ڈاکٹر
محمد اجمل نیازی ایک جگہ لکھتے ہیں ۔
اوہنے زخم میرے جثے اتے ۔ جنے تیرے وال نی مائے
ہن تے کجھ نہیں نظری اندا ۔ ہور اک دیوا بال نی مائے
پہلے زخم ابھی بھرتے نہیں کہ نیا زخم لگ جاتا ہے ۔ برداشت کی بھی ایک حد
ہوتی ہے ۔ ہمارے ٹی وی چینلز سوائے خوف وہراس پھیلانے کے اور کوئی کام نہیں
کرتے اس لیے میں بہت کم ٹی وی دیکھتاہوں۔13 فروری کی شام اس اعتبار سے
قیامت خیز نکلی کہ سورج ڈھلتے ہی لاہور میں موت کا رقص شروع ہوگیا ۔ مجھے
ایک دوست نے سعودیہ سے کال کرکے بتایا کہ لاہور میں دھماکہ ہوگیا ہے ۔ یہ
سنتے ہی کلیجہ منہ کو آنے لگا ۔ دیوانگی کی حالت میں اپنے بچوں کی تلاش
شروع کردی۔ جب ان سے رابطہ ہوا تو کچھ سکون ملا ۔ ٹی وی آن کیا تومیرے
سامنے قیامت کا منظر تھا ۔ مسلسل بریکنگ نیوزچل رہی تھی ۔ شہیدوں میں ڈی
آئی جی ٹریفک احمد مبین اور ایس ایس پی زاہد گوندل کے علاوہ بھی نو افراد
شامل تھے ۔جبکہ زخمیوں کی تعداد 87 بتائی جارہی تھی۔ ہسپتالوں میں ایمرجنسی
کااعلان ہوچکا تھا ۔ اس لمحے عشا کی اذان فضا میں بلند ہوئی ۔ میری آنکھوں
سے مسلسل آنسو رواں اور دل ڈوبا جارہا تھا ۔ انسان جب پریشان ہوتا ہے تو
سوائے رب کے اور کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا ۔ یہ سچ بات ہے کہ عشا کی
نماز میں ، میں مسلسل روتا ہی رہا اور آنکھوں سے آنسو بہتے رہے۔ پہلے زبان
دعا مانگتی تھی اس بار دل سے التجائیں نکل رہی تھیں ۔ اے خدا پاکستان پر
رحم فرما ۔ یہ کون لوگ ہیں جو پاکستان کاامن و سکون برباد کررہے ہیں ۔ اے
اﷲ ہم بے بس ہیں ہمیں نہیں پتہ کہ یہ قاتل کس روپ میں کہاں سے آتے ہیں ۔
لاہور تو پاکستان کادل ہے اگر دل ہی مضطرب ہوا تو باقی ملک کا کیا حال ہوگا
۔ اے اﷲ تو سب کچھ جانتا ہے ،دلوں کے راز تجھ سے چھپے نہیں۔ کیا تو بھی ان
درندہ صفت دہشت گردوں کونہیں روک سکتا ۔ یہ ملک (پاکستان )کلمہ طیبہ کے نام
سے وجود میں آیا اور دنیا کے نقشے پر اسلام کے قلعہ تصور کیاجاتاہے ۔ اے اﷲ
تو پاکستان کی حفاظت فرما ۔ اے اﷲ ہم تجھ سے ہی مدداور تیری ہی پناہ مانگتے
ہیں ۔ ہم بے بس ہوچکے ہیں۔ اے اﷲ تیرا ہی یہ وعدہ ہے کہ جو میری پناہ
مانگتا ہے میں اس کی حفاظت کرتا ہوں ۔یہ وہ جذبات تھے ،جو 13 فروری کی شام
میرے آنسوؤں کا روپ دھار کے آنکھوں سے نکل رہے تھے ۔ اس میں شک نہیں کہ موت
کا ایک وقت مقررہے جس میں نہ کمی کی جاسکتی ہے اور نہ اضافہ ۔ یہ بات ذہن
میں ضرور ابھرتی ہے کہ بار بار وارننگ اور ہائی الرٹ کے باوجود دہشت گرد
لاہور کیسے پہنچ گیا ۔ جبکہ کئی ہفتے پہلے ایجنسیوں کی جانب سے الرٹ جاری
ہوچکا تھا کہ افغانستان سے چند نوخیز لڑکوں کو خود کش دھماکوں کے لیے
پاکستان میں بھیجا گیا ہے ، یہ امکان بھی ظاہر ہے کہ لاہور ہی ان کا نشانہ
بنے گا۔ جو ایجنسیاں دہشت گردوں کے عزائم اور ٹارگٹ کی نشاندھی کرتی ہیں وہ
ایجنسیاں اور ادارے وارننگ جاری کرنے کی بجائے انہیں پکڑ کیوں نہیں لیتے ۔
دہشت گرد ہوا میں اڑ کے تو نہیں آتے پھر وہ ٹارگٹ کیسے پہنچ جاتے ہیں۔کہاں
ہیں وہ سیف سٹی کے دعوے جن پر اربوں روپے خرچ کیے جارہے ۔کیا کیمرے شہر کی
حفاظت کرسکتے ہیں جبکہ پولیس دہشت گردوں کا سامنے کرنی ہمت ہی نہیں
رکھتی۔اگر آمنا سامنا ہو بھی جائے تو آنکھ بچاکر موقع سے رفوچکر ہوجاتی ہے
۔ سری لنکا کرکٹ ٹیم پر حملہ اس کا گواہ ہے کہ دہشت گرد بہت سکون سے اپنا
کام کرکے پیدل ہی رفو چکر ہوگئے ایک فرلانگ کے فاصلے پر تھانہ موجود
تھالیکن کسی کو باہر نکل کر مقابلہ کرنے کی جرات نہیں ہوئی ۔ افسوس کہ جتنی
پھرتیاں اور پکڑ دھکڑ اس سانحے کے بعد کی جارہی ہے اگر پہلے شروع کر دی
جاتی تو شاید قیمتی جانیں ضائع نہ ہوتیں۔اس کے باوجود کہ اس سانحے میں
پولیس کے سنیئرافسراور جوان بھی شہید ہوئے ہیں لیکن میری رائے میں یہ حکومت
اور پولیس کی ناکامی ہے ۔ لاہور ہو یا کوئی اور مقام ۔ ہر شہر کے ناکوں پر
پولیس والے موبائل پر چیٹنگ یا وہ اونگھتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ
خار دار تاروں اور سیمنٹ کی رکاوٹوں کے باوجود بھی دہشت گرد اپنے ٹارگٹ تک
آسانی سے پہنچ جاتے ہیں ۔ جب تک دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکی نہیں جاتی
اسی وقت تک دہشت گردی کے واقعات کو ختم نہیں کیاجاسکتا۔ اگر پولیس مستعد
اور فر ض شناس ہوتی تو نہ دہشت گرد اس طرح کھلے عام دندناتے پھرتے اور نہ
ہی دن دھاڑے چوری ڈاکہ اور اغواکی وارداتیں عروج پر ہوتیں ۔میں ایک رات تین
بجے کینٹ ایریا سے گزرا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس وقت بھی سخت ترین
سردی میں بھی فوجی جوان ناکوں پر الرٹ تھے جبکہ پولیس اہلکار بیریئر سڑک کے
درمیان میں ہی چھوڑ کر گھر وں میں جا کر سوجاتے ہیں ۔اگر فوج نے ہی شہروں
کا دفاع بھی کرنا ہے تو پھرسینکڑوں کے حسا ب سے افسر اور لاکھوں کے حساب سے
سپاہیوں کا فائدہ ۔ جب مجرم پکڑے ہی نہیں جاتے تو جرائم کیسے ختم ہوں گے ۔
اگر کراچی میں رینجر دہشت گردوں کا صفایا کرسکتی ہے تو پنجاب کو دانستہ
جرائم پیشہ اور دہشت گردوں کے سپرد کیوں کررکھاہے ۔مخالفین ٹھیک کہتے ہیں
کہ حکومت پنجاب دہشت گردوں کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے ۔اگر رینجر کے آنے سے
دہشت گردوں کے نٹ ورک ختم اور جرائم پیشہ افراد کا خاتمہ ہوسکتا ہے تو یہ
کام بلا تاخیر ہوجانا چاہیئے۔ پولیس کی نفری اگر مزیددوگنی بھی کردی جائے
تو رزلٹ صفر ہی رہے گا ۔اس لیے کہ پولیس نہ صرف ڈرپوک ہے بلکہ دہشت گردوں
کا نام سن کے ہی موقع سے رفوچکر ہوجاتی ہے ۔میں سمجھتا ہوں یہ حکومت پنجاب
کی نااہلی ہے کہ وہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے باوجود مال روڈ کو جلسے اور
جلسوں کا مرکز بنا رکھا ہے ۔ اس کے باوجودکہ یہ لاہور کی سب سے اہم ترین
شاہراہ ہے لیکن شاید ہی کوئی دن جاتا ہو گا جب اس سڑک پر کوئی جلوس یا جلسہ
نہ ہورہا ہو۔ ہر پاکستانی کو اس بات کاعلم ہے کہ اس وقت دہشت گرد طور خم سے
کراچی تک آسانی سے آ جارہے ہیں پھر وہ جلسے اور جلوس نکالنا دہشت گردوں کو
دعوت دینے کے مترادف ہے ۔ گویا لاہور میں سڑکیں بند کرنا کوئی جرم نہیں
رہا۔ یہ درست ہے کہ حکومت نے ڈرگ ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے ادویات کی تیاری
کی چیکنگ اور فروخت کے بارے میں سخت اقدامات کا فیصلہ کیا ہے لیکن یہ بات
بھی ملحوظ رکھنی چاہیئے کہ پاکستان میں جتنا سخت قانون بنتا ہے رشوت کا ریٹ
اتنا ہی بڑھ جاتاہے ۔ ڈرگ انسپکٹر بھی اسی کرپٹ معاشرے کا حصہ ہیں جو ترمیم
کی آڑ میں اپنے چائے پانی بنانے سے گریز نہیں کریں گے۔ حکومت کو جہاں جعلی
ادویات کی تیاری اور فروخت کی روک تھام کرنی چاہیئے وہاں ایسے کوالفائیڈ
اور دیانت دار ڈرگ انسپکٹر مقرر کرناہوں گے جو طب یونانی اور ہیومیوپتھک کی
ادویات کے بارے میں بھی آگاہی رکھتے ہوں تاکہ کسی کواعتراض نہ رہے ۔ بلکہ
ایک طبی محتسب مقرر کرنا چاہیئے جو شکایت کی صورت میں دونوں فریقین کا موقف
سن کر فیصلہ کرے۔خدارا اب جلسے اور جلسوں کا کام ختم ہوجانا چاہیئے ہم
لاشیں اٹھا اٹھا کے تھک چکے ہیں ہماری آنکھوں میں اب آنسو بھی نہیں رہے
۔کبھی کوئٹہ خون میں نہاتا ہے تو کبھی لاہور کی سڑکیں سرخ ہوجاتی ہیں کبھی
پشاور میں شہادتیں ہوتی ہیں تو کہیں سندھ لہولہان ہوجاتاہے ۔یہ عذاب نہیں
تو اور کیا ہے ۔ |