منی لانڈرنگ کا توڑ

پاکستان اس حوالے سے دنیا بھر میں بدنام ہو رہا ہے کہ یہاں کے حکمران کرپشن کی وہ لازاول داستانیں رقم کر گئے ہیں جن کی کوئی مثال پوری دنیامیں ملنا مشکل ہے سابق ادوار میں اور حالیہ ادوار میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن رہاہے جس کی ہر کوئی اپنی، اپنی جگہ مذمت تو کرتا ہے مگر اسکے خاتمے کے لئے کوئی کچھ نہیں کر رہا اس حوالے سے ہونا تو یہ چاہے کہ حکمران طبقہ عملی اقدامات اٹھائے کیونکہ ملکی بھاگ دوڑ ان کے قبضے میں ہے وہ اگر کوئی ایسی پالیسیاں مرتب کریں جس سے پاکستان سے اس لعنت سے چھٹکارا مل سکے تو بہت کچھ ہو سکتاہے مگر ایسا کرنے سے شاید ان کے پر جلتے ہیں حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ میں چلنے والا پانامہ کیس اس حوالے سے بہت ہی اہم سنگ میل ثابت ہو گا گو کہ اس میں بہت سے پاکستانیوں کے نام آئے ہیں مگر احتساب کا جو عمل اوپر سے شروع ہوا ہے وہ حوصلہ افزاء ہے اس لئے بھی یہ کیس اہم ہے کہ آج تک ملکی تاریخ میں کھبی بھی اقتدار میں رہنے والے ٹولے کی ایسی تلاشی نہیں لی گئی جیسے اب کی بار لی جا رہی ہے اس سے حکمران تو ناخوش ہیں مگر عوام بہت خوش ہیں آج پاکستانیوں کو یہ جان کر بہت دکھ ہو تا ہے کہ پاکستان سے لوٹی گئی دولت کے انبار سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں پڑے ہوئے ہیں ان کی معیشتیں اس رقم سے دنیا کی بڑی معیشتیں بنی ہوئی ہیں اور جن کی دولت لوٹی گئی وہ ملک غریب ترین کہلا رہے ہیں ایک محتاط اندازے کے مطابق اگر ان اربوں کھربوں کو پاکستان منتقل کر لیا جائے تو پاکستان کے تمام مسائل جن میں توانائی، غربت ،معاشی بدحالی ، وغیرہ شامل ہیں کو دنوں میں حل کر لیا جائے۔ مگر مجھ سمیت ہر پاکستانی یہ سوچتا ہے کہ یہ دولت پاکستان لائے گا کون؟ کیا وہ حکمران جنھوں نے اس دولت کو لوٹا یا وہ لوگ جو پاکستان سے کرپشن کے خاتمے کے ضامن ہیں جن میں نیب ،ایف بی آر یا دیگر ادارے شامل ہیں اس سوال کا جواب گول مول ہو جاتا ہے کیونکہ یہاں قانون کی بالا دستی صرف غریب کے لئے ہے امیر کے لئے تو جیسے قانون گھر کی لونڈی بنا دیا گیا ہے اس کی بڑی مثال بلوچستان میں سامنے آ چکی ہے جہاں ایک سیکرٹری لیول کے آدمی کے گھر سے قارون خزانہ برامد کیا گیااور جس خزانے کو گننے والی مشینیں تک گرم ہو گئی تھی اور بعد ازاں بارگینگ کی وہ عمدہ مثال قائم ہوئی کہ ہر کوئی حیران ہی رہ گیا اس دور حکومت میں جہاں ہر طرف کرپشن کے خاتمے کی باتیں کی جا ری ہیں اور حکومت سمیت اپوزیشن بھی اس لعنت کے خاتمے کی باتیں کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں وہاں پر دوسری طرف سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں پاکستانیوں کے دو سو ارب ڈالر کا کھوج لگانے کے سلسلے میں سوئس حکومت کے ساتھ طے پانے والے معاہدے پر اب تک کوئی پیش رفت نہیں کی جا رہی یہ دانستہ ہو رہا ہے یا غیر دانستہ یہ سوال معمہ بنا ہو اہے مبصرین کے مطابق مذکورہ معاہدہ کو چھ ماہ ہونے کو ہیں مگر اس کے بعد حکومت نے اسکی خبر ہی نہ لی چھ ماہ قبل پاکستان اور سوئٹزر لینڈ کی حکومت کے درمیان سوئس بنکوں میں موجود پاکستانیوں کے بنک کھاتوں کی معلومات کے تبادلے کا معاہدہ طے پایا تھا وفاقی کابینہ نے بھی اس معاہدے کی منظوری دی تھی اور یہ طے پایا تھا کہ پاکستان میں سوئٹزر لینڈ کے سفیر اور ایف بی آر کے چیئرمین اس معاہدے پر دستخط کر کے اپنی اپنی حکومتوں کو اس پر عملدرآمد کی تاریخ طے کرنے اور معاہدے کو مکمل طور سے آپریشنل بنانے کا فیصلہ کریں گے اس رسمی کارروائی کے بعد پاکستان معلومات کے حصول کیلئے سوئس بنکوں سے رجوع کر سکے گا۔ دو طرفہ مذاکرات میں یہ طے پایا تھا کہ 2017 ء سے معاہدے کو آپریشنل کیا جائے گا لیکن وہی روایتی سرد مہری پاکستان کی طرف سے نظر ا ٓ رہی ہے لگتا ہوں ہے کہ کچھ حلقے اس سے پریشان ہیں کہ کہیں سارا کچھا چھٹا سامنے ہی نہ آ جائے اور ایسے طبقات ظاہری سی بات ہے کافی اثر رسوخ والے ہیں سو اس وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان طے پانے والا معاہدہ ابھی تک آپریشنل نہیں ہو سکا 2016 ء کے وسط میں پاکستان اور سوئس ٹیکس اتھارٹیز نے بنک کھاتوں کی معلومات کے تبادلے کے معاہدے پر نظرثانی کی تھی قانونی ماہرین کے مطابق سوئس حکومت سے اس کے بنک کھاتوں سے متعلق معلومات کا حصول بہت مشکل ہے مگر ناممکن نہیں تاہم مذکورہ معاہدے کے ذریعے بہرحال یہ تو معلوم ہو سکے گا کہ کن ا فراد نے ان بنک کھاتوں میں کس ،کس سن میں دولت رکھی جہاں تک اس دولت کو پاکستان واپس لانے کا سوال ہے اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ پاکستان میں احتساب کے عمل کو تیز تر کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ حکومت سوئس حکومت کے ساتھ طے پانے والے اس معاہدے کو جلد از جلد آپریشنل کر ے وزیراعظم نوازشریف کے دوسرے دور حکومت میں اس وقت کے احتساب سیل کے چیئرمین نے سابق صدر آصف زررداری کے سوئس بنک کھاتوں کا سراغ لگایا تھا سوئس کورٹ کے حکم کے تحت متعلقہ بنک نے اس وقت کے احتساب سیل کے چیئرمین کو معلومات فراہم کی تھیں تاہم اس وقت کھاتوں سے رقوم کو واپس لانے میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود اس وقت کے وزیراعظم نے سوئس حکومت کو خط نہ لکھا چنانچہ توہین عدالت کے جرم پر انہیں سزا دی گئی اور نئے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے دانستہ تاخیر کے بعد اس وقت خط لکھا جب اسکی قانونی مدت گزر چکی تھی چنانچہ یہ بیل منڈے نہ چڑ سکی ۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ بات سامنے لائی جائے کہ سوئس بنکوں میں اس وقت کتنے پاکستانیوں کے کھاتے موجود ہیں اور ان کے بارے میں معلومات کے حصول کے لئے یہ لازم ہے کہ مذکورہ معاہدے کو بلاتاخیر آپریشنل کیا جائے تاکہ ملک و ملت کو لوٹنے والوں کو بے نقاب کیا جا سکے اور پاکستان کی دولت اس کو واپس کی جا سکے یہ حکومت وقت کے لئے بھی ضروری ہے کہ آئے روز کرپشن فری ،کرپشن فری کے نعرے لگانے کے بجائے یہ عملی اقدامات کرئے تاکہ منی لانڈرنگ کرنے والوں کو بے نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی دولت واپس لائی جا سکے-
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 227519 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More