ابو عثمان عمرو بن بحر بن محبوب جاحظ

اسم :
امام ذہبی جاحظ کا مکمل نام بیان کرتے ہوئے ان الفاظ سے تعارف کراتے ہیں۔
قال الذہبی فی سير أعلام النبلاء :
"العَلاَّمَةُ، المُتَبَحِّرُ، ذُوْ الفُنُوْنَ، أَبُو عُثْمَانَ عَمْرُو بنُ بَحْرِ بنِ مَحْبُوْبٍ البَصْرِيُّ، المُعْتَزِلِيُّ، صَاحِبُ التَّصَانِيْفِ"( )
اور الزرکلی نےالكناني بالولاء، الليثيکا اضافہ کیا۔
قال الزرکلی فی الاعلام :
"عمرو بن بحر بن محبوب الكناني بالولاء، الليثي، أبو عثمان، الشهير بالجاحظ" ( )
اساتذہ و تلامذہ :
ذہبی نے اعلام میں علم کے حصول کے حوالہ سے صرف ایک استاذ کا ذکر کیا جبکہ روایت و درایت کے سلسلہ میں چند اسماء ذکر کیئے۔
فرماتے ہیں :
" أَخَذَ عَنِ: النَّظَّامِ
وَرَوَى عَنْ: أَبِي يُوْسُفَ القَاضِي، وثُمَامَةَ بنِ أَشْرَسَ.
رَوَى عَنْهُ: أَبُو العَيْنَاءِ، وَيَمُوْتُ بنُ المُزَرَّعِ - ابْنُ أُخْتِهِ، وَكَانَ أَحَدَ الأَذْكِيَاءِ "( )
ثقاہت :
جاحظ کی ثقاہت اور نقد وجرح کے حوالہ سے فرماتے ہیں:
" قَالَ ثَعلَبُ: مَا هُوَ بِثِقَةٍ.
قُلْتُ(الذہبی): كَانَ مَاجِناً، قَلِيْلَ الدِّيْنِ، لَهُ نَوَادِرُ. "( )
ذہبی اپنی ایک اور کتاب المیزان میں فرماتے ہیں :
"قال ثعلب: ليس بثقة ولا مأمون.
قُلْتُ(الذہبی): وكان من أئمة البدع " ( )
کتب :
ذہبی نے اپنی سیر میں جاحظ کی صرف درج ذیل کتب کو بیان کیا ہے اور فرماتے ہیں انکے علاوہ بھی بہت سی کتب ہیں لیکن بعض کتب حالات و مسائل کی مشکالات کی وجہ سے محفوظ و مشہور نہ ہو پائیں، جن کتب تک رسائی ممکن تھی وہ درج کر دی ہیں۔نیز ان کتب کا انتہائی اختصار کے ساتھ تعارف بھی بیان کیا۔
قال الذہبی :
" وَلَهُ(جاحظ): كِتَابُ (الحَيَوَانِ) سَبْعُ مُجَلَدَاتٍ، وَأَضَافَ إِلَيْهِ كِتَابَ (النِّسَاءِ) ، وَهُوَ فَرْقٌ مَا بَيْنَ الذَّكَرِ وَالأُنْثَى،
وَكِتَابُ (البِغَالِ) ، وَقَدْ أُضِيْفَ إِلَيْهِ كِتَابٌ،سَمَّوْهُ كِتَابُ (الجِمَالِ) لَيْسَ مِنْ كَلاَمِ الجَاحِظِ، وَلاَ يُقَارِبُهُ.
وَتَصَانِيْفُ الجَاحِظِ كَثِيْرَةٌ جِدّاً:مِنْهَا (الرَّدُّ عَلَى أَصْحَابِ الإِلهَامِ) ،وَ (الرَّدُّ علَى المُشَبِّهَةِ)،وَ (الرَّدُّ عَلَى النَّصَارَى) ،
(الطُّفَيْلِيَّةُ) ،(فَضَائِلُ التُّرْكِ) ،(الرَّدُّ عَلَى اليَهُوْدِ) ،(الوَعِيْدُ) ،(الحُجَّةُ وَالنُّبُوَّةُ) ،(المُعَلِّمِيْنَ) ،(البُلْدَانُ) ،
(حَانُوْتُ عَطَّارٍ) ،(ذَمُّ الزَّنَى) ، وَأَشْيَاءُ "( )
علم حدیث سے لگن :
جاحظ کو حدیث پاک کے ساتھ ایک خاص لگاؤ تھا، اسی وجہ سے وہ محدثین اور علماء حدیث کی بے حد تعظیم و توقیر بجا لاتا، امام ذہبی نے اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک طویل واقعہ لکھا جس کا خلاصہ ہم ضبط تحریر لاتے ہیں۔
قال ذہبی :
"حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ بنُ أَبِي دَاوُدَ، قَالَ:
أَتَيتُ الجَاحِظَ، فَاسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَنْ أَنْتَ؟
فَقُلْتُ: رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ الحَدِيْثِ.
فَقَالَ: أَوَ مَا عَلِمتَ أَنِّي لاَ أَقُوْلُ بِالحَشْوِيَّةِ؟
فَقُلْتُ: إِنِّي ابْنُ أَبِي دَاوُدَ.
فَقَالَ: مَرْحَباً بِكَ وَبِأَبِيكَ، ادْخُلْ.
فَلَمَّا دَخَلْتُ، قَالَ لِي: مَا تُرِيْدُ؟
فَقُلْتُ: تُحَدِّثَنِي بِحَدِيْثٍ وَاحِدٍ.
فَقَالَ: اكتُبْ:
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بنُ المِنْهَالِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ:
أَنَّ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- صَلَّى عَلَى طِنْفِسَةٍ.
فَقُلْتُ: زِدْنِي حَدِيْثاً آخَرَ، فَقَالَ: مَا يَنْبَغِي لاِبْنِ أَبِي دَاوُدَ أَنْ يَكذِبَ.
قُلْتُ: كَفَانَا الجَاحِظُ المَؤُونَةَ، فَمَا رَوَى مِنَ الحَدِيْثِ إِلاَّ النَّزْرَ اليَسِيْرَ، وَلاَ هُوَ بِمُتَّهَمٍ فِي الحَدِيْثِ، بَلَى فِي النَّفْسِ مِنْ حِكَايَاتِهِ وَلَهْجَتِهِ، فَرُبَّمَا جَازَفَ، وَتَلَطُّخُهُ بِغَيْرِ بِدْعَةٍ أَمْرٌ وَاضِحٌ، وَلَكِنَّهُ أَخْبَارِيٌّ عَلاَّمَةٌ "( )
مہارت و ملکہ :
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جاحظ کو علوم و فنون بلخوص عربی ادب میں ایک کمال، بلکہ درجہ اتم کی مہارت تامہ حاصل تھی، یہی وجہ ہے کہ فلسفہ،منطق اور بلاغت کے آئمہ بھی اپنی کتب میں سرخ لفظوں کے ساتھ جاحظ کا ذکر کرنے کو فخر محسوس کرتے رہے ہیں۔
امام ذہبی نے اپنی سیر میں صرف دو جملے جاحظ کے لئے بول کر یقیناً دریا کو کوزہ میں بند کر دیا ہے۔
آپ فرماتے ہیں:
" صَاحِبُ فُنُوْنٍ وَأَدَبٍ بَاهِرٍ، وَذَكَاءٍ بَيِّنٍ "( )
نیزالزرکلی نےالاعلام میں اس طرح مدح بیان کی:
" كبير أئمة الأدب " ( )
دعائیہ کلمات :
اور آخر پر تو امام صاحب نے کمال کر دی اور واقعی ہی عدل کا میزان ذہبی ہاتھ سے گرنے نہیں دیتے تھے گو ذہبی فرما چکے ہیں كَانَ مَاجِناً، قَلِيْلَ الدِّيْنِ، لَهُ نَوَادِرُاور جانتے بھی تھے کہ وہ معتزلی تھا لیکن اس کے باوجود بھی آخر پر ان الفاظ کا ذکر کر کے جاحظ کو چار چاند لگا دیئے۔
(قال ذہبی) :
" عَفَا اللهُ عَنْهُ " ( )
مذہب و فرقہ :
جاحظ کا علمی و ادبی مقام اپنی جگہ پر لیکن افسوس سے کہنا پڑھتا ہے کہ ایک گمراہ فرقے کا بہت بڑا سکالر تھا جس کی طرف الزرکلی نے یوں توجہ دلائی:
" ورئيس الفرقة الجاحظية من المعتزلة "( )
پیدائش و وفات :
جاحظ کی پیدائش 163ھ میں ہوئی اور 255ھ میں وفات پائی۔
الزرکلی نے وفات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ، اس کو آخری عمر میں فالج ہو گیا تھا ،جبکہ اس کی موت کا سببب یہ ہوا کہ دوران مطالعہ اس پر بہت سی کتب گر گئیں اور ان کے نیچے دب کے فوت ہو گیا۔
"مولده ووفاته في البصرة. فلج في آخر عمره. وكان مشوه الخلقة. ومات والكتاب على صدره. قتلته مجلدات من الكتب وقعت عليه " ( )
مقام و مرتبہ :
عربی زبان و ادب کے لحاظ سےجاحظ،خدا داد صلاحیتوں کا مالک تھا ،اس کی اسی صلاحیتوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے، محققین و مدققین نے درج ذیل الفاظ بیان فرمائے۔
قال محمد عجاج الخطيب فی المحات في المكتبة والبحث والمصادر :
أحد كبار أئمة البيان في العربية؛ بل عده بعضهم زعيم البيان العربي، عرض في كتابه لموضوع البيان، وهو أنواع الكلام العربي: الخطابة والشعر والكتابة، كما عرض للتبيين وهو كيفية التعبير عما في النفس بأسلوب مشرق جميل...( )
قال مصطفى الشكعه فی مناهج التأليف عند العلماء العرب :
أبو عثمان الجاحظ خطيب المسلمين وشيخ المتكلمين، ومدره المتقدمين والمتأخرين، إن تكلم حكى سحبان في البلاغة …إذن فالجاحظ رائد كبير من رواد التأليف في الفكر العربي، والعقل الإسلامي عاش للعلم جامعًا وهاضمًا، ومانحًا، وللكتاب قارئًا وخادمًا ومؤلفًا، ملأ سماء زمانه فكرًا وحركة وعلمًا على صفحات الكتب وبين دفات المجلدات…( )

 
syed imaad ul deen
About the Author: syed imaad ul deen Read More Articles by syed imaad ul deen: 144 Articles with 350364 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.