تعلیم ایک ہتھیار ہے،ایک طاقت ہے ،ایک حوصلہ
ہے،جوظالم کے ظلم کے خلاف لڑنے کے لئے مظلوم کو عطا ہوا ہے ۔جب جہالت اور
گمراہی کے اندھیرے حد سے بڑھ گئے تو تب اﷲ رب العزت نے اس جہالت اور بربریت
کا توڑ کرنے کیلئے عرش بریں سے پیغام اتارا کہ "اقراء "یعنی "پڑھ"اپنے رب
کے نام سے جس سے بڑی اور کوئی طاقت نہیں اور پھر نبی آخرالزمان کی شفاعت سے
لے کر ابن ہیثم کی تحقیقات تک،بوعلی سینا کی ایجادات سے لے کر ابوحنیفہ کے
تفکرات تک، سب اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اﷲ نے مسلمانوں کو جو پہلا پیغام
دیا تھا وہ پیغام وہ تعلیم ہر دور میں مسلمانوں کی اولین ترجیح رہی ہے اور
اس ہی کی بدولت مسلمانوں نے نہ صرف دنیا کو جہالت کے اندھیروں سے نکالا
بلکہ خود بھی ہر دور میں سرخرو رہے۔
مسلمانوں پر علم حاصل کرنا فرض قرار دیا گیا ہے،یہی وجہ ہے کہ طلوع اسلام
کے بعد مسلمانوں نے مختلف میدانوں میں جو کارہائے نمایاں انجام دیئے وہ
تاریخ کے صفحات پر رقم ہیں۔اسلام نے دیگر شعبوں کی طرح علم کے معاملہ میں
مردوزن کے مابین کوئی تفریق نہیں کی ۔نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے "طلب العلم
فریضتہ علی کل مسلم و مسلمتہ""علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض
ہے"اس معاملہ میں دینی اور دنیاوی علوم کی کوئی تخصیص نہیں رکھی گئی۔ماں کی
گود کو انسان کی پہلی درسگاہ سے تعبیر کیا گیا ہے،بچے کی صحیح تربیت ایک
ماں ہی بخوبی واحسن طور پر کر سکتی ہے ۔عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہر
کامیاب مرد کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔
موجودہ دور میں خواتین کی ذمہ داریاں اور بھی بڑھ جاتی ہیں یہ وقت کا تقاضا
ہے کہ عورتیں بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں دنیا کی عظیم المرتبت شخصیات
نے خواتین کے مقام و مرتبہ کو سمجھا اور ان کا احترام کیا نبی اکرمﷺ کا
ارشاد ہے "ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے"حضرت عائشہؓ کا علمی مقام و مرتبہ
مسلمہ ہے آپ سے بڑے بڑے صحابہ اکرامؓ مسائل پوچھا کرتے تھے۔عورتوں کی تعلیم
کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امام اعظم نعمان بن ثابت نے ایک
مسئلہ جو آپ کو نہیں معلوم تھا جو آپ کی بیٹی نے بتایا تھا جس کی وجہ سے آپ
نے اپنی بیٹی کے نام کواپنایا جس کی وجہ سے آپ کو ابو حنیفہ کے نام سے دنیا
جانتی ہے۔ہندوستان کے بہت بڑے عالم حضرت مظہر جان جاناں کی بیٹی نے قرآن کی
تفسیر لکھی تھی۔
حدیث میں ناقصل العقل سے مراد زنانہ خصوصیات کی حامل ایکس کروموسوم کی
زیادتی ہے ۔اگر غور سے دیکھا جائے تو مخبر صادقﷺ نے خود عورتوں کی اعلی
ذہانت کا اعتراف کرتے ہوئے فرمایاکہ"ان کی اعلی استعداد کے سامنے بڑے قوت
ارادی کے مالکوں(لب والحازم) کے ذہن بھی مانند پڑ جاتے ہیں "۔حدیث میں لب
والحازم کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔لب سے مراد اعلی ذہانت ہے اور یہ لفظ
عقل کے لفظ سے زیادہ قوی اور خالص ہے۔(دیکھئے معجم مقاییس اللغتہ زیر لب/لسان
العرب بذیل مادہ حزم)الحازم سے مراد:الضابط لامرہ:یعنی ایک ایسا شخص جو
اپنے کاموں کو صحیح اور منظم طریقے سے کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتا
ہوں۔(دیکھئے فتح الباری شرح صحیح البخاری جلد1ص322تفسیرالمراغی جلد1صفحہ
75)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں اپنی اعلی استعدادکی بدولت ایسے شخص کو
متاثر کر سکتی ہیں۔جس کو اپنی ذہانت پر مکمل اعتبار اور بھروسہ ہو۔ظاہر ہے
کہ ایک فطین اورذہین شخص کو ذہانت کے بل بوتے پر متاثر کرسکتی ہیں۔قرآن و
حدیث کے درج بالا ارشادات عام عورتوں کی عمومی ذہنی صلاحیتوں کے بارے میں
ہیں۔استثنائی حالات میں بعض خواتین غیر معمولی ذہنی صلاحیتوں کی مالک ہو
سکتی ہیں،کیونکہ قرآن پاک عام طور پر اکثر اور عام سے بحث کرتا ہے۔اس تمام
تفصیل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلام عورتوں کو دوسرے درجے کی مخلوق نہیں
سمجھتابلکہ حقوق وفرائض اور معاشرت میں مرد کے برابر تصور کرتا ہے۔اس ضمن
میں مستشرقین کا یہ پروپیگنڈہ کہ اسلام عورت کو ناقص العقل اور دوسرے درجے
کی غبی مخلوق سمجھتا ہے سراسر غلط لغواور بے بنیاد ہے۔
اگر عورت تعلیم اور انسانیت سے عاری ہوتو اس کی موجودگی اچھے خاصی گھر اور
معاشرے کو جہنم میں تبدیل کرسکتی ہے۔موجودہ دور میں جہاں دنیا سمٹ کر ایک
گاؤں کی شکل اختیار کر چکی ہے عورت کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا اور حصول
علم کیلئے سہولیات مہیا کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ایک پڑھی لکھی عورت پورے
خاندان بلکہ ایک پوری نسل کی تعلیم وتربیت میں اہم کردارادا کرتی ہے ۔بعض
شعبہ ہائے زندگی میں تو عورت مردوں کی نسبت زیادہ بہتر انداز میں کام کر
رہی ہیں اس سلسلہ میں تعلیم اور طب کے میدانوں کی مثالیں بہ آسانی دی
جاسکتی ہیں جہاں عورت بہت فعال کردار ادا کر رہی ہے۔یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ
ہمارے معاشرے میں تعلیم نسواں کیلئے حکومتی سطح پر سنجیدہ کوششیں عمل میں
لائی جا رہی ہیں اور نہ ہی نجی شعبہ اس سلسلے میں فعال کردار ادا کررہا ہے۔
ہمارے معاشرے میں عورتوں کی تعلیم کے حوالے سے بہت سے مسائل ہیں جس کی وجہ
سے وہ اپنی تعلیم جارہی نہیں رکھ سکتیں اس کے لئے ضروری ہے کی حکومت کو
چاہیے کہ معاشرے سے ہم آہنگ نصاب تعلیم ترتیب دے۔غریب بچیوں کی مالی معاونت
کریں اور ان کے یونیفارم کابھی بندوبست کرے۔گھر سے دور تعلیمی ادارے ہیں ان
کو رہائش کے قریب بندوبست کیا جائے۔ٹرانسپورٹ کا مناسب انتظام کیا جائے اور
کرایہ کم لیا جائے۔کاپیاں مفت فراہم کی جائیں۔تعلیم کو اگرمفت نہیں کرسکتے
تو سستاضرور کیا جائے۔تعلیم کے بارے میں جو منفی تصور ہے اس کا خاتمہ ضروری
ہے،سوچ میں مثبت تبدیلی کی ضرورت ہے۔پڑھنے والی بچیوں کو تحفظ فراہم کیا
جائے۔ان کو شعور آگہی فراہم کی جائے اور پراعتماد بنایا جائے۔استحصال کا
خاتمہ اور ملازمت کے مواقع زیادہ فراہم کیے جائیں۔اچھے تعلیمی ادراوں میں
اضافہ اور ہاسٹل کے مسائل اور اخراجات کو حل کیا جائے۔سب کو ایک جیسے مواقع
،حوصلہ افزائی اور پذیرائی کی جائے۔بہتر مواقع ،محفوظ مستقبل، جھجک کاخاتمہ
اور ملازم خواتین کے مسائل کو بھی حل کیا جائے۔جدید طریقہ تدریس،پڑھائی کے
دوران کے مسائل گھریلو مسائل کے لئے کوششیں کی جائیں اور سب سے بڑھ کر فنی
تعلیم پر توجہ مرکوز کی جائے۔اگر ہمارے معاشرے میں یہ کام ہو جائیں تو وہ
وقت دور نہیں جب ہمارے ملک کی عورتیں بھی دوسرے ملکوں کی عورتوں کی طرح ہر
شعبہ زندگی میں کارہائے نمایاں کرتے ہوئے نظر آئیں گی اور پھر پاکستان کو
کوئی بھی طاقت ترقی یافتہ ملک ہونے سے نہیں روک سکے گا۔
|