تحریر: حبیب اﷲ قمر
بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کے الزام میں افضل گورو شہیدکی پھانسی کو چار سال
مکمل ہو چکے ہیں جس پر حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں ، جے کے ایل ایف اور
دیگر کشمیری جماعتوں کی جانب سے زبردست ہڑتال کی جارہی ہے۔ شہید افضل
گوروگیارہ برس تک بھارتی جیلوں میں قید رہے اور پھر اچانک انہیں 9فروری
2013ء کو انتہائی رازداری سے تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ان کی پھانسی
کی اطلاع کشمیری قوم کو بھارتی ٹی وی چینلز کے ذریعہ ملی اور پھر جموں
کشمیر کے کونے کونے میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کشمیریوں
میں اس واقعہ کا اتنا شدید ردعمل تھا کہ بھارتی فورسز کی جانب سے جموں
کشمیرمیں سخت ترین کرفیو نہ لگایا جاتاتو کشمیر کا ہر چوک تحریر سکوائر کا
منظر پیش کر رہا ہوتا۔ آٹھ لاکھ بھارتی فوج، سی آر پی ایف اور دیگر فورسز
کی طرف سے سکیورٹی انتظامات اور درجنوں کشمیریوں کی شہادت کے باوجود طویل
عرصہ تک جموں کشمیر میں حالات معمول پر نہیں آسکے اور نہتے کشمیری اپنے
سینوں پر گولیاں کھاتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔محمد افضل گورو
کی زندگی علم، فن اور جدوجہد سے عبارت تھی۔47 سالہ افضل گورو شمالی قصبہ
سوپور کے ایک متوسط خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے مقامی سکول سے 1986
میں میٹرک کرنے کے بعد ہائر سیکنڈری کیلئے سوپور کے مسلم ایجوکیشن ٹرسٹ میں
داخلہ لیا۔جب کشمیر میں 1990 کے آس پاس مسلح تحریک شروع ہوئی تو افضل ایم
بی بی ایس کے تھرڈ ایئر میں تھا۔ اسی اثنا میں انہوں نے جموں کشمیر لبریشن
فرنٹ میں شمولیت اختیار کی۔ وہ جدوجہد آزادی میں بھرپور انداز میں شریک رہے
اور پھر1991میں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ
لیکر وہاں سے اکنامکس کی ڈگری حاصل کی۔افضل دہلی میں سات سالہ قیام کے بعد
1998میں اپنے گھر کشمیر واپس لوٹ آئے۔وہ وادی میں واپس لوٹ کر شادی کے بعد
محض اپنے دوائیوں کے کاروبار میں مصروف تھے لیکن بھارتی فورسز کے ظلم و
زیادتیوں کا عالم یہ تھا کہ ماضی میں جے کے ایل ایف کے ساتھ ملکر جدوجہد
آزادی میں حصہ لینے پر انہیں ہر روز مقامی آرمی کیمپ میں حاضر ہونا پڑتا
اور ٹاسک فورسز کی طرف سے جان لیوا زیادتیاں کی جاتیں۔اس دوران کئی مرتبہ
ایسا ہوا کہ ان پر اتنا تشدد کیا گیا کہ انہیں مردہ حالت میں پھینک دیاجاتا
رہا۔13دسمبر 2001ء کو بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا اور 15دسمبر کوانہیں
ادویات لیکرسوپور جاتے ہوئے گرفتار کر لیاگیا اور بھارت لیجاکر جیل میں
بندکر دیا گیا۔
افضل گورو کا معاملہ غیر منصفانہ اور شکوک و شبہات سے بھرا پڑا ہے۔گرفتاری
کے بعد سے مئی 2002 تک افضل گورو کو کوئی وکیل فراہم نہیں کیا گیا۔ان کے
خلاف سب سے بڑی شہادت کے طور پر جو اعترافی بیان پیش کیا گیااور جس سے
انہوں نے واضح طور پر انکار کیا‘ اس کی قلم بندی کے وقت افضل گورو کا کوئی
قانونی مشیر موجود نہیں تھا۔18 دسمبر 2002 کو افضل گورو، ایس آر گیلانی اور
شوکت حسین کو پارلیمنٹ حملہ کیس میں سزائے موت سنا ئی گئی۔بعد ازاں اس
فیصلہ کے خلاف اپیل کے نتیجے میں ایس آر گیلانی اور افشاں گیلانی کو باعزت
بری اور شوکت حسین کی سزائے موت کو 10 سال کی سخت سزا میں تبدیل کر
دیاگیالیکن افضل گورو کی سزائے موت کے فیصلے کو برقرار رکھا جاتاہے۔استغاثہ
کے 80 گواہان میں سے کسی ایک نے بھی یہ بیان نہیں دیا کہ افضل گورو کا کسی
عسکری تنظیم سے کبھی کوئی تعلق رہا ہو یا اس نے کبھی کوئی معاونت فراہم کی
ہو۔بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیتے وقت واضح طور پر یہ بات لکھی کہ اگرچہ
ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیاجاسکا مگر معاشرے کے اجتماعی ضمیر
کو مطمئن کرنے کے لئے سزائے موت ضروری ہے۔افضل گورو کو اس کیس میں اپنے
دفاع کے لئے صحیح معنوں میں وکیل دیاہی نہیں گیا۔کیس کے آغاز میں ہی اگر
قانونی مشیر میسر آجاتا تو شاید یہ معاملہ اتنا آگے نہ بڑھتا۔خود بھارتی
ماہرین یہ کہتے رہے ہیں کہ افضل کے خلاف مقدمہ ناقص تفتیش، واقعاتی ثبوت
اور پولیس کے مشتبہ کردار کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔اس ساری صورتحال پرہم
سمجھتے ہیں کہ افضل گورو کی پھانسی انصاف کا خون اور عدالتی قتل تھاجس سے
ایک بار پھر یہ بات ثابت ہو گئی کہ بھارت سرکار کی طرح ان کی عدالتوں میں
بھی انصاف کے پیمانے مسلمانوں اور ہندوؤں کے لئے الگ الگ ہیں۔بھارتی قانون
میں یہ بات طے شدہ ہے کہ کسی شخص کو پھانسی دینے سے قبل اس کی ملاقات اہل
خانہ سے کروائی جائے گی لیکن افضل کی پھانسی میں اس بات کا بھی خیال نہیں
رکھا گیا۔ پھانسی کے تین دن بعد تہاڑ جیل حکام کا وہ خط جو دہلی جنرل پوسٹ
آفس سے ڈاک کے ذریعہ روانہ کیا گیا تھا‘گورو کے اہل خانہ کو موصول ہوا جس
میں انہیں افضل گوروکی رحم کی اپیل مسترد ہونے اور پھانسی دیے جانے کی
اطلاع تھی۔ یہ ایک سنگین قسم کا مذاق تھا جو ان کے اہل خانہ اور پوری
کشمیری قوم کے ساتھ کیا گیا۔ بھارت جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت
کہتا ہے‘ اس نے لاشوں کو بھی اپنے ملک میں قید کر رکھا ہے اور پوری کشمیری
قوم کے مطالبہ کے باوجود افضل گورو اور مقبول بٹ کے جسدخاکی واپس کرنے
کیلئے تیار نہیں ہے۔ایسے ملک کے عدالتی نظام سے انصاف کی کیا امید کی
جاسکتی ہے جہاں پھانسیاں اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے دی جائیں اور
جہاں ہزاروں مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی جیسے درندوں کو تو ہیرو سمجھا
جاتا ہو مگر اپنی عزتوں و حقوق کے تحفظ کیلئے جدوجہد کرنے والے کشمیریوں
کودہشت گردقرار دیکر پھانسی کے پھندوں پر لٹکا دیا جائے۔بھارتی پارلیمنٹ پر
حملہ کے مبینہ ملزم افضل گورو کی طرح ممبئی حملوں میں ملوث قرار دیکر
پھانسی پر چڑھائے گئے اجمل قصاب کے کیس میں بہت زیادہ مماثلت پائی جاتی
ہے۔دونوں پر دہشت گردی کے مقدمات بنائے گئے اور دونوں کو اپنی بے گناہی
ثابت کرنے کا موقع نہیں ملا۔ گورو کو چھ ماہ بعد وکیل فراہم کیا گیا تو
اجمل کے کیس کے آغاز میں ہی بمبئی کی بار ایسوسی ایشن نے وکلاء کو کیس لڑنے
سے روک دیا۔ جن وکلاء نے کیس لڑنے کا اعلان کیا ان پر ہندو انتہا پسندوں کی
جانب سے تشدد کیاجاتا رہا۔ وکیلِ صفائی عباس کاظمی کو تمام گواہوں پر جرح
کے جرم میں فارغ کردیا گیا ، بار بار وکیل تبدیل کئے جاتے رہے اور قانونی
تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا۔ افضل پر پارلیمنٹ حملہ کیس میں صرف 197 دنوں
میں سزا کا فیصلہ سنادیا گیاتو ممبئی حملہ کیس میں بھی6 مئی 2009 کو فردِ
جرم عائد کی گئی اور 362 دنوں میں سزا کا فیصلہ سنا دیا گیا۔اجمل قصاب کا
بھارت میں پھانسی کی سزا پانے والوں میں 309 واں نمبر تھا۔دسمبر 2012 تک
بھارت میں 477 لوگ ایسے تھے جن کو پھانسی کی سزا سنائی جا چکی تھی لیکن عمل
درآمد باقی تھا مگر اجمل کوانتہائی عجلت میں پھانسی دے دی گئی۔بہرحال بھارت
کی اعلی عدالتوں نے افضل گورو کی پھانسی کے ذریعہ جس طرح اجتماعی ضمیر کو
مطمئن کرنے کی کوشش کی اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ جمہوری روایات اور اقدار
کی دعویدار بھارت سرکار قانون اور انصاف کو بالائے طاق رکھنے میں کوئی عار
محسوس نہیں کرتی۔ جب یہ باتیں کھل کر واضح ہو چکی ہیں کہ سانحہ سمجھوتہ
ایکسپریس ، مکہ مسجد، مالیگاؤں اور دہلی ہائی کورٹ بم دھماکوں میں انتہا
پسند ہندو تنظیمیں ملوث تھیں اور پارلیمنٹ و ممبئی حملوں میں بھی خود اہم
بھارتی ذمہ داران کی جانب سے ہندوستان کے ملوث ہونے کا اقرار کیا جاتارہا
ہے تو حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اس حوالہ سے کسی دباؤ کا شکار نہ ہو۔ ذکی
الرحمن لکھوی کا عدالتی حکم پر رہا ہونا ان کی بے گناہی کی دلیل ہے۔ اس لئے
ضرورت اس امر کی ہے کہ جیل میں قید ان کے دیگر چھ ساتھیوں کو بھی فی الفور
رہا کیا جائے۔اسی طرح پانچ فروری سے چند دن قبل جماعۃالدعوۃ کے سربراہ حافظ
محمد سعید اور دیگر رہنماؤں کو بھی بھارت و امریکہ کے دباء پر نظربند کر
دیا گیا ہے جس سے تھرپارکر سندھ، بلوچستان اور ملک بھر کے دیگر علاقوں میں
چلنے والے کروڑوں روپے مالیت کے رفاہی وفلاحی منصوبہ جات متاثرہو رہے ہیں۔
عین ان دنوں میں جب سال 2017ء کو کشمیر کے نام کر کے تحریک آزادی جموں
کشمیر کے پلیٹ فارم سے ملک گیر مہم چلائی جارہی تھی‘ ان نظربندیوں سے
کشمیریوں کو اچھا پیغام نہیں گیا۔ قوم سوال کرتی ہے کہ کیا ان محب وطن
رہنماؤں کو مظلوم کشمیریوں کی مددوحمایت کرنے ، ملک میں اتحادویکجہتی کا
ماحول پیدا اور دفاع پاکستان کی جدوجہد میں حصہ لینے کی سزاد ی جارہی ہے؟
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ روش درست نہیں ہے۔ ملک و ملت کے دوستوں اور دشمنوں میں
فرق ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے اور انہیں فی الفور قید وبند کی صعوبتوں سے
آزاد کرنا چاہیے۔ |