو الحسن علی بن
یوسف شافعی رحمۃ اﷲ علیہ کی تصنیف ہے ۔سے ایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے ۔آپ
شیخ جلیل القدر ابو العباس احمد بن شیخ عبداﷲ ازہری حسینی رحمۃ اﷲ علیہ سے
روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ میں حضور سیدنا محی الدین شیخ عبد
القادر جیلانی رضی اﷲ عنہ کی مجلس شریف میں حاضر ہوا ۔اس وقت آپ کی مجلس
مبارک میں دس ہزار لوگ بیٹھے ہوئے تھے اور شیخ علی ابن ہیتی غوث الاعظم کے
بالکل سامنے تھے ۔اس لئے کہ ان کے بیٹھنے کی جگہ مقرر تھی ۔انہیں غنود گی
نے آگھیرا ۔اس وقت حضور غوث الاعظم رضی اﷲ عنہ فرمایا :’’خاموش ہو جاؤ
۔چنانچہ تمام لوگ خاموش ہو گئے اور انکے سانسوں کی آواز کے کوئی دوسری آواز
سنائی نہ دیتی پھر حضور غوث الاعظم رضی اﷲ عنہ منبر شریف سے اترے اور حضرت
شیخ ہیتی رحمۃ اﷲ علیہ کے سامنے با ادب دست بستہ کھڑے ہو گئے اور خوب غور
سے انکی طرف دیکھنے لگے پھر جب شیخ علی نیند سے بیدا ر ہوئے فرمایا اے شیخ
کیا تم نے خواب میں حضور ﷺ کا دیدار کیا ہے وہ کہنے لگا ہاں ۔فرمایا میں
اسی وجہ سے ادب بجالایا تھا اور فرمایا :
’’حضور ﷺ نے تمہیں کیا نصیحت فرمائی ہے ۔انہوں نے کہامجھے آپ رضی اﷲ عنہ کی
خدمت میں حاضر رہنے کا حکم فرمایا ہے ۔اس وقت شیخ علی ہیتی رحمۃ اﷲ علیہ نے
لوگوں سے فرمایا :’’کہ میں نے جو کچھ خواب میں دیکھا حضور غوث الاعظم رضی
اﷲ عنہ نے اسے بیداری میں دیکھ لیا ۔اس روز اہل مجلس سے سات آدمی (خوف و
خشیت الہٰی ) سے فوت ہو ئے تھے ۔حضرت شیخ ابو العباس رحمۃ اﷲ علیہ سے مروی
ہے ۔آپ فرماتے ہیں :
’’کہ اگرمجھ سے ایک لمحہ کے لئے جمال جہاں آراء سید عالم ﷺ پوشیدہ ہو جائے
تو اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار نہ کروں۔‘‘
اﷲ تعالیٰ کے حضور بطفیل حضور نبی کریم ﷺ دعا ہے کہ ہمیں اپنے حبیب ﷺ سے
سچی محبت اور پھر بہ اعتبار محبت جملہ عقائد ۔اقوال و افعال میں حضور ﷺ کی
اتباع نصیب فرمائے ۔ |
|