حکومت کی عدم دلچسپی ،ایک اور حادثہ
(M Attique Aslam , Lahore)
ننکانہ صاحب اضلاع سے تعلق رکھنے والے غریب لوگ 3 فروی کو کشتی حادثے میں ڈوب گئے ہیں۔یہ سید والا کے مقام پر تیسرا بڑھا سانخہ ہے اس سے قبل سانحات میں سینکڑوں بوڑھے مردو زن دریا کی بے رحم موجوں کا شکار ہو چکے ہیں۔روزانہ دونوں اطراف کے سینکڑوں لوگ انکشتیوں پر سفر کرتے ہیں۔یوسف رضا گیلانی کی حکومت میں کپٹن غلام مجتبی کھرل MNAنے اس منصوبے کو منظور کروا کر اسکا افتتاع کیا اور ترقیاتی کا مشروع ہوا مگر ( ن لیگ )کی حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔جبکہ ملک میں اورنج ٹرین؛ میٹرو منصوبے ؛ موٹروے منصوبے شروع ہوکر پایہ تکمیل کو پہنچے مگر اس پل کی تعمیر کے فنڈ روک کر دو اضلاع کے عوام کو دریا کی بے رحم موجوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا |
|
|
اسلام علیکم ! اوکاڑہ اور ننکانہ صاحب
اضلاع سے تعلق رکھنے والے غریب لوگ 3 فروی کو کشتی حادثے میں ڈوب گئے
ہیں۔یہ سید والا کے مقام پر تیسرا بڑھا سانخہ ہے اس سے قبل سانحات میں
سینکڑوں بوڑھے مردو زن دریا کی بے رحم موجوں کا شکار ہو چکے ہیں۔روزانہ
دونوں اطراف کے سینکڑوں لوگ انکشتیوں پر سفر کرتے ہیں۔یوسف رضا گیلانی کی
حکومت میں کپٹن غلام مجتبی کھرل MNAنے اس منصوبے کو منظور کروا کر اسکا
افتتاع کیا اور ترقیاتی کا مشروع ہوا مگر ( ن لیگ )کی حکومت کی عدم دلچسپی
کی وجہ سے یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔جبکہ ملک میں اورنج ٹرین؛ میٹرو منصوبے
؛ موٹروے منصوبے شروع ہوکر پایہ تکمیل کو پہنچے مگر اس پل کی تعمیر کے فنڈ
روک کر دو اضلاع کے عوام کو دریا کی بے رحم موجوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا
جیسے یہ کسی اور ملک کی مخلوق ہوں ستم ضریفی یہ کہ دونوں اطراف کے حکومتی
ایم این ایز اس منصوبے کی بجائے پنامہ لیک کی حکومتی کرپشن کے دفاع میں
ہروقت مصروف رہتے ہیں۔اور ان کو اپنے حلقہ کے عوام کے مسائل کے حل کی بجائے
اپنی ٹکٹ کی فکر لگی ہوئی ہے۔آج صبح شروع ہونے والا آپریشن پاک فوج کے
سربراہ قمر جاوید باجوہ کی خصوصی ہدیت پر شروع ہوا جو تاحال جاری ہے مگر
صوبائی حکومت کی غفلت برقرار ہے۔ سید والا دریائے راوی میں مسافر کشتی الٹ
جانے سے 100سے زائد مسافرلاپتہ ہو گئے۔ ضلعی افسر جائے وقوعہ پر 4گھنٹے دیر
سے پہنچے۔ متاثر ہ افراد کے لواحقین کا احتجاج، پولیس پیاروں کی تلاش میں
آنے والوں پر لاٹھی چارج کرتی رہی۔ عینی شاہدین کے مطابق کشتی میں 150کے
قریب افراد سوار تھے جن میں عورتیں، مرد، بچے بھی شامل تھے۔ 48 کے قریب
افراد دریا سے زندہ اپنی مدد آپ کے تحت نکل آئے۔ انتظامیہ کی طرف سے نعشیں
نکالنے کے لئے سرچ آپریشن جاری ہے۔ پانی کے تیز بہاہ کی وجہ سے تاحال کوئی
نعش نہیں مل سکی۔ اندھیرے کے باعث امدادی کارروائیاں روک دی گئیں۔ کوئی شخص
جاں بحق نہیں ہوا سب نکل آئے انتظامیہ کا دعویٰ۔ دن 12 بجے کے قریب سیدوالا
ضلع ننکانہ صاحب میں دریائے راوی کے پتن پر کشتی ڈوب گئی۔ کشتی سیدوالا سے
اوکاڑہ کی طرف جا رہی تھی۔ اوور لوڈنگ کے باعث حادثہ ہوا۔ 100سے زائد افراد
تاحال لاپتہ ہیں۔
ننکانہ سے نامہ نگار کے مطابق عینی شاہدین کے مطابق کشتی میں اس کی گنجائش
سے کئی گناہ زیادہ افراد سوار تھے، کشتی چلنے سے پہلے ہی ہچکولے کھا رہی
تھی جو کہ بیچ دریا کے جاکر الٹ گئی۔ مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت
لوگوں کے پانی سے باہر نکالنا شروع کردیا تاہم اطلاع پاکر ریسکیو1122 کی
غوطہ خور ٹیم بھی موقعہ پر پہنچ گئی۔ عینی شاہدین کے مطابق کشتی میں 40موٹر
سائیکلیں اور 100سے زائد افراد سوار تھے۔ پانی کا بہاہ تیز ہونے کی وجہ سے
نعشیں بہہ جانے کا بھی خدشہ ہے۔ پانی میں ڈوبنے والے افراد کے لواحقین اپنے
پیاروں کی تلاش میں رات گئے تک سیدوالا کے مقام پر موجود دعائیں کرتے رہے
جبکہ قریبی دیہات کے ہزاروں افراد بھی پتن پر موجود کسی معجزے کا انتظار
کررہے ہیں۔ کشتی حادثہ میں زندہ بچ جانے والی شمیم بی بی زوجہ اسلم نے
بتایا کہ وہ جڑانوالہ کی رہائشی ہے اور اپنے فیملی کے چھ افراد کے ہمراہ
کشتی میں سفر کررہی تھی۔ مقامی لوگوں نے مجھے اور میری فیملی کے دیگر افراد
کے بحفاظت باہر نکال لیا ہے جبکہ میری چار سالہ بچی مقدس بی بی تاحال غائب
ہے۔
ننکانہ کے علاقے سید والا میں گزشتہ روز مسافر کشتی الٹنے کے بعد سے اوکاڑہ
اور سید والا کو ملانے والے پل کی تعمیر میں تاخیر پھر سے موضوع بحث بن گئی
ہے۔یاد رہے کہ اس پل کی تعمیر کا کام اٹھائیس سال قبل شروع ہوا تھا جو کہ
ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا ہے۔اس پل کی تعمیر کا سب سے پہلا اعلان سال 1988
میں اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے خود کیا تھا تاہم یہ
خوشخبری علاقہ مکینوں کے لیے محض ایک اعلان ہی رہی۔بعدازاں تیس ستمبر 1999
کو اس وقت کے وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے بذات خود سید والا آ کر اس پل
کا سنگ بنیاد رکھا لیکن بارہ اکتوبر 1999 کو لگنے والے مارشل لاءنے اس پل
کی تعمیر کو پھر سے خواب بنا دیا جو آٹھ سال تک اپنی تعبیر سے محروم
رہا۔سال 2005 میں اس پل کی تعمیر کے معاملے کو پھر سے زندہ کیا گیا اور
جنرل مشرف نے اوکاڑہ میں ایک جلسے کے دوران سید والا پل کی تعمیر کا اعلان
کیا لیکن اس پر عملی اقدامات کی کوئی شکل نظر نہیں آئی۔سید والا کے رہائشی
اور سابقہ ایم پی اے رائے محمد اسلم کا کہنا ہے کہ یہ پل ضلع اوکاڑہ،
ننکانہ اور جڑانوالا کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے جس کی افادیت کا اندازہ اس
بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پل بننے سے اوکاڑہ سے براستہ لاہور، اسلام آباد
تک کا سفر ایک سو ساٹھ کلومیٹر کم ہو جائے گا۔’پل کے نہ بننے سے مقامی
لوگوں کو ماڑی پتن یا ہیڈ بلوکی سے ننکانہ صاحب اور شیخوپورہ آنا پڑتا ہے
جس سے تقریبا ایک سو بیس کلومیٹر کا زائد سفر برداشت کرنا پڑتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو 2012 میں مقامی
سیاستدانوں کی جانب سے اس مسئلے کو اجاگر کیا گیا جس پر صدر زرداری نے
ملتان میں سید والا پل کی تعمیر کا افتتاح کیا اور تقریبًا نوے کروڑ روپے
کا فنڈ مختص کیا۔انہوں نے بتایا کہ پل کی تعمیر کا ٹینڈر سعد اللہ خان اینڈ
برادرز کو دیا گیا تھا جنہیں پل کی تعمیر مکمل کرنے کے لیے سولہ ماہ کی مدت
جاری کی گئی اور اسے 2014 میں مکمل ہونا تھا تاہم 2013 میں مسلم لیگ ن کی
حکومت نے مجوزہ فنڈ روک لیا اور کام ایک سال تک بند رہا۔’گزشتہ سال ستمبر
2015 میں کام کا دوبارہ آغاز کیا گیا مدت میں نو ماہ کی توسیع کر کے تکمیل
کی تاریخ تیس مئی 2016 مقرر کی گئی۔‘رائے اسلم کا کہنا ہے کہ پے در پے
حکومتوں کے اعلانات اور افتتاح کے باوجود پل کی تعمیر و تکمیل آج بھی ایک
سوالیہ نشان ہے جو کہ مقامی لوگوں کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔سعداللہ خان
اینڈ برادرز کے ترجمان رحیم خان کا کہنا ہے کہ حکومتی فنڈ کی عدم دستیابی
کے باعث پل کی تعمیر تاخیر کا شکار رہی تاہم اب دوبارہ سے فنڈز کا اجراءہو
جانے کے بعد کام جاری ہے اور امید ہے یہ منصوبہ جلد مکمل ہو جائے گا۔
نیشنل ہائی وے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر محمد ایاز خان نے بتایا کہ پل کے مکمل
ہونے میں تاخیر کی اہم وجہ فنڈ کی بروقت ادائیگی کا نہ ہونا ہے۔انہوں نے
مزید بتایا کہ ٹھیکیدار کی سست روی بھی پل کی تکمیل میں ایک اہم رکاوٹ بنی
ہوئی ہے کیونکہ پچھلے تین سال سے کنٹریکٹر کی جانب سے مدت میں مزید توسیع
کی درخواست دی جا رہی ہے۔ناظم حسین سید والا کے رہائشی ہیں اور پیشے کے
اعتبار سے ایک کسان ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’گزشتہ روز ہونے والے حادثے سے قبل
بھی اس دریا میں مسافر کشتیوں کو کئی حادثات پیش آ چکے ہیں لیکن ہر بار
معاملہ چند دن کے لئے خبروں میں رہتا ہے اور پھر سب بھول جاتے ہیں۔‘ان کا
کہنا تھا کہ انہیں اپنی فصل فیکٹری اور ملوں تک پہنچانے کے لئے اضافی سو
کلومیٹر اور ستر روپے فی من کے حساب سے کرایہ دینا پڑتا ہے۔انہوں نے بتایا
کہ اگر یہ پل بن جائے تو نہ صرف اس طرح کے حادثات میں انسانی جانوں کے
ضیائع پر قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ مقامی کاشت کاروں کی منڈیوں تک رسائی
بھی اآسان ہو جائے گی- |
|