تحریک آزادی کشمیر تاریخ کے فیصلہ کن موڑ
پر
چیئرمین ماوزئے تنگ نے کہا تھا ”جنگیں دو قسم کی ہوتی ہیں، ایک انقلابی اور
دوسری انقلاب دشمن، انقلابی جنگوں کا مقصد دراصل مزید جنگوں کا دروازہ بند
کرنا ہوتا ہے، جبکہ انقلاب دشمن جنگیں مزید جنگوں کا راستہ ہموار کرتی ہیں،
ہماری جنگ انقلابی ہے، ہم امن کی خاطر جنگ لڑ رہے ہیں، فتح آخر کار ہماری
ہوگی۔“جب ارادے مصمم ،عزم جواں، حوصلے بلند اور قوم کا بچہ بچہ جذبہ قربانی
سے آشنا ہو تو تحریکوں کو کامیابی کی منزل سے زیادہ دیر دور نہیں رکھا
جاسکتا، آج مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی غاصبانہ کے خلاف 11جون 2010سے
شروع ہونے والی تحریک آزادی کی نئی لہر چوتھے فیصلہ کن مرحلے میں داخل
ہوچکی ہے اور ہر آنے والے دن کے ساتھ اِس کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے،
جبکہ بھارت نے اس تحریک کو کچلنے کیلئے پہلے سے موجود سات لاکھ فوج کی مدد
کیلئے مزید 60ہزار فوج مقبوضہ کشمیر بھیج دی ہے، آزادی کے حق میں بڑھتے
ہوئے عوامی احتجاج، مظاہروں اور فوج کے درمیان خونریز جھڑپوں کے بعد سری
نگر میں کرفیو لگا دیا گیا ہے، عوامی اجتماعات اور جلسے جلوسوں پر پابندی
عائد ہے، حریت کانفرنس سمیت کئی رہنماؤں کو گرفتار کر کے نظر بند کر دیا
گیا ہے، ذرائع ابلاغ پر بھارتی حکومت کے شدید دباؤ کی وجہ سے تحریک کے بارے
میں بہت کم خبریں مقبوضہ ریاست سے باہر پہنچ رہی ہیں مگر ذمہ دار اور غیر
جانبدار ذرائع صورتحال کے متعلق لائن آف کنٹرول کے اِس پار جو اطلاعات
پہنچا رہے ہیں، اُن کے مطابق ریاست کے مختلف مقامات پر مظاہرین اور احتجاجی
جلوسوں پر بھارتی فوج کی وحشیانہ فائرنگ سے اب تک سینکڑوں کشمیری شہید ہو
چکے ہیں، کرفیو کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے نہتے عوام تین ماہ سے مسلسل
بھارتی فوج اور سیکورٹی فورسز کی فائرنگ کا مقابلہ احتجاجی مظاہروں اور
پتھروں سے کر کے دنیا کو یہ باور کرا رہے ہیں کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنے کو
تیار نہیں۔
آج کشمیریوں کی عظیم الشان تحریک نے جہاں ایک طرف ساری دنیا کو اپنی جانب
متوجہ کر لیا ہے، وہیں بھارتی حکمرانوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے، دنیا نے
دیکھا کہ کس طرح نئی دہلی میں بھارتی وزیر اعظم اعتراف شکست کرتے ہوئے بڑی
بے بسی کے ساتھ کانپتے ہوئے ہونٹوں سے کہہ رہے تھے کہ کشمیری عورتوں، بچوں
اور نوجوانوں کے مظاہروں نے انہیں ہلا کر رکھ دیا ہے، وزیر اعظم کے اِس
بیان سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی کہ کشمیر کی تحریک آزادی ایک
ایسے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی جس میں بچے، بوڑھے، جوان حتیٰ کہ
خواتین بھی بندوق اور گولی کے خوف سے بے نیاز ہوکر گولیوں اور سنگینوں کے
سائے میں سینہ تان کر کھڑے ہیں، گزشتہ دنوں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ
کی صدارت میں منعقد ہونے والی کل جماعتی کانفرنس نے فیصلہ کیا ہے کہ مقبوضہ
کشمیر کی سیاسی اور غیر سیاسی قیادت سے مذاکرات کے لیے وزیر داخلہ پی چدم
برم کی سربراہی میں ایک وفد مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرے گا، بھارتی وزیراعظم
نے اپنی رہائش گاہ پر بھارت کی تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل کانفرنس طلب کی
تھی تاکہ مقبوضہ کشمیرکی صورتحال کا جائزہ لے کر عوامی بے چینی، احتجاج اور
تشدد کے خاتمے کے لیے تجاویز تیار کرے، ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق یہ
کانفرنس بے نتیجہ ختم ہوگئی ہے، سات گھنٹے تک جاری رہنے والی یہ کانفرنس
سیاسی رہنماؤں پر مشتمل وفد کی تشکیل کے علاوہ کوئی فیصلہ نہیں کرسکی جو
مقبوضہ کشمیر میں حقائق کو معلوم کرنے کی کوشش کرے گا، بھارتی وزیراعظم من
موہن سنگھ کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے بارے میں کل جماعتی
کانفرنس کا طلب کیا جانا اِس بات کی علامت ہے کہ بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر
میں موجودہ احتجاجی لہر سے ہل کر رہ گئی ہے، حالانکہ جنرل پرویز مشرف اور
موجودہ پاکستانی حکومت کی کمزور اور معذرت خواہانہ پالیسی نے بھارت کو یہ
اعتماد بخشا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی تحریک کو کچل کر رکھ دے گا،
لیکن اِس دفعہ کشمیر میں تحریک نے جو رخ اختیار کیا ہے اُس کو دیکھتے ہوئے
یہ کہا جاسکتا ہے کہ بھارت اور عالمی دنیا کو نوشتہ دیوار پڑھ کر اب یہ
فیصلہ کرنا ہوگا کہ کشمیر کے آتش فشاں کو سرد کرنے کے لئے کشمیریوں کو
آزادی دینی ہے یا طاقت کے زور پر اس تحریک آزادی کو کچل کر عالمی امن کو
خطرے سے دوچار کرنا ہے، موجودہ تحریک کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اگر اِس
تحریک کو کشمیری قائدین بھارت کی کسی شاطرانہ چال کا شکار ہو کر ختم بھی
کرنا چاہیں تو یہ ممکن نہیں، کیونکہ تحریک کا مکمل کنٹرول اُن نوجوانوں کے
ہاتھ میں ہے، جو اب آزادی سے کم کسی بات کے لئے راضی نہیں۔
یہاں یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ کشمیر کی موجودہ تحریک پچھلی تمام تحاریک
سے اِس لحاظ سے منفرد ہے کہ اِس کی قیادت کشمیر کا نوجوان طبقہ کر رہا ہے،
جن کے جوش جنوں کا یہ عالم ہے کہ کشمیر بھر میں رمضان المبارک کے دوران بھی
یہ تحریک پوری قوت سے چلتی رہی اور نوجوان طبقے نے اِس کے زور کو کم نہیں
ہونے دیا، عید الفطر کے دوران بھی کشمیری حالت جنگ میں رہے اور عید کے
تیسرے روز انہوں نے بھارتی فورسز کو زچ کر کے رکھ دیا، قارئین محترم کشمیر
کی موجودہ تحریک ایک ایسے وقت میں شروع ہوئی ہے، جب پچھلی نسل حوصلہ ہارچکی
ہے، اَن گنت نامور کمانڈرز شہید ہوچکے ہیں اور وادی میں مجاہدین کی تعداد
بہت ہی کم رہ رگئی ہے، ایسے وقت میں کشمیر کا نوجوان یہ محسوس کرنے لگا تھا
کہ اگر اُس نے وقت ضائع کیے بغیر اِس تحریک کو دوبارہ نہ اٹھایا تو اُن کی
قوم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بھارتی غلامی میں چلی جائے گی، چنانچہ اِس صورتحال
میں انہوں نے اِس خلاء کو پورا کرنے کا فیصلہ کیا اور انتہائی مختصر وقت
میں یہ نوجوان تحریک کو ایک ایسے مقام تک لے آئے ہیں جسے فیصلہ کن مرحلہ
کہا جائے تو قطعاً غلط نہ ہوگا، آج نہ صرف یہ کہ پوری دنیا مقبوضہ کشمیر کی
طرف متوجہ ہو رہی ہے بلکہ کشمیر کے ہر طبقے کے اندر یہ احساس فزوں تر ہو
رہا ہے کہ اگر اُس نے یہ موقع ضائع کر دیا تو پھر شائد آزادی کی صبح کبھی
طلوع نہ ہوسکے۔
حقیقت یہ ہے کہ کشمیری عوام اب اُس فیصلہ کن معرکے کا تہیہ کرچکے ہیں جس کے
ذریعے قوموں کو غلامی کی زنجیروں سے آزادی نصیب ہوتی ہے، کشمیری نوجوان اب
ماضی کے تمام مظالم اور شہداء کی قربانیوں کا قرض چکانے کے لئے ایک ہوچکے
ہیں کشمیریوں عوام کے اجتماعی شعور نے یہ فیصلہ دے دیا ہے کہ آزادی ”ابھی
نہیں تو کبھی نہیں“یہی وجہ ہے کہ ساری کشمیری قوم بھارت کے جابرانہ تسلط کے
خلاف آزادی حق میں اٹھ کھڑی ہوئی ہے، مقبوضہ کشمیر میں پچھلے چار ماہ سے
جاری جدوجہد آزادی کی نئی لہر روز بروز طاقت پکڑ رہی ہے اور اب بھارت کیلئے
اِسے نظر انداز کرنا آسان نہیں رہا، یوں تو مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ چھ
عشروں میں کئی تحریکیں چلی، لیکن حالیہ تحریک کے بارے میں اب خود بھارت کی
صاحب الرائے اور دانشور حضرات کا کہنا ہے کہ موجودہ تحریک وہ نہیں کہ جسے
بھارت طاقت کے زور پر دبایا جا سکے یا موجودہ تحریک سے آسانی سے جان چھڑائی
جاسکے، اِس بات کا اظہار بھارت کے معروف اخبار ہندوستان ٹائمز کی اُس سروے
رپورٹ سے بھی ہوتا ہے جس کے مطابق 72 فیصد کشمیریوں نے بھارت کے ساتھ رہنے
کو مسترد کردیا ہے، بھارت میں باضمیر اہل دانش اور حقوق انسانی کی تنظیمیں
بھی اب اِس بات کو تسلیم کر رہی ہیں کہ کشمیر کی موجودہ تحریک میں گزشتہ 20
سال میں پہلی مرتبہ اتنی شدت دیکھنے میں آرہی ہے اور تحریک کی شدت نے بھارت
کی رائے عامہ کو بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور کردیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے
عوام بھارت کی حکومت سے شدید ناراض ہیں، دنیا کے سامنے یہ منظر نامہ عیاں
بھی ہے کہ ایک محدود جغرافیے میں 7 لاکھ بھارتی فوجی تعینات ہیں جسے ایک
ظالمانہ اور سیاہ قانون کے تحت یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی شخص پر
گولی چلا سکتی ہے، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے انسانی حقوق کی
خلاف ورزی پر اب بھارت میں بھی آواز اٹھنے لگی ہے، نہتے مظاہرین کی ہلاکت
کے بعد بھارتی حکومت اسے سرحد پار دراندازی یا دہشت گردی قرار نہیں دے سکتی،
یہی وجہ کہ بھارت نواز کشمیری جماعتیں بھی اِس قانون کی منسوخی کا مطالبہ
کررہی ہیں، کل جماعتی کانفرنس میں بھی اِس قانون کی منسوخی کا معاملہ زیر
بحث آیا لیکن بھارتی قیادت نے مجموعی طور پر اتفاق کیا ہے کہ اِس ظلم
ودرندگی کو جاری رکھا جائے گا، بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے تشدد کے
خاتمے کی شرط پر مذاکرات کی بات کی ہے، لیکن یہ وہی پرانی رٹی رٹائی بات ہے
جس کی بنیاد پر بھارت نے گزشتہ 63سال سے مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کشمیریوں کی موجودہ تحریک مزاحمت نے پوری دنیا کو ورطہ حیرت
میں ڈال دیا ہے اور کشمیری نوجوانوں نے ”بھارتیوں، کشمیر چھوڑ دو“ کی جو
تحریک شروع کی وہ اِس وقت تاریخ کی ایسی غیرمعمولی تحریک میں تبدیل ہوگئی
ہے، جس نے ثابت کردیا ہے آج کے دور میں کسی قوم کو بزور شمشیر زیر نہیں کیا
جا سکتا، یہاں یہ اَمر قابل زکر ہے کہ بھارت اِس سے قبل یہ بات تسلیم کرنے
کے لیے ہی تیار نہیں تھا کہ کشمیر کی تحریک آزادی مقامی تحریک ہے اور کشمیر
ایک متنازعہ خطہ زمین ہے، یہی وجہ ہے کہ بھارت کی حکومت اور قیادت ماضی میں
مسلسل یہ دعویٰ کرتی رہی کہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان سے مداخلت ہوتی ہے،
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک مقامی تحریک ہے اور اِس مرحلے پر مقبوضہ کشمیر
کے نوجوانوں اور عوام نے حیرت انگیز اور غیرمعمولی مزاحمت کا مظاہرہ کر کے
یہ ثابت کردیا ہے کہ اب یہ تحریک کسی طور بھی اپنے منطقی انجام تک پہنچے
بغیر نہیں رکے گی، اِس وقت کشمیری جس اتحاد و یک جہتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں
اُس کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو بھی اپنے سرد مہری والے روئیے اور جنرل
پرویز مشرف کی اپنائی گئی پالیسیوں میں ایسی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے جس سے
کشمیر کے اندر پاکستان کے حوالے سے پھیلائی گئی مایوسیوں کا خاتمہ ہو اور
کشمیری اپنے آپ کو تنہا محسوس نہ کریں، اِس حوالے سے حکومت پاکستان کو
چاہیے کہ کشمیر کے مقدمے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لئے ایک مضبوط اور
منظم پالیسی اپنائے اور عالمی برادری کی توجہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی
طرف دلاتے ہوئے بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے لائے۔
یوں بھی پاکستان میں اِس وقت ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت کی حکومت ہے،
جنہوں نے اقوام متحدہ میں کہا تھا کہ ”ہم کشمیر کے لئے ہزار سال تک جنگ
لڑیں گے۔“ آج ذوالفقار علی بھٹو کے نظریاتی وارث ہونے کے دعویدار حکومت پر
لازم ہے کہ وہ کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی مدد کے ساتھ آزادی کشمیر
کیلئے مضبوط حکمت عملی اپناکر ماضی کی اُن پالیسیوں کا یکسر خاتمہ کرے جس
کے نتیجے میں بھارت نے کشمیر پر اپنا ظالمانہ تسلط قائم کررکھا ہے، ہم
سمجھتے ہیں کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کا ایک اہم فریق ہے اور اقوام متحدہ کی
قراردادوں کے مطابق اِس مسئلے کے حتمی حل میں اِس کا کردار بنیادی اہمیت کا
حامل ہے، وہ کشمیری عوام کو حق خودارادیت دلانے کی کمٹمنٹ کر چکا ہے جسے وہ
کسی قیمت پر فراموش نہیں کر سکتا، چنانچہ تحریک آزادی کشمیر کے اِس اہم
موقع پربھارت کی ریاستی دہشت گردی پر اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیموں
اور بالخصوص حکومت پاکستان کی خاموشی تشویشناک ہے، جبکہ مسئلہ کشمیر
پاکستان کی خارجہ پالیسی کا کلیدی نکتہ ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیریوں کی
تحریک آزادی کی منزل اب زیادہ دور نہیں، لہٰذا پاکستان کے حکمران اور عوام
کیلئے کشمیریوں کی اخلاقی، سفارتی اور ہر سطح پر مدد کے لئے تیار ہونا
لازمی اَمر ہے تاکہ ” کشمیر بنے گا پاکستان “کے نعرے کو سچ ثابت کرنے کے
لئے کشمیریوں کے ہاتھ مضبوط ہوں اور 63سال سے جاری تحریک آزادی کشمیر اپنے
منطقی انجام تک پہنچ سکے۔ |