ایک مرتبہ پھر قوم 5فروری کو یوم یکجہتی
کشمیر منا رہی ہے۔ اس دن کے منانے کا آغاز 1990ء میں اس وقت ہوا تھا جب
مقبوضہ کشمیر میں ایک طرف تحریک آزادی تو دوسری طرف بھارتی فوج کے مظالم
پورے عروج پر تھے۔ اس وقت بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مکمل گورنر راج قائم
کر رکھا تھا اور جگموہن نام کا بھارتی شخص ریاستی گورنر تھا جس نے فورسز کو
ایک ہی حکم دے رکھا تھا کہ ہر کشمیری کو جو گھر سے باہر دکھائی دے گولی مار
دو۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں بڑے بڑے قتل عام کے واقعات ہوئے۔ بڑے بازار
اور بستیاں انسانوں سمیت جلائی گئیں۔ عفت مآب خواتین، بوڑھی عورتوں اور
معصوم بچیوں تک کی عزتوں کو پامال کیا جاتا رہا۔ جگموہن کا خیال تھا کہ وہ
یوں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا کر اور قتل و غارت گری اور اندھے مظالم سے
کشمیریوں کو زیر کرلے گا لیکن اس کا یہ خواب چکنا چور ہوا، بھارتی فوج اور
بھارتی ریاست کے سامنے کشمیری قوم آج بھی سینہ تانے کھڑی ہے۔ بھارت نے
تقسیم ہند کے وقت جموں میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا جس کی کم از
کم تعداد ساڑھے چار لاکھ بیان کی جاتی ہے۔ اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔
1987ء میں جب مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں بھارت نے
کھلی دھاندلی کر کے کشمیریوں پر اپنی جبری حکومت قائم کرنے کی کوشش کی تو
اس کے بعد موجودہ تحریک آزادی نے جنم لیا جس کے دوران میں اب تک قریباً ایک
لاکھ کشمیری جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ 22ہزار خواتین کی عزتیں پامال ہو
چکی ہیں۔ ڈیڑھ لاکھ املاک کو جلایا جا چکا ہے۔ 10ہزار نوجوان پہلے غائب
جبکہ 20ہزارسے زائد زیرحراست قتل ہوئے تھے۔ 8جولائی کے بعد مزید 12ہزار سے
زائد مرد و خواتین، بچے اور بوڑھے جیلوں میں ڈالے جا چکے ہیں۔ کشمیری تحریک
آزادی فلپائنی مورو مسلمانوں کی تحریک آزادی کے بعد دوسرے نمبر پر طویل
ترین تحریک بن چکی ہے لیکن دنیا اس کی آواز سننے کو تیار نہیں۔ کشمیری قوم
ایک ہی مطالبہ دنیا کے سامنے رکھ رہی ہے کہ ان کے ساتھ تقسیم ہند کے وقت جو
وعدہ کیا گیا تھا کہ ان کی مرضی کے مطابق ان کا الحاق بھارت یا پاکستان سے
ہو گا، وہ پورا کیا جائے۔ وہ صرف دنیا کو اس کاوعدہ یاد دلانے کیلئے خون کے
دریا پار کر رہے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں ان کا موقف روز اول سے عیاں ہے۔
کشمیری قوم، رنگ، نسل، تہذیب اور سب سے بڑھ کر مذہب جس کی بنیاد پر تقسیم
ہند ہوئی تھی، کے تحت آزادی حاصل کر کے پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کا قدرتی اور فطری جغرافیائی رخ بھی پاکستان کی جانب ہے۔
بھارت مقبوضہ کشمیر پر جابرانہ قبضہ حاصل کرنے اور آج تک قائم رکھنے کے لئے
جس ایک راستے کو استعمال کر رہا ہے وہ معمولی بارش اور برف باری سے بند ہو
جاتا ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ ملنے والے سبھی راستے سارا سال کھلے رہتے ہیں۔
تاریخی لحاظ سے بھی کشمیر کے دونوں خطوں مقبوضہ وادی اور مقبوضہ جموں کے
تجارتی تعلقات اور مراکز پاکستان کے موجودہ شہر راولپنڈی اور سیالکوٹ تھے۔
کشمیر کے پہاڑوں سے بہنے والا سارا پانی پاکستان کی جانب ہی آتا ہے اور
ہمیشہ سے ان کی تجارت بھی اس بنیاد پر اس خطے کے ساتھ ہوتی رہی۔ افسوس سے
کہنا پڑتا ہے کہ تمام حقائق کو دنیا ماننے کے لئے تیار نہیں۔ بھارت کے
وزیراعظم نریندر مودی نے حالیہ چند ماہ کے اندر کئی بار بیان دیا ہے کہ وہ
بھارت سے دریاؤں کا پانی پاکستان نہیں جانے دیں گے۔ حالیہ تازہ ترین بیان
جو انہوں نے جالندھر میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران دیا، جس میں کہا کہ ہم
کشمیر کے پانیوں سے پنجاب کو سیراب کریں گے۔ یہ کشمیری قوم ہی ہے جس کے خون
کی قربانی اور مسلسل جہاد کی وجہ سے ہمارے پانی اب تک ہماری زمینوں کو
سیراب کر رہے ہیں۔ وگرنہ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو ملنے والے تین
دریا راوی، بیاس اور ستلج تو اس نے تقسیم ہند کے ساتھ ہی بند کر دیئے تھے۔
اگر بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ
قرار دیا تھا تو اس کی وجہ یہی تھی کہ ہمارے ملک کی ساری معیشت و زراعت کا
دارومدار کشمیر سے آنے والے پانیوں پر تھا۔ کشمیری قوم نے تقسیم ہند سے
پہلے قائداعظم کو دورہ سرینگر کے موقع پر یقین دلایا تھا کہ وہ پاکستان کا
ہی حصہ بنیں گے اور پھر انہوں نے سرینگر اسمبلی میں الحاق پاکستان کی
قرارداد متفقہ طور پر منظور کرنے کا بھی اظہار کر دیا تھا لیکن بھارت نے
برطانوی سازشوں اور آشیرباد سے انہیں دبا کر جبراً اپنا حصہ بنا لیا۔
یہ کشمیری قوم کا ہمارے اوپر کتنا بڑا احسان ہے کہ انہوں نے مسلسل جہاد اور
تحریک آزادی چلا کر لگ بھگ 10لاکھ بھارتی فورسز کو مصروف اور الجھا رکھا ہے۔
ہمارے عوام، سیاستدان اور دیگر ارباب اقتدار و اختیار کو یہ ضرور سوچنا
چاہئے کہ اﷲ نہ کرے کبھی کشمیری قوم کی تحریک آزادی کو کوئی آنچ آئی اور
بھارت کی یہ فوج فارغ ہو گئی تو بھارت پاکستان پر حملہ کرنے اور اسے تباہ
کرنے میں ذرا تامل نہیں کرے گا۔ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ کشمیر کا خیال
اگر دل سے نکال دیا جائے تو بھارت ہمارا دوست بن جائے گا اور ہم محفوظ ہو
جائیں گے تو یہ سب سے بڑی خام خیالی ہے۔ تقسیم ہند کے وقت بھارت نے ہمارے
حصے خزانے، ہمارے ایمونیشن و اسلحہ اور ہماری صنعت و حرفت پر قبضہ کشمیر کی
وجہ سے نہیں کیا تھا۔ 1971ء میں جب اس نے ہمارا ملک دو ٹکڑے کرنے کے لئے
بھی سازش کی تھی اور پھر ہمارے ملک میں باقاعدہ فوج داخل کرکے ہماری فوج سے
ہتھیار ڈلوائے تھے تو اس وقت کوئی کشمیری تحریک آزادی نہیں چل رہی تھی۔ جب
بھارت نے 1984ء میں ہمارے دریائے سندھ کے پانی کے منبع سیاچن پر قبضہ کیا
تھا تو اس وقت بھی کشمیر میں نہ تحریک آزادی تھی اور نہ ہم جہاد کر رہے تھے
اور نہ مسئلہ گرم تھا۔ بھارت نے اگر اگست 1999ء میں ہمارے ملک کی حدود میں
ہمارا نیوی کا اٹلانٹک طیارہ تباہ کر کے ہمارے 22افسران اور جوانوں کو شہید
کیا تھا تو اس کا تعلق کسی طرح کشمیری تحریک آزادی سے نہیں تھا۔ بھارت کے
اندر موجود مسلمانوں کا جو حشر نشر ہر روز ہو رہا ہے اس کا تعلق بھی کسی
طرح کشمیر کے ساتھ نہیں بلکہ بھارت کے مسلمان تو کشمیری مسلمانوں کے حق
آزادی کے لئے آواز بلند نہیں کرتے، پھر انہیں کشمیریوں سے کہیں بڑھ کر ظلم
و ستم کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے۔ اتنا ظلم و ستم تو کشمیریوں پر نہیں
ہوا جتنا بھارتی مسلمانوں پر ہو چکا ہے۔ ممتاز بھارتی مسلمان رہنما مولانا
ارشد مدنی نے کچھ عرصہ پہلے بتایا تھا کہ بھارت میں 60ہزار مسلم کش فسادات
ہو چکے ہیں۔ گجرات فسادات کے سوا دیگر فسادات میں بھارتی مسلمانوں کی جتنی
تباہی ہوئی، سوائے ہلاکتوں کے کہ وہ کشمیری مسلمانوں کی تباہی سے زیادہ ہے۔
اس کا مطلب صاف اور سیدھا ہے کہ بھارت کا مسئلہ کشمیر قطعی نہیں ہے۔ وہ
ہمیں کسی صورت آزاد اور مسلم ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر دیکھنے کے لئے
تیار نہیں ہے۔ بھارت کے اس شر اور دشمنی کا مقابلہ کشمیری قوم کی مدد و
حمایت کر کے کرنا ہو گا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے عوام اور سیاستدان
کشمیریوں کی مدد کے لئے اس طرح کبھی میدان میں نہیں آئے جس طرح کشمیری قوم
ہمارے دفاع کے لئے کھڑی ہے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد ہر گھر، ہر دکان
اور ہر ہاتھ میں پاکستان کا پرچم ہے اور یہ پرچم اٹھانے کے لئے وہ اپنے جسم
کٹوا رہے ہیں۔ کشمیریوں نے تو بھارت کو شکست دے دی ہے لیکن اگر ہم ان کے
ساتھ مخلص نہیں تو ان کا منزل تک پہنچنا اگر مشکل ہے تو ہماری بقا اور
ہمارا مستقبل بھی خطرے میں ہے۔ اب ہمیں کشمیر کے لئے محض یکجہتی کے نعروں
سے آگے بڑھ کر کچھ کرنا ہو گا۔ پاکستان کو پوری سنجیدگی کے ساتھ عالمی مہم
چلانی اور عالمی طاقتوں کو ساتھ ملانا ہو گا۔ مخلص خارجہ سفارت کاری کا
اہتمام کرنا ہو گا۔ مقبوضہ کشمیر کی کنٹرول لائن کو توڑنے کے لئے عملی
اقدامات کرنا ہوں گے جسے بھارت نے ہر عالمی قانون کو روند کر دنیا کا سخت
ترین جنگی مقام بنا رکھا ہے اور کشمیریوں کو ایک خطے کے باسی ہونے کے
باوجود غیرقانونی اور جبری طور پر آرپار آنے جانے سے روک رکھا ہے۔
اگر ہم مخلص ہو کر کشمیر کی آزادی کی تحریک چلانے والے بن جائیں تو ہمارا
ملک بھی محفوظ و مامون ہو جائیگا، اگر ہم نے کشمیریوں کو اس وقت مشکل اور
نازک ترین مرحلے پر تنہا چھوڑ دیا تو سب سے زیادہ نقصان ہمارا ہو گا۔ آزادی
کا اصل فیصلہ تو اﷲ تعالیٰ کے دربار سے ہونا ہے اور اﷲ تعالیٰ اپنے نیک و
مخلص لوگوں کی قربانیوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب اﷲ
کے حضور کشمیریوں کی قربانیاں کسی نتیجے پر پہنچ رہی ہوں تو ہم اس وقت
خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو چکے ہوں۔
|