ماریس
فریڈرک سٹرانگ ایک کینیڈین بزنس مین گُزر چکا ہے۔ 1960ء کے عشرہ میں پاور
کارپوریشن آف کینیڈا کے صدر رہ چکے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام
میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور ماحولیات کیلئے عالمی کمیشن کے کمشنر جیسے عہدوں
پر ذمہ داریاں نبا ہ چکا ہے۔ ماریس "فور فریڈمز ایوارڈیافتہ" بھی ہے۔ یہ
ایوارڈ سابقہ امریکی صدر روز ویلٹ نے 1941ء میں شروع کیا تھا۔ جس میں اس نے
ان چارا قسام کی آزادی کو جمہوریت کیلئے لازمی قرار دیا تھا۔1۔ آزادیِ
اظہار اور تقریر 2۔آزادیِ عبادت 3۔ بنیادی ضروریات کی احساس محرومی سے
آزادی 4۔خوف سے آزادی۔ماریس تنقید کے بارے میں کہتے ہیں۔"I learn something
from criticism because when it comes from sources you respect you always
examine it and learn".
نارمن وینسنٹ پیلے امریکی مصنف، جس کو شہرت"دی پاور آف پازیٹیو تھینکنگ" سے
ملی۔ 1935ء میں پیلے نے ریڈیو پر ایک پروگرام
" دی آرٹ آف لیوِنگ" شروع کیا۔ جو کہ 54 برس تک نشر ہوتا رہا۔1984ء میں
رونالڈریگن نے اس کی بہترین خدمات کی بدولت ـ"پریذیڈینشل میڈل آف فریڈم"
ایوارڈ سے نوازا۔ پیلے کا مثبت تنقید کے بارے میں کہنا ہے۔"The trouble
with most of us is that we would rather be ruined by praise than saved
by criticism".
امریکی سیاستدان فرینک اے کلارک لکھتے ہے۔تنقید کا مزاج بارش کی طرح ہونی
چاہئیے۔ جس طرح بارش کے پانی سے پودے کی نشونما میں بہتری آتی ہے۔اسی طرح
تنقید سے انسانوں کے کسی ایک وسیع گروہ یا معاشرہ کو فائدہ ہونی چاہیئے۔نہ
کہ نقصان۔
تنقید تو دنیا کے سارے خطوں اور شعبوں میں ہوتی آرہی ہے۔نامور مصنِفین دن
رات ایک کرکے اور مہینوں ،سالوں کی محنت کرکے کتابوں کو مرتب کرتے ہیں۔اُن
پر بھی انفرادی رویوں اور سوچ کے لحاظ سے تنقید کے کمنٹس لگتے ہیں۔ عدالتوں
کے چیف جسٹس صاحبان کے فیصلوں اور جرنیلوں کی کارکردگی پر اعتراضات اُٹھتے
ہیں۔کھیل کے میدانوں میں بھی کھلاڑیوں کی کارکردگی پر سوالات اُٹھتے
ہیں۔شاعر جیسے نبض شناس لوگوں پر فتوے لگتے ہیں۔ بقولِ اقبال " قوموں کی
ولادت اور احیاء شعراء اور آرٹسٹس لوگوں کے دلوں میں ہوتی ہے۔لیکن ان کی
خوشحالی اور تباہی سیاستدانوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے"۔
بادلِ نخواستہ مملکتِ پاکستان میں سیاست ، سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کی
ایسی افزائش ہوئی ہے۔کہ کسی پر موروثیت کا گہرا دھبہ پڑا ہے۔ اور وہ نسل در
نسل ملک کو ایک کمپنی یا ایک ذاتی جاگیر کی طرح استعمال کر رہے ہیں۔اور ان
کی ٹیم کے باقی اراکین ہر جائز و ناجائز پر اُس خاندان کے پہرہ دار اور
وکیل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔جب تک ا س ریاست کے اندر اپنی انا کی سوچ رہے
گی۔ملکی مفاد میں کوئی ہاتھ نہیں اٹھائے گا۔وہی مفادات اور ذاتیات کی تنقید
ہوگی۔اس لیے تو نارمن وینسٹ کہتا ہے۔" ہمارا بیشتر نقصان غلط تعریف میں
ہوتا ہے۔نہ کہ تنقید میں"۔
ملکی لیڈرشِپ میں یہ تحمل ہونی چاہیئے۔کہ اگر کہیں اداروں کی کارکردگی میں
بہتری آتی ہے ۔ تو وہاں ان کی تعریف کرنی چاہیئے۔اور اگر کہیں نقائص کی
تشخیص ہوپاتی ہے۔ تو حکومتِ وقت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے۔کہ اس کی بروقت
تصحیح کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔اور محض سیاسی نعروں اور بیانات کی
بجائے ان پنکچرز کو حکمتِ عملی سے حالات کے تقاضوں کے مطابق عملی جامہ
پہنائیں۔
موجودہ سیاست اور حکومتی مقدس ایوانوں میں ایک دوسرے کی بے توقیری اور
عوامی مسائل سے عدم توجہی نہ صرف لیڈر شِپ کیلئے نقصان دہ ہے۔بلکہ عوام کی
نظروں میں ان کی وقعت کم ہو رہی ہے۔سیاست میں گالی گلوچ ، بُرے القابات،
غیر جمہوری رویوں ، بے وقت و نامناسب تنقید نہ صرف ملکی عزت و وقارکیلئے بد
شگون ہے۔بلکہ آنے والی نسلوں کے بیچ نفرت کے خلیج کو وسعت دیتی ہے۔
ایک زندہ قوم اور جمہوری ریاست میں جہاں امیر اور غریب کیلئے علیٰحدہ
علیٰحدہ قوانین ہو۔جہاں غریب تعلیم یافتہ نوجوانوں کیلئے روزگار نہ ہو۔جہاں
پِسے ہوئے طبقات میں احساس محرومی جنم لینے لگے۔جہاں اقتدار کے ایوانوں اور
قانون ساز اداروں میں نااہل، مجرم اورایک مخصوص طبقے کی رسائی ہو۔ جہاں
انتخابات میں صرف جعلی ووٹوں سے بیلٹ بکسزبھرنے والا ہی سکندر ٹھہرتا
ہو۔جہاں ملکی بھاگ ڈور اور امارتِ عظمیٰ چند خاندانوں کے ہاتھوں یرغمال بنی
ہوئی ہو۔ملکی سرمایہ غیر ملکی بینکوں میں محفوظ ہو۔غریب والدین غربت کے
باعث اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کی بجائے دیہاڑی پر لگائے اور امیروں کے
اولاد غیر ملکی تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہو۔جہاں امیر کیلئے نیسلے اور
غریب کیلئے پینے کا پانی تک نہ میسر نہ ہو۔جہاں غریب کا چولہ نہ جلے۔اور
امیر لوگوں کے محلات میں قطار در قطار سرکاری ملازمین و خادمین اُن کے گھر
اور خاندان کے افراد کی خدمت پر مامور ہو۔جہاں ایک غریب ہسپتال اور ڈاکٹر
کا فیس نہ ہونے کی وجہ سے ایڑیا رگڑ رگڑ کر دَم توڑتا ہو۔ وزاراء اور
اقتدار کے ایوانوں میں براجماں لوگ کھانسی لگنے پر بھی لندن چلے جائیں۔جہاں
عدالتوں میں انصاف برسرِ عام بیچا جا رہا ہو۔جہاں رعایا کومنہ کھولنے پر
شَٹ اَپ سننا پڑے۔ تو پھر منفی تنقید کا سر اُٹھانالا محال ہے۔
اس لیے موجودہ حکومت سے درخواست کیجاتی ہے۔ کہ وہ اپنی عوام کی ایسی خدمت
کرے۔تاکہ رعایا ان کو حقیقی معنوں میں خادم تسلیم کرے۔اپوزیشن بھی ایسی
تنقید کرے جس سے حکمران عوام کا پیسہ عوام پر خرچ کرنے کیلئے مجبور ہو۔
ملکی مفاد اور ترقی کی خاطرمنفی تنقید اور بد کلامی سے پرہیز کرے۔کیونکہ
نئی نسل کیلئے میدانِ سیاست میں یہی لوگ نمونہ بنیں گے۔ |