تحریر:ثناء واجد
اپنی زندگی کا مقصد متعین کرنے اور راہ ہموار کرنے میں نیت اہم کردار ادا
کرتی ہے اور ارادہ جدوجہد کرنے پر انسان کو اکساتاہے یا اگر یہ کہا جائے تو
غلط نہ ہوگا کہ انسان کی کامیابی کے پیچھے نیت اور ارادہ بڑا اہم کردار ادا
کرتا ہے۔حقیقت بھی یہی ہے کہ کسی بھی قوم یا معاشرے کی ترقی کی بنیادی وجہ
نیت اور مصمم ارادے کے اندر مضمر ہے بشرطیکہ نیت مثبت، صاف اور ارادے پختہ
ہوں کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
جیسی نیت ہوگی پھل بھی اسی کے مطابق ہی ملے گا اور دیر یا بدیر نتیجہ بھی
اس کے مطابق ہی نکلے گا۔اپنے کسی بھی عمل کے لئے صرف مصمم ارادہ ہی ضروری
نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ نیت کا صاف ہونا بھی ضروری ہے۔
کیونکہ ہر اچھے برے عمل کا ذمے دار انسان خود ہوتا ہے اور اسی وجہ سے
معاشرے پر بھی فرد کا اچھابرا عمل اثر انداز ہوتا ہے کیونکہ انسان انسان سے
جڑا ہوتا ہے اورمعاشرہ انسانوں سے جنم لیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کسی بھی
معاشرے کی ترقی اور بگاڑ کا انحصار افراد پر ہی ہے۔
ایک فرد کی چھوٹی چھوٹی غلطیاں اور کوتاہیاں کسی دوسرے فرد سے جڑی ضرور
ہوتی ہیں اور اسی طریقے سے ایک فرد کی کوتاہی کئی افراد کی کوتاہی بن جاتی
ہے۔مثال کے طور پر کسی فرد کے غلط رویہ پر خاموش رہنا یا پھر کسی کے جھوٹ
پر پردہ ڈالنا بہت عام اور بے ضرر سی بات معلوم ہوتی ہے جس کی ابتداء اپنے
گھر سے ہی ہوتی ہیں جو آہستہ آہستہ انفرادی سے اجتماعی طور پر جڑیں مضبوط
کرکے چھوٹی سے بڑی کوتاہیوں میں بدل جاتی ہیں۔ہم نے انفرادی طور پر تو اپنی
ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ان کا حل تو نکال لیا لیکن اجتماعی طور پر یہ
نہ دیکھا کہ ملکی سطح پر اس کا کتنا نقصان ہوا ہے۔
شائد اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وجود پاکستان کے بعد پچھلی نسلوں نے اتنی
محرومیاں دیکھی تھیں، جس کا ادراک کرنے کے لئے شائد اپنی آنے والی نسلوں کو
ضرورت سے زیادہ سہولیات مہیا کرنے کے لئے ہر جائز و ناجائز طریقہ نکالا گیا
جس کے لئے اگر کسی کا حق بھی مارا تو اپنے لئے جائز سمجھا، جس کی وجہ
معاشرے میں نا انصافی نے ڈیرے جمالیے،جب افراد کے درمیان بے مانی عام ہوئی
تو سرکاری ادارے کمزور پڑگئے،جب سرکاری ادارے کمزور ہوئے،بے روز گاری بڑھی
اورر ملکی معیشت کو نقصان پہنچنا شروع ہوا․جس نے معاشرے میں اور بڑی بڑی
بیماریوں کو جنم دیا جو کہ ناسور کی شکل اختیار کرنے لگ گیا۔
اسے ہمارے معاشرے کی بدقسمتی کہہ لیں یا المیہ یہ چھوٹی چھوٹی غلطیاں ہمارے
معاشرے میں جڑیں مضبوط کرکے آنے والی نوجوان نسل کو کھوکھلا کرتی جارہی
ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ اس کا ادراک کریں جس کے باعث نوجوان نسل تباہی کے
دھانے پر آکھڑی ہوئی ہے۔
ہمارے معاشرے میں موجود خامیوں کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔جو آہستہ آہستہ ہماری
نوجوان نسلوں میں بھی جڑیں مضبوط کرتی جارہی ہیں۔ اس میں کسی غیر کا ہاتھ
نہیں بلکہ ہمارا اپنا ہاتھ ہے۔اس کی ایک زندہ مثال سوشل میڈیا ہے جہاں
تقریباً 80 فیصد لوگ اپنا وقت گزارتے ہیں جس میں ایک بڑی تعداد نوجوان نسل
کی کی ہے۔مستقبل کے یہ معمار سوشل میڈیا پر 24 گھنٹوں میں سے 16 گھنٹے بے
مصرف صرف کررہی ہے اور جو اس کا فائدہ اٹھا بھی رہے ہیں وہ بھی غلط طریقے
سے، عملی طور پر کوئی کام کرنے کے بجائے صرف اور صرف اپنی ذہنی تسکین اور
سکون کے لئے استعمال کیا جارہا ہے جوکہ صرف اور صرف وقت کا ضیاں ہے۔
اس نسل کو جہاں ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے اور ایک بہترین معاشرہ تشکیل
دینے کے لئے عملی طور پر محنت کرنے کی اشد ضرورت ہے وہاں نوجوان نسل سوشل
میڈیا پربے مصرف وقت گزارنے میں مصروف ہے اوراور ملک کو مورد الزام ٹھہرانے
پرمصر ہے کہ اس ملک نے ہمیں کیا دیا ہے یایہ کہتی جابجا سنائی دیتی ہے کہ
حکومت نے اس ملک کا بیڑا غرق کردیا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ملک کو یا حکومت کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے اپنی
غلطیوں کو تسلیم کیا جائے اور عملی طور پر مظاہرہ کیا جائے جو کہ ملک و قوم
کی ترقی کا باعث بنے کیونکہ کسی بھی ملک و قوم کے لئے نوجوانوں سرمایہ ہوتے
ہیں․کسی بھی مضبوط معاشرے کی بنیاد نوجوان نسل کے ہاتھ میں ہوتی ہے یہی وجہ
ہے کہ نوجوان نسل کی سوچ پر توجہ کسی بھی معاشرے کی فلاح اور نشوونما کے
لیے بہت ضروری ہوتی ہے۔
|