سابق صدر و ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے
پاکستان میںاپنے دور حکومت میں جہاں کئی اہم کام کیئے جس سے پاکستان اور
عوام کیلئے نئی مثبت راہیں کھلیں وہیں میڈیا انڈسٹری کے فروغ اور ابلاغ
عامہ کی ترویج کیلئے کراں قدر خدمات پیش کیں ہیں ، پرنٹ میڈیا، الیکٹرونک
میڈیا، ریڈیو، ویب اخبارات و چینلز کی اجرا کیلئے ایک آزاد خود مختارادارے
کی بنیاد رکھی جو تمام میڈیا کوپاکستان میں قوائد و ضوابط اور اخلاقی اقدار
میں پابند رکھے اُس ادارے کو پیمرا کا نام دیایعنی پاکستان الیکٹرونک میڈیا
ریگولر اتھارٹی رکھا گیا ، پرویز مشرف کے دور اقتدار تک پیمرا ایک فحال
مضبوط اور با اختیار ادارے کے طور پر اپنی خدمات پیش کرتا تھا لیکن ان کے
دور کے بعد پرویز مشرف کی مثبت و اعلیٰ کاوشوں نے نام نہاد جمہوری حکومتوں
نے اپنا غلام بناکر پابند سلاسل کردیا، سابقہ آصف علی زرداری کی حکومت اور
موجودہ نواز شریف کی حکومت نے ریاست کے بہترین اداروں کو تباہ و برباد کرکے
رکھ دیا ، ان حکمرانوں نے اپنے ذہن کے مطابق اور خواہشات کی تکمیل کیلئے
میڈیا کو اپنے سیاسی ڈھال، سیاسی سائبان بنانے کیلئے کئی چینلز پر وار کیئے
ان چینلز میں اے آر وائی، جیو، ایکسپریس، ڈان، وقت، دنیا، سما ،نیوز
ون،ابتک، جاگ وغیرہ شامل تھے لیکن ان چینلز میں جیو نے پس پردہ سیاسی
مفادات حاصل کرنے کیلئے پارٹی میڈیا سیل بن کر صحافتی اقدار کو نقصان
پہنچایا۔۔۔!! معزز قائرین ! آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کی پیپر ز مارکیٹ پر
جیو/جنگ نے برسوں سے اپنی حکومت بنائی ہوئی ہے اور پیپرز کی قیمت یہ طے
کرتے ہیں یہ سلسلہ جنگ اخبار کی اشاعت کے کچھ ہی عرصہ بعد شروع ہوگیا تھا ،
قائرین یہ بھی جانتے ہیں کہ جنگ نے ہمیشہ حکومتی موقف کو اہمیت دی اور اسی
بنا کر جنگ اور اب جیو پی ٹی وی کے بعد سرکاری سمجھا جاتا ہے،جیو کو حکومتی
آشیر وار ملنے کے سبب تمام پاکستانی جانتے ہیں کہ جیو جو سی آئی اے کی
معاونت حاصل کرتا چلا آرہا ہے اسی سبب جیو پالیسی امریکن پالیسی نظر آتی
ہے، پاک فوج سمیت مذہبی معاملات میں بھی پاکستانی عوام نے جیو کا چہرہ
دیکھا ہے جبکہ دوسری جانب اے آر وائی نے ہمیشہ پاکستان ، پاکستانی اداروں
اورمسلک کے احترام کو ہمیشہ پاس رکھا، جیو کہتا ہے کہ جیو اور جینے دو جیو
کو کس نے مارا ہے یقیناً جیو کو جیو کی پالیسی ہی مار رہی ہے کیونکہ میر
شکیل الرحمٰن ،میر ابراہیم کے ذہن مادیت پرست اور دنیاپرست ہیں ، ان کے
نزدیک مذہب اور مذہبی روایات کی کوئی اہمیت نہیں ، ڈاکٹر عامر لیاقت وہ
اینکر ہیں جو مذہب اور دین سے لگاؤ رکھتے ہیں ان کی اپنی ذاتی کاوشوں کے
سبب جیو میں چند ایک مذہبی پروگرام چلا کرتے تھے ان کے جانے کے بعد ناظرین
خود جان سکتے ہیں ؟؟؟؟ جیو اور جنگ کو بنانے والوں کیساتھ کوئی خاطر خواں
ان کے حقوق کی پاسداری نہیں کی گئی اسی سبب آج جیو اور جنگ اپنے سینئرز
اور قابل ترین ماہرین سے محروم ہوگیا ہے، جیو /جنگ سمجھتا ہے کہ لندن کے
فیصلے انتہائی مناسب اور شفاف ہوتے ہیں تو شائد جیو /جنگ بھول گیا ہے کہ
یہی فرنگی تھے جنھوں نے برصغیر پاک و ہند میں سو سال کے قریب اس قوم کو
غلام بناکر رکھا ہوا تھا ان فرنگیوں کے فیصلے ہمیشہ اپنی ذات اور اپنے
مفادات تک محدود ہوتے ہیں حالیہ دنوں نے ایک پاکستانی سیاستدان کا بھی کیس
چلا تھا اور تمام ثبوت کے باوجود وہ کیس بغیر نتائج کے ختم کردیا گیا یہی
نہیں عمران فاروق قتل کا کیس بھی ابھی تک حل نہ کیا جاسکا آخر کیوں ۔۔۔!!!یقیناً
اس میں ایم سکس یعنی برطانوی خفیہ ایجنسی کے مفادات شامل ہیں ، برطانیہ کی
عدالتیں بھی شاہی خاندان اور ریاست کے تابع نظر آتی ہیں اسی سبب ان کے
فیصلوں میں انصاف و عدل نہیں ہوتا، میرے قائرین یہ بھی جانتے ہیں کہ شاہی
خاندان کی ایک شخصیت شہزادہ چارلس کی بیوی لیڈی ڈیانا کا قتل تھا یا حادثہ
آج تک اس معاملہ کو خفیہ رکھا گیا ہے کیونکہ حقائق اگر سامنے آجائیں تو
شاہی خاندان کے افراد کا منصوبہ سامنے آجائے گا ، بی بی سی اردو بھی معتبر
ادارہ نہیں ہے کیونکہ وہ برطانیہ کی حکومت کے تابع ہے اسی سبب اس نے جیو
اور اے آر وائی کی جنگ کو خوب ہوا دی۔!! معزز قائرین!جیو ٹیلی ویژن پر
چلنے والی خبروں کے مطابق اے آر وائی کی نشریات اس لیے بند کی جا رہی ہیں
کہ وہ برطانیہ میں جیو اور جنگ گروپ کے خلاف ایک مقدمہ ہار گیا ہے اور یہ
قدم اے آر وائی کے خلاف برطانوی ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد اٹھایا گیا ہے۔
دوسری جانب اے آر وائی نے ایک پریس ریلیز کے ذریعے وضاحت کی ہے کہ برطانیہ
میں دکھایا جانے والا اے آروائی کا مواد دبئی کی ایک کمپنی اے آر وائی
ڈیجیٹل ایف زیڈ ایل ایل سی کی ملکیت ہے جس نے اسے سیلز اور مارکیٹنگ کی ایک
فرم کو آوٹ سورس کیا تھا جو اس مواد کو دکھانے کی مکمل طور پر ذمہ دار
تھی،پریس ریلیز کے مطابق برطانیہ میں کیا گیا مقدمہ اسی آوٹ سورس کمپنی کے
خلاف تھا نہ کہ اے آر وائی پاکستان کے خلاف اور اس نے برطانوی عدالت کے
فیصلے کے بعد برطانیہ میں اپنے آپریشن بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔۔۔!! معزز
قائرین ! جیو اور جنگ کے مسلسل جھوٹ ، فراڈ اور غلط بیانی سے اچھی طرح واقف
ہیں کیونکہ جیو /جنگ ابتدائی دور سے جھوٹ کے سہارا لیئے آگے بڑھتے ہیں اور
بلیک میلنگ کے ماہر ہیں ، ان کی حالت تو یہ ہے کہ حکومتوں کو بلیک میلنگ
کرکے اپنے خذانے کو بھرتے تھکتے نہیں ، تہمت، الزام تراشی ان کاشیوہ بن چکی
ہے اے آر وائی کیساتھ تو ان کی خدائی بیر ہے اگر کسی بھی میڈیا پرسن یا
صحافی سے بات کی جائے تو وہ جیو /جنگ کے رویہ سے ناراض نظر آئے گاکیونکہ
صحافیوں اور میڈیاپرسن کے مطابق جیو /جنگ اپنے سوا کسی اور چینل کی کامیابی
و بلندی کو برداشت نہیں کرسکتا اس کی حالیہ مثال پورا پاکستان جانتا ہے کہ
شعیب شیخ سی ای او ایگزیٹ اور بول کے خلاف کس قدر زہر اگلا تھا اور حکومت
کو پریشر دیکر بول اور ایگزیٹ کی بندش کو قائم رکھا لیکن یہ شعیب شیخ کا ہی
حوصلہ تھا کہ اس نے اے آر وائی نیٹ ورک کے صدر و سی ای او سلمان اقبال کے
حوصلہ اور ہمت کو دیکھ کر فیصلہ کرلیا کہ وہ حکومت وقت اور جیو /جنگ یعنی
میر شکیل الرحمٰن سے ہرگز نہیں گھبرائے گا اور ہر سازش کا مقابلہ کریگا
اللہ نے شعیب شیخ کو کامیابی عطا کی اور بول اپنی پرواز پر اڑ گیا اور
میڈیا کی انڈسٹری میں اپنا خاص مقام بنالیا ہے ، اے آر وائی نیٹ ورک کے
صدر و سی ای او سلمان اقبال نے شعیب شیخ کو حوصلہ دیا تھا اور دیتے رہے گے،
سلمان اقبال کے مطابق پر پاکستانی سرمایہ کار کو حق حاصل ہے کہ وہ پاکستان
اور پاکستانی عوام کو اچھی انٹرٹنیمنٹ اور معلومات فراہم کرنے کیلئے چینل
لائے مگر ملکی اور مذہب کے خلاف کسی بھی ہرزہ سرائی کو برداشت نہیں کیا
جائے یہی وجہ ہے کہ جنگ /جیو کو اے آر وائی کسی طور ایک آنکھ نہیں بھاتا،
سینئرز صحافیوں سے بات کی تو انھوں نے یہی کہا کہ جیو /جنگ کو اپنی پالیسی
کو تبدیل کرنا ہوگا پاکستان کے مفادات اور مذہب اسلام کے احترام کو اپنی
پالیسی میں صف اول پر رکھنا ہوگا ، میڈیا میں اچھی کاوشیں پیش کرکے اپنا
مقام بنائے نہ کہ کسی چینل کے خلاف مسلسل ہرزہ سرائی نہ کرے اگر یہی سلسلہ
اور عادت جاری رہی تو میر شکیل الرحمٰن کے مشیر ان کی عزت کو برباد کرنے
کوئی کوئی کسر نہیں چھوڑیں گیں ۔!! میری دُعا ہے کہ پاکستان کے میڈیا کی
غلط فہمی دور ہوجائیں، آپس میں چپکلش کے بجائے بہتر پروگرام اور صحافتی
اقدار کو پاس رکھتے ہوئے سچائی، ایمانداری اور منصب کے کیساتھ انصاف کرتے
ہوئے امور کو با احسن خوبی سے سرنجام دیں، مالزمین کی تنخواہوں میں توازن
پیدا کرتے ہوئے کسی کو حد سے زیادہ اور کسی کو اس قدر کم کہ زندگی گزارنا
مشکل ہوجائے اس نظام کو ختم کرنے کی تقفیق عطا فرمائے اور انہیں تجربہ و
قابلیت کی بنیاد پر پروموشن دینے اور سالانہ رپورٹ مرتب کرکے بہترین
کارکردگی پر اسناد و انعامات دینے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم پاکستانی
میڈیا یہ کہنے پر فخر کرسکیں کہ پاکستانی میڈیا دنیا کی تمام میڈیا سےاعلیٰ
و معتبر ہے اللہ ہمیں ہدایت کی روشنی عطا فرمائے آمین ثما آمین ۔۔۔۔۔!!!
پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔۔!! ! |