یہ تو ہوتا ہی ہے

یونی ورسٹی سے واپسی پر مجھے ایک میٹنگ میں جانا تھا۔ گاڑیوں کے جنگل سے گزرتے ہوئے میں منزل مقصود کے قریب پہنچی تو دیکھا کہ آگے سڑک کُھدی ہوئی ہے۔ چناں چہ کار سڑک کے کنارے کھڑی کی اور میٹنگ کے لیے پیدل روانہ ہوگئی۔ کوئی بیس منٹ بعد واپس آئی تو دیکھا کار کے سائڈ مرر غائب ہیں۔ نقصان کا افسوس ہوا، لیکن پھر سوچنے کی کوشش کی کہ ’’یہ تو ہوتا ہی ہے‘‘ مگر ایک صحافی اور قلم کار کا ذہن اس طرح نہیں سوچ پایا۔ سوچوں اور سوالات کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ جس جگہ میں نے کار کھڑی کی تھی وہ بہت گنجان تھی، لوگ آ جارہے تھے، کار کے شیشے نکالنا ایک غیرمعمولی کارروائی ہے، آتے جاتے لوگوں نے دیکھا ہوگا، مگر کسی نے چور کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ سوچ کے گزر گئے ہوں گے کہ یہ تو ہوتا ہی ہے۔ یہ سوچنے کے بعد پھر کسی کو کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ ہے ہمارے ہاں عام آدمی کی بے حسی کا عالم۔

بے حسی کی یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔افسوس اپنی جگہ تھا ۔مگر میں سوچ رہی تھی کہ کراچی اور ملک میں اسٹریٹ کرائم کس حد تک بڑھ چکے ہیں۔

اس سوال کا جواب میرے دماغ نے فوری دیا۔ جہاں مواقع کی کمی ہوتی ہے وہاں ایسا ہوتا ہی ہے۔ ہم میٹرو بسیں لارہے ہیں،موٹرویز پر توجہ دے رہے ہیں، راستے بن رہے ہیں، فیتوں پر فیتے کٹ رہے ہیں، ان منصوبوں پر بھاری رقم خرچ ہورہی ہے، لیکن لوگوں کو تعلیم دینے ، روزگار دینے اور منہگائی اور غربت کے خاتمے پر توجہ نہیں دی جارہی۔ لوگوں کے گھروں میں فاقے ہوں، غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ اپنے گردے اور بچے بیچ ڈالیں یا خودکشی پر مجبور ہوجائیں، ہمارے حکم رانوں کو ان کے مسائل سے کوئی غرض نہیں۔ تعلیم کی خراب صورت حال اور ناخواندگی نوجوانوں کو جرائم پیشہ بنادے، دہشت گرد یا کسی نشے کا عادی، حکم رانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا، کیوں کہ ان کی بے حسی کہتی ہے یہ تو ہوتا ہی ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے امریکی نعرے سے آواز ملاکر ہم نے اپنی ایک نسل کو تباہ کردیا۔ اس نسل نے ہر روز بم پھٹتے دیکھے، لوگوں کو سڑکوں پر مرتے دیکھا، سو اس دور میں پروان چڑھنے والے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بے حس ہوچکی ہے، اس کے لیے کسی کا مرجانا یا ماردینا عام سی بات ہے، یعنی ان کے نزدیک یہ تو ہوتا ہی ہے۔ اس کے برعکس جس نسل سے میرا تعلق ہے اس نے اچھا دور اور امن کا زمانہ بھی دیکھا ہے، چناں چہ ہمارے لیے انسانی خون کا بہنا یا کوئی بھی المیہ عام سی بات نہیں۔
اسٹریٹ کرائم سے عام آدمی کی بے حسی تک ہر معاملہ حکومت کی ترجیحات سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ ترجیحات تعلیم، روزگار کی فراہمی اور منہگائی اور غربت کا خاتمہ ہونی چاہییں، لیکن ہمارے حکم راں ان مسائل پر سوچنے کے لیے تیار نہیں۔ انھیں تو بس وہ کرنا ہے جس سے فوری سیاسی فائدہ حاصل ہو، باقی معاملات کے لیے ان کی سوچ ہے کہ یہ تو ہوتا ہی ہے۔

کراچی ہی کی مثال لے لیجیے، جو ایک میٹروپولیٹن سٹی ہے۔ یہاں یونیورسٹی روڈ زیرتعمیر ہے۔ چند دنوں پہلے اس سڑک پر کچھ لوگ حادثے کا شکار ہوکر جان سے گئے، پھر ایک واقعے میں تین طالبات ہلاک ہوئیں۔ یہ حادثات اس لیے ہوئے کہ سڑک زیرتعمیر ہے اور اس پر دوطرفہ ٹریفک چل رہا ہے۔ بات صرف ایک سڑک کی نہیں۔ پورے کراچی کو بغیر پلاننگ کے کھود کر رکھ دیا گیا ہے۔ یہ صورت حال دو اتھارٹیز نے پیدا کی ہے، وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت، چناں چہ کراچی بھر کی سڑکوں پر کام جاری ہے۔ اب شہریوں کو لاکھ مسائل کا سامنا ہو مگر کام تو ہو کر رہے گا، کیوں کہ بیس سو اٹھارہ 2018 میں الیکشن ہونے والے ہیں اور سب کو اپنی کارکردگی دکھانی ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کراچی میں اپنی اپنی جڑیں مضبوط کرنا چاہتی ہیں۔ اس رساکشی میں کراچی میں ہزاروں لوگ روز ٹریفک کے مسائل کی وجہ سے شدید ذہنی کوفت کا شکار ہیں، حادثات لوگوں کی زندگیاں نگل رہے ہیں، لیکن کسی کو پروا نہیں، کیوں کہ یہ تو ہوتا ہی ہے۔ لیکن یہ ہوتا ہی ہے کہ چکر میں لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ نسلیں تباہ ہورہی ہیں۔

خودغرضی اور بے حسی کا یہ سفر اوپر سے شروع ہو کر نشیب میں جاری ہے۔ ہمیں ظلم ظلم اور برائی برائی نہیں لگتی، اپنے حقوق کا خیال ہے نہ دوسرے کے حقوق کا احساس۔ اگر ہمارے گھر میں پانی نہیں آتا تو ہم پانی خرید کر استعمال کرتے ہیں، لیکن اپنے اس حق کے لیے آواز نہیں اٹھاتے۔ ایک گھر میں پانی نہیں آتا، جب کہ بالکل ساتھ والے پلاٹ پر کوئی پانی کی دکان چلا رہا ہے اور ہم مجبور ہیں کہ اس سے پانی خریدیں۔ پانی خریدنے والے کی تو خیر مجبوری ٹھہری مگر اﷲ کی اس نعمت کو چُراکر بیچنے والوں کو بھی یہ احساس نہیں کہ یہ کتنا بڑا ظلم، جرم اور گناہ ہے، کیوں کہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ تو ہوتا ہی ہے۔

یہ سب اس لیے ہے کہ ہمارے حکم راں اپنی سیاسی حیثیت اور مال بنانے پر لگے رہے ہیں، کسی نے قوم بنانے پر توجہ نہیں دی۔ قومیں میٹرو بسوں اورموٹرویز سے نہیں بنتیں، قومیں جذبوں اور احساسات سے بنتی ہیں، انھیں یہ احساس اور جذبہ تعلیم اور حکم رانوں کے اقدامات دیتے ہیں، انہیں قوم ہونے کا شعور اداروں کی کارکردگی سے ملتا ہے، یہ آگاہی انھیں قانون کے موثر نفاذ سے ملتی ہے، لیکن ہمارے ہاں ایسا کچھ بھی نہیں۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم صرف مول تول ٹھیک نہ کرنے کی وجہ سے عذاب کا شکار ہوئی، دیگر بہت سے انبیاء کی اقوام خود میں موجود کسی ایک بڑی برائی کی وجہ سے تباہ ہوئیں، لیکن ہم میں تو وہ ساری خرابیاں موجود ہیں جو ان اقوام میں تھیں۔ ہم ایک اخلاقی بحران کا شکار ہیں، جس کی بنیاد بے حسی ہے۔ اس صورت حال سے ہمیں تعلیم، قانون کا موثر نفاذ اور ایسے حکومتی اقدامات نکال سکتے ہیں جو عام آدمی کی حالت بہتر بنانے کے لیے کیے گئے ہوں۔ اگر قوم بنانے پر توجہ نہیں دیں گے تو آپ کے کچھ کرنے کا فائدہ نہیں۔ ہم آج کوئی اقدام کرتے ہیں تو اس کا اثر کم ازکم پندرہ سال بعد ہوتا ہے، لہٰذا یہ اقدامات فوری کرنے ہوں گے۔ اگر آنے والی نسل تعلیم، شعور اور اخلاقیات سے کوسوں دوری ہوئی تو وہ موٹرویز کا کیا کرے گی، ایک صوبے تک ترقی محدود رکھ کے آپ کیا کرلیں گے۔ ایسا ہی ہوتا رہا تو کسی باہر والے کو ہمیں تباہ کرنے کی ضرورت نہیں، اور اس تباہی پر بھی ہم پوری بے حسی کے ساتھ یہی کہیں گے کہ یہ تو ہوتا ہی ہے۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 311734 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.