معافی اور مذمت!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے معاملے کی سخت الفاظ میں
مذمت کی ہے، کمیٹی کو بہت تشویش بھی ہوئی۔ بات ہی ایسی تھی، ہوا یہ کہ
گزشتہ دنوں گھریلو ملازمہ طیبہ پر تشدد کا معاملہ ایک اہم ایشو بن کر سامنے
آیا ، جب یہ معلوم ہوا کہ بچی پر تشدد کرنے والے ضلعی جج اور ان کی اہلیہ
محترمہ ہیں تو بات اور بھی تشویش ناک ہو گئی۔ کہانی آغاز ہی میں الجھ رہی
تھی، جب بچی کے والدین کے بارے میں بھی کوئی درست خبر سامنے نہیں آرہی تھی،
کئی لوگ بچی کے والدین کے طور پر سامنے آئے، آخر ایک جوڑی کو ڈی این اے
وغیرہ کے ذریعے اس کے حقیقی والدین قرار دے دیا گیا۔ تاہم یہ معلوم نہیں ہو
سکا کہ دیگر یعنی جعلی والدین کے بارے میں قانون نے کیا ایکشن لیا؟ سپریم
کورٹ نے بھی از خود نوٹس لے لیا تھا۔ تاہم گزشتہ روز بچی کے والد نے تشدد
کرنے والے جج اور ان کی اہلیہ کو معاف کر دیا۔ اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن
جج نے بچی کے والد کو یاد دلایا کہ سپریم کورٹ میں وہ اسی قسم کی معافی سے
مُکر چکا ہے، اس نے بتایا کہ اب میں ہوش وحواس کے ساتھ معافی کا اعلان کر
رہا ہوں۔
تشدد کا یہ واقعہ اس لئے بھی عام نہیں تھا کہ تشدد اسلام آباد کے قریب ہوا،
اس لئے بھی کہ تشدد کرنے والے جج اور ان کی اہلیہ تھے، اور اس لئے بھی کہ
تشدد درندگی کی حد تک کیا گیا تھا۔ عجیب بات ہے کہ عوام کی اکثریت کو اس
فیصلے کا پہلے سے ہی علم تھا، قوم جانتی تھی کہ کسی بھی طاقتور اور
بااختیار شخص کو قانون کی گرفت میں لانے کا رواج کم از کم اپنے ہاں توہے
نہیں۔ عملاً یہی ہوا، زبانِ خلق نقارہ خدا بن کر سامنے آگئی، اور معزز جج
اور ان کی محترم بیگم صاحبہ اب عدالتی پیشیوں اور کسی متو قع سزا سے محفوظ
ہوگئے۔ یہ اپنی نوعیت کا صرف ایک واقعہ نہیں، یہاں طاقتور لوگوں کے ہاتھوں
کمزور قتل ہو جاتے ہیں ، ان کی حیثیت گاجر مولی کے برابر نہیں سمجھی
جاتی،مگر لواحقین بڑے بلند وبانگ دعوے کرتے ہیں، کبھی معاف نہ کرنے کی خبر
دیتے ہیں اور چند روز بعد ہی معافی کی خبریں آ جاتی ہیں۔ یہاں تو یہ بھی
ہوا کہ ایک امریکی نے دن دہاڑے دو افراد کو لاہور کی شاہراہ پر قتل کر دیا،
چند روز پولیس حراست میں گزارے اور لواحقین سے معافی حاصل کرتا خصوصی طیارے
میں افغانستان روانہ ہوگیا، جہاں سے وہ مزید باعزت طریقے سے امریکہ پہنچ
گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ریمنڈ ڈیوس نے وہاں بھی کسی سے بدتمیزی کی اور اسے
جیل کی ہوا کھانا پڑی۔ وہ تو بات امریکی شہری کی تھی، یہاں بھی بہت سے
وڈیرے قتل کرتے ہیں، اور معافی پا کر رہائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے
ہیں۔ قانون میں اس قدر گنجائش موجود ہے کہ مقتول یا مضروب کے والدین یا
لواحقین معاف کردیں، ایسے میں نہ عدالت کچھ کر سکتی ہے اور نہ ہی عوام کے
جذبات کسی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین نے بھی تشویش کے عالم میں بہت جذبات
کا اظہار کیا ہے، انہوں نے معافی کے معاملے کی بھی بھر پور مذمت کی ہے، ان
کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ اگر مضروب بچی کا والد میرے سامنے آجائے تو میں
’دہشت گرد‘ بن سکتا ہوں۔ اگرچہ یہ انتہائی جذباتی کیفیت ہے، مگر عوام کی
ترجمانی کرتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم اسمبلی میں بل لائیں گے، جس
میں قانون بنایا جائے گا، کہ ایسے کسی معاملے میں مدعی یا لواحقین کو معاف
کرنے کا حق ہی حاصل نہ ہو، ایسے میں ریاست ہی مدعی ہو اور عدالت آزادی سے
فیصلہ کر سکے۔ ستم ظریفی ہی جانئے کہ اپنے ہاں یہ قائمہ کمیٹیاں صرف جذبات
کا اظہار ہی کرسکتی ہیں، معاملات اور مسائل کی نشاندہی کرسکتی ہیں، مسئلے
کے حل کی تجویز دے سکتی ہیں، مگر یہ ضروری نہیں کہ ان کے کہنے پر ایکشن بھی
ہو، ان کے کہے پر عمل بھی ہو۔ تاہم اگر یہ کمیٹی کوئی قانون بنوانے میں
کامیاب ہو جاتی ہے تو بہت اچھی اور مثبت پیش رفت ہوگی، ریاست کو ہی مدعی
بننا پڑے گا، عام لوگوں میں سے بہت کم ہی ایسے ہوتے ہیں، جو پیسہ، دھمکی،
منت سماجت، رشتہ دار برادری، گلی محلہ اور اسی قسم کے دیگر بہت سے دباؤ
برداشت کر سکیں۔ انسان کس کس کو جواب دے۔ مظلوموں کی آہیں اور بددعائیں
پورے نظام کو لگتی ہیں، سو سسٹم کی درستگی کی فوری ضرورت ہے۔ |
|