صرف تین خبریں

حکومت کو گرانا ملک توڑنے کی سازش ہے کیوں...؟
انجلینا جولی کی وزیراعظم گیلانی کو ہالی ووڈ میں کام کرنے کی انوکھی تجویز.....؟گیلانی اِس پر عمل کرلیں تو اچھا ہوگا......
خبر! مسلم لیگ ق اور فنکشنل لیگ ایک ہوگئیں .....یہ تو ہونا ہی تھا
یعنی کہ مل جائیں اِس طرح دو لہریں جس طرح پھر ہونا نہ جُدا یہ وعدہ رہا

آج ہفتہ وار چھٹی کا اتوار کا دن ہے اور اِس دن کی مناسبت سے کئی اخبارات اپنے سنڈے میگزین کی خصوصی اشاعت کے ساتھ میری میز پر پڑے ہیں اور شائد اتوار کا دن ہونے کی وجہ سے اِن نیوز پیپرز کے صفحہ اوّل پر چھپنے والی کئی خبریں ایسی چلبلی اور چٹخارے دار ہیں کہ ہر خبر اپنی جانب متوجہ کئے ہوئے ہے مگر مجھ سمیت اور کئی لکھنے والوں کے لئے شائد یہ کبھی بھی ممکن ناں رہا ہو کہ وہ کسی روز کے اخبار کی سوائے دو تین خبروں کے ہر نیوز پر اُس روز کا کالم لکھ سکے ہوں سو آج میرے لئے بھی یہ انتہائی مشکل مرحلہ تھا کہ میں آج کس خبر کو اپنے کالم کا حصہ بناؤں ....اور یوں کئی منٹ سوچنے اور پھر اپنے دل اور ذہن کے پیمانے پر پرکھنے کے بعد اگلے ہی لمحے میں، میں اِس نتیجے پر پہنچا کہ آج اپنے کالم اور تجزیئے کا حصہ کن کن خبروں کو بناؤں اور پھر بڑی چھان پھٹک کے بعد، میں صرف اِن تین خبروں کو ہی نکال پایا جن پر مجھے آج کا اپنا کالم لکھنا تھا۔

اگرچہ اِس سے انکار نہیں کہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے اپنی صدرات کے دو سال مکمل ہونے پر جہاں اپنی پارٹی کے ممبران سے مبارکبادیں وصول کی ہیں تو وہیں اِنہیں اپنی صدرات کے اِس سارے عرصے کے دوران اپنی سیاسی اور غیرسیاسی کارکردگی کے حوالوں سے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ کے ملک سے باہر بھی کئی لحاظ سے شدید تنقیدوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے مگر اِس موقع پر اِن ساری باتوں کا اگر موازنہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اِنہیں ملنے والی مبارکباد کے پیغاموں کے مقابلے میں اِن پر ہونے والی تنقیدوں کا تناسب کہیں زیادہ ہے۔ جو اِن کے لئے لمحہ فکریہ ہو یا ناں ہو مگر ملک کے محب وطن سترہ کروڑ عوام سمیت اپوزیشن جماعتوں اور ملک کے سنجیدہ طبقے کے لئے یہ یقیناً ایک لمحہ فکریہ ضرور ہے کہ ملک کے ایک طاقتور ترین جمہوری صدر کی کارکردگی اِن کے دوسالہ دورِ صدارت کے دوران عوام الناس کی نظر میں غیر تسلی بخش کیوں رہی ہے ....؟اور اِس کے باوجود بھی یہ کیسی بے حسی ہے.....؟ کہ صدر مملکت اپنی کارکردگی کو ابھی تک بہتر بنانے اور خود کو عوام الناس کی خواہشات اور عوامی معیار کے مطابق ڈھالنے میں کیوں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کئے ہوئے ہیں....؟؟؟

جبکہ اُدھر صدر مملکت سمیت حکومت کی ڈھائی سالہ غیر تسلی بخش کارکردگی کی بنا پر عام اور خاص میں پائے جانے والی جمہوری سوچ اور رجحان کے حوالے سے ایکسپو سینٹر لاہور میں لاہور چیمبر آف کامرس کی سالانہ اچیومنٹ ایوارڈ تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کے دوران ملک کے 13ویں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ پیپلز پارٹی وفاقی جماعت ہے اگر کوئی حکومت کے خلاف سازش کرے گا تو یہ ملک توڑنے جیسی گھناؤنی سازش ہوگی، اِسے دیوار سے لگانا درست نہیں اور اِن کا کہنا تھا کہ یہ سازشی عناصر ہمیں نکال کر کیسے لائیں گے ....؟؟اور کون ہے جس پر چاروں صوبے متفق ہوں گے ....؟؟ہم جانے والے نہیں ہیں اور اُنہوں نے حسبِ عادت ایک بار پھر یہ کہہ کر حیران کردیا کہ ہمیں اِس کا کوئی خوف نہیں(یہاں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ تعجب کی بات ہے وزیراعظم کہ کوئی آپ کی حکومت کے خلاف سازش کرے تو اِس سازش کو آپ ملک توڑنے جیسی سازش سے تعبیر کررہے ہیں یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس سے قبل ملک میں جو حکومتیں توڑی گئیں اُن کے وزیراعظموں نے تو کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ اِن کی حکومت کے خلاف کی جانے والی سازشیں ملک توڑنے کے مترادف ہیں مگر آپ کیسے وزیراعظم ہیں ....؟؟کہ آپ نے اپنی حکومت کے خلاف کی جانے والی کسی بھی سازش کو ملک توڑنے جیسی سازش قرار دے دیا ہے آخر آپ نے ایسا کس بنا پر کہا ہے.....؟؟ ملک کی سترہ کروڑ عوام آپ سے اِس کا جواب چاہتی ہے...... اور اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے اپنے خطاب میں برملا طور پر یہ بھی کہا کہ ملک میں غیر آئینی تبدیلی کی بات کرنے والے اپنا وقت اور ذہن فضول کی سوچوں اور سازشوں میں ہرگز ضائع نہ کریں اور اپنے اِس ہی خطاب میں اُنہوں نے سازشی عناصر کو کھلے دل سے سمجھاتے ہوئے کہا کہ آپ منتخب حکومت کے مینڈیٹ کا احترام کریں ہم چور دروازے سے اقتدار میں نہیں آئے ہیں اور اپنی مدت پوری کریں گے اور اُنہوں نے اِس موقع پر اپنے مخصوص انداز سے آنکھیں پھاڑتے ہوئے یہ بھی کہا کہ میں نوکری نہیں کرتا وزیراعظم نہ بھی رہا تو غوث الاعظم کی اولاد ہوں میری آج سے زیادہ عزت ہوگی۔ یہاں میرا ہی کیا اکثر پاکستانیوں کا یہ خیال ہے کہ وزیر اعظم گیلانی اگر آپ کو اپنی عزت کی اتنی ہی فکر ہے تو پھر آپ اِس کے حصول کے لئے بھی ٹھیک طرح سے جدوجہد کریں اور اپنے عہدے وزارتِ عظمیٰ کو ملک اور قوم کی خدمت کرنے میں وقف کردیں اِس سے آپ کی شان میں اور اضافہ ہی ہوگا اور اِس گمانِ خاص میں آپ ہرگز نہ رہیں کہ آپ غوث الاعظم کی اولاد ہیں تو آپ سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی بلکہ آپ سے تو اِس حوالے سے اور زیادہ حساب کتاب لیا جائے گا کیونکہ آپ ایک اعلی ٰ نسبت سے تعلق رکھتے ہیں.....

بہرحال !میرے آج کے کالم کی وہ دوسری خبر جس نے میرا دامن پکڑ کر مجھے اپنی جانب راغب کیا اور مجھے اپنے پر لکھنے پر مجبور کیا وہ یہ تھی کہ اقوام متحدہ کی سفیر برائے خیرسگالی انجلینا جولی ہمارے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی جاذب نظر شخصیت سے اِس قدر متاثر ہوئیں کہ اُنہوں نے ترنت وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو ہالی ووڈ کی فلموں میں کام کرنے کی تجویز دے ڈالی خبر کے مطابق کہنے والے کہتے ہیں کہ پہلے تو ہمارے معصوم اور بھولے بھالے وزیراعظم اِس انٹرنیشنل اداکارہ کے منہ سے اپنے متعلق ایک طرح سے نکلنے والے اِن تعریفی کلمات کو سُن کر سٹپٹا سے گئے اور وہ اِسے انجلینا کا مذاق سمجھے اور ایک ہلکے سے قہقہ کے بعد ایک لمحے کو یہ تصور کرتے ہوئے کہ اگر فلمی دنیا اتنی ہی پُرکشش ہوتی تو یہ عالمی شہرت یافتہ اداکارہ انجلینا جولی خود اِس جنجال سے اپنی جان چھوڑا کر انسانیت کی خدمت میں کیوں مصروف ہوگئی ہیں .....؟؟؟ویسے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی میرا آپ کے لئے ایک خاص مشورہ یہ ہے کہ انجلینا جولی کی اِس سنہری تجویز کے بعد آپ اِس جانب بھی جا کراپنی قسمت آزما کر ضرور دیکھیں اُمید ہے کہ آپ ہالی ووڈ کی فلموں کی چکا چوند میں بھی اپنی اِس سیاسی اداکاری اور سیاسی مکالموں کے تجربات کے بدولت اپنی ایک انوکھی پہچان بنانے میں یقیناً کامیاب ہوجائیں گے اور شائد ہالی ووڈ میں اپنی فلمی اداکاری کے باعث پاکستان سمیت ساری دنیامیں جو عزت افزائی اور حوصلہ افزائی ہوگی وہ اپنی جگہ ہوگی اِس کا اندازہ آپ کو بعد میں ہوگا یوں میرا خیال یہ کہ وزیراعظم گیلانی کو بغیر کسی ہچر مچر کے انجلینا کی تجویز پر لبیک کہہ دینا چاہے ویسے بھی حکومتی طوطے کا کیا ہے بھروسہ یہ آج اُڑے کہ کل .....

بہرکیف! ملک کے موجودہ غیریقینی حالات کے پیش نظر ملک میں دو بچھڑی ہوئی جماعتوں کا ایک نیا اتحاد قائم ہوا اور آج کے میرے کالم کی تیسری اور آخری خبر یہ ہے کہ گزشتہ دنوں کراچی میں پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ سائیں پیر پگارا اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے درمیان ایک انتہائی اہم نوعیت کی ملاقات ہوئی جس میں اِن دونوں جماعتوں کے سربراہوں نے ماضی کے تمام گلے شکوؤں کو درگزر کیا اور شائد یہ کہتے ہوئے کہ ”
مل جائیں اِس طرح
دو لہریں جس طرح
پھرہونا نہ جُدا
ہاںیہ وعدہ رہا

اور پھر یوں اِنہوں نے ایک دوسرے میں ضم ہونے کا ایک تاریخ ساز اعلان کیا اور یہ بھی واضح کیا کہ یہ صرف ایک اتحاد ہی نہیں بلکہ انضمام ہوگا اور اِس کے ساتھ ہی اِن دونوں علیحدہ علیحدہ جماعتوں کے سربراہاں نے باہمی رضامندی سے ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر اِن دونوں نے اپنی ایک نئی جماعت جس کا نام آل پاکستان مسلم لیگ ہے اِس کے قیام کی باقاعدہ بنیاد رکھی اور یہیں سے اِنہوں نے ملک اور قوم کی خدمت کے لئے اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز کردیا۔

اور اِس موقع پر شجاعت اور پگارا نے ایک دوسرے پر اپنے اپنے اعتماد کے رشتے کو مضبوط بنانے کے عزم کا ارادہ اظہار کرتے ہوئے ملک کے دیگر دھڑوں کو بھی اپنے اِس نومولود اتحاد میں آنے کی کھلی طور پر دعوت دی اور اُمید ظاہر کی کی آئندہ حکومت ہماری ہوگی۔

اَب دیکھنا یہ ہے کہ ملکی سیاست میں قدم رکھنے والا یہ حرفِ تہجی کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ ف اور ق کا بننے والا اتحاد آل پاکستان مسلم لیگ کب تک برقرار رہتا ہے اور جب تک بھی یہ قائم رہتا ہے ملک کی سیاست میں کیا نقوش چھوڑ کرجاتا ہے کیونکہ اِس کی اُمید بہت کم ہی نظر آرہی ہے کہ یہ اتحاد کوئی زیادہ عرصہ قائم رہ سکے کیونکہ دونوں ہی سابقہ جماعتوں پاکستان مسلم لیگ فنکشنل اور پاکستان مسلم لیگ ق کے سربراہان کا مزاج اِن کی سوچ اور فکر کے حوالوں سے بہت ہی مختلف ہے بہرحال! یہ ایک حوصلہ افزا امر ضرور ہے کہ دونوں نے ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لئے ایک دوسرے میں ضم ہونے کا اعلان کر کے ایک اچھا اور قابلِ تعریف قدم اٹھایا ہے۔ اِن کے ایک دوسرے میں ضم ہونے سے موجودہ حکومت کو بھی اَب کئی سیاسی پریشانیوں اور حالات کا سامنا پڑسکتا ہے جس کے لئے موجودہ حکومت کو اپنے تئیں بہت سے معاملات میں اپنی اصلاح کرنی ضروری ہوگیا ہے ورنہ ورنہ کوئی مثبت تبدیلی اَب ملک میں آنے ضروری ہوگئی ہے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 971427 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.