وزیراعظم کیا واقعی! وطن واپسی پر چیف جسٹس مشرف کا استقبال کریں گے..؟

قوم خود فیصلہ کرے .....
اِسے موجودہ حالات میں آصف زرداری، یوسف رضا، پرویز مشرف یا کوئی جرنل چاہئے .....

واشنگٹن میں ایک پاکستانی نجی ٹی وی کے پروگرام ٹیلی تھون کے دوران ملک کے سابق صدر پرویز مشرف نے مختلف کالز سے گفتگو کرتے ہوئے متعدد بار برملا یہ کہا کہ میں وطن واپس جاکر انتخابات میں حصہ لوں گا اور اِس کے ساتھ ہی پرویز مشرف نے اُمید ظاہر کرتے ہوئے قوم کو یہ بھی واضح کیا کہ میں ماضی کے متعدد ساتھیوں سے اَب بھی رابطے میں ہوں اور توقع ہے کہ میرے یہ ساتھی آئندہ بھی میرا اُسی طرح سے ساتھ دیں گے جیسے یہ ماضی میں دیا کرتے تھے ہاں البتہ اُنہوں نے موجودہ حکمرانوں کو اپنے مخصوص لب و لہجہ میں تنبیہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وہ ملک میں آنے والے اپنی تاریخ کے انتہائی تباہ کن سیلاب سے مصیبت میں گھری عوام کی مدد کے لئے اپنی ذمہ داری پوری طرح سے انجام دیں ورنہ اِس کے انتہائی بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔

یہاں مجھ سمیت بہت سے پاکستانیوں کا یہ خیال ہے کہ یہ اِن کی ملک اور قوم کے ساتھ حب الوطنی کا جذبہ ہی تو ہے کہ یہ سات سمندر پار رہ کر بھی ملک اور قوم کے لئے اپنے سینے میں تڑپ رکھے ہوئے ہیں اور اپنے وطن واپس آکر آئندہ ملک میں ہونے والے انتخابات میں حصہ لے کر ملک اور قوم کی خدمت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں یوں اِن کے اِسی جذبہ حب الوطنی سے شائد خائف ہوکر ہمارے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اِس کا جواب گزشتہ دنوں میڈیا سے بلاتکلف گفتگو کرتے ہوئے کچھ یوں دیا ہے کہ پرویز مشرف پر کئی مقدمات ہیں وہ جب بھی وطن واپس آئے چیف جسٹس اِن کا ”استقبال “کریں گے۔ مگر وزیر اعظم نے یہ واضح نہیں کیا کہ پرویز مشرف کا استقبال چیف جسٹس ہی کیوں کریں گے....؟؟ صدر زرادی یا وزیراعظم آپ کیوں نہیں کریں گے....؟اِس موقع پر قوم یہ سمجھتی ہے کہ پرویز مشرف بے گناہ ہیں اور اِن پر کوئی ایک مقدمہ بھی درج کہیں درج نہیں ہے تو پھر چیف جسٹس اِن کا استقبال کیوں کریں گے....اور کن معنوں میں وہ کریں گے....؟؟ اور اِس سے قبل وہ کتنی شخصیات کا استقبال کرچکے ہیں جو وہ اَب مسٹر پرویز مشرف کا استقبال کریں گے ...؟؟اور ہاں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی قوم آج آپ سمیت آپ کی حکومت سے بھی یہ سوال کرتی ہے کہ اگر پرویز مشرف پر کئی مقدمات ہیں....؟؟؟ تو جناب وزیراعظم صاحب! مشرف اپنا اقتدار چھوڑنے کے ڈیڑھ دو ماہ تک تو ملک ہی میں رہے اُنہیں آپ اور آپ کی حکومت نے گرفتار کرنے کے بجائے ملک کے ایک بڑے اعزاز گارڈ آف آرنر سے نوازنے کے بعد اِنہیں ملک سے کیوں رخصت کیا تھا....؟؟؟اِس کا جواب کیا آپ یا آپ کی حکومت کے اراکین میں سے کوئی دے سکتا ہے کہ آپ نے اور آپ کی حکومت نے اُس وقت ایسا کیوں کیا...؟اور اَب آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں کہ مشرف کی وطن واپسی پر چیف جسٹس اُن کا استقبال کریں گے.....؟؟؟؟؟اور اِس کے ساتھ ہی قوم اِس مخمصے میں مبتلا ہے کہ معاف کیجئے گا!جناب اعلی ٰ!جب ایسا ممکن ہوگیا تو پھر جو لوگ مشرف کا استقبال کریں گے وہی آپ کو الوداع بھی کہہ سکتے ہیں یہ بھی تو ذرا سوچ لیں........!!

بہرحال! ہماری ملکی تاریخ میں سابق صدر پرویز مشرف ایک ایسے صدر گزرے ہیں جن کے ملک اور قوم کے لئے کئے گئے سوائے چند ایک غیر ضروری اقدامات کے حوالے سے اِنہیں ساری پاکستانی قوم ایک آمر حکمران کی حیثیت سے جانتی ہے مگر دوسری طرف شائد وہ یہ بھی بھول چکی ہے کہ اِن کے زیادہ تر کام ملک اور ملت کے لئے بہتر( بلکہ میں تو یہاں یہ کہوں گا کہ بہت ہی بہتر) رہے ہیں جن کی تفصیل میں یہاں جانے کی کوئی اتنی خاص ضرورت نہیں ...کیونکہ ملک کے اندر اور بیرون ملک بھی یہ تو سب ہی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ پرویز مشرف کے کونسے کارنامے ملک اور قوم کے مفادات بھی تھے اور اِن کے کئے گئے وہ کون سے چند ایک کارنامے ایسے تھے کہ جنہیں قوم کسی کے ورغلانے میں برا تصور کئے بیٹھی ہے میں سمجھتا ہوں کہ پرویز مشرف کے وہ کام جنہیں پاکستانی قوم آج بھی بُرا سمجھتی ہے شائد وہ کارنامے بھی خالصتاََ وطن عزیز پاکستان اور اِس کے عوام کے لئے کارآمد ہیں سوائے اِس کے کہ پرویز مشرف نے اپنے نو سالہ دورِ اقتدار میں امریکیوں کے دباؤ میں آکر سانحہ لال مسجد کو جنم دیا اور پھر اِسی طرح اِنہوں نے قوم کی ایک عظیم بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پکڑا کر امریکیوں کے حوالے جس طرح سے کیا اِن کا یہ گھناؤنا کارنامہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا اور یوں اِن کے اِن اعمالوں نے ہی اِن کے ملک اور قوم کے لئے کئے گئے اور دوسرے سارے اچھے کارناموں پر پانی پھیر کر رکھ دیا ہے اور قوم نے اِسی وجہ سے اِن سے شدید نفرت کا اظہار کرنا شروع کردیا یوں ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور لال مسجد پر شب ِخون مارے جانے کے حوالوں سے قوم کا اِن سے شدید نفرت کا اظہار آج بھی شدت سے محسوس کیا جاسکتا ہے کیونکہ پرویز مشرف آج تک اپنے اوپر لگنے والے اِن الزامات کا عوامی فورم پر کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے ہیں اور یہ عوام کے سامنے یہ بھی واضح نہیں کرسکے ہیں کے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے میں اِن کا کتنا عمل دخل رہا تھا ....؟؟ اگر یہ اپنی صفائی میں پہلے ہی کچھ کہے دیتے تو ممکن تھا کہ عوام میں آج ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور لال مسجد کے حوالوں سے اِن سے متعلق جو غلط فہمیاں پھیلائی گئیں یا پیدا ہوئیں ہیں وہ ختم ہو چکی ہوتیں جس میں پرویز مشرف اول روز ہی سے ناکام رہے ہیں اور اِس طرح اِن کے مخالفین اِن پر ایک الزام یہ بھی لگاتے نہیں تھکتے ہیں کہ پرویز مشرف نے سانحہ نائن الیون کے بعد امریکی صدر کی صرف ایک فون کال پر اِس کے آگے جھک جانے کے بعد جو فعلِ شنیع گئے اور اِس کے ہر الٹے سیدھے حکم پر لبیک کہتے ہوئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کا جو عزم کیا اِس کا خمیازہ بھی آج تک پاکستانی قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے اور خدا جانے کب تک قوم اِس عذاب میں مبتلا رہے .....؟؟ اِس حوالے سے ایک بڑا سوال قوم کے ذہن میں ہے کہ پرویز مشرف کی اُس وقت ایسی کیا مجبوری تھی کہ اِنہیں اُس وقت کے امریکی صدر کی ایک فون کال پر اپنا سب کچھ داؤ پر لگانا پڑ گیا تھا ....؟؟قوم آج بھی اِن سے اپنے اِس سوال کا مفصل اور تسلی بخش جواب چاہتی ہے اور اَب دیکھتے یہ ہیں کہ پرویز مشرف اپنی قوم کو مندرجہ بالا واقعات کے حوالوں سے پیدا ہونے والے سوالات کا کتنا تسلی بخش جواب دے پاتے ہیں اور قوم کو پوری طرح مطمئن کر کے اِسے اپنا کتنا گرویدہ بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں ....؟؟؟اَب یہ اِن پر ڈیپینڈ ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کے سیاہ ترین دھبوں کو کس طرح سے دھوتے ہیں اور اپنی قوم کے سامنے سُرخرو ہوکر دوبارہ اِن میں آکر اپنا کھویا ہوا وقار بحال کراتے ہیں۔

بہرکیف یہاں سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ پرویز مشرف ایک آمر حکمران کیسے ہوسکتے ہیں ....کہ ساری پاکستانی قوم اور دنیا نے یہ بھی خود سے دیکھا کہ جب تک یہ وردی اور بغیر وردی (سول) صدر کی حیثیت سے مملکت خداداد پر اپنی حکمرانی کرتے رہے تو اِس دوران بھی اِن کی سوچ اور فکر سے کہیں سے آمریت کی ایک بوند بھی نہ ٹپکی تھی تو پھر یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ ہمارے ملک کے تیسرے جابر فاسق اور فاجر ایک انتہائی طاقتور ترین آمر صدر کیسے ہوسکتے ہیں ....؟؟ جن کا ہر قدم ملک اور ملت کے روشن مستقبل اور قوم کی بہتری کے لئے اٹھا کرتا تھا۔ یقیناً یہ اُن لوگوں کی سازش ہے جن کے ہاتھوں سے پرویز مشرف نے 12اکتوبر 1997کو ایک ڈرامائی انداز سے اِن کا اقتدار چھینا تھا اور تب سے ہی اِن لوگوں کی آنکھ میں پرویز مشرف چبھنے لگے تھے جبکہ پرویز مشرف نے جس دن سے اِن اقتدار کے پجاریوں کے ہاتھوں سے حکومت چھین کر ہمارے اِس پیارے وطن پاکستان پر اپنا اقتدار قائم کیا تو اُس روز سے ہی اِن کی ملک اور قوم کی بہتری اور اِن کے تابناک مستقبل کے حوالے سے ایک ایسی سوچ بن گئی تھی اور یہ اپنے اقتدار کے آخر روز تک اپنی اِس ہی سوچ کو عملیت پسندی اور حقیقت پسندی کا جامع نمونہ بنانے کے لئے مصروف عمل دکھائی دیئے جنھوںنے ہمیشہ یہ نعرہ لگایا پہلے پاکستان پھر کوئی دوسرا ...اور پھر پاکستانی قوم سمیت دنیا نے بھی خود دیکھا کہ ملک کے اِس ہی سابق صدر پرویز مشرف جسے پاکستانی قوم کسی کے بہکاوے میں آج بھی ایک آمر حکمران گردانتی ہے اِس ہی صدر نے اپنے دورِ اقتدار میں ملک اور قوم کا وقار ساری دنیا میں بلند سے بلند تر کردیا جس کا مقابلہ آج یہ جمہوری حکومت بھی نہیں کرسکتی۔

اور آج یہی وجہ ہے کہ دیارِ غیر میں رہ کر بھی ملک کے سابق صدر پرویز مشرف اپنے وطن میں آنے والے تاریخ کے اِس انتہائی خطرناک ترین سیلاب کی تباہ کاریوں پر چین سے نہیں بیٹھے ہیں اِن کا ایک ایک لمحہ اِنہیں بےقرار کئے ہوئے ہے کہ وہ کب اپنے ملک پاکستان واپس آئیں اور اپنی خدمات سیلاب میں گھری ہوئی قوم کے لئے پیش کر کے اپنی قوم کو اِس قدرتی آفت سے نکالیں اور ملک کی تعمیرِ نو میں حصہ لیں اِن کا ملک اور قوم سے حب الوطنی کا یہی جذبہ تو ہے کہ اپنے ہم وطنوں کے لئے اِنہوں نے پہلے ایک کروڑ ڈالر کی امداد دی اور پھر گزشتہ دنوں اِنہوں ( پرویز مشرف )نے نجی ٹی وی پر سیلاب زدگان کے لئے ایک امدادی پروگرام ٹیلی تھون میں صرف چار گھنٹے کے دوران 26کروڑ روپے اپنے ہم وطن متاثرین سیلاب کی امداد کے لئے جمع کئے جو اِس بات کا بین ثبوت ہے کہ دنیا بھر میں آج بھی لوگ پرویز مشرف کو چاہنے والے موجود ہیں کیونکہ وہ آمر نہیں ہیں اِس ہی لئے تو آج بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد سابق صدر پرویز مشرف کی ایک آواز پر لبیک کہنے کو تیار ہے جبکہ یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ پرویز مشرف کے مقابلے میں آج اِس مشکل گھڑی میں بھی ملک کے موجودہ جمہوری حکمرانوں کی حیثیت عوام الناس اور دنیا کی نظر میں کیا ہے ....؟اِس کو بیان کرنا ضروری نہیں ہے اور اَب قوم خود یہ فیصلہ کرے کہ اِسے ملک کے موجودہ حالات میں آصف زرداری، یوسف رضا، پرویز مشرف یا کوئی جرنل حکمران چاہئے یہ اِس کی صوابدید پر ہے کہ یہ اِن سب میں سے کس سے خوش رہنا چاہتی ہے ....ویسے کچھ بھی ہے اِن حالات میں تو قوم اِس جمہوری حکومت سے بھلی پرویز مشرف کی حکومت کو ہی بہتر قرار دے رہی ہے یہ لمحہ فکریہ ہے موجودہ حکمرانوں کے لئے کہ یہ اپنا احتساب خود کریں کے آخری کیا وجہ ہے کہ آج قوم ایک اچھی بھلی جمہوری حکومت کے مقابلے میں ملک کے سابقہ آمر صدر پرویز مشرف کے دورِاقتدار کو پسند کر رہے ہیں اور یہ اُمید کئے بیٹھے ہیں کہ پرویز مشرف وطن واپس آئیں اور انتخابات میں حصہ لے کر ملک کے دوبارہ صدر بن کر ملک اور قوم کی پہلے سے بڑھ کر خدمت کریں اور ملک اور قوم کو مشکلات سے نکالیں۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 971943 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.