"دعوت دین اور سوشل میڈیا عصر حاضر میں"
اس دنیا کی تخلیق اللہ تعالی نے کی۔تمام مخلوقات کا خالق ومالک اللہ تعالی
ہے۔اللہ نے فطری تقاضوں کے زریعے انسانوں کو سوچنے،بولنے ،سمجھنے کی قوت دی
تاکہ وہ اس پر غوروفکر کر سکیں۔
قرآن کہتا ہے:
افلا یتدبرون القرآن ام علی قلوب اقفالھا۰
ترجمہ:کیا تم غور فکر نہیں کرتے کیا تمھارے دلوں پر قفل پڑے ہوے ہیں۔
دعوت دین کا آغازوارتقاء نبی پاک کی مقدس ہستی سے ملتا ہے۔آپ کو رحمتہ
العالمین،مربی اور مزکی کے نام سے جانا جاتا ہے۔دعوت دین کا سلسلہ زمانہ
قدیم سے لے کر عصر حاضرتک قایم ودایم ہے۔علماء کرام اس دعوت دین کو پھیلانے
میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔اسی کے پیش نطر اگر سوشل میڈیا کی بات کی
جاےٗتو اکیسویں صدی انٹرنیٹ کی دنیا ہے اور دنیا ایک گلوبل ولیج کی حیثیت
اختیار کرچکی ہے۔آج سوشل میڈیا کے زریعے دعوت دین کا آغاز بھی کیا جا رہا
ہےاور کیا جاتا رہے گا۔سوشل میڈیا سماجی رابطے کی ویب سایٹ ہے۔عصر حاضر میں
آج ہر خبر سوشل میڈیا پر اول نبر پر دی گیٗ ہے۔دین کا کام بھی روز و شب
میڈیا پر آن لاین دستیاب ہے۔جس سے ہم مستفید ہو سکتے ہیں۔
دعوت کا معنی و مفہوم:
دعوت ایک مقدس فریضہ ہے۔جو ہرنبی کے فرایض منصبی میں داخل ہے۔اس کا
معنی:عام کرنا، احکام کو پھیلانا ،لوگوں کو قایل کرنا ہے۔ علامہ راغب
اصفھانی نے دعوت کے مفہوم کو خوبصورت انداز میں بیان کرتےہیں:
الدعا الی شی ای الحث علی قصیدہ۔
دعوت کا اصطلاحی مفہوم:
دعوت کا مطلب دایرہ اسلام میں داخل ہونے اور اس پر کاربند رہنے کی طلب کو
دعوت کہتے ہیں۔انسانوں کے متعلق اللہ تعالی کی رحمت و سنت اور قوم کو عدل و
انصاف پر مبنی یہ ہے کہ وہ حجت کیے بغیر کسی قوم کو عزاب میں مبتلا نہیں
کرتا۔
قرآن میں اللہ تعالہ فرماتا ہے:
یایھا الزین آمنو استجیوا للہ ولرسول اذا دعاکم لما یحیکم۰
ترجمہ:اے لوگوں جو ایمان لاےٗ ہواللہ تعالی اور ان کے رسول کی دعوت قبول
کرو،جب وہ تمھیں اس چیز کے لیے دعوت دیں جو تمھیں زندگی بخشتی ہے۔
احادیث کی روشنی میں دعوت و تبلیغ:
عن انس اللہ عنہ قال:قال رسول اللہ:لقد خفت فی اللہ وما یخاف احد،ولقد
اوزیت فی اللہ لم یوز اھد ،ولقد اتت علی ثلاثون من بین یوم ولیلتہ ومالی
وبلال طعام یاکلہ زولبد الا شی یواریہ ابط بلال۔
ترجمہ:
حضرت انس اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:
دین کی دعوت کے سلسہ میں مجھے اتنا ڈرایا گیا کہ کسی کو اتنا نہیں ڈرایا
گیا اور اللہ تعالی کے راستے میں مجھے اتنا ستایا گیا کہ مجھ پر تیس دن اور
تیس راتیں مسلسل اس حال میں گزری ہیں کہ میرے اور بلال کے لیے کھانے کی کوی
ایسی چیز نہیں تھی جس کو کوی جاندار کھا سکھیں۔صرف اتنی چیز ہوتی جس کو
بلال کی بغل چھپالے یعنی بہت تھوڑی مقدار میں ہوتی تھی۔
عصر حاضر کے تقاضے اور دعوت دین:
عصر حاضر کے تقاضے دعوت دین کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔اسلام ہی کہتا ہے
کہ ہر معاملے میں شایستگی اور عمدگی کو ملحوظ خاطررکھا جاے۔جہاں کی قتال
کیا جاتا ہے وہاں اسوہ حسنہ کا درس دیا جاتا ہے اور اسی پر عمل کیا جاتا
ہے۔ان تقاضوں کو مندرجہ زیل نکات میں پیش کیا جاتا ہے جوکہ مندرجہ زیل ہیں۔
۱)دینی و اسلامی سوچ قایم رکھنا۔
۲)خوبیوں کا اعتراف کرنا۔
۳)حسن ظن سے کام لینا۔
۴)حق گوی ہو۔
۵)جدید ساینسی ایجادات کا استعمال کرنا۔
۶) اللہ سے ربط تعلق مضبوط ہو۔
۷) امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہو۔
۸)بھلای کا حریص بن کر دعوت دینا۔
۹)دینی تعلیم کے مدارس
۱۰)عہد نبوی میں تبلیغ کے ذرا ئع
۱)دینی و اسلامی سوچ قائم کرنا:
دعوت دین میں داعی اہم کام سرانجا م دیتا ہے اس میں ایک تقاضا یہ ہے کہ
دینی و اسلامی سوچ قائم رکھی جائے امتیازات اور فرقوں میں اونچ نیچ نہ کی
جاے ترویج و اشاعت خالص دین پر ہوں۔قادیانیت جیسے عنوانات پر کام سے حو صلہ
ملتا ہے۔
۲)خوبیوں کا اعتراف کرنا:
داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ خوبیوں کا اعتراف اسطرح سے کریں کہ وہ خامیوں
اور کمزوریوں کو دور رکھیں۔لوگوں کو دین کے طرف بلواے۔ان کے دلوں میں حق
بٹھاے اور راسخ کریں اور جب کوی شکوہ شکایت بیان کیا جاے تو اسے مکمل دھیان
سے سنے۔
۳)حسن ظن سے کام لیا جائے:
داعی کو چاہیے کہ وہ حسن ظن میں یہ دھیان رکھیں کہ عام حالات میں کسی کے حق
میں ترجیحا بہتر خیال رکھیں جہاں حرکات و سکنات مشتبہ ہوں وہاں اچھے پہلووں
کو ترجیح دی جاےاور بدگمانی سے پرہز کیا جاے شریعت میں بہت سے مساٗیل حسن
ظن پر ہی اںحصار کیے جاتے ہیں۔
۴)حق گوی ہو:
داعی کا ایک اور فریضہ ہے کہ وہ حق گوی کو قایم رکھیں۔جب وہ مشن پر نکلیں
تو نیک مقصد رکھیں اور اسکا مقصد کسی کو برا بھلا کہنا نہ ہو اور نہ ہی کسی
کو منہ توڑ جواب ہو بلکہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہو اور اسی کو لے کر
آگے چلنے والے ہو۔
۵)جدید ساینسی ایجادات کا استعمال کرنا:
داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ جدید ایجادات کا استعمال کریں متمدن ملکوں میں
تحریک کے لیے لوگوں کے اندر پھیلانے کے بھی زیادہ کارآمد ہیں۔جدید زرایع
میں فیس بک،یوٹیوب،ٹویٹر ،لنکڈان ،وٹس ایپ،واٰیبر کا استعمال کریں۔
۶)اللہ سے ربط تعلق مضبوط ہو:
چھٹا تقاضا اس چیز کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اللہ سے ربط تعلق مضبوط بنایا
جاے اور جن لوگوں نے دعوت و اصلاح کا کام کیا اور بگڑے ہوئےمعاشرے کو
سدھارا۔انسان کو گھٹیا ترین تہذیبوں کے فریب اور معشیت کے اصولوں سے نجات
دلوای۔آخرت اور روز قیامت شکوک شبہات کا ازالہ کروایا۔اللہ کا خوف،رجوع
،توبہ ،محبت دلوں میں اجاگر کروایں۔انسانوں کو جھہنم کی زلیل اور دکھ دینے
والی آگ سے بچا کر عزت و فلاح کے مقام کا حق دار ٹھرایا۔عظیم افراد کے لیے
ضروری ہے کہ ان کا تعلق اللہ سے مضبوط بنایا جاے ۔
۷) امر بالمعروف و نہی عن المنکر:
اس سے مراد نیکی کا حکم دینا اور برای سے روکنا ہے۔آج جب دین دار دعوت دین
کے کاموں میں مشغول ہوتا ہے تو یہی چاہتا ہے کہ وہ لوگوں کو صرف معروف یعنی
نیکی اور خیر کی دعوت دے اور معاشرے میں برایوں کی روک تھام کریں۔
۸)بھلای کا حریص بن کر دعوت دینا:
آٹھواں تقاضا بھلای کا حریص بن کر دعوت دینے کا ہے۔داعی الی کے لیے ضروری
ہے کہ وہ صرف انسانوں کی دنیا و آخرت میں بھلای کے جذبے کے تحت کام کرے
اور عمل سے یہ ثابت کردے وہ سچا خیرخواں ہے۔آخرت میں جہنم سے نجات دلاے
گا۔
۹)دینی تعلیم کے مدارس:
نواں تقاضا ھم سے یہ کہتا ہے کہ دینی تعلیم کا تعلق قریب تر ہے اور ان کا
مقصد طریق تعلیم و تربیت ،نصاب کا ہے۔ہر چیز کے عیوب و محاسن ہیں۔ارباب
مدارس میں منلکی تعصب کی بڑی وجہ شدومد ہے۔دینی علم کا حاصل ایک دوسرے کے
وجود کو تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں۔ آج مدارس کے نصاب پڑھنے والے بھی ین
سے مطلع نہیں۔سیاسی ،معاشرتی تبدیلیاں رونما ہویں۔اصحاب مدارس میں دین کی
خدمت کم تعصب ،فرقہ واریت میں بڑا ذریعہ ہیں۔سب سے زیادہ زہنی تنگی پای
جاتی ہیں جوکہ بے جانہ نہیں۔
۱۰)عہد نبوی میں تبلیغ کے زرایع:
عہد نبوی میں تبلیغ کے ذرایع واضع کیے جاتے ہیں۔ رسول اللہ نے دعوت کے
سلسلہ میں اپنے عہد کی معاشرتی اور اجتماعی زندگی میں نشونما پانے والوں
طریقوں سے بھرپور فایدہ اٹھایا۔دعوت کے سلسلہ میں کارآمد ثابت ہوے۔ پہلے
پہل خاندان کو دینی دعوت پر بلایا گیا اور دوسری طرف علاقوں سے سرداروں سے
ملتے ہی انہیں اسلام کی دعوت دی گیٗ۔بعض مقامات پر نمایندے بھیجے گیے اور
عرب میں کچھ معاشی بازار بھی لگتے ۔مختلف طبقہ اور فکر کے لوگ جمع ہو جاتے
خرید وفروخت اور کھیل تماشوں کے علاوہ علمی و ادبی مجالس منعقد کرواتے۔دعوت
اسلام کو خط و خطابت اور خطوط لکھ کر تبلیغ کا ذریعہ بناتے۔
دعوت دین کے لیے سوشل میڈیا کے مستعمل زرایع
دعوت دین کے لیے سوشل میڈیا میں جن زرایع کا استعمال کیا جا رہا ہے ان کی
فہرست مندرجہ زیل ہیں۔
۱)فیس بک
۲)ٹویٹر
۳)گوگل پلس
۴)وکی پیڈیا
۵)یوٹیوب
۶)آن لاین فورمز
۷) بلاگز
فیس بک:
فیس بک کا آغاز ۴ فروری ۲۰۰۴ میں کیمبرج مسیاچیوٹ یوناییڈ سٹیٹ میں ہوا۔اس
کا ہیڈکوارٹر "مینلوپارک کیلیفورنیا میں کیا گیا۔اس کے بانی مارک زکربرگ
،ڈسٹن موسکووٹز،ایڈوارڈوسیورین اینڈ میک کالم چیرس ہگز ہیں۔
دعوت دین میں استعمال:
فیس بک کو دعوت دین کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔اس حوالے سے فیس بک مزہبی
سایٹس کا پیج بنایا گیا ہے جو مزہبی سایٹس کے نام سے مشہور ہیں۔اس طرح ان
مزہبی سایٹس میں مسلم،ہندو،عیسایت کی علیحدہ علیحدہ پروفایل بنای گی ہیں
جنھیں مسلم،ہندو،عیسایت اپنے طور طریقوں سے استعمال کرتے ہیں۔ان میں
لایکس،کمنٹس اور شیرز کو ترجیحات دی جاتی ہیں۔اسطرح ایک پیج"خواتین اسلام
"کے زریعے سے بھی فیس بک پر شامل کیا گیا ہے جس سے دعوت کا کام بڑھ رہا
ہےاور اس سے مزید فواید حاصل کیے جا رہے ہیں۔
ٹویٹر:
ٹویٹر کا آغاز ۲۱ مارچ ۲۰۰۶ مین کیا گیا۔یہ آن لاین نیوز اور سوشل نیٹ
ورکنگ سروس ہے۔اس پر ۱۴۰ کریکٹر پیغامات کیے جاتے ہیں۔جنھیں ٹویٹ کا نام
دیا گیا ہے۔
یہ سن فرانسکو کیلفورنیا یونایڈسٹیٹ میں پای گی ہے۔اس کے بنانے والے ایون
ولیم ،نوحہ گلاس ،جیک ڈورسے،بزسٹون ہیں۔۳۴۰ ملین ہر روز صارفین اسے ٹویٹ
کرتے ہیں۔ٹویٹر کی پروفایل لنکڈان ،یوٹیوب اور ٹویٹر ہیں۔
دعوت دین میں استعمال:
دعوت دین میں ٹویٹر کا استعمال مختلف ویب سایٹس کے زریعے کیا جاتا ہے۔
جس میں ایک ویب سایٹس دعوت اسلامی کے نام پر ہے۔اس میں مختلف رسالے ،کتب
شایع کیے جاتے ہیں تاکہ لوگ ان کو آن لاین پڑھ کر مستفید ہوسکیں۔دوسری ویب
سایٹس اقامت دین اور دعوت تبلیغ فرض ہے جس کے زریعے مختلف علماء کرام اور
داعی اپنی تبلیغ کا کام سراناجام دےرہے ہیں۔ٹویٹر پر ان کو بلیو سکالرز کے
نام سے جانا جاتا ہے۔
گوگل پلس:
گوگل کا آغاز ۴ ستمبر ۱۹۹۸ مین کیا گیا۔گوگل ایک امریکن ملٹی نیشنل
تیکنالوجی کمپنی ہے جس کی سپلایزیشن انڑنیٹ اور دیگر سروسز کر رہی ہیں۔اس
میں آن لاین ٹیکنالوجی کی ایڈوٹایزنگ کی جاتی ہے۔اس کا ہیڈکوارٹر ماونٹین
ویو کیلفورنیا یونایڈسٹیٹ میں کیا گیا ہے۔اس کے بانی لیرج پیج سرجی برن
ہیں۔اس میں پروفایل لنکڈان،فیس بک،ٹویٹر،گوگل پلس ،انسٹاگرام شامل ہیں۔اس
کے تحت ادارے یوٹیوب نیک سافٹ ویر ،ایڈموب ،ای ٹی اے سافٹ ویر ہیں۔
دعوت دین میں اس کا استعمال:
دعوت دین میں گوگل پلس پر ہر طرح کی ویب سایٹس کھول دی جاتی ہے۔گوگل کے
زریعے ویب سایٹس کو آسانی سے کھول کر پڑھا جا سکتا ہے۔آن لاین کتب کو
ڈاون لوڈ کرکے اسے اپنے پاس محفوظ بھی رکھا جا سکتا ہےاسطرح مختلف ویب
سایٹس"دعوت اسلامی "،دعوت دین اور کی مشہور کتب جن میں اقامت دین اور دعوت
و تبلیغ فرض ہے۔"مولانا اسحاق کو اب گوگل کے زریعے آسانی سے کھولا جا سکتا
ہے۔گوگل کوانٹرنیٹ کا بادشاہ بھی قرار دیا گیا ہے۔اکے زریعے دعوت دین کی ہر
کتب ،رسالے ،ڈکشنری ،آن لاین لیکچرز دیکھے اور پڑھے بھی جا سکتے ہیں۔
وکی پیڈیا:
وکی پیڈیا ایک فری آن لاین انسایکلوپیڈیا ہے۔جس میں صارفین اپنی مرضی سے
آرٹیکل اس میں شامل کر سکتے ہیں۔وکی پیڈیا بہت بڑا اور مشہور حوالہ جاتی
کام ہے۔جوکہ انٹرنیٹ کے زریعے کیا جاتا ہے۔اور یہ دس مشہور ویب سایٹس میں
سے ایک ہیں۔اس کا آغاز ۱۵ جنوری ۲۰۰۱ میں کیا گیا۔وکی پیڈیا کے انگریزی
ایڈیشن کی تعداد ۵،۲۸۱۰۴۴ آرٹیکل پر مشتمل ہیں۔اس کے ۲۰۰ پرنٹ والیم
ہیں۔اس کو بنانے والے رک گیٹس ہیں۔جس نے ۱۹۹۳ میں اس کو بنایا۔یہ ایک فری
انسایکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتا ہے۔۱۸ بلین صفحات ایک مہینے میں لکھے جاتے
ہیں۔الیگزا انٹرنیٹ کے مطابق اس کا شمار چھٹے نمبر پر کیا جاتا ہے۔
دعوت دین میں اس کا استعمال :
وکی پیڈیا میں آن لاین قرآن و حدیث ،واقعات،مضامین،کتب کو ترمیم کیا جاتا
ہے اور اپنی مرضی سے صفحات دے کر اس کی اشاعت کی جاتی ہے۔اسطرح تفاسیر
،سیرت اور کیی دیگر کتب مسایل کو سوالات اور جوابات کے زریعے بھی وکی پیڈیا
میں شمار کیا جاتا ہے تاکہ متعلقی صارفین اور دوست احباب ان کو پڑھ کر
استفادہ حاصل کر سکے اور دوسرے بھی اس سے مستفید ہو سکے۔
یوٹیوب:
یوٹیوب ایک امریکن ویڈیو شیرینگ ویب سایٹس ہے۔اس کا آغاز ۱۴ فروری ۲۰۰۵
میں کیا گیا۔اس کا ہیڈکوارٹر سن برونو کیلفورنیا یونایڈسٹیٹ میں کیا گیا۔اس
سروس کے بنانے والے تین فارمر پے پال کے روزگارتھے۔نومبر ۲۰۰۶ میں یوٹیوب
کو گوگل سے ۱۶۵ یو ایس ڈالڑ دیا گیا۔اس کے بانی چیڈہرلی ،سیٹیو چین،جاوید
کریم ہیں۔یوٹیوب کی پروفائل فیس بک ،ٹویٹر ،لنکڈان ،انسٹاگرام،گوگل پلس
ہیں۔اس کو گوگل کے زریعے کھولا جاتا ہے۔جوکہ ایک سربراہ کی حیثیت سے اہم
کردار ادا کرتا ہے۔
دعوت دین میں اس کا استعمال:
دعوت دین میں یوٹیوب اہم کام سر انجام دے رہا ہے۔یوٹیوب پر زاکر
نایک،مولانا طارق جمیل کی کیی ایسی ویڈیوز نظر آتی ہیں۔جس سے دعوت دین کا
کام سر انجام بآسانی پنچایا جا رہا ہے۔اسطرح عورتوں میں ڈاکٹر فرحت ہاشمی
کے آن لاین لیکچرز بھی بآسانی سننے کوملتے ہیں۔کیی ایسی تقاریر بھی ہمیں
یوٹیوب پر بآسانی مل جاتی ہیں جن کے ذریعے ہم دین کو نہ صرف سمجھ سکتے ہیں
بلکہ اس کو اپنی زندگی کا حصہ بن کر اس پرعمل کرنا بھی شروع کر دیتے
ہیں۔اسی طرح ہر فرقے کے سکالرز یوٹیوب پر موجود ہے۔جس کی باقاعدہ ویڈیوز
بھی
اپ لوڈ کی جاتی ہے اور ان کو باقاعدہ سن کر راہنمای بھی لی جاتی ہے۔
آن لائن فورمز:
انٹرنیٹ فورمز اور پیغام بورڈز آن لاین ڈسکشن ہے۔ان فورمز پر لوگ بات چیت
کو پوسٹیڈ پیغامات چیٹ رومز سے مختلف کرتے ہیں۔یہ آن لاین تحریر کے لیے
کافی بڑے ہوتے ہیں۔عارضی طور پر انھیں آن لاین فورمز پر محفوظ کیا جاتا
ہے۔
دعوت دین میں آن لاین فورمز کا استعمال:
آن لاین فورمز کو دعوت دین کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔کڑوروں ممبر اس
ویب سایٹ کو مزہبی حوالے سے استعمال کرتے ہیں۔یہاں پر پیغامات کے متن کی
سطر زیادہ زیادہ لمبی ہوتی ہے۔عارضی طور پر محفوظ ہوتی ہے۔کیی موضوعات بیک
وقت اس فورمز میں سما سکتے ہیں۔
بلاگز:
بلاگز ایک ویب سایٹ ہے۔جس میں تحریر،تصویر اور ویڈیوز کے زریعے امت مسلمہ
کو باخبر کیا جاتا ہے کہ امت کے ہر فرد کو اپنی زمہ داری ادا کرنے کا احساس
دلایا جاے۔اس میں کیی طرح کے بلاگز بھی سما سکتے ہیں جن میں انگریزی،اردو
اور کیی زبانوں پر مشتمل یہ بلاگز دستیاب ہیں۔ان کی تشکیل کومثبت پیش رفت
قرار دیا جاتا ہے۔
دعوت دین میں بلاگز کا استعمال:
دعوت دین مین بعض علماء کرام کا یہ کہنا ہے کہ:
اللہ نے دین اسلام جیسا مذہب عطا کرتا ہے اور وہ دین کی نعمت سے خوش ہیں
اور اس دین میں تمام مسایل کا حل موجود ہے۔اسطرح دین کی تبلیغ کے لیے کیی
داعی اپنے بلاگز پر کام کر رہے ہیں۔اسی بلاگز میں وہ اپنی تحریر لکھتے ہیں
اور لوگوں کے لیے ظاہر کرتے ہیں تاکہ لوگ ان معلومات سے مستفید ہو سکیں۔دین
میں بہت سے مسایل کو جان سکیں اور مختلف اختلاف اور انتشار سے بچ سکیں۔
دعوت دین میں سوشل میڈیا کے اثرات:
دعوت دین میں سوشل میڈیا کے اثرات کچھ مثبت اور کچھ منفی دیکھنے کو ملیں۔ان
میں اول فیس بک پر تین مزہبی سایٹس کا تقاابلی جایزہ لیا گیا۔جس میں اول
نمبر پر مسلم سایٹ کو فوقیت دی گیی۔مسلم کے لایکس،کمنٹس،شیرز باقی مزاہب سے
قدرے زیادہ تھے۔اس کے بعد دوپ اور سوم پر عیسایت اور ہندو " مزہبی سایٹس کے
اثرات دیکھنے کو ملیں جوکہ مزیب کو درمیانے درجے تک استعمال کرتے ہیں۔ اس
کے بعد یوٹیوب میں ۱۰۰ ویڈیوز کا جایزہ لیا گیا جس میں ۵۰ ویڈیوز ریفرینس
اور ۵۰ بغیر ریفرنس کے ساتھ دیکھی گیی۔ان میں ۵۰ ویڈیوز مستند قرار
پایں۔ااس کے بعد ۱۰۰ لوگوں کا ڈیٹا فیس بک پر لیا گیا جھنیں پبلک ساٗیٹس کے
تحت دیکھا گیا۔اس میں دو کٹگریز بنایی گیی ۔ایک مزہبی شیرینگ کی بنای گیی
اور دوسری علاوہ از مزہبی شیرینگ کی بنایی گیی۔جس میں یہ اثرات منفی ملیں
اور علاوہ از مزہبی شیرینگ کے لایکس ،کمنٹس شیرز مزہبی شیرینگ سے زیادہ
تھے۔اس کے بعد سوشل میڈیا کے اثرات کو جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے طلبہ
و طالبات سے ایک سروے رپورٹ کے تحت کیا گیا۔جس میں ۲۰۰ سوالنامے بناے
گیے۔ہر فکلیٹیز میں ۵۰ ۵۰ سوالنامے تقسیم کر کے ان کے جوابات لیے گیے۔ان
میں اکژ سوالات مزیب سے متعلق تھے جس میں ان کی راے ۹۸ فیصد رہی پھر دوسرا
سوال مزہبی شیرینگ پر لیا گیا جس میں ان کی تعداد ۸۹ فیصد رہی ان سب سوالات
کے تحت یہ معلوم کیا گیا کہ دعوت دین کا استعمال اور سوشل میڈیا کے اثرات
مجموعی طور پر "مثبت "ہیں۔حاصل بحث:
اللہ نے اپنے محبوب کے زریعے لوگوں تک دعوت دین کا پیغام پہنچایا۔قرآن میں
دعوت دین کے حوالے سے فرمایا گیا ہے۔
وعلم الادم الاسماء الحسنی۰
ترجمہ:اور ہم نے آدم کو بہت سے نام سکھائیں۔
اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی نیکی کا حکم دینا اور برای سے منع کرنا
ایمان کی اہم نشانیوں میں اہم قرار دیا گیا۔بعض صوفیا کرام کی خدمات بھی
ھمیں داعی کی حیثیت سے نظر آتی ہے دعوت کو دو بنیادوں پر موقوف کیا گیاجس
میں ایک انفرادی دعوت ہے اور دوسری اجتماعی دعوت ہے۔
اسی طرح عصر حاضر میں دعوت کے تقاضوں کو بھی مدنظر رکھا گیا جس میں داعی کا
کردار سب سے زیادہ اہمیت کا حامل سمجھا گیا۔اسی طرح سوشل میڈیا کے جدید
مستعمل زرایع پر غور وفکر کیا گیا ان ذرایع کو علیحدہ علیحدہ بیان کرکے ان
کا استعمال و اسلوب دیکھا گیا اور دعوت دین میں ان کے اثرات معلوم کیے گیے
جن کے تحت نتایج مثبت اور بعض منفی نظر آئیں۔ |