گلگت بلتستان کو ۔۔۔۔آئینی حقوق
دو ۔۔۔۔یہ نعرہ اس خطہ ارضی کے باسیوں کا ایک بنیادی نعرہ تھا۔جب بھی کوئی
وفاقی نمائندہ اس علاقے کا دورہ کرلیتا تو یہاں کی عوام کا یہی مطالبہ ہوتا
تھا کہ گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دئیے جائیں۔اب کافی عرصے بعد بالآخر اس
عوامی حکومت نے آئینی حقوق کی جانب ایک اہم اور فیصلہ کن قدم اُٹھایا ہے۔
اور موقع دیا گیا ہے کہ ہم اپنے ترقی اور خوشحالی کیلئے جو بھی ممکن ہو
کرسکیں۔ گلگت بلتستان کو صوبائی طرز کی داخلی خود مختاری دینا حکومت وقت کا
ایک اہم فیصلہ ہے۔ ہمارے پاس ایک اپنی کونسل ہے۔ قانون ساز اسمبلی بن چکی
ہے۔ آڈیٹر جنرل، چیف کورٹ اور دیگر اہم ادارے موجود ہیں۔ اب ضرورت صرف اس
چیز کی ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ اِن مواقعوں سے فائدہ اٹھائیں۔ اگر ہمارے
عوامی نمائندے اور پالیسی ساز چاہئیں تو اس سنہرے موقع سے فائدہ اٹھاتے
ہوئے عوام کی محرومیوں کا ازالہ کرسکتے ہیں اور حکومت اس خطہ ارضی کو سیاسی
رسہ کشی اور دیگر مذہبی ولسانی فسادات سے دور رکھتے ہوئے کچھ خدمت عوام کی
کرنا چاہیے تو اب بہترین موقع ہے۔ اس جنت نظیر خطے کو سیاحت کیلئے پرکشش
بناکر پوری دنیا کی توجہ اس جانب مبذول کرواسکتے ہیں اور عوام الناس کی
زندگیوں میں بہتری لاکر ہی اپنے آپ کو مثالی قوم کہلاوا سکتے ہیں۔
نہایت ہی ضروری ہے کہ اپنی ذاتی اور پارٹی مفادات سے بالاتر ہوکر کچھ اِن
غریب اور محنت کش عوام کیلئے کچھ سوچے اور کام کرے۔ تعلیم اور روزگار سے ہی
اپنے آپ کو ترقی کی راہوں پر ڈال سکتے ہیں۔ یہ قانون ساز اسمبلی ہی اس
علاقے کی داخلی خود مختاری کا پہلا زینہ ہے۔ یہی بنیاد ہے اور یہاں سے ہی
اچھی روایت کو فروغ دینا ہوگا کیونکہ بعد میں اگر کوئی اس سے رو گردانی کرے
تو اسے ہی اُن سوالوں کے جواب دینا ہوگنے جو بار بار ہر جگہ پوچھا جاتا رہے
گا۔ کرپشن، اقرباء پروری اور رشوت کی لعنت سے بچنا ہوگا اور ٹیلنٹ اور میرٹ
ہی پسندیدگی کا معیار ہونا چاہیے۔ اچھی روایت تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہا
کرتی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اپنی تاریخ سنہرے حروف سے لکھیٰ۔
لیکن مقام افسوس یہ ہے کہ یہاں بھی کھیل باقی جگہوں سے مختلف ہوتا ہوا نظر
نہیں آتا۔ گلگت شہر ایک عرصے سے جل رہا ہے مگر کوئی بھی ایسا مرد حر نظر
نہیں آتا جو آگے بڑھ کر اس بحران کو روکے اور قاتلوں کا ہاتھ باندھے۔ پولیس
اور انتظامیہ خود ان کے آگے ہاتھ بندھے نظر آتے ہیں۔ پولیس اور قانون نافذ
کرنے والے اداروں کی بے حسی سمجھ سے بالاتر ہے۔ گلگت شہر میں ٹارگٹ کلنگ کا
سلسلہ جاری ہے۔ شہر کا امن تباہ ہوچکا ہے۔ کاروبار ٹھپ اور لوگ پریشان حال
ہیں لیکن افسوس ہے کہ اِن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ پولیس اگر اِن مٹھی
بھر دہشت گردوں کو قابو نہیں کرسکتی تو بتائیں یہ کس مرض کی دوا ہیں۔ اِن
کا کام عوام کی خدمت اور معاشرے میں امن کا قیام ہے۔ یہ جو ہمارے عوامی
نمائندے ہیں جنہیں بڑے جوش وخروش کے ساتھ چن کر ایوان میں پہنچائے گئے تھے
یہ کن کونوں کھدروں میں چھپ گئے ہیں اور جو کچھ بچ گئے وہ بھی اسلام آباد
کے بڑے بڑوں کی قدم بوسی میں اپنی عزت بنوا رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں اخبار میں جناب عزت مآب وزیر اعلیٰ صاحب کے ایک بیان نے ورطہ
حیرت میں ڈال دیا۔ بیان کچھ یوں تھا کہ ”کچھ نادیدہ عناصر شہر کا امن خراب
کررہے ہیں“جناب وزیر اعلیٰ صاحب سے نہایت عاجزانہ التماس ہے کہ ان نادیدہ
عناصر کو بے نقاب کرنے کیلئے آپ نے کونسا نسخہ استعمال کیا ہے اور یہ
نادیدہ عناصر کوئی غیر مرئی مخلوق تو نہیں ہیں جو جن بھوت کی طرح آئے اور
جسے چاہا مار کر چلے گئے۔ اسلام آباد میں بیٹھ کر گلگت شہر پر نظر رکھنے
کیلئے آپ کو جدید سیٹلائٹ ٹیکنالوجی اپنے آرام گاہ میں نصب کرنے ہونگے تاکہ
شہر پر نظر رکھ سکے۔ ورنہ یہ نادیدہ عناصر نادیدہ ہی رہیں گے۔
میرے خیال میں اگر خلوص اور جذبہ نیک نیتی سے کچھ کرنا چاہیے تو کچھ بھی
ناممکن نہیں ہے۔ ایسے بیان سے ان شرپسندوں کی حوصلہ افزائی ہی ہوتی ہے اور
انتظامیہ اور پولیس کی ناکامی کو واضح کرتی ہے۔ عوام الناس کو روایتی بیان
بازی کے بجائے امن اور سکون چاہیے ”جو کہ ابھی تک ناپید ہے “تاکہ آئینی
حقوق کے فائدے عام افراد تک بھی پہنچ سکے۔ |