فاطمہ ثریا بجیا کی پہلی برسی پر لہو اشک
تحریر ، پروفیسرمجیب ظفرانوارحمیدی کے بیان سے
"بجیا کی یاد میں"
کل سوچتا ہی رہ گیا ، احمد شاہ سے کہا بھی تھا ، لیکن ایک اکھڑ،
بجیا سفید رنگ تھیں ، ہر رنگ ، سفید رنگ میں مِل کر ایک نیا رنگ بنالیتا ہے
لیکن تمام رنگ مل کر بھی سفید رنگ نھیں بنا سکتے ، اخلاق و اخلاص کے تمام
رنگ ، انسانیت و وفائوں کے سارے رنگ مل کر بھی بجیا جیسا سفید رنگ نھیں بنا
سکتے ۔ بجیا ایک "عہد" کا عنوان ہے ۔ 2007 عیسوی میں "پاکستان چلڈرن رائٹرز
گلڈ" کے خصوصی اجلاس میں تشریف لائیں ، گاڑی دستگیر سے گُزری تو بولیں :"
بیٹا یہ وہ نہاری ہے بڑی مشہور ؟"
جی بجیا !
ذرا سی کھائوں گی کسی دن، بس تھوڑی سی ۔۔
انتہائی معصومیت سے فرمایا ، میں ہکا بکا علیل و نحیف بجیا کو دیکھ رہا تھا
جن سے " ووکل چیمبر" نکالے جانے کے بعد ٹھیک سے بات بھی نھیں کی جارہی تھی،
میرے آنسو دیکھ کر پریشان ہوگئیں اور مسکرا کر بولیں : " بس ایک زمانہ
ایسا آئے گا جب تم لوگ بیٹا، اپنی بجیا کو ڈوئی (کفگیر) میں بٹھا کر ایک
تقریب سے دوسری تقریب میں لےجایا کروگے !" جناب مسعود احمد برکاتی ہنسنے
لگے، ساتھ تشریف فرما تھے۔ خوش خوش تشریف لائیں ، ہمارے گھر کے آنگن میں
جُگنو چمکنے لگے۔بہاریں رقصاں ہوگئیں ، بجیا آئی ہیں ، بجیا آگئیں ، میری
بیوی سیدہ ناہید نرگس اُن کی جوتیاں احترام سے اُٹھا کر اندر ہال میں لائی
،
"اری یہ کیا کرتی ہو بٹیا ؟" بجیا کو حقیقتاً بُرا سا لگا ۔
"بجیا، اِن جوتیوں تلے خاک نے ہمیشہ کسی انسان کا بھلا ہی چاہا ہے ، یہ
جوتیاں تو خدمتِ انسان کی دلیل ہیں !" ناہید کو گلے سے لگالیا۔ باتوں باتوں
میں اپنی تقریر کیمروں کو ریکارڈ کروا کر میری بیوی کے ساتھ ہماری خواب گاہ
میں،ذرا کمر ٹکانے ، تشریف لائیں اور گائو تکئے اور دیوان دیکھ کر بہت خوش
ہوئیں ، ناہید سے دو بال پین منگائے اور ایک سادہ کاغذ اپنے پرس سے نکالا
اور میری بیوی کو دونوں بال پین جوڑ کر جَلی حروف میں لکھنا سکھانے لگیں ،
بجیا کا حافظہ غضب کا تھا ،
بجیا کے جانے کے بعد پُورا گھر اُداس ہوگیا ، ارے بجیا چلی گئیں ،
بجیا کو نجانے کتنی تقریبات میں ، کتنے دل رکھنے،جانا تھا، پُورا پاکستان
اُن کا گھر تھا ، بجیا کی این جی او(N.G.O) میں وہ خود ، عبد الوہاب صاحب
(بجیا کے ڈرائیور، خانساماں،مالی) اور اُن کی سوزوکی مہران گاڑی تھے بس۔۔۔
میں ہنستا : " بجیا آپ کی مہران گاڑی خود کہہ رہی ہے کہ ' میں حیران' !! "
خوب مسکراتیں : " وہاب اے سی نھیں چلاتے اس کا بیٹا ! " معصوم بجیا کے لئے
بھلا لوڈڈ گاڑیاں کیا معنی رکھتی تھیں ؟؟ سندھ کی مشیرِ تعلیم رہ چکی تھیں،
بس ، بجیا توبس بجیا تھیں ۔۔۔۔
بجیا ، چلی بھی آئیے کہ گلشن کا کاروبار چلے
بجیا کے ہاں دل توڑنا اور " نہ" تھا ہی نھیں ،
کوئی کہتا : بجیا ! میں یوں کرلوں ؟؟
ہاں بیٹا ، جیئو ، بالکل کرلو ۔
بجیا یوں کرلیتے ہیں ،
ہاں بچّے ایسا کرلے ، جیتا رہ ، جیو جیو
ہمارے ہاں سے جاتے جاتے ہم سب سے بولیں : جیئو میرے بچّو ، جیتے رہو ،
پروفیسرسحر انصاری ، مسعود احمد برکاتی صاحب، الحاج شمیم الدین صاحب ،
جکارتہ والا انور عزیز، سب مسکرانے لگے کیونکہ بجیا جو مسکرا رہی تھیں ،
احمد شاہ !! مجھے یقین ہے کہ عزرائیل بھی بجیا کے سامنے آکر سر جھُکا کھڑا
ہوگیا ہوگا ۔
ہلکے سے بولا ہوگا : " سلام علیکم ؒ بجیا ، اجازت ہے ! پروردگار ملنے کو بے
قرار ہے !"
"ہاں بیٹا ، جئو جیئو ، بالکل بالکل ، چلو !!!! " کوئی تیاری بنائو سنگھار
نھیں ، بس بالوں کا چھوٹا سا جُوڑا ٹھیک کیا اور تیار ،
ہائے بجیا ، ہائے بجیا ، ہائے بجیا ، اللہ آپ کو "الفردوس" کے باغات کا
میزبان و مہمان اعزازی بنادے ، آمین !! رسول اللہ ﷺ کی شان میں آپ ،
خواتین کی محفلِ میلاد، پی ٹی وی کے لئے لکھتیں ، اللہ آپ کو جناب رسول
اللہ ﷺ کے ساتھ ہی رکھے ، آمین ، ثُم آمین !!
تقریب کے بعد یکلخت میری عمر میں 20 سال کا اضافہ ہوگیا اور 90 سالہ بوڑھا
سر جھکائے آرٹس کونسل کی عمارت سے باہر نکل آیا ، لوگ بجیا کے ہاتھ کی
بنائی کچوریوں اور آلو ترکاری پر ٹُوٹے پڑھے تھے۔۔
ارے ظالم احمد شاہ ، کچھ تو کہلوالیتا تُو مجھ سے میرے بھائی ۔۔۔۔ |