عوامی اکثریت مریم نواز اپنے والد کی سیاسی جانشین جانتے ھیں
(Mian Khalid Jamil, Lahore)
عام انتخابات کی مہم کے دوران مریم نواز لاہور میں بےحد سرگرم نظر آئیں اور انہوں نے اپنے والد گرامی کے انتخابی حلقہ این اے 120 کو اپنا مسکن بنایا اور دن رات انتخابی مہم اور رابطہ عوام کرکے اس سیٹ میں نمایاں لیڈ سے کامیابی حاصل کی اور انہوں نے اپنے والد محترم کو ایک بار بھی یہیاں آنے کی ضرورت محسوس نہ ھونے دی اور اس سیٹ پر کامیابی حاصل کرانے میں کامیابی حاصل کی اور یہی انکا اپنے آپ پر بھرپور سیاسی اعتماد تھا جس میں وہ کامیاب رھیں اس کے علاوہ وہ پارٹی کے سنٹرل سیکرٹریٹ ماڈل ٹاؤن لاھور میں ملک بھر کے تمام اضلاع کی خواتین کو منظم کرنے کیلئے اجلاس کرتی رھیں اور لاکھوں خواتین کی رجسٹریشن کے علاوہ انہوں نے پاکستان بھر بالخصوص پنجاب کے ھر ضلع میں خواتین یوتھ ونگ کو الگ سے منظم کیا اور اسکی بڑی وجہ یہ تھی کہ پاکستانی پاپولیشن میں خواتین آبادی کے لحاظ سے مردوں پر سبقت لے جاچکی تھیں یوں انکا مشن تھا کہ پاکستان کے ھر شعبے میں خواتین کا بھرپور سرگرم کردار بھی لازمی نظر آنا چاھیئے تاکہ پاکستان کی ترقی میں خواتین کا کلیدی کردار واضح نظر آئے |
|
مریم نواز شریف کو اپنے والد وزیرِاعظم
نواز شریف کا قریبی مشیر تصور کیا جاتا ہے
اسوقت ملک بھر میں مریم نواز شریف کو مستقل کا سیاسی ستارہ قرار دیا جا رہا
ہے اس حوالے سے میں نے بھی دوسروں کیطرح قریب سے جائزہ لینے کی کوشش کی اور
یقین ھوا کہ مریم نواز کا سیاسی کیریئر ناقابل یقین کامیاب ترین متاثر کن
ہے
مجھے یاد ہے کہ 1991ء میں مریم نواز کالج کی ھونہار سٹوڈنٹ تھیں انھیں
لڑکیوں کے ایک گروہ نے گھیر رکھا تھا۔ ان کے ہاتھوں میں ایک فولڈر تھا جس
پر انھوں نے اپنے والد کی تصویر چسپاں کر رکھی تھی۔ وزیرِاعظم کی بیٹی ہونے
کے ناتے انھیں کالج میں 'سیلیبرٹی' کی حیثیت حاصل تھی۔
ء1990 کی دہائی میں شریف خاندان پاکستان بھر میں ایک سیاسی خاندان کے طور
پر خاصا مشہور ھو چکا تھا۔ یہ دور سیاسی طور پر خاصا ہنگامہ خیز تھا، اور
اس دور میں چار جمہوری حکومتیں جن میں خود نواز شریف کی حکومت بھی تھی مدت
پوری کرنے سے قبل ہی ختم کر دی گئ تھی
آمریت کیخلاف بیگم کلثوم نواز نے اور مریم نواز کی نگرانی میں بھرپو جدوجہد
کا آغاز کیا
12 اکتوبر 1999 میں جب فوجی آمر پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت پر قبضہ
کیا اور خاندان کے تمام مردوں کو جیل میں ڈال دیا تھا تو اسوقت فوری مریم
نواز اور ان کی والدہ نے اپنے خاندان کی رہائی کے لیے زور شور سے مہم چلانا
شروع کردی تھی۔ یہ خطرناک دور تھا اور ہر چیز کی نگرانی کی جا رہی تھی ان
دنوں ماں اور بیٹی دونوں بہت جارحانہ انداز میں پرویز مشرف کی حکومت پر
تنقید کر رہی تھیں، ھزاروں کارکنان پر ریاستی ٹارچر کیاگیا اور ان پر دھشت
گردی کے مقدمات بناکر جیلوں میں ڈالا گیا، آٹھ سالہ یہ عمل جاری رھا جس
دوران ھزاروں کارکنان پابند سلاسل کئے جاتے رھے ان میں 30 سال پرانے
نظریاتی سینئر کارکنان شامل تھے اور اسوقت لاھور کے نائب صدر میاں خالد
جمیل کے گھر پولیس کی بھاری نفری سیڑھیاں لگاکر گرفتار کرکے لے گئی اور جیل
میں ڈال دیا اور پانچ عدد دھشت گردی کے مقدمات بنائے گئے اور نوازشریف
کاساتھ چھوڑنے کی کارکنان کو دھمکیاں دی جاتی رھیں مگر گرفتار کارکنان نے
قائدین کی واپسی سمیت مشرف آمریت کے خاتمے کیلئے اپنی جدوجہد جاری رکھی
بالآخر پرویز مشرف کی آمریت کا زور عوامی حمایت سے ٹوٹ گیا اور شریف خاندان
پاکستان واپسی میں کامیاب ھوا اور آمریت کیخلاف جدوجہد میں بالخصوص بیگم
کلثوم نواز اور انکے پیچھے مریم نواز کی بے پناہ جدوجہد ساری قوم کے سامنے
ھے
2007ء شریف خاندان پاکستان واپس آنے میں کامیاب ھوا اور عام انتخابات جیت
کر پنجاب میں حکومت بنائی۔
عمران خان اور مریم نواز کی شناخت نوجوان طبقہ کے حوالے سے سارے ملک میں
نمایاں ھے
2011ء میں عمران خان پاکستانی سیاسی منظرنامے پر نمودار ھوئے۔ ان کے مداح
نوجوانوں پر مشتمل نظر آئے۔
اس وقت مریم نواز بھی نمودار ھیں اور وہ بغیر کسی سیاسی یا حکومتی عہدے کے
سکولوں اور کالجوں کے دورے شروع کرتی نظر آئیں اور وہ 2013ء انتخابی مہم کے
دوران پارٹی کے سنٹرل سیکرٹریٹ ماڈل ٹاؤن لاھور میں قائم اپنے دفتر میں
باقاعدہ بیٹھ کر آنیوالے ملک بھر کے مختلف شعبوں سے منسلک نوجوان وفود سے
ملاواتیں کرتیں اور یہاں آئے دن مختلف سیمینارز سے خطاب کرتی مصروف نظر
آئیں
ماضی میں جب وہ لاہور کے ہوم اکنامکس کالج میں تھیں تو اسوقت ان میں خاصی
خوداعتمادی آ چکی تھی اور وہ ایک مختلف خاتون دکھائی دیتی تھیں۔
عام انتخابات کی مہم کے دوران مریم نواز لاہور میں بےحد سرگرم نظر آئیں اور
انہوں نے اپنے والد گرامی کے انتخابی حلقہ این اے 120 کو اپنا مسکن بنایا
اور دن رات انتخابی مہم اور رابطہ عوام کرکے اس سیٹ میں نمایاں لیڈ سے
کامیابی حاصل کی اور انہوں نے اپنے والد محترم کو ایک بار بھی یہیاں آنے کی
ضرورت محسوس نہ ھونے دی اور اس سیٹ پر کامیابی حاصل کرانے میں کامیابی حاصل
کی اور یہی انکا اپنے آپ پر بھرپور سیاسی اعتماد تھا جس میں وہ کامیاب رھیں
اس کے علاوہ وہ پارٹی کے سنٹرل سیکرٹریٹ ماڈل ٹاؤن لاھور میں ملک بھر کے
تمام اضلاع کی خواتین کو منظم کرنے کیلئے اجلاس کرتی رھیں اور لاکھوں
خواتین کی رجسٹریشن کے علاوہ انہوں نے پاکستان بھر بالخصوص پنجاب کے ھر ضلع
میں خواتین یوتھ ونگ کو الگ سے منظم کیا اور اسکی بڑی وجہ یہ تھی کہ
پاکستانی پاپولیشن میں خواتین آبادی کے لحاظ سے مردوں پر سبقت لے جاچکی
تھیں یوں انکا مشن تھا کہ پاکستان کے ھر شعبے میں خواتین کا بھرپور سرگرم
کردار بھی لازمی نظر آنا چاھیئے تاکہ پاکستان کی ترقی میں خواتین کا کلیدی
کردار واضح نظر آئے
مریم نواز کو ن لیگ کا نوجوان چہرہ دکھانے کے لیے سامنے لایا گیا اور یہ
عمران خان کی مقبولیت کا توڑ کرنے کیلئے ھرگز نہیں کیونکہ عمران خان کی
ترجیحات اپنے تئیں الگ سے ھیں اور جارحانہ نظر آتی ھیں جبکہ مریم نواز کے
سیاسی انداز میں ٹہراؤ بہترین اخلاقی پہلو نمایاں نظر آتاھے.
اس دوران مریم سوشل میڈیا پر فعال ہو گئیں اور کچھ ہی عرصے میں ان کے
لاکھوں فالوورز بھی بن گئے۔
👈 ملکی اکانومی کی بہتری اور سیاسی استحکام میں وزیرخزانہ سینیٹر محمد
اسحاق ڈار کا کردار بھی نمایاں ھے 👉
پاکستانی میڈیا میں کچھ عناصر یہ تاثر اجاگر کرتے ھیں کہ جب 2013 میں نواز
شریف وزیرِ اعظم بنے تو مریم ایوان وزیراعظم میں منتقل ہو گئیں اور وہاں سے
'سٹریٹیجک میڈیا کمیونیکیشن سیل' چلانا شروع کر دیا.. اس تاثر کی آج تک
تصدیق نہیں ھوسکی البتہ مریم نواز کا سٹیٹ منٹ اکثرو بیشتر یہ ضرور سامنے
آیا کہ وہ سیاسی مشاورت کے حوالے سے اپنے والد کے مشاورتی عمل میں ضرور
شریک ھوتی ھیں مگر فیصلہ سازی انکے والد پارٹی کے سینئر افراد کیساتھ
مشترکہ طور پر کرتے ھیں جن میں دیگر سینئرز اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار بھی
شامل ھیں جنہوں نے ملکی اکانومی میں وزیراعظم کی ھدایت اور پارٹی منشور
کیمطابق شاندار کارکردگی کا مظاھرہ کر دکھایا.. 2013ء میں مسلم لیگ (ن) جب
حکومت برسراقتدار آئی تو اسوقت قومی زدمبادلہ کے ذخائر فقط 3.6 ارب ڈالر
تھے اور دیوالیہ جیسی پوزیشن تھی اس خراب صورتحال جو پچھلی حکومت کیجانب سے
ورثے میں ملی تھی اسے ایک چیلنج سمجھ کر اسحاق ڈار نے قبول کیا اور شب و
روز ایکٹیم کی صورت میں کان کیا جس نتیجے میں آج ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 23
ارب ڈالر جمع کر دکھائے جو یقینا ایک تاریخ ھے علاوہ اکانومی کی مضبوطی
سمیت غیرملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی کیلئے سنجیدگی سے کام کیا جس
نتیجے میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج ھنڈرڈ انڈیکس 50 ھزار پوائنٹس عبور کرتی
نظر آئی اسکے علاوہ انہیں جو بھی ملک و قوم کی بہتری کیلئے ٹاسک دیاگیا اس
میں وہ پورا اترے اور اندرون ملک سیاسی استحکام کیلئے انہوں نے گاھے بگاھے
بہترین کردار ادا کیا
پاناما پیپرز کیس حقیقت سے زیادہ سیاسی طور پر زیادہ اچھالا جارھاھے
2016 میں ان کا اور ان کے بھائیوں کا نام پاناما پیپرز سکینڈل میں آ گیا جس
میں الزام لگایا گیا تھا کہ ان کی آف شور کمپنیاں ہیں۔ اس وقت یہ مقدمہ
عدالت میں ہے۔ اور یہ کیس زیادہ تر سیاسی ھے اور اسی لئے اسے سیاسی طور پر
زیادہ اچھالا جارھاھے
ملک کی حزبِ اختلاف مریم نواز شریف کو نوازشریف کا متبادل سمجھتی ہے اور وہ
جانتے ہیں کہ وہ ھی نواز شریف کا متبادل ھیں
مریم کے پاس کوئی پارٹی عہدہ نہیں لیکن پبلک کی اک اکثریت سمجھتی ہے کہ وہ
نواز شریف کے بعد سیاسی طور پر دوسری طاقتور ترین شخصیت ہیں۔ وہ اپنے والد
کی سب سے قریبی ساتھی اور ان کی سب سے قابلِ اعتماد مشیر بھی ہیں۔ دونوں
روزانہ بہت سا وقت اکٹھے گزارتے ہیں۔ نواز شریف کی سیاست اور خیالات کو
مریم سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ مریم نواز شریف اپنی والدہ کلثوم نواز
کے ہمراہ انتخابی مہم میں بھی سرگرم دکھائی دیں
والد کی جانشین؟
کیا مریم اپنے والد کی جانشین بن سکتی ہیں؟ کیا انھیں 2018 کے انتخابات کے
بعد اگلے وزیرِ اعظم کے طور پر تیار کیا جا رہا ہے؟
بالکل مریم نوازشریف اپنے والد کی جانشین بننے کی مکمل اھلیت رکھتی ھیں
البتہ انہیں میدان میں اترنے کیلئے انکے والد بہتر جانتے ھیں کہ کب اور
کسوقت انہیں میدان سیاست میں انتخاب لڑنے کیلئے اتارا جائے اور یہ تاثر
مکمل غلط ھے کہ شریف خاندان قدامت پسند ھے بلکہ شریف خاندان قدامت پرست
ھرگز نہیں۔ اگر مریم سیاست میں داخل ہوتی ہیں تو ان کا بھر پور تحفظ حاصل
گا جو انھیں زندگی بھر حاصل رہا ہے۔ اس پر ان کے خاندان کا ردِ عمل منفی
ھرگز نہیں ہو گا
حزبِ اختلاف شریف خاندان کو پاناما پیپرز کے ذریعے سیاسی نقصان نہیں پہنچ
سکتاکہ یہ اک سیاسی ایشو بنایا جاچکا جس میزن ہبلک کی اکثریت توجہ نہیں
دیتی اور یہی وجہ ھے کہ پاکستان جیسے ملک میں پاکستانیوں شہریوں کی اکثریت
یہ سمجھتی ھے کہ " مریم نواز " کا سیاسی کردار ناگزیر ہے۔
|
|