مولائے
رحیم نے تمام نبی نوحِ انسان کو لباس پہننے کا حکم فرمایا اور لباس پہننے
کیلئے کچھ بنیادی اصول بتائے لھذا لباس کے تعلق سے اِن اُصولوں کا خیال
رکھنا ضروری ہے ارشاد باری تعالی ہے پارہ ۸ رکوع ۹ شروع سورہ اعراف ایت
نمبر ۲۶ میں ہے یبنی آدمَ الخ ترجمہ ائے آدم کی اولاد بیشک ہم نے تمہار ی
طرف لباس اُتارا تاکہ تم سب شرم گاہوں کو چھپاؤ اور لباس سے آرائش زیبُ
زینت حامل کرو اور پرہیز گاروں کا لباس بہتر ہے تاریخ اس بات پر متّفق ہے
کی انسانی شعور نے ہوش میں آتے ہی سب سے پہلے شرم و حیا کے فطری تقاضے کی
تکمیل اور عرُیانی (ننگے پنی) کے احساس سے پریشان ہوکر جنگلیوں نے پتّوں سے
اپنے شرمگاہوں کو چھپایا-
اور آج ترقّی یافتہ کہے جانے والے دور میں بھی ستر پوشی کی ضرورت پوری کرنے
والی مختلف چیزوں کو شعور انسانی نے ً لباس ً کا نام وِیایہی لباس اِنسانی
زنذگی کی اہم ضرورت کیونکہ لباس کی بنیادی غرضی جسم کی پردہ پوشی زیب و
زینت کے ساتھ ساتھ موسمی آثرات (سردی گرمی) وغیرہ سے محفوظ رکھنا اور
انسانی کھال و جسم کو ماحول کے تاب و کاری کے اثرات و بیماری کے جراثیم کو
دور رکھنا بھی ہے،
امام فخرالدین راضی رحمتہ اللہ علیہ عمدہ لباس کے علاوہ زیب و زینت کی تمام
اشیاء کو اس آیت میں داخل فرمایا ہے خواہ انکا تعلّق لباس کی نفاستِ جسم کی
نضافت گھر کی صفائی و آرائش سے ہو بشرطِ شریعت نے اُنھیں حرام نہ کیا ہو
اور فضول خرچی نہ ہو سورہ اعراف کی آیت نمبر ۱۹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان
کے بہکاوے کا شکار ہونے پر حضرتِ آدم علیہ السلام اور حضرتِ حوّا کو اپنی
عُریانی کا احساس ہو اور وہ درختوں کے پتّوں سے اپنے ستر کو چھپانے لگے
عسایؤں کی مقدّس کتاب بائبل کے عہد نامہ قدیم کے پہلے عنوان پیدائش کے باب
ی’’ب۳ ‘‘ آدم اور انکی خاتون کو ہونے والی احساس عُریانی اور درخت کے پتّوں
کے لباس کا ذکر واقعہ ملتا ہے-
لباس کے بارے میں قرآن میں متعدد جگہ تفصیل کے ساتھ ذکر ملتاہے لباس کا
بنیادی مقصد یہ ہے کہ ستر کے حصّوں کو چھپالے جو لباس اس مقصد کو پورا نہ
کرے سرے سے وہ لباس ہی نہیں کیونکہ وہ لباس ترپنا بنیادی مقصد پورا نہیں کر
رہا ہے جس کے لئے وہ سلایا بنایا کیا ہے بیشک یہی لباس انسانی اور باقی
تمام جانوروں میں فرق ظاہر کرنے کا پہلا اور آخر ذریعہ بھی ہے یہی وجہ ہے
غیر مذہب جنگلی انسانوں نے جو غاروں جنگلوں میں رہا کرتے تھے وہ کپڑا میسر
نہ ہونے کے باوجود و اپنے ستر کو ڈھاپنے کی کوشش میں مصروف رہتے تھے وہ بھی
کپڑا نہ ملنے کے باوجود پتّوں سے اپنے ستر چھپائے رہتے تھے-
آجکل کا ننگا پہناوا موجود ہ دور کے فیشن نے لباس کے اصل مقصد کو مجروح کر
دیا ہے آجکل مردوں عورتوں میں اپنے لبا س ر ائج ہیں جس میں اسکی کوئی پرواہ
نہیں کہ جسم کا کونسا حصہ کھل رہا ہے اور کونسا ڈھکا ہوا ہے حا لانکہ اسلام
میں ستر کا حکم یہ ہے کہ مرد کے سامنے مرد کیلئے ستر کھولنا جائز نہیں اور
عورت کے سامنے عورت کیلئے ستر کھولنا جائز نہیں مثلاََ اگر کسی عورت نے
ایسا لباس پہن لیا جس میں سینہ کھلا ہوا ہے بازو کھلے ہوئے ہیں تو اس عورت
کو اس حالت میں دوسری عورتوں کے سامنے آنا بھی جائز نہیں چہ جائیکہ اس حالت
میں مردوں کو سامنے آئے اسلئے کہ یہ اعضاء اسکے ستر کے حصے ہیں-
آجکل شادی وغیرہ کی تقریبات میں دیھکئے کیا حال ہو رہا ہے بے حیائی کے ساتھ
ایسے لباس پہن کر مردوں کے سامنے عورتوں بچیاں گھومتی پھرتی ہیں اگر کوئی
کہے تو کہا جاتا ہے سوچ بدلئے مذہب اسلام اس کی نفی کرتا ہے اور کہتا ہے
کپڑے بدلئے سوچ بدل جائیگی بقولِ شاعر
مجھی سے سب کہتے ہیں رکھ نیچی نظر اپنی
کوئی انسے نہی کہتا نہ نکلے یوں عیاں ہوکر
آجکل یہ جملے بہت کثرت سے سننے میں آتا ہے کہ صاحب اس ظاہری لباس میں کیا
رکھا ہے دل صاف ہونا چاہیئے مذہب سے دور اسلام بیزار زہینت لوگ اس طرح کی
باتیں کر رہے ہیں اور پھیلا رہے ہیں ‘ نام نہاد نئی تہذیب کے دلدادہ لوگوں
کا عجیب فلسفہ ہے کہ اگر عورت اپنے گھروں میں اپنے اپنے لئے شوہر کے لئے
اپنے بچوں کے لئے کھانا تیّار کرے تو یہ و قیانوسی اولڈ ماڈل ہے اور اگر
وہی عورت ہوائی جہاز میں ایر ہوسٹس بنکر انسانوں کی ہوش ناک نگاہوں کا
نشانہ بنے اور لوگوں کی (خدمت) غلامی کرے تو اِسکا نام آزاوی ہے اگر عورت
کھر میں رہ کر اپنے ماں باپ بھائی بہن کیلئے حانہ داری کا نظم کرے تو قیہ
اور ذلت ہے دوکانوں پرسیلز گرل بن کر اپنی نازو ادا و مسگراہٹوں سے گا ہکوں
کی توجہ اپنی طرف کرے یا دفتر میں بوس کی ناز برداری کرے تو یہ آزادی اور
اعزز ہے نموذ باشہ
اللہ انسانوں کو عر یا نیت (ننگا پن) کے سر سے محفوظ رکھنے کیلئے تمام بنی
نوح انسانی کو لفظ آدم کہکر آگاہ فرمایا کوئی مذہب کی قید نہیں پارہ ۸ سورہ
اعراف میں فرمارہا ہے ترجمہ اے ادم کی اولاد خبردار تجھے شیطانی فتنے میں
نہ ڈالدے جیسا تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکلوایا اور اُتر وادیااُن سے انکا
لباس تاکہ نظر پڑے انھیں شرم کی چیزیں شیطان آج بھی تمام دیگر خرابیوں کے
ساتھ ساتھ عُریانیت پھیلانے میں شب و روز مصروف ہے تاکہ انسان جس لباس کو
اپنی بنیادی اور اہم ترین ضرورت سمجھتا ہے اس سے اس کو آزاد کر کے پھر سے
جانوروں درندوں کی لباس کر دیا جاے اللہ انسانوں پر بے پناہ مہربان ہے بے
حیائی سے دور رکھنے کیلئے قرآن مجید میں کئی جگہ بار بار اس قسم کے احکام
جاری کئے جن میں شرم و حیاء کا دامن تھا منے کی تعلیم دی گئی سورہ انعام ،
سورہ احزاب، سورہ اشورہ ، سورہ نومہ ، سورہ العنکبوت، سورہ اطلاق ، سورہ
بنی اسرائیل ، بطور خاص اس حوالے سے قابل ذکر ہیں ہر وہ قول یا عمل سے بے
حیائی یا بے شرمی کو فروغ ہو غلط ہے عریانی بے شرمی دیکھنے والوں کے حیوانی
جذبات سیکس کو اُبھا ردیتے ہیں اور انسان مذہبی تمدّنی اخلاقی قدروں سے دور
ہو جاتا ہے حجتہ السلام حضرت اِمام غزالی فرماتے ہیں شہوت تمام انسانی
شہوات پر غالب ہے اورہیجان کے وقت سب سے زیادہ عقال کی نا فرمانی ہے اسکے
نتائج ایسے بھیانک ہیں جن سے شرم آتی ہے اور اظہار سے خوف لگتا ہے-
عریانی بے حیائی سے پیدہ شدہ جنسی اشتعیال انسان کو زنا باالجہر جنسی بے
راہ روی ناجائز تعلق اور ہم جنس پرستی جیسے سنگین اور کھناؤ نے جرائم پر
مجبور کر تا ہے قرآن سورہ اعراف میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے ترجمہ کہدو
میرے پروردگارنے توبے حیائی کی باتوں کو خواہ وہ ظاہری ہوں یا پوشیدہ منع
فرمایاہے اس سلسلے میں سورہ احزاب کی تلاوت اور مطالعہ بہت ضروری ہے جو
مسلمان مرد اور عورت کی عزت و احترام تحفظ اور پاکیزگی کو مستقل طور پر
حفاظت میں رہے پردے کی پاکیزگی کو اپنانے بے حیائی کو بچنے کی تعلیم دیتا
ہے، اسلامی تعلیمات کا مطالعہ اور اسکا ابلاغ اور عمل انشائاللہ ہمارے
ماحول کو اور معاشرے کو بے حیائی عریانی کی لعنت سے پاک رکھے گا اور بے
پناہ فائدے کا سبب بنے گا - |