اچھا نہیں ہوتا منظومہ

ہاں میں موت
ناں میں بہن کا گھر اجڑتا تھا
برسوں کا بنا کھیل بگڑتا تھا
چپ میں کب سکھ تھا
چار سو بچھا دکھ تھا
زندگی کیا تھی اک وبال تھا
بھاگ نکلنے کو نہ کوئی رستہ بچا تھا
پہیہ زندگی کا پٹڑی سے اتر رہا تھا
زیست کا پاؤں بےبصر دلدل میں گر رہا تھا
بےچارگی کا نیا دانت نکل رہا تھا
بہنوئی کی آنکھوں میں سکوں کی ہریالی تھی
آتی ہر گھڑی اس کے لیے کرماوالی تھی
بہن کی آنکھ سے چپ کے آنسو گرتے
ماں کی آنکھوں کے حسیں سپنے
بےکسی کے قدموں میں بکھرتے
کیا کرتا کدھر کو جاتا
خود کو بچاتا
کہ ماں کے آنسوؤں کے صدقے واری جاتا
زہر کا پیالہ مرے رو بہ رو تھا
تذبذب کی صلیب پہ لٹکا کے
شنی اپنے کارے میں سفل ہوا
پیتا تو یہ خود کشی ہوتی
ٹھکراتا تو خود پرستی ہوتی
پیچھے ہٹوں کہ آگے بڑھوں
ہاں نہ کے پل پر
بےکسی کی میت اٹھائے کھڑا تھا
آگے پیچھے اندھیرا منہ پھاڑے
فیصلے کی راہ دیکھ رہا تھا
پھر میں آگے بڑھا اور زہر کا پیالہ اٹھا لیا
خودکشی حرام سہی
کیا کرتا
بہن کی بےکسی
ماں کے آنسو بےوقار کیوں کرتا
ابلیس قہقے لگا رہا تھا
نہ پیتا تب بھی اسی کی جیت تھی
پھر بھی وہ قہقے لگاتا
دوزخی بلا نے مرے گھر قدم رکھا
گھر کا ہر ذرہ لرز لرز گیا
میں بھی موت کے گھاٹ اتر گیا
جسے تم دیکھ رہے ہو
ہنستی بستی زندگی کا بےکفن لاشہ ہے
پہلے دو ٹھکانے لگا آئی تھی
لاشے کو کیوں ٹھکانے لگاتی
لاشے کا ماس کھا چکی ہے
ہڈیاں مگر باقی ہیں
بہن لاشے کو دیکھ کر روتی ہے
ہڈیاں مگر کیا تیاگ کریں
آنسوؤں کے قدموں میں کیا دھریں
کوئی اس کو جا کر بتائے

لالسہ سرحدوں کی کب چیز ہے
جہاں تم کھڑی ہو وہ تو فقط اس کی دہلیز ہے
کوئی حادثہ ہی
تمہیں خاوند کی لالسہ کے جہنم سے باہر لائے گا
پھر تمہارا ہر آنسو پچھتاوے کی اگنی میں جلے گا
تب تک
ہڈیاں بھی یہ دوزخ کی رانی کھا چکی ہوگی
راکھ ہو گی نہ کوئی رفتہ کی چنگاری
ہو گی تو لالسہ کی آری
دکھ کا دریا بہہ رہا ہو گا
ہر لمحہ تمہیں کہہ رہا ہو گا
حق کی بھی کبھی سوچ لیا کرو
لقموں کا دم بھرنا اچھا نہیں ہوتا
اچھا نہیں ہوتا
............
 
مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 211072 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.