یوم یکجہتی کشمیر کا تقاضہ
(Malik Muhammad Salman, )
کشمیر پاکستان کے شمال مشرق میں واقع ہے۔
کشمیر کی سرحدیں ایک طرف پاکستان جبکہ دوسری طرف چین و بھارت کے ساتھ ملتی
ہیں۔ بانی قوم حضرت قائد اعظم نے کشمیر کی جغرافیائی صورتحال کی روشنی میں
کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ کہا تھا۔ وادی کشمیر کے دیدہ زیب حسن، قدرتی
مناظر بکھیرنے والے سرسبز و شاداب پہاڑوں و مستیوں کا سرور برسانے والے
موسموں کو عالمگیر شہرت حاصل ہے۔ کشمیر کی آبادی کا ستر فیصد مسلمانوں پر
مشتمل ہے۔
تقسیم ہند کے وقت بٹوارے کے اصولوں کی رو سے تمام ریاستوں کو پاکستان و
بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کا اختیار دیا تھا۔ کشمیریوں کی اکثریت الحاق
پاکستان کا نعرہ لگا چکی تھی مگر کشمیری راجہ ہری سنگھ نے انگریزوں کے گٹھ
جوڑ سے کشمیری قوم کی دلی امنگوں کا خون کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ27
اکتوبر1947 کو اتحاد کرلیا۔ اس جبری الحاق کو کشمیریوں نے کبھی قبول نہیں
کیا۔تقسیم بر صغیر سے آج تک بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر پر اپنا جبری تسلط
قائم کیے ہوئے ہے۔ہر لحظہ مظالم کی نئی داستان رقم کر ہی ہے۔مظلوم و محکوم
کشمیریوں سے یکجہتی کیلئے مرحوم قاضی حسین احمد نے پاکستان کے عوام کو اہل
کشمیر کی پشت پرلا کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا اوراسے عملی شکل دینے کے لیے ۵
فروری1990ء کا دن کشمیری عوام سے یکجہتی کے اظہار کے طور پر منانے کا اعلان
کیا۔انہوں نے قوم سے اپیل کی کہ پاکستانی قوم آگے بڑھ کر مظلوم کشمیریوں کی
مدد کرے۔اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر
بھٹو بھی بیرونی دباؤکے باوجود پیچھے نہ رہے۔انھیں بھی قوم کی آواز کے ساتھ
ہم آواز ہونا پڑا۔پھر اقوام عالم نے دیکھا کہ کراچی سے خیبر تک پاکستانی
قوم نے بے مثال جذبے سے اہل کشمیر کو باور کرایا کہ ’’اے اہل کشمیر!آزادی
کی اس جدوجہد میں تم اکیلے نہیں،ہم تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘قوم، حکومت، حزب
اختلاف اور حزب اقتدار ہی نہیں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں اور طبقات نے
کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا دن منایا۔ اس عظیم الشان یکجہتی کے مظاہرے نے
ایک طرف کشمیریوں کو عزائم و حوصلے بلندکیے اور دوسری طرف پوری دنیا کوباور
کرایا کہ کشمیرصرف کشمیریوں کا نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم اور اس کے بچے
بچے کا مسئلہ ہے۔
آج بھی مقبوضہ کشمیر میں ظلم ہو رہا ہے ، عزتیں لٹ رہیں ہیں ، ظلم و جبر کا
بازار گرم ہے ، ہر طرف دھمکایا جا رہا ہے ، الغرض جدھر بھی نگاہ اٹھا ئیں
مظلومیت کی تصویر دکھائی دیتی ہے، جدھر بھی دیکھیں مظلوم کشمیریوں کا ہی
خون ارزاں دکھائی دیتا ہے۔قابض بھارت نے کشمیریوں کا جینا حرام کر رکھا ہے
، ان کو نیزوں برچھیوں پر آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے۔ جان و مال تو پہلے ہی
محفوظ نہیں عزتوں سے کھیلنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ہے۔ تعصب کا یہ عالم
ہے کہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے اور انہیں شہید کرنے
سے بھی گریز نہیں کیا جاتا اور مندروں میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
آزادی ہر قوم کا بنیادی حق ہے، اس سے کسی کو محروم رکھنا کسی بین لاقوامی
ادارے کے اختیا ر میں نہیں۔کشمیری مسلمانوں کی تحریک آزادی میں شدت آ جانے
سے بھارتی حکمرانوں میں جنم لینے والی بوکھلاہٹ اور افراتفری سے انتظامی و
سیاسی معاملات و امور میں جذباتی و نفسیاتی کیفیت نے ایک ایسی تلخی سی پیدا
کر دی ہے جسے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ بھارتی حکمران کس
قدر مضطرب اور کرب و ابتلاء سے دوچار ہیں۔آل انڈیا ریڈیو بھارتی اخبارات و
رسائل کے اداریوں اور کالموں کے اقتباسات پر مشتمل تبصروں اور تجزیوں کا لب
لباب صرف یہی ہوتا ہے کہ پاکستان کشمیر میں دہشت گردی اور تخریب کاری میں
ملوث ہے۔حالا نکہ حقیقت قطعی اس کے برعکس ہے کہ بھارتی حکمران دراصل کشمیری
مسلمانوں کے قتل عام کو چھپانے کے لیے مختلف نوع کے منفی پروپیگنڈہ کے
ذریعے دنیا کی نظروں میں دھول جھونکنے کی ناکام سعی کرنے میں مصروف ہیں۔
وائس آف امریکہ کے ایک تبصرہ نگارکا کہنا ہے کہ حقوق انسانی کی دو بین
الاقوامی تنظیموں نے کشمیریوں پر ہونے والے منظم جبرو تشدد کے بارے میں
تفصیلی رپورٹیں تیار کی ہیں۔ان رپورٹوں میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارتی
سکیورٹی فورسز اور مسلح افواج نوجوان کشمیری مسلمانوں کو مختلف نوع کے تشدد
کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار رہی ہیں۔خواتین کی بے حرمتی اور اجتماعی عصمت
دری کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔بچوں کو زندہ جلانے کے واقعات
بھی عام ہو رہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق بھارت میں انسانی حقوق کی شدید خلاف
ورزیوں سے یہ حقیقت عیاں ہوتی نظر آتی ہے کہ بھارتی حکمران کشمیریوں کی جنگ
آزادی کی منظم و متحرک تحریک سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ بوکھلاہٹ میں ایسے
شرمناک اور ہولناک ہتھکنڈے استعمال میں لا رہے ہیں جو جلتی پر تیل کا کام
کر رہے ہیں جن سے انسانیت منہ چھپائے پھرتی ہے۔
بھارتی حکمرانوں کو شاید عسکری وسائل کے نشے میں کچھ سمجھ نہ آ رہی ،دانش و
ر طبقہ اور بعض ممتازصحافیوں نے بھی بھارتی حکمرانوں کو عقل کے ناخن لینے
کا کہا ہے لیکن یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی بھارتی حکمرانوں نے آنکھیں بند کر
رکھی ہیں بس ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں مسلح
مداخلت کرنے سے بازر ہے۔دنیا کو بے و قوف بنانے کی بھارتی حکمرانون کی
متعدد کوششیں ناکامی سے دوچار ہو چکی ہیں لیکن ڈھیٹوں کی طرح وہ پاکستان پر
الزام تراشی کو اپناوطیرہ اور فریضہ بنا چکے ہیں۔بھارتی حکمرانوں نے
کشمیریوں پر ہونے والے وحشیانہ اور بہیمانہ ظلم و زیادتی کے واقعات پر پردہ
ڈالنے کی جتنی بھی آج تک کوششیں کی ہیں وہ سب کی سب ناکام ہوئی ہیں۔چند سال
قبل اسلامی کانفرنس کی طرف سے نامزد مبصروں کو مقبوضہ کشمیر میں جانے کی
اجازت نہ دینا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ بھارتی حکمران اپنی کرتوتوں اور
سیاہ کاریوں سے کسی کو آگاہی نہیں کرانا چاہتے۔بھارتی فوجیوں کے ساتھ
مجاہدین کشمیر کی مسلح جھڑپوں اور کشمیریوں کی ایک بھاری تعداد کی طرف سے
بھارتی حکمرانوں اور مسلح افواج و پولیس کے خلاف شدید نفرت بھی اس بات کی
کھلی علامت ہے کہ کشمیری آزادی چاہتے ہیں اور پاکستان سے الحاق ان کی دلی
خواہش ہے جس کو بھارتی حکمران قبول کرنے کو قطعی طور پر تیار نہیں۔
بھارت امریکہ کی مدد سے کشمیر کے مسئلہ پر بھی اپنا حل زبردستی ہم پر
ٹھونسنا چاہتا ہے جس کا سارا فائدہ بھارت کو پہنچنے کی امید ہے۔ اس لیے
ہمیں کشمیرکے مسئلہ پر کسی بھی زبردستی حل کو مسترد کرنا ہو گا۔
یوم یکجہتی کشمیر کا تقاضہ ہے کہ آزادی کشمیر کی پرامن جدوجہد میں مظلوم
کشمیریوں کا بھرپور ساتھ دیں اور پسپائی اختیار کرنے کی بجائے اسے کشمیریوں
کی رائے کے عین مطابق حل کرنے پر ہی زور دینا ہو گا۔ کیونکہ یہی رستہ منزل
کی طرف جاتا ہے اور صحیح رستہ ہے۔ اگر ہم یونہی ہر مسئلے پرپسپائی اختیار
کرتے رہے جھکتے رہے تو وہ دن دور نہیں ہے۔جب ہماری داستاں تک نہ ہو گی
داستانوں میں۔ |
|