الفاظ تاریخ کی راہداریوں میں گم
نہیں ہوتے بلکہ تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں اہم مقامات اور اداروں میں من
چاہے الفاظ بولنے والے بس یہی بھول جاتے ہیں کہ ایسے ہی الفاظ کے چنگل میں
پھنسی مسلم لیگ (ن) راہ فرار ڈھونڈ رہی ہے نتیجہ کچھ بھی ہو یقینا یہ الفاظ
کبھی متضاد بیانی اور کبھی بوکھلاہٹ کی شکل میں گونجتے رہیں گے اسی لیے
بزرگوں کا کہنا ہے کہ ’’پہلے تولو پھر بولو‘‘ مگر ناپ تول کر بولنے کا رواج
ہی نہیں رہا دنیا کی سب سے طاقتور ریاست امریکہ کو ہی دیکھ لیں کہ نو منتخب
امریکی صدر کی جارحانہ طبیعت اوراندھے جوش خطابت میں کہے گئے زہریلے الفاظ
کا یہ اثر ہے کہ جب سے وہ صدر منتخب ہوئے ہیں تب سے امریکہ میں مظاہرے اور
دھرنے دیکھے جا رہے ہیں البتہ دنیا بھر کے سیاسی تجزیہ نگاروں اور الیکشن
مانیٹرز کے اندازوں کے برعکس ہیلری کلنٹن کو ہرا کر دنیاکی سب سے طاقتور
ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ فتح یاب قرار پائے حالانکہ ڈونلڈ
ٹرمپ وہ پہلے امریکی صدر ہیں جو صدارتی امیدوار بنتے ہی ری پبلکن پارٹی کی
طرف سے متنازعہ ہوگئے تھے بالخصوص ان کے جارحانہ انداز سے مسلم کمیونٹی اور
سیاہ فاموں کی طرف سے سخت تحفظات سامنے آئے اور عدم تحفظ کا احساس پورے
امریکہ کو گھیر چکا تھامزید برآں ان کے منشور میں موجود ان کی مجوزہ
امیگریشن پالیسی نے بھی امریکہ میں مقیم دوسرے ممالک کے تارکین وطن میں عدم
تحفظ کی فضا پیدا کی اورقوم پرستی کے دفاع نے اسے تقویت دی بریں سبب ڈونلڈ
ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی امریکی عوام اور بیرونی دنیا میں ایک
متنازعہ شخصیت بن چکے تھے اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا اگر نریندر
مودی سیر ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ سوا سیر ہیں کہ دونوں کا ایجنڈا،خیالات اور جیت
میں ایک وجہ اسلام دشمنی اور قوم پرستی ہے یہی وجہ ہے کہ جب سے نریندر مودی
نے اقتدار سنبھالا ہے بھارت انتشار ،افراتفری اور لا قانونیت کا شکار ہوچکا
ہے اور اب امریکہ بھی اسی صف میں کھڑا ہوتا دکھائی دے رہا ہے لیکن کسی حد
تک ا مریکہ کا معاملہ اور نوعیت الگ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے
دوران ان کے خلاف خواتین سے بد تمیزی کے الزام بھی سامنے آئے اور ان کے
ریمارکس بھی حیران کن ٹھہرے کہ انھوں نے ہیلری کلنٹن کو’’ کرپٹ ‘‘تک کہہ
دیا جبکہ ان کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں خواتین ہی پیش پیش ہیں کیونکہ
مظاہرین کو خدشہ ہے کہ نئی انتظامیہ کے زیر اثر خواتین کے حقوق کو خدشہ
لاحق ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے الفاظ کیا گل کھلا چکے ہیں
البتہ ان کے تمام بیانات ایسے ہیں جن پر تبصرہ ممکن نہیں کیونکہ ہر بیان ان
کے ارادوں کا خلاصہ نہیں کرتا اب صدارتی تقریر کو ہی دیکھ لیں کہ امریکی
اسٹیبلیشمینٹ پر خود کو بچانے اور امریکہ کا تحفظ نہ کرنے کا الزام ہو یا
اسلامی دہشت گردی کو دنیا سے مٹانے کی بات ہو دونوں میں ان کے مطمع نظر
واضح نہیں ایسے ہی امریکہ کو فوقیت دینے کا فیصلہ ہو یا امریکہ کو نئی
فتوحات دینے کا وعدہ دونوں باتیں ادھوری اور ایک دوسرے کی مخالف ہیں اس لیے
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ تاحال صیغۂ راز ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ در حقیقت
کیا چاہتے ہیں وہ دنیا کو’’ حیران ‘‘کر دیں گے یا خود اپنے بیانات میں
’’الجھ ‘‘جائیں گے اس لیے ٹامک ٹوئیاں مارنے کا کوئی فائدہ نہیں لیکن یہ طے
ہے کہ شراب اور شباب شمشیر بے نیام کو کند کر دیتے ہیں اور انسان سے حوصلہ
،دیانتداری اور خلوص چھین لیتے ہیں بریں وجہ تا وقتیکہ ڈونلڈ ٹرمپ کا رنگین
مشاغل اور جنسی تعصب کی طرف رحجان یہی کہتا ہے کہ ان کا شمار گرجنے والوں
میں ہی ہوگا
بہرحال یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آجکل پاکستانی سیاستدانوں کے ریمارکس
کی شدت بھی دوسری دنیا سے کہیں زیادہ ہے ویسے بھی درشت اور ذومعنی الفاظ کا
استعمال اس قدر عام ہو تا جا رہا ہے کہ ـ’’منٹو‘‘ کی نگاری بھی اصلاح اور
معاشرتی تصویر کشی کے زمرے میں آنے لگی ہے جناب خورشیدشاہ نے شیخ رشید صاحب
کو عمران مخالف سیاست سے روکنے اورنواز شریف کو احتسابی کٹہرے میں لانے کا
کہا تو انھوں نے کہا’’ میں سیاستدان ہوں بے غیرت نہیں ہوں ۔‘‘مردوں کے بیچ
بدکلامی تو معمول کی بات تھی ہی مگر اب تو ہاتھ اٹھنے لگے ہیں اور حد سے
بڑھا ہوا یہ توہین آمیز رویہ خواتین کے ساتھ زیادہ افسوسناک ہے کہ امداد
پتافی کی سندھ اسمبلی میں نصرت عباسی کو چپمبر بلانے کی ذومعنی دعوت ہو یا
ماروی سرمد اور حافظ حمد اﷲ کی اخلاقی پستی ہو یا شرمیلا فارقی اور رانا
ثنا اﷲ کی سر عام الزام تراشی ہو ،خواجہ آصف نے شیریں مزاری پر پھبتی کسی
ہو یا بیگم رفیع کی عیب جوئی کی ہو ،طلال چوہدری اور شیریں مزاری کا آنٹی
نامہ ہو یا عابد شیر علی کا شازیہ مری پر تحقیر نامہ ہو کسی طور بھی قابل
قبول نہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمان میں خواتین کے لیے بوائز ہوسٹل
کی زبان استعمال کرنے کا رواج محترمہ فاطمہ جناح کے دور سے ہی شروع ہوگیا
تھا یہاں تک کہ جناب شیخ رشید نے مرحوم بی بی شہید کے بار ے غیر شائستہ
زبان استعمال کرنے پر خوب شہرت بھی پائی اور بعد ازاں پیپلز پارٹی کی طرف
سے عتاب کا شکار بھی ہوئے جنسی تعصب اسمبلی کے فلور پر ہو یا سیاسی ٹاک شو
میں ہو ہر لحاظ سے قابل مذمت اور اخلاقی اقدار کی پامالی ہے جس کی مثالیں
ماضی سے چلی آرہی ہیں مقام افسوس تو یہ ہے کہ اس وقت پوری اسمبلی میں بلند
ہوتے قہقہے اور بجتے ہوئے ڈیسک اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ مرد کے لیے
عورت کا تمسخر اڑانا کوئی بڑی بات نہیں رہی یہی وجہ ہے کہ جلد معافی مانگ
لیتے ہیں اور خواتین بیچاری معاف کر دیتی ہیں کہ دوسرا کوئی حل بھی تو نہیں
نتیجتاً پارلیمانی بدکلامی بڑھتی جا رہی ہے -
ان شرمناک حالات پر اکثر حکومت نواز صحافیوں اور تبصرہ نگاروں کا یہ مؤقف
بھی سننے کو آیاکہ اگر گلی محلوں میں دھڑے باز لوگ کتوں کی طرح لڑ سکتے ہیں
تو ارکان اسمبلی کیوں آپے سے باہر نہیں ہو سکتے محو حیرت ہوں کہ دھڑے بازوں
اور ارکان اسمبلی میں کیا کوئی فرق نہیں ہے اسی ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کی وجہ
سے اپنی اپنی ڈفلی اپنے اپنے راگ نے معاشرتی شیرازہ بکھیر دیا ہے جس نے
ملکی وقار کو داؤ پر لگا رکھا ہے اور اکثریتی سیاستدانوں میں اعلیٰ اقدار
واخلاقیات کے اعلیٰ اوصاف شاز ہی دکھائی دیتے ہیں کہ وہ جگہ جہاں عوامی
مسائل پربات کرنی چاہیئے وہ آپس کی بحث اور ہلڑبازی کی نظر ہو جاتے ہیں اور
نظر آتا ہے تو پارلیمنیٹ فلور پر عامیانہ گفتگو ،اخلاقی اقدار کی پامالی ،بازاری
الفاظ میں الزام تراشیاں ،ذومعنی فقرے بلکہ بسا اوقات ہاتھا پائی اور چھترو
چھتری جیسی صورتحال جو کہ ان کی سیاسی تربیت ،اخلاقیات ، نظم و ضبط ،تہذیب
اور تمیز کی غماز ہے۔نازیبا اور شرمناک گفتگو کا یہ سلسلہ ٹی وی ٹاک شوز تک
آچکا ہے جہاں ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنا اور خواتین سے غیر مہذب انداز
میں گفتگو اور ریمارکس دینا ،اشارہ بازی اور تمسخربھی قابل عزت سمجھا جاتا
ہے یہی وجہ ہے کہ عام آدمی سیاستدانوں اور سیاسی ٹاک شوزسے بد ظن ہو چکا ہے
بلکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ
دستار کے ہر تار کی تحقیق ہے لازم
ہر صاحب دستار معزز نہیں ہوتا
لہذاوقت کا تقاضا ہے کہ ملکی وقاراور سیاسی ساکھ کو اگر بچانا ہے تو نان
ایشوز سیاست کا خاتمہ ہونا چاہیئے کیونکہ آپ جن الفاظ کو بول کر ایک دوسرے
سے معافی مانگ کر بھول جاتے ہیں وہ پارلیمینٹ راہداریوں سے نکل کر عوامی
حلقوں میں گونج رہے ہیں اور تاریخ کا حصہ بن رہے ہیں یہ کتنی شرم کی بات ہے
کہ ہم جس نبی کی امت ہیں وہ تو پیارے نبی پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم مکارم
اخلاق تھے اور حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی پاک ؐ نے فرمایا کہ ’’سب سے
بڑھ کر کامل ایمان اس شخص کا ہے جو لوگوں میں اخلاق کے لحاظ سے سب سے بہتر
ہے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ سب سے بڑھ کر نرمی اور شفقت سے پیش آنے
والا ہے ‘‘ تو آج ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم کس کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ویسے
بھی رہنما ؤں کے قول و فعل کو کیا یہ سب زیب دیتا ہے جبکہ بحثیت مسلمان تو
یہ مناسب ہی نہیں ہے اس لیے حسن اخلاق کا بار بار کہا گیا ہے کہ عبداﷲ بن
عمرو رضی اﷲ عنہ سے روایات ہے کہ رسول صلی اﷲ علیہ وٓلہ وسلم سے کسی نے
پوچھا کہ بہترین مسلمان کون ہے ؟ آپ نے فرمایا:’’ جس کی زبان اور ہاتھ سے
دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ‘‘۔یہ ضرور سوچیں کہ دنیا میں بھی الفاظ قرطاس پر
بکھر چکے ہیں اور اعمال نامے بھی سوالیہ ہو چکے ہیں مگر جو بچا ہے اسے سمیٹ
لو کہ آج بھی و قت ہے کہ سارے قائدین حدوں میں رہ کر قومی سلامتی کے
اموراور عوامی مسائل کے حل اورتعمیر ملک و ملت کی طرف مخلص ہو کر دھیان دیں
اور بااخلاق ہو کر رہیں۔ بے راہ روی ،تکبر ،رعونت ،حرص اور غیر شائستگی
چھوڑ دیں ۔یاد رکھو ! نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے کہ تمہاری داستان تک نہ ہوگی
داستانوں میں ! |