آجکل ٹیلیوژن ہو یا اخبارات پاکستانی
میڈیا ہو یا برطانیوی میڈیا اے آر وائی اور جیو جنگ کی معرکہ آرائی پر
جہاں قلم بینی کررہے ہیں وہیں ہیڈ لائن کی سرخیاں میں سب سے پہلے جگہ دے
رہے ہیں ، برطانیہ کی ایک عدالت میں جنگ جیو دبئی کی کمپنی کے خلاف کیس جیت
گیا تو مسجھ بیٹھا کہ اس نے اے آر وائی کو ہرا دیا در حقیقت یہ کیس اے آر
وائی کے خلاف ہرگز نہیں تھا ، پاکستان کے عوام یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں
اگر جنگ /جیو اپنے موقف میں سچے ہیں تو پاکستان سے کیوں بھاگتے پھرتے ہیں
رہی بات برطانیہ کی تو برطانیہ نے ثابت کردیا کہ وہ وہی فیصلے دیتا ہے جس
میں اس کی اپنی مفادات شامل ہوں ، برطانیہ کی خفیہ اجنسی ایم آئی سیکس کا
اثر پورے برطانیہ کی ریاست اور ریاستی اداروں پر حائل ہے یہی وجہ ہے کہ
برطانیہ ہو یا امریکہ ان ممالک میں ان کے حق میں فیصلے سامنے آتے ہیں جو
ان ممالک کیلئے مفید اور معاون کار ہوں بصورت مدعی چاہے جرم سے کوسوں دور
کیوں نہ ہو وہ سزا کا مرتکب ہوتا ہے ، ایسا ہی برطانیہ کی عدالت نے جنگ/جیو
کے حق میں فیصلہ دینے پر اس لیئے مجبور ہوگئے تھے کیونکہ جنگ/جیو بھارتی
خفیہ ایجنسی را، امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کیلئے کام کرتے ہیں ، بھارت
سمیت امریکہ کی جانب سے بھاری قرم وصول بھی کرتے ہیں ، حامد میر ، انصار
عباسی، سلیم صحافی وہ نام ہیں جو را اور سی آئی اے کے پینل پر جیو /جنگ
کیساتھ کام کررہے ہیں اور اب شاہ زیب خانزادہ بھی اسی رنگ میں رنگ گیا ہے۔
معزز قائرین! جنگ اور جیو کے متعلق مجھے سب سے بہتر اور تحقیقی مواد جناب
سید انور محمود سے حاصل ہوا جو انھوں نے 30 اپریل سن2014 کو تحریر کیا تھا
، انھوں نے جو لکھا وہ اپنے قائرین کی خدمت میں پیش کررہا ہوں ۔۔۔۔۔!!
روزنامہ جنگ میر خلیل الرحمن نے 1940ء میں دہلی سے شروع کیا، اس وقت کے
حالات کے مطابق یہ اخبار بھی برصغیر کے مسلمانوں کے حق میں آواز بلند
کررہا تھا اور مسلم لیگ کی ترجمانی کررہا تھا،سن1947ءمیں قیام پاکستان کے
بعد کراچی کو دار لحکومت بنایا گیا، دارلحکومت ہونے کی وجہ سے کراچی کی
آبادی میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا اور کراچی ایک ابھرتا ہوا صنعتی شہر بن
گیا،آبادی میں اضافہ سے کراچی کی ترقی میں اخبارات کے قارئین میں بھی بہت
تیزی سے اضافہ ہوا۔ دہلی کے تین مسلم اخباروں روزنامہ ڈان، روزنامہ جنگ
اورروزنامہ انجام نے آزادی کے بعد اپنے دفاتر کراچی منتقل کئے۔ روزنامہ
ڈان چونکہ انگریزی زبا ن کا اخبار ہے لہذا اُس کا مقابلہ نہ جنگ سے تھا اور
نہ ہی انجام سے لیکن جنگ اور انجام میں مقابلہ جاری رہاجس میں انجام کو
پڑھنے والے جنگ سے کافی زیادہ تھے لیکن بعد میں دیکھتے ہی دیکھتے روزنامہ
جنگ ترقی کرتا چلاگیا اور روزنامہ انجام کافی اتار چڑھاؤ کے بعد آخرکار
بند ہوگیا۔ ۔۔۔،روزنامہ جنگ کی ترقی کے پیچھے دراصل میر خلیل الرحمن کی
قابلیت نہیں بلکہ کاروباری سازشیں تھیں جن کو بروئے کار لاتے ہوئے انہوں
نےروزنامہ انجام جیسے اخبار کو اپنی سازشوں کے زریعے بند کرادیا۔۔قیام
پاکستان سے قبل روزنامہ انجام کو مسلم لیگ کا آرگن ہونے کا اعزاز تو حاصل
نہیں تھا لیکن انجام شہرت میں سب سے آگے تھا، انہیں دنوں میر خلیل الرحمان
نے سید محمد تقی صاحب کی زیرادارت روزنامہ جنگ کا آغاز کیا مگر قیام
پاکستان تک روزنامہ جنگ دہلی میں مقبول نہیں ہو سکا تھا اور نہ ہی مدیران
اخبار کی نیتوں سے پردہ اٹھا تھا۔۔، سنسنی خیزی اور عو ام کے جذبات سے
کھیلنا اور اس قسم کے اوچھے ہتھکنڈوں سے روزنامہ جنگ روزنامہ انجام جیسے
بھاری قدیم اخبار کا وقار نہیں گرا سکا تھا۔۔ جرم وسزا کی خبریں نمایاں
کرنا، نیم برہنہ عورتوں کی تصویروں کی نمائش کرکے ظاہر ہے روزنامہ جنگ کسی
سیاسی یا تہذیبی تربیت کا فریضہ انجام نہیں دے رہا تھا۔۔۔ روزنامہ جنگ نے
ایک اور گھٹیا حربہ استعمال کرنا شروع کردیا تھا، جن کے ہاںروز نامہ انجام
باقاعدگی سے آتا تھا وہاں صبح سویرے ہاکر جو اخبار پھینک جاتا وہ روزنامہ
جنگ ہوتا، ہاکر سے اتنی صبح ملنا کوئی آسان نہیں تھا مہینے کے آ خر میں
حساب کرتے وقت جب پوچھا جاتا تو ہاکر کا جواب ہوتا کہ انجام ہم کو ملتا ہی
نہیں، نیوز ایجنسی جا کر معلوم ہوا کہ انجام وقت پرنہیں پہنچ پاتا۔۔ا یسی
بدنظمی کا شکارانجا م نہیں ہو سکتا تھا، مگرہاکر، نیوز ایجنسی اور حکام کے
ساتھ ملی بھگت کرکے ایسا کیا گیا اسکے علاوہ جنگ نے اپنی ذاتی نیوز
ایجنسیاں بھی قائم کر لی تھیں۔ بازار سے انجام کے بنڈل کے بنڈل خرید کر نذر
آتش کر دیے جاتے۔۔۔، عثمان آزاد کو الگ بدنام کرنے کی مہم چل نکلی تھی
اور پھر ایک سازش کرکے انجام کو فروخت کروادیا گیا اسکے بعد انجام کبھی
شائع ہوا اور کبھی بند اور پھر آخرکار روزنامہ انجام اپنے انجام کو پہنچا
اور ہمیشہ ہمیشہ کےلیے بند ہوگیا۔۔۔، شاید آج کی نوجوان نسل کوروزنامہ
انجام کے بارے میں معلوم ہی نہ ہو، میر خلیل الرحمن کا ہدف تھا کہ روزنامہ
جنگ کو جنگ گروپ بنانا اورپورے پاکستان میںجنگ گروپ کی اجاراداری قائم کرنا
اور اس مقصد میں میر خلیل الرحمن اپنی زندگی میں ہی کامیاب ہوچکے تھے۔
روزنامہ حریت کے فخر ماتری نے ہاکرز کی انفرادی ٹیم کے ذریعے اپنے اخبار کو
بروقت پہنچانے کا اہتمام کیا۔۔، طباعت کے معیار میں بھی روزنامہ حریت جنگ
سے کہیں بہتر تھا مگرکاروباری سازشی ذہن، کثیر سرمایہ اور سیاسی اثر ونفوذ
والےجنگ کا مقابلہ وہ نہ کر سکے۔۔ہندوستان اور پاکستان کے ابتدائی زمانے
میں لمحہ لمحہ بدلتے ہوئے سیاسی تناظر، کشمیر کے مسئلے، نئی سرحدوں اور
دریاؤں کی تقسیم کے نہایت اہم معاملات کے ساتھ بین الاقومی سطح پر ایک خاص
انداز کی گروہ بندیوں میں روزنامہ جنگ نے تمام اخبارات کے مقابلے پر سب سے
زیادہ سیاسی استحصال کیا اور اپنے عوام میں کبھی وہ شعور پیدا کرنے کی کوشش
نہیں کی جو ایک حقیقی صحافت کا فرض ہوتا ہے۔۔ چڑھتے سورج کے ساتھ موضوعات
بدل دینا جنگ کی صحافت کا ایک بدترین کارنامہ رہا ہے۔۔!! بحران کی صورت میں
ٹھہراؤ پیدا کرنے کی بجائے اپنی اشاعت کو بڑھانا اور حقائق سے پردہ نہ
اٹھانا جنگ کی پالیسی ہے چاہے اس کے نتیجے میں غلام محمد جیسے افراد اقتدار
میں آئے، فوج کو مداخلت کا موقع فراہم ہو یا ملک ٹوٹ جائے، پاکستانی
معاشرے کی تباہی میں جتنا کردار جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور ان کی محافظ
نوکر شاہی اور اقتدار پسند فوج کا رہا ہے اتنا ہی کردار روزنامہ جنگ کا بھی
ہے، ملک کی تباہی میں جنگ گروپ کی ترقی کا سامان وافر تھا۔۔ جنگ گروپ کے
اثاثے لاکھوں سے کروڑوں میں ہو گئے تھے جو اب اربوں گھربوں میں ہونگے۔۔جنگ
گروپ نے محض اپنی ذاتی مفاد کیلئے ہر اُس قدر کو پامال کیا جو ایک نوتعمیر
معاشرے کی بنیاد مضبوط کر سکتی تھی۔۔، روزنامہ جنگ کے بانی میر خلیل
الرحمان نےایک موقع پر کہاتھایہ کسی پارٹی کا نمائندہ اخبار نہیں ہے جو
اپنے نصب العین کیلئے نقصان اٹھانا برداشت کر لے۔۔۔۔ بھٹو دور میں جب مخالف
صحافیوں پر قیامت ٹوٹی ہوئی تھی تو ہڑتالیوں کی حالت زار دیکھ کر میر خلیل
الرحمان نے کہا تھا،بیشک آپ مشنری لوگ ہیں، آپ کا اخبار کاغذ کے پرزے پر
بھی بک جائے گا، روزنامہ جنگ پر اگر کوئی ایسی افتاد پڑے تو اس کو دوسرے دن
پوچھنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ انہوں نے بارہا کہا کہ جنگ ایک کمرشل اخبار
ہے، اس سے آپ زمیندار یا کامریڈ والی کسی قربانی اور ایثار کی توقع نہ
رکھئیے۔ ان بیانات میں کسی قسم کی شرمندگی کے بغیر جو نیم فخریہ انداز
اخبار کے کمرشل ہونے پر موجود ہے اُسی نے جنگ کو ابتداءسے پاکستان کی
سیاسی، اخلاقی اور معاشرتی تباہی میں 'قابل فخر کردار انجام دینے کے قابل
بنا دیا تھا۔جیو نیوز کے ایک اور پروگرام جرگہ کے اینکر سلیم صحافی نے تو
فوج کے خلاف ایک بہت بڑا کارنامہ اسطرح انجام دیا کہ سابق امیر جماعت
اسلامی سید منور حسن سے یہ کہلوادیا کہ طالبان دہشت گردوں میں سے اگر کوئی
امریکی ڈرون حملوں میں مرئےتو وہ شہید مگر پاک فوج کا کوئی جوان یا عام
شہری اگر مرئے تو وہ شہید نہیں۔ جنگ گروپ میں موجود طالبان کا حامی اور پاک
فوج کا مخالف انصار عباسی کا کام یہ رہا کہ روزانہ دو تین مضمون لکھتے تھے
جن میں کچھ طالبان کی حمایت میں اور کچھ فوج کی مخالفت میں ، جو جنگ اور دی
نیوز میں خبر کے طور پر شائع ہوتا رہا اور جیو نیوز پر خبر کی طرح نشرکیا
جاتا رہا، یہ ایک کھلی صحافتی بے ایمانی ہے۔جیو کے اینکر حامد میر امریکی
خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے پینل پر کام کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھکتے
نہیں اور سی آئی اے کی پالیسی پر چل کر پاکستان اور افواج پاکستان کی ہرزہ
سرائی کرتے ہوئے شرم بھی نہیں کرتے۔ ۔!! معزز قائرین! یہی نہیں بلکہ جنگ /
جیو نےاپنے اخبارمیںاسامہ کی ہلاکت کی خبر کو شہ سرخیوں کے ساتھ چھاپا اور
اپنے صفحات پر تبصرے ، القاعدہ کے خلاف جنگ کا مستقبل اور پاکستان اور
امریکہ کے تعلقات پر تجزیے شائع کیے۔جنگ اخبار نے لکھاکیا ہماری فوجی اور
سول قیادت پوری طرح ناکام ہوگئی، ریمنڈ کے بعد ایک اور چرکا۔۔۔،انگریزی
اخبار دی نیوز نے اس خبر کو شہ سرخی بنایا ہے اور لکھا ہے کہ اوباما گیٹس
اسامہ یعنی اوباما نے اسامہ کو پکڑ لیا۔ اخبار نے لکھا ہے کہ امریکی فوج نے
دنیا کے خطرناک شخص کو ایبٹ آباد میں ایک آپریشن میں ہلاک کر دیا اور اس
کی لاش کو سمندر میںڈبو دی۔ روزنامہ جنگ نے لکھا ہے کہ ایبٹ آباد کے علاقے
بلال ٹاؤن میں آپریشن پنتیس سے چالیس منٹ تک جاری رہا جس میں القاعدہ کے
سربراہ، ان کے بیٹے اور تین ساتھیوں ہلاک کر دیا گیا۔۔!
معزز قائرین !بی بی سی اردو ۔۔منگل 3 مئ 2011 کو اپنی ویب پر جنگ کے خلاف
کچھ یوں لکھا تھا ۔۔ جنگ اخبار نے شیعہ دشمنی میں بھی کسی کم نہ ہوئے، جنگ
اخبار نے لاہور نے اپنی13اگست2013 کی اشاعت میں تکفیری وہابی جماعت کالعدم
سپاہ صحابہ کے مظاہرے کی تصویر کو شائع کیا جس میں تکفیری وہابی مولویوں کے
قتل کا الزام براہ راست پانچ کروڑ اہل تشیع پر لگایا گیا تھا۔۔۔!!
معزز قائرین !آج کل کی نئی نسل جنگ /جیو کی پالیسی سے ہرگز واقف نہیں اور
نہ ہی اس کی ترقی و ترویج کے متعلق حقائق جانتی ہے ، میرا صحافتی فرض بنتا
تھا کہ مین اپنے میڈیا کے بارے میں بھی لکھوں یقیناً جنگ /جیو کی زرد صحافت
نے اس مقدس پیشہ کو برباد کرکے رکھ دیا ، صحافت اور اشاعت ، پیپرز پر اپنی
اجارہ داری ، غنڈہ گردی، دھونس دھمکی سے ہمیشہ کمزور اور چھوٹے اخبارات ہوں
یا ٹی وی چینلز انہیں دباتے چلے آئے ہیں ، اس کے علاوہ جنگ /جیو نے میاں
نواز شریف کی حکومت بنانے میں میڈیا سیل کا کردار ادا کیا تھا ، جہانگیر
صدیقی سمیت اسحٰق ڈار کے منی جرائم پر خوب پردہ ڈالے اور حکومتی تعریفوں کے
بند باندھ دیئے، ظاہر ہے جہانگیر صدیقی اور اسحٰق ڈار سے خاندانی تعلقات کی
وجہ سے پاکستان کے سب سے بڑے ٖڈاکو شریف برادران کی سپورٹ لازم بنتی ہے
کیونکہ دوسری جانب اسحٰق ڈار میاں نواز شریف کے سمدھی جو ٹھہرے گویا بڑے
مگر مچھ اب سمندر سے باہر خشکی میں اوندھے پڑے ہیں بار بار کروٹ لگانے کی
کوششیں جاری ہیں مگر ریت سنبھلنے نہیں دیتیکہنے والے یہ بھی کہ رہے ہیں کہ
اللہ کی پکڑ آپہنچی ہے اور اب ان کے چہروں کے پیچھے مکارپن ، منافقت،
خودغرضیاں عیاں ہوگئی ہیں!! معزز قائرین! محب الوطن پاکستانیوں کا کہنا ہے
کہ جیو /جنگ کو اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا اور حقیقت میں پاکستان ۔ پاکستانی
اداروں کا احترام کرنے کے علاوہ منصب صحافت کو انجام دینے والوں پر اپنا
دباؤ ختم کرنا ہوگا اگر جیو /جنگ نے پھر بھی غداروں کا ساتھ دیا تو اس ملک
میں رہنے کا اس کو قطعی حق نہیں ہے وہ پھر اپنا بوریہ بستر گول کرلے۔۔۔!!
معزز قائرین ! جیو /جنگ کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اب کے بزرگوں نے ہی
دھوکہ، فراڈ، جھوٹ، عیاری سے دولت کمائی ہے اور مال داری کے نشے میں بہکے
ہوئے ہیں ، پاکستانی صحافیوں ، ادیبوں، لکھاریوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ
وطن عزیز پاکستان کی عزت، سلامتی و بقا کیلئے جنگ /جیو کی غلط پالیسیوں کا
شدت سے جواب دیں اور تحفظات صحافت کیلئے یکجا ہوکر جنگ /جیو کی غلط اقدام
کی روک تھام میں اتحاد پیدا کرکے زبردست اپنا احتجاج پیش کریں اللہ ہمارا
ملک اور صحافت کو روشن و آباد رکھے آمین |