فیصلہ لوکانہ

ندی پر بڑی سی لکڑی رکھ کر لوگوں کی سہولت کے لیے چودھری نے پل بنوایا تھا۔ ندی پار آبادی نہ تھی محض جھاڑیاں تھیں۔ عورتٰیں مل کر رات کو جھاڑے کے لیے ندی پار جاتی تھیں۔ جھاڑے کے ساتھ ساتھ معاملات کی مشاورت جاری رہتی۔ زیادہ تر ساس سسر یا پھر نند کی زیادتیاں یا پھر جنسی کرتوتوں کے قصے بھی زیر بحث آتے۔ دو ایک خاوند بھی گفتگو کی گرفت میں آ جاتے۔ رات کو ہونے والے مذاکرات اگلی صبح گھر کے کام کاج سے فراغت اور خاندوں کو کام پر روانہ کرنے کے بعد دو دو گھنٹے بعض اوقات اس سے بھی زیادہ وقت دیوار پر کھڑے ہو کر رواں اور بلاتھکان تبصرے ہوتے۔

اس دن چودھری کے ڈیرے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ شیدو نے بتایا کہ اس کی عورت نے بتایا ہے کہ ندی پار رات کو کبوتر آتے ہیں۔ ڈیرے سے سنی بات کھبو نے گھر آ کر اپنی زنانی کو بتائی۔ اس کی زنانی نے پتا نہیں رات بھر یہ بات کس طرح ہضم کی پھر صبح اٹھتے ہی ہمسائی کے کان میں ڈالی۔ پھر یہ بات ایک سے دوسری پھر تیسری غرض شام تک وہ محلہ کیا آس پاس کے محلوں میں اپڑ گئی۔ اگلے وقتوں میں ریڈیو ٹی وی یا موبائل فون نہیں ہوا کرتے تھے‘ بس اسی طرح سے دور دراز کے علاقوں کی خبریں دنیا بھر میں پھیل جاتیں تھیں۔ کوئی دوسری ولائت سے آتا کوئی نئی خبر لاتا تو یہ پورے علاقے میں پھیل کر مختلف نوعیت کے تبصروں کی زد میں آ جاتی۔

یہ خبر کہ رام نگر کی جھاڑیوں میں کبوتروں کی ڈاریں کی ڈاریں رات کو اترتی ہیں‘ جئےپور پہنچنے میں کوئی زیادہ دیر نہ لگی۔ وہاں کے معروف شکاری رات کو ان جھاڑیوں میں پہنچ گئے۔ صبح تک کبوتروں کا انتظار کرتے رہے لیکن صبح تک ایک کبوتر بھی نہ آیا۔ انہوں نے صبح اٹھ کر دیکھا۔ ایک کبوتر کے کچھ پر بکھرے پڑے تھے۔ انہیں سخت مایوسی ہوئی۔ انہوں نے طے کیا آئندہ زنانیوں کی باتوں میں آ کر عملی قدم نہیں اٹھائیں گے۔

افسوس یہ فیصلہ محض زبانی کلامی کا تھا۔ عمل زنانیوں کے کہے پر ہی ہوتا رہا اور ہوتا آ رہا ہے۔ اگلے وقتوں میں کھمب سے ڈار بنتے تھوڑا وقت لگتا تھا لیکن آج بھلا ہو موبائل فون کا ایسا ہونے کے لیے منٹ سکنٹ خرچ ہوتے ہیں۔ مڈیا بھی کمپنی کی مشہوری کے لیے کچھ کا کچھ بنا دیتا ہے۔
مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 211046 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.