تحریر: محمد طلحہ
نثارمیں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سراُٹھاکے چلے
پاکستان جو کہ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر بنا تھا۔ جس کی بنیاد میں لاکھوں
مسلمانوں کا خون شامل ہے۔اسلام اور لاالہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کی بنیاد پر
ہم نے انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے آزادی حاصل کی تھی اور لاکھوں کی
تعداد میں ہجرتیں کر کے پاکستان میں آئے تھے کہ ہم آزادی کے ساتھ اسلامی
اصولوں کو اپنی زندگیوں میں لاگو کر سکیں گے یہی قائد اعظم محمد علی جناح
کا پاکستان تھا جس کے خواب شاعر مشرق علامہ اقبال نے دیکھے تھے۔ جس کی
آزادی کی تحریک کو بنیاد سرسید احمد خاں ، جوہر برادران اور دیگر مسلمان
مشاہیر نے دی تھی۔ مگر آج قائد و اقبال کے پاکستان کی کیفیت یہ ہے کہ یہاں
اسلام اور دو قومی نطریہ کو اجنبی بنا دیا گیا ہے۔ لا الہ الا اﷲ محمد رسول
اﷲ کے پاکستان میں اسلام کی بات کرنا احیائے نظریہ پاکستان کی تحریک چلانا
جرم ٹھہرتا ہے، اس اسلامی پاکستان میں دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی آزادی
کی تحریکوں بالخصوص کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت اور مدد کرنا اس محمد
علی جناح کے پاکستان میں جرم سمجھا جاتا ہے کہ جس محمد علی جناح نے کشمیر
کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور بھارتی افواج کے کشمیر پر جبری قبضہ
کرنے پر محمد علی جناح نے پاکستانی مسلح افواج کے سربراہ کو بھی اپنی فوجیں
کشمیر میں داخل کرنے کا حکم دیا تھا۔ آج کے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں
پاکستان سے ناراض لوگوں اور علیحدگی کی تحاریک چلانے والوں کو پاکستان کے
پرچم تلے لے کر آنا جرم سمجھا جاتا ہے۔ آج کے اسلامی پاکستان میں بھوکوں کو
کھانا کھلانا، ڈوبتے ہوؤں کو بچانا، مصیبت ذدگان کی مدد کرنا، ہاسپٹلز اور
ڈسپنسریز چلانا، غریبوں اور ناداروں کے لیے حلال روزگار اسکیمز شروع کرنا،
پاکستان کے طول و عرض میں ایمبولینس کا ایک وسیع نیٹ ورک قائم کرنا اور
تعلیم کو عام کرنے کے لیے سینکڑوں اسکولز چلانا یہ سب کام جرائم بن گئے ہیں۔
جب کہ دوسری طرف نظریہ پاکستان کی دھجیاں اڑانا، پاکستان کی بہادر مسلح
افواج پر کیچڑ اچھال کر عوام اور افواج پاکستان کے درمیان دوریاں ڈالنا اور
سب سے بڑھ کر آزادی اظہار رائے کی آڑ میں لوگوں کی عزتیں اچھالنا اور سب سے
بڑھ کر پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا ،پاکستان کے اسلامی
تشخص کو ختم کرنے کی آخری حد تک کوشش کرنا اور ان سب سے بھی آگے برھتے ہوئے
اسلام، محمدرسول اﷲ ﷺکی شان میں گستاخیاں کرنا یہ سارے کام بہادری کے ضمرے
میں آتے ہیں اور ان کارہائے نمایاں کو سرانجام دینے والوں کو تمغوں سے
نوازا جاتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ نظریہ پاکستان سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے لاکھوں
مسلمانوں کے قاتل، ہماری مساجد کو جلانے والوں ، پاکستان کو آگ و خون میں
نہلانے والوں، پاکستان مین علیحدگی کی تحریکوں کو ہوا دینے والوں اور
پاکستان مین موجود شرپسندوں کی پشت پناہی کرنے والے ملک بھارت کے ساتھ
دوستی کرنا، اس کے ساتھ تجارت راہ و رسم بڑھانا، بھارتی فلموں کی پاکستان
میں نمائش کو اجازت دینا اور عین کشمیر کی آزادی کی تحریک کے عروج کے دنوں
میں کشمیریوں کے سب سے بڑے وکیل اور محسن پاکستان حافظ سعید اور ان کی
جماعت کو پابند سلاسل کرنا ، یہ سب واضح کررہا ہے آج کے اسلامی جمہوریہ
پاکستان کی نام نہاد اشرافیہ کس ایجنڈے پر چل رہی ہے۔
حافظ محمد سعید اور انکی جماعت نے ہر مشکل وقت میں پاکستان اور پاکستانی
عوام کی جس طرح خدمت کی ہے وہ لائق تحسین ہے۔ ان کی خدمت اور احیائے نظریہ
پاکستان کی کوششوں سے جس طرح سے سندھ اور بلوچستان کے ناراض اور باغی لوگ
اپنی ناراضگیوں کو بھلا کر قومی دھارے میں شامل ہو رہے ہیں یہ پاکستان کی
ایک بہت بڑی خدمت ہے جس کو جتنا بھی سراہا جائے کم ہے،۔ مجھے اسلام آباد
میں ہونے والی ایک تقریب یاد آگئی جس میں پاکستان کی حکمراں پارٹی کے
سربراہ راجہ ظفرالحق صاحب نے نے تقریب سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ
جماعۃ الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی کوششوں سے ملک میں سے علیحدگی
کی تحریکیں ختم ہو رہی ہیں۔ پاکستان کے وزیر داخلہ کو حافظ سعید کی نظر
بندی کے شاہی احکامات سناتے ہوئے اپنی ہی پارٹی کے سربراہ کی یہ بات یاد
کیوں نہ یاد آئی۔
آج یہ لوگ بھول گئے کہ جب پاکستان کے گلی کوچوں میں شب و روز خودکش دھماکے
ہوتے تھے،افواج پاکستان تک ان حملوں سے مخفوظ نہیں تھیں اور ان حالات میں
ضرب عضب آپریشن کا مشکل ترین فیصلہ کیا گیا تھا جس کی مخالفت اس وقت مذہبی
جماعتیں بھی کررہی تھیں اور سیاسی جماعتیں بھی عین اس وقت جماعۃ الدعوۃ
میدان میں اتری تھی اس نے اس آپریشن کو مذہبی تقویت دی تھی اور سب سے پہلے
خودکش دھماکے کرنے والوں کو احادیث مبارکہ کی روشنی میں خوارج قرار دے کر
کہا تھا کہ ان کا اسلام کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں ہے اور ان کے خلاف
آپریشن کرنا درست ہے۔ دو ہزار آٹھ کے زلزلے سے لے کر ہر مشکل گھڑی میں جس
انداز سے اس مٹھی بھر جماعت نے جس طرح محدود وسائل کے ساتھ پاکستان کی خدمت
کی ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ حکومتی اشرافیہ بھی یہ بات مانتی اور جانتی ہے
کہ حافظ سعید اور انکی جماعت کو پاکستانی عدالتوں نے کلیئر کیا ہے اور ان
کے خلاف پورے پاکستان میں ایک بھی مقدمہ نہیں ہے تو بجائے اس کے کہ ہم
پاکستان کے لیے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کو انعام و اکرام سے نوازیں
ہم اغیار کی خواہشوں کو پورا کرکے حافظ سعید اور ان کی جماعت کو پابندیوں
اور قید وبند کی صعوبتوں میں جکڑ رہے ہیں۔ پاکستان ایک خود مختار اور
اسلامی ملک ہے تو خدارا امریکہ اور بھارت کو خوش کرنے کے لیے محبان پاکستان
پر پابندیاں عائد کرکے پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری داغدار نہ کیا
جائے۔ یہ محب وطن لوگ ہیں کہ ہزاروں کارکنان کی موجودگی میں کتنے آرام سے
اپنی گرفتاریاں پیش کررہے ہیں ان پابندیوں کو عدالتوں میں چیلنج کرنے کی
بات کر رہے ہیں۔ ہم حکومت پاکستان سے یہ گزارش کرتے ہیں پاکستان پہلے ہی
بہت مسائل میں گھرا ہوا ہے تو اس طرح کے خطرناک فیصلے کرکے پاکستان کو مزید
مسائل میں مبتلا نہ کیا جائے۔ |