کیا تبدیلی، تبدیلی ہوتی ہے آئینی ہو یا غیر آئینی.... ؟

کیا تبدیلی، تبدیلی ہوتی ہے آئینی ہو یا غیر آئینی.... ؟ مگر اِس سے پہلے حکومت خود اصلاح کر لے
مصالحت پسندی کی تمام حدوں کو توڑ کر نواز شریف کی دبی خواہش بھی زبان پر آگئی....؟

شاعر نے کہا ہے کہ: ہمارے ملک و وطن کا بھلا اِسی میں ہے جو بات بھی ہو وطن میں مفاہمت کی ہو
                دیارِپاک بھی جنت نظیر ہوجائے   اگر دلوں میں تمنّا مصالحت کی ہو

میثاق ِ جمہوریت کی یکسر ناکامی کے بعد ایک عرصے تک مصالحت کے کڑوے گھونٹ پینے والے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف کی حقیقت پر مبنی وہ خواہش جو ایک بڑے عرصے سے اِن کے سینے میں دبی تھی بالآخر اِن کی زبان پر اُس وقت آہی گئی جب اِنہوں نے گزشتہ دنوں الحمرا آرٹس کونسل لاہور میں ”تخلیق کاروں“سے ملاقات کے موقع پر اپنے خطاب میں اِس خواہش کا اظہار کچھ یوں کر ڈالا کہ ”مارشل لا کی بات کرنا بہت بڑاجرم ہے اور اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے اپنے مدّبرانہ انداز سے اُن لوگوں کو بھی تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اِس وقت ملک میں مارشل لا کے نفاذ پر زور دینے کے بجائے ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم سب کو ملکر حکومت کی اصلاح کرنی چاہئے اور اگر اِس کے باوجود بھی حکومت اپنی اصلاح کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی ہے تو پھر اِس میں کوئی شک نہیں کہ کسی غیر آئینی طریقے سے نہیں بلکہ آئینی طریقے سے حکومت کی تبدیلی کی بات کرنی چاہئے“یعنی میاں نواز شریف کا اشارہ اِس جانب ہے کہ یوں حکومت کی ناکامی جمہوریت کی ناکامی نہیں بلکہ اُن عناصر کی ناکامی ہوگی جو جمہوریت کو جمہوری طریقے سے نہ چلاسکے اور اِس بنا ملک میں ہر حال میں تبدیلی آجانی چاہئے۔ اور اِسی طرح ملک کے سیاسی حلقوں میں یہ بازگشت بھی سُنائی دینی شروع ہوگئی ہے کہ نواز شریف اور اِن کی جماعت جو اِس حکومت کو دھکیلنے میں فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے رہے ہیں اَب ملک میں کسی مثبت تبدیلی کے لئے نواز شریف اور اِن کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) بھی پوری طرح سے کمر کس کر میدان میں کود چکی ہے اور وہ یہ چاہتی ہے کہ ملک میں تبدیلی آئے اور ضرور آئے اِس کے بغیر ملک کو چلانے اور اِس کی تعمیر وترقی کے لئے اور کوئی چارہ نہیں رہ گیا ہے اور اَب ایسا لگنے لگا ہے کہ میاں نواز شریف اور اِن کی پارٹی بھی ملک میں پنپنے والے جمہوریت کے اِس ننھے سے پودے اور اِس منہ بولی جمہوری حکومت کو کچلنے اور اِسے پٹری سے اُتارنے کی باتیں کرنے لگے ہیں اور نواز شریف کے اِس بیان کے آجانے کے بعد ملک کے طول و ارض کے ساتھ ساتھ ساری دنیا میں بھی ایک خیال یہ بھی زور پکڑتا جارہا ہے کہ نواز شریف کا یہ خطاب جس سے نہ صرف موجودہ حکومت کی گرتی ہوئی دیوار پر ایک دھکا لگا بلکہ یہاں اگر یوں کہا جائے کہ پی ایم ایل نون کے قائد میاں نواز شریف کے اِس خطاب نے اُن تحریکوں کو بھی جلا بخش دی ہے جو حکومت کی کارکردگی سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے اِس حد کو بھی پہنچ گئی ہیں کہ وہ ملک میں کسی مارشل لا یا کسی خونی انقلاب کے لئے زور دے رہی ہیں۔ اگرچہ اِس سے انکار نہیں کہ میاں نواز شریف کی طرف سے تبدیلی کا یہ اشارہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے کہ جب حکومت پہلے ہی ملک میں آنے والے اپنی تاریخ کے انتہائی بدترین سیلاب سے پریشان ہے اور اِس کے علاوہ اِسے ملک کے اندر اور باہر سیاسی، سماجی، معاشی، اقتصادی، اخلاقی اور مذہبی لحاظ سے بھی کئی دوسرے محاذوں پر مختلف چیلنجز کا سامنا ہے اور جن سے یہ اپنے تئیں جیسے تیسے تو اَب تک مقابلہ کر رہی ہے مگر اِن میں سے کسی ایک بھی محاذ پر اِسے خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اِس حکومت پر ایک ناکام حکومت ہونے کا لیبل لگ چکا ہے۔ جبکہ اِسی طرح دوسری طرف ملک کے ایک نجی ٹی وی چینلز کے پروگرام پوائنٹ بلینک میں لندن سے فہم و فراست پر مبنی گفتگو کے دوران متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے بھی ملک کی موجودہ صُورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے جوشیلے انداز سے کہا کہ ملکی کی موجودہ صُورتحال غیر معمولی اقدامات کا تقاضا کر رہی ہے اِن کا یہ بھی کہنا درست تھا کہ اگر مثبت تبدیلی نہ آئی تو میرے منہ میں خاک ملک کا مستقبل تاریک ہوجائے گا اور اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے اِس کی بھی وضاحت کھلے لفظوں میں کرتے ہوئے کہا کہ میں نے مارشل لا کی بات نہیں کی تھی لیکن اُس بات کا غلط مطلب نکالا گیا ہے اِن کا دو ٹوک الفاظ میں کہنا تھا کہ ملک میں فوج چار بار اقتدار میں آچکی ہے مگر اِس نے کبھی ملک لوٹنے والوں کا احتساب نہیں کیا، محب وطن جرنیلوں کی بات اِس لئے کہی کہ وہ جرنیل نہیں ہیں جو آئین توڑ کر مارشل لا لگاتے ہیں اِس موقع پر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا کہ محب وطن جرنیل وہ ہیں جو قوم کو سیلاب اور دہشت گردی سے بچا رہے ہیں اور جو جرنیل آج میدان میں موجود ہیں اُنہوں نے اِن جرنیل کو محب وطن قرار دیا اور اُن جرنیل کو جو جرنیل جاگیرداروں اور لٹیروں کے مفادات کے تحفظ کے لئے اقتدار پر قبضہ کرتے ہیں اُن جرنیل کے لئے اُنہوں نے قطعاً محب وطن جرنیل کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ اگرچہ موجودہ حکومت کی دو اڑھائی سالہ غیر تسلی بخش کارکردگی سمیت حالیہ سیلاب سے ملک میں پیدا ہونے والی صُورتحال پر جس طرح ملک کی اِن بڑی جماعتوں ایم کیو ایم، پی ایم ایل (ن)، پاکستان مسلم لیگ (ف) اور تحریک انصاف پاکستان نے عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ملک میں مثبت تبدیلی لانے کی گھنٹی بجا دی ہے یہ سب اپنی جگہ درست ہیں اور ملک کی 95فیصد عوام بھی اِن کی ایک کال پر لبیک کہنے کو تیار بیٹھی اور اُس وقت کی منتظر ہے کہ کب یہ اِسے باہر نکلنے کا گرین سگنل دیں۔ بہرحال!ملک کی اِن بڑی جماعتوں کی جانب سے وطن عزیز میں مثبت تبدیلی کے لئے آنے والے اشاروں کی ایک اچھی تبدیلی کی نوید کی کرن جو پیدا ہونی شروع ہوئی ہے اِس سے قبلِ پھر بھی حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے لئے مستقبل قریب میں آنے والے خطرات کے پیشِ نظر کس طرح یہ اپنے آپ کو اِن خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کرتی ہے یا ملک میں تبدیلی کا علم بلند کرنے والی اِن جماعتوں کے قافلے میں مزید جماعتوں کی شمولیت سے خوفزدہ ہوکر اپنے گھٹنے ٹیک کر اپنے سارے ہتھیار پھینک کر اپنے وجود کو ملک میں تبدیلی کی خواہاں جماعتوں کے آگے سُرنگوں کر کے رفوچکر ہوجاتی ہے اور اُن لوگوں کی یہ بات سچ کر دکھاتی ہے جو یہ کہہ رہے ہیں کہ تبدیلی، تبدیلی ہوتی ہے آئینی ہو یا غیر آئینی (ختم شد).
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 943839 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.