کراچی میں گزشتہ دو سال سے ٹارگٹ
کلنگ جاری ہے اور اس ٹارگٹ کلنگ سے کوئی بھی سیاسی جماعت محفوظ نہیں ہے۔
تمام ہی سیاسی پارٹیاں اس سے متاثر ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ ٹارگٹ کلنگ
صرف سیاسی مخالفین تک محدود تھی لیکن اب اس کا دائرہ کار بڑھ کر عام لوگوں
تک پہنچ گیا ہے اور گزشتہ دو سال سے کراچی میں جو آگ جل رہی ہے یعنی اے این
پی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان چپقلش کی آگ اس آگ کی لپیٹیں بڑھتی
جارہی ہیں اور اب اس کی زد میں صرف سیاسی کارکن نہیں آرہے ہیں بلکہ اب اس
کا نشانہ لسانیت کی بنیاد پر عوام بن رہے ہیں۔ ہم نے پہلے بھی یہ بات کہی
تھی کہ یہ دو پارٹیوں کی جنگ ہے جس کا نشانہ عوام بن رہے ہیں اور اب وہ یہ
چیز کھل کر سامنے آگئی ہے۔
اور اس معاملے میں اگر دیکھا جائے تو دونوں پارٹیاں یعنی ایم کیو ایم اور
اے این پی برابر کی شریک ہیں دونوں ہی لسانیت کو بھڑکانے کا کوئی موقع ہاتھ
سے جانے نہیں دیتی ہیں۔ اور اب یہ لسانیت سیاسی پارٹیوں سے نکل کر عوام کی
جانب رخ کر گئی ہے۔ اردو بولنے والا پشتون علاقوں میں جانے سے ڈرتا ہے اور
پٹھان متحدہ کے زیر اثر علاقوں میں جانے سے خوف کھاتے ہیں۔ اگر کسی پٹھان
رکشہ۔ یا ٹیکسی والے کو رات آٹھ بجے کے بعد آپ لیاقت آباد، عزیز آباد، یا
ناظم آباد جانے کا کہیں تو وہ بڑی مشکل سے راضی ہوتا ہے۔ دوسری جانب یہ
صورتحال ہے کہ اردو بولنے والے لوگوں کا مغرب کے بعد انٹر بورڈ آفس، شپ
اونر کالج، کٹی پہاڑی٬ بنارس، قائد آباد اور الآصف اسکوائر پر جانا خطرے سے
خالی نہیں ہوتا ہے۔ اس سے معاملے کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
یہاں اگر جائزہ لیں تو ایک بات بڑی شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ میڈیا اور
متحدہ مخالف حلقہ صرف متحدہ کو ٹارگٹ کلنگ اور اس ساری صورتحال کا ذمہ دار
ٹھہراتا ہے اور عام طور سے لوگ یکطرفہ رائے قائم کرتے ہیں اور اس بات پر
یقین نہیں رکھتے کہ پشتون آبادی والے علاقوں میں ایسا کچھ ہورہا ہے لوگ یہ
سمجھتے ہیں کہ کراچی میں صرف پٹھانوں کی دکانیں اور املاک جلائی جارہی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب کچھ ہوا، ٹھیلے والوں کو، رکشہ چلانے والوں
کو،موچیوں کو اور پٹھان ہوٹل والوں کے کاروبار بند کرائے گئے، ان کی املاک
کو نقصان پہنچایا گیا اور ان کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی لیکن دوسری جانب جو
ہورہا ہے اس کی طرف کوئی آواز نہیں اٹھاتا ہے۔
دیکھیں میں ایم کیو ایم کی حمایت نہیں کررہا اور نہ ہی میں لسانیت پر یقین
رکھتا ہوں اور نہ ہی میں اس فورم پر لسانیت یا کسی بھی قسم کا تعصب پھیلانے
کا سوچ سکتا ہوں میں کوشش کررہا ہوں کہ معاملے کے دونوں پہلو آپ کے سامنے
رکھوں۔ کراچی کے متاثرہ علاقوں میں اس وقت گلستان جوہر، کٹی پہاڑی، پاپوش
نگر، بنارس چوک، اور مقبوضہ اورنگی ٹاؤن شامل ہیں۔ گلستان جوہر میں ایم کیو
ایم کے ساتھ ساتھ اے این پی کے لوگ بھی بھتہ خوری اور غنڈہ گردی اور
بدمعاشی میں شامل ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق گلستان جوہر میں زیادہ تر
تصادم اسی بات ہر ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم والے اے این پی کے ایریا سے بھتہ
لینے پہنچ جاتے ہیں اور اے این پی والے ایم کیو ایم کے علاقوں میں بھتہ
لینے چلے جاتے ہیں جسکے باعث تصادم کی صورتحال پیش آتی ہے اس کے علاوہ شہر
میں ہونے والے فسادت کا یہاں بھی بہت زیادہ اثر پڑتا ہے۔
البتہ میں اس وقت خاص طور سے ذکر کروں گا کراچی کے علاقے “مقبوضہ اورنگی
ٹاؤن“ کا یہاں میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ لفظ استعمال کیا ہے۔ شہر میں جب
بھی فسادات ہوتے ہیں تو ایک یا دو روز کے بعد حالات معمول پر آجاتے ہیں اور
ہم اور آپ اپنے کاروبار زندگی میں مشغول ہوجاتے ہیں ہمیں لگتا ہے کہ پورا
شہر اسی طرح نارمل صورتحال پر ہے لیکن ایسا نہیں ہے اورنگی ٹاؤن کا علاقہ
عملی طور پر ایک مقبوضہ اور محصور آبادی میں تبدیل ہوگیا ہے۔ یہاں کے لوگ
ہمارے اندازے سے زیادہ مشکلات کا شکار ہیں۔ ہمارے اسکول کی نارتھ ناظم آباد
برانچ کی ماسیوں کا تعلق “ مقبوضہ اورنگی ٹاؤن“ سے ہے۔ ٢٠٠٨ میں جب فسادات
کا آغاز ہوا تھا تو میں آفس سے زرا جلدی نکل گیا تھا کیوں کہ مجھے آؤٹ ڈور
کام کرنے تھے اور میں وہ کام نپٹاتے ہوئے کٹی پہاڑی ( اس وقت تک مکمل نہیں
ہوئی تھی ) اور شپ اونر کی جانب سے جارہا تھا تو مجھے صورتحال کچھ غیر
معمولی نظر آئی اور یہاں مجھے سادہ لباس میں ملبوس کچھ مسلح افراد نظر آئے
جو کہ شارع نورجہاں تھانے کے پاس گلیوں میں کھڑے تھے میں اس وقت منی بس میں
سوار تھا اور گاڑی والے نے فوراً گاڑی آگے بڑھا دی،آگے عبداللہ کالج کے پاس
پولیس کی بھاری نفری کھڑی تھی اور وہ لوگ عوام کو بنارس چوک کی طرف جانے سے
روک رہے تھے۔ مجھے خیال آیا کہ ماسیوں کو آج دیر تک رک کر کام کرنا تھا میں
نے اے او کلینک کے پاس اتر کر فوراً اسکول فون کرکے پرنسپل کو ساری صورتحال
بتا کر کہا کہ ماسیوں کو فوری طور سے چھٹی دیدی جائے تاکہ وہ اپنے گھر چلی
جائیں۔ پرنسپل نے فوری طور پر ماسیوں کو چھٹی دیدی،اس کے بعد ماسیاں دو دن
تک کام پر نہیں آئیں اور نہ ہی ان سے کوئی رابطہ رہا دو دن بعد جب وہ کام
پر آئیں تو انہوں نے بتایا کہ جب ہم لوگ اسکول سے واپس گئے اور بنارس کے
پاس پہنچے تو وہاں آگے پٹھان حضرات کھڑے تھے اور پتھراؤ کر رہے تھے ہم نے
سوچا کہ خواتین کا احترام کیا جائے گا یہی سوچ کر ہم لوگ آگے بڑھیں جب ہم
انکے قریب پہنچے تو انہوں نے ہم پر بھی پتھراؤ کیا اور ہمیں پکڑنے کی کوشش
کی، ہم نے بڑی مشکل سے اپنی جان بچائی اور اس کوشش میں ہم دونوں عورتیں سڑک
پر گر بھی گئیں لیکن جیسے تیسے بچ بچا کر گھر پہنچ گئے۔ اور اسکے بعد وہاں
ایک کرفیوں کی صورتحال تھی کوئی پوچھنے والا نہیں تھا، گلیوں میں آ آکر
فائرنگ کی جاتی اور اگر کوئی گھر سے باہر نکلتا تو اس کو زدوکوب کیا جاتا
ہے۔
خیر جب حالات معمول پر آئے اور تقریباً چھے سات ماہ بعد دوبارہ یہی صورتحال
ہوئی ( جس پر صوبائی وزیر داخلہ صاحب نے سندھ اسمبلی میں بڑی بڑھکیں ماری
تھیں ) ان دنوں دھوم چینل پر “ مقبوضہ اورنگی ٹاؤن “ کی صورتحال دکھائی گئی
تھی، عام لوگوں کی طرح ہمارا بھی یہی خیال تھا کہ یہ سب یکطرفہ ہے اور ایسی
کوئی بات نہیں ہے اور ویسے بھی دھوم چینل تو متحدہ کا حامی چینل ہے اس لئے
وہ ڈس انفارمیشن پھیلا رہا ہے۔ اول اول تو ہمارا یہ خیال تھا پھر سوچا کہ
اپنی ماسیوں سے اس بارے میں معلوم کیا جائے، جب ہم نے ان سے معلوم کیا تو
ان کا جواب تھا کہ سلیم صاحب آپ لوگ تو آرام سے بیٹھے رہے فسادات کے دنوں
میں لیکن ہم لوگوں کی جان سولی پر لٹکی رہی تھی، میں نے پوچھا کہ یہ جو ٹی
وی پر مناظر دکھائے گئے ہیں کہ آبادی محاصرے میں ہے اور پہاڑیوں سے فائرنگ
کی جاتی ہے کیا یہ درست ہے؟ ان کا جواب تھا کہ صرف یہی نہیں بلکہ چادر اور
چار دیواری کا تقدس بھی پامال کیا جارہا ہے اور یہ غنڈہ عناصر اسلحے کے بل
پر گھروں میں بھی گھس جاتے ہیں اور خواتین کے ساتھ بدتمیزی بھی کرتے ہیں
ہمارے بس میں ہو تو ہم کبھی اس جگہ نہ رہیں لیکن غربت کی وجہ سے ہم یہاں
رہنے پر مجبور ہیں۔
یہ تو گزشتہ سال کی صورتحال تھی لیکن اس وقت جو صورتحال ہے وہ زیادہ بدترہے
اگرچہ بظاہر حالات معمول پر آچکے ہیں لیکن قصبہ کالونی، علیگڑہ کالونی،
حسرت موہانی کالونی وغیرہ میں ابھی بھی ایک کشیدگی کی کیفیت ہے اور خوف کا
عالم ہے عشاء کے بعد وہاں کی گلیوں میں ویرانی چھا جاتی ہے۔ اس کی وجہ صرف
شہر کے حالات نہیں بلکہ اس مخوص علاقے میں ہونے والے واقعات ہیں۔ ہمارے ایک
ساتھی جو کہ “مقبوضہ اورنگی ٹاؤن“ سے تعلق رکھتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ (کم و
بیش ایک ماہ قبل کی یہ بات ہے ) آفس آنے کے لئے جس گاڑی میں سوار تھا وہ
مزدا بس جب بنارس کے پاس پہنچی تو کچھ مسلح افراد بس میں چڑھے اور غصے
پوچھا کہ “ اس بس میں کون کون مہاجر ہے وہ کھڑا ہوجائے “ ایک نوجوان شخص جو
کہ اپنی بیوی کے ساتھ مزدا میں موجود تھا وہ جذبات میں کھڑا ہوا اور کہا کہ
ہاں میں ہوں تو انہوں نے سب کے سامنے اس کے سینے میں گولی مار کر قتل
کردیا۔ اسی طرح انہی دنوں یہ خبر بھی اخبارات میں شائع ہوئی تھی کہ “مقبوضہ
اورنگی ٹاؤن“ کا رہائشی جو کہ اپنی ڈیوٹی پر جانے کے لئے موٹر سائیکل پر
نکلا بنارس چوک کے قریب اس پر فائرنگ کی گئی اور وہ زخمی حالت میں موٹر
سائیکل چلاتا ہوا ولیکا اسپتال تک پہنچا اور وہاں دم توڑ گیا اس طرح نوکری
بچانے کے لئے جانے والا اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
اور عید سے دو دن قبل ہونے والا واقعہ تو انتہائی افسوس ناک اور خوفناک ہے
اور اس واقعے میں ایک نوجوان رکشے والے کو اس کی بیوی اور معصوم بچی کے
سامنے مار مار کر قتل کردیا گیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق “ مقبوضہ اورنگی
ٹاؤن “ کا رہائشی رکشہ ڈرائیور عید سے دو دن قبل اپنی بیوی اور بچی کو لیکر
عید کی شاپنگ کرنے گیا، شاپنگ کے بعد جب وہ بیوی اور بچی کے ساتھ خوش و خرم
واپس آرہا تھا تو ایک مزدا بس نے اس کے رکشہ کو ٹکر ماری اور جانے لگی جس
پر کامران ( رکشہ ڈرائیور ) نے بس کا پیچھا کیا اور کچھ دور اس کو روک کر
ڈرائیور سے احتجاج کیا جس پر مشتعل ہوکر ڈرائیور، کنڈیکٹراور بس میں موجود
ان کے کچھ ساتھیوں نے اس کو زدوکوب کرنا شروع کیا اور اس کو ادھ مرا کردیا،
جبکہ اس دوران اس کی بیوی کا پرس اور موبائل بھی چھین لیا گیا، مار پیٹ کے
بعد جب یہ لوگ فرار ہونے لگے تو کامران اپنی بیوی کا موبائل اور پرس لینے
کے لئے دوبارہ مزدا کی جانب لپکا تو کنڈیکٹر نے اسے چلتی بس میں کالر سے
پکڑ کر کھینچ لیا اور اس کو لیکر فرار ہوگئے اور ایک گھنٹے بعد کامران کی
تشدد زدہ لاش چلتی گاڑی سے پھینک کر فرار ہوگئے، لاش بے انتہا تشدد زدہ تھی
اور مقتول کا سر پھٹا ہوا تھا اور مغز باہر نکل آیا تھا جبکہ اس کے سینے
میں کسی نوکدار چیز سے کیا گیا سوراخ بھی موجود تھا۔
ان سارے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اے این پی قصداً مقبوضہ اورنگی ٹاؤن
میں یہ سب کچھ کرا رہی ہے تاکہ عوام میں اپنی دہشت بٹھائی جائے اور بنارس
سے آگے کا علاقے پر مکمل قبضہ کیا جائے تاکہ آئندہ یہاں سے کوئی ان کے خلاف
آواز نہ اٹھائے اور نہ ہی کسی کو عام انتخابات یا بلدیاتی انتخابات میں ان
کے مقابل کھڑے ہونے کی جرات ہو۔ یہ مکمل وہی ٹرینڈ ہے جو کہ آغاز میں ایم
کیو ایم کا تھا اور ایم کیو ایم اور اے این پی کی اس لڑائی میں اورنگی ٹاؤن
کے مکین کس جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں یہ شائد ان کو بھی پتہ نہیں ہے۔ ہماری
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ملک پر رحم کرتے ہوئے عوام پر مسلط ان لوگوں کو
تباہ کرے اور مقبوضہ اورنگی ٹاؤن کو آزاد کرائے۔ آمین |