ٹرمپ کو عبرتناک شکست‘ سات مسلمان ملکوں پر ویزا پابندی ختم
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
امریکہ کی وفاقی عدالت نے بھی 7 مسلمان
ملکوں کی امریکہ آمد پر پابندی کا حکم معطل کردیا جس کے بعد امریکہ نے 7
ملکوں کیخلاف سفری پابندیاں ختم کردیں۔ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے بتایا
کہ امریکی عدالت کے فیصلے کے بعد سفری پابندیاں ختم کی گئیں۔ ترجمان کے
مطابق صدر ٹرمپ کے حکم نامے کے بعد 60 ہزار افراد کے ویزے منسوخ کئے گئے
تھے، اگر ان لوگوں کے لگے ویزوں کی تاریخ باقی ہو تو وہ اب امریکہ آسکتے
ہیں۔ سات مسلمان ممالک کے شہریوں سے ویزوں کی منسوخی واپس لے لی گئی۔ وفاقی
عدالت نے 2 ریاستوں کی درخواست پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرز کو
عارضی طور پر معطل کرتے ہوئے 7 مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے
پر پابندی ہٹانے کا حکم دیدیا ہے۔ واشنگٹن کے شہر سیٹل کی وفاقی عدالت کے
جج جیمز رابرٹ نے ریاست واشنگٹن اور مینی سوٹا کی جانب سے دائر کی گئی
درخواست پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وہ احکامات معطل کردئیے جن میں انہوں نے 7
مسلم ممالک کے شہریوں پر 4 ماہ کیلئے امریکہ آمد پر پابندی عائد کردی تھی۔
وفاقی عدالت کے ان احکامات کا عمل امریکہ بھر میں ہوگا۔ حکومتی وکیل نے
موقف اختیار کیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے احکامات کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
ضلعی عدالت کے جج جیمز رابرٹ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے احکامات کو معطل کرتے ہوئے
عارضی حکم امتناعی جاری کیا اور اپنے ریمارکس میں کہا ایگزیکٹو احکامات سے
ریاست پر بوجھ پڑا اور مظاہروں کی وجہ سے ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔
واضح رہے اس سے قبل بھی تین ریاستوں کی مقامی عدالتوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ان
احکامات کو عارضی طور پر معطل کیا تھا مگر ان عدالتوں کے احکامات امریکہ
بھر میں نافذ العمل نہیں تھے۔ واشنگٹن کی وفاقی عدالت کے حالیہ حکم نامے پر
فوری طور پر ہوم لینڈ سکیورٹی کا رد عمل نہیں آسکا۔ سی این این کے مطابق
وائٹ ہاوس کے میڈیا ترجمان شان اسپائسر نے کہا امریکی محکمہ انصاف عدالت کے
حکم امتناعی کیخلاف درخواست دائر کریگا۔ رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاوس نے
عدالتی احکامات پر فوری رد عمل دیتے ہوئے عدالتی فیصلے کو اشتعال انگیز
قراردیا تاہم اگلے چند لمحوں میں وائٹ ہاوس اشتعال انگیز لفظ سے دستبردار
ہوگیا۔ ترجمان کے مطابق صدارتی حکم نامے کا مقصد وطن کی حفاظت کرنا ہے اور
آئینی اداروں پر امریکی عوام کی حفاظت کو یقینی بنانے کی ذمہ داری عائد
ہوتی ہے۔ جج کا کہناہے کہ نئی امیگر یشن پالیسی سے سب سے زیادہ نقصان
امریکی شہریوں کو ہوا۔ وفاقی عدالت نے صدر ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی کو
عارضی طور پر معطل کئے جانے کا ڈسٹرکٹ جج کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ عدالت
نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا کہ صدر ٹرمپ کے فیصلے سے ریاست واشنگٹن کی
معیشت اور شہریوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ لہذا اسکے خلاف حکم
امتناع جاری کیا جانا ضروری ہے۔واشنگٹن کے اٹارنی جنرل باب فرگوسن نے
ایگزیکٹو آرڈر کو معطل رکھنے کی درخواستیں دائر کر رکھی تھیں۔ باب فرگوسن
کا موقف تھا کہ صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر سے آئین میں دی گئی مذہبی آزادی
اور یکساں تحفظ کی یقین دہانی کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ آج آئین کی برتری ثابت
ہوئی ہے۔ کوئی قانون سے بالا نہیں ہونا چاہئے چاہے صدر ہی کیوں نہ ہو۔
عدالتی فیصلے کے بعد امریکی کسٹمز اینڈ بارڈر پرو ٹیکشن کی جانب سے
ائرلائنز کو پابندی زدہ ممالک سے مسافر لانے کی اجازت مل گئی ہے۔ ٹرمپ
انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔ امریکی میڈیا کے
مطابق وفاقی جج کا یہ فیصلہ ٹرمپ انتظامیہ کے لیے ایک بڑا اور اہم چیلنج ہے،
جس کا مطلب یہ ہے کہ اصولی طور پر جن سات مسلم ممالک پر پابندی لگائی گئی
تھی انکے شہری اب امریکی ویزا کے لیے درخواستیں جمع کروا سکتے ہیں۔ امریکی
عدالت کے فیصلے کے مطابق قطر ائرویز نے امریکی پابندی کا شکار ممالک کے
مسافروں کیلئے اپنے دروازے کھول دئیے۔ دوسری جانب ایران نے امریکی وزارت
خزانہ سے بیلسٹک میزائلوں کے تجربات اور دہشت گردی کی پشت پناہی جاری رکھنے
کے الزام میں ایرانی اداروں اور شخصیات پر پابندیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے
امریکہ کو خبر دار کیا ہے کہ تہران بھی امریکہ کی اینٹ کا جواب پتھر سے
دیگا۔ تہران کسی بھی وقت امریکی شخصیات اور اداروں کو بلیک لسٹ کرسکتا ہے۔
امریکی حکومت نے ایرانی شخصیات اور اداروں پر پابندیوں کا اعلان کر کے یہ
ثابت کیا ہے کہ امریکی انتظامیہ جان بوجھ کر حالات خراب کرنا چاہتی ہے۔
تہران جوابی کارروائی کے طور پر امریکی کمپنیوں اور اداروں پر پابندیاں
عائد کرسکتا ہے۔ ایرانی حکام کا کہنا تھا انکے پاس بھی دہشت گردی کی ملوث
امریکی اداروں اور شخصیات کی ایک فہرست موجود ہے جن پر تہران کی جانب سے
پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔ایران نے امریکی پابندیوں کو غیرقانونی اور
سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کی خلاف ورزی قرار دیا۔ امریکی ریاست انڈیانا
سے تعلق رکھنے والے کانگرس رکن آندرے کارسن نے کہا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف
سے مسلمان اکثریت والے سات ملکوں کے شہریوں پر امریکہ میں داخلہ پر عارضی
پابندی کے حکم نامے کے طویل المدتی اثرات ہوں گے اور اس سے داعش اور
القاعدہ جیسی تنظیموں کو مزید بھرتیوں میں ممکنہ طور پر مدد ملے گی۔ قبل
ازیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پابندی معطل کرنے والے جج پر سخت تنقید کی
تھی۔ ٹرمپ نے کہا ہے اس ’’نام نہاد جج‘‘ کا فیصلہ ملک سے قانون کی عملداری
ختم کردیگا۔ جج کا فیصلہ مضحکہ خیز ہے، ایسے منسوخ کردیا جائیگا۔ مشرق وسطی
کے ممالک بھی پابندی کے حامی ہیں۔ ہمیں اپنے ملک میں آنے والوں کا انتخاب
نہیں کرنے دیا جا رہا۔ امریکی سفری پاپندیوں کے خلاف لندن میں مظاہرہ کیا
گیا۔ ہزاروں افراد نے امریکی سفارتخانے کے سامنے دھرنا دیا۔ مظاہرین نے
ٹرمپ کے خلاف پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے مظاہرین نے ٹرمپ کے خلاف نعرہ بازی
بھی کی۔ پیرس میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ہزاروں افراد نے ایفل ٹاور کے
سامنے مارچ کیا۔ مسلمان تارکین وطن کے بارے میں نئے امریکی صدر کے احکامات
پر کڑی نکتہ چینی کرنے والے نوبل انعام یافتہ افراد کی تعداد 30 ہو گئی ہے۔
کولمبیا کے دارالحکومت بگوٹا میں امن کا انعام حاصل کرنے والوں کے اجلاس کی
افتتاحی تقریب میں شریک 30 نوبل انعام یافتگان کا کہنا تھا کہ مختلف عقیدے
کی وجہ سے مسلمانوں کو سماج سے دور رکھنا صحیح نہیں ہے۔امارات کی اتحاد
ائروے نے بھی امریکی عدالتی فیصلے کے بعد پابندی والے 7 مسلمان ملکوں کے
شہریوں کو سفر کی اجازت دیدی ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے سٹیوبیننکی قومی سلامتی
کونسل میں متنازعہ تقرری پر تنقید کرتے ہوئے ٹرمپ سے وضاحت طلب کی ہے۔ 50
ارکان کانگریس نے امریکی صدر کے نام خط لکھا ہے۔کئی ائرلائنز نے 7 ملکوں کے
مسافروں کو امریکہ لے جانے کیلئے پرواز یں شروع کردیں۔ سفری پابندی کے
مخالف حلقوں نے کہا جن افراد کے پاس ویزے ہیں وہ جلد ازجلد امریکہ کا رُخ
کرلیں، ٹرمپ انتظامیہ وفاقی عدالت کے فیصلے کیخلاف ہنگامی حکم امتناعی حاصل
کرنے میں کامیاب ہوگئی تو امریکہ جانے کا سلسلہ پھر رک سکتا ہے۔ شہری
آزادیوں کے حامی گروپوں نے صدر کے حکم کیخلاف جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان
کیا ہے۔ ڈیموکریٹ رہنما نینسی پلوسی نے سفری پابندی ختم کرنے کے اقدام کو
سراہا اور کہا ڈیموکریٹ رہنما ہماری اقدار اور آئین کی مخالف اس پابندی
کیخلاف دباو بڑھاتے رہیں گے۔ |
|