پنجاب کی حکمرانی!
(Hafiz Muhammed Faisal Khalid, Lahore)
گَڈگورنینس سے مراد بہترین اندازِ حکمرانی
ہے جس میں بہترین فئصلے کئیے جاتے ہیں اور پھر ان فیصلوں پر عمل درآمد کر
وایا جاتا ہے۔ صوبہ پنجاب کی حکومت اس بات کی دعویدار ہے کہ پنجاب کا صوبہ
گورنینس کے لحاظ سے سب صوبوں سے بہتر ہے جہاں تمام تر یا اکثر معاملات خوش
اسلوبی سے اور بہترین انزداز میں طے پاتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ پنجاب
حکومت کی طرف سے کئیے جانے والے دعوں میں کوئی سچائی بھی پائی جاتی ہے
یاپھر یہ باتیں صرف سیاسی نعروں تک ہی محدود ہیں؟
پنجاب حکومت اور اس کے زیرِ انتظام چلنے والے اداروں کی کار کردگی کو دیکھا
جائے تو ان اداروں کی کار کردگی حکومتی دعوں کے بر عکس نظر آتی ہے۔ حقیقت
تو یہ ہے کہ یہاں ہسپتالوں کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔یہاں
پولیس کا نظام دیکھ کر محافظین سے دل اٹھ سا جاتا ہے۔ یہاں کی اعلی انتظامی
مشینری کا یہ عالم ہے کہ انکو قبل از وقت محطاط رہنے کو کہا جاتا ہے مگر یہ
اعلی انتظامی ڈھانچہ حادچثہ پیش آنے کے بعد حرکت میں آتا ہے۔ یہاں ا حملہ
آور حملہ کرکے کئی ماؤں کی گود اڑا جاتا ہے ، کئی بہنوں سے ان کے بھائی
چھین لیتا ہے، کئی بوڑہے والدین کے بڑہاپے کا سہارا چھین لیتا ہے، کئی بچوں
کو یتیم کر دیتا ہے، کئی اعلی افسران کو شہید کر دیتا ہے ، اور یہ سب
ہوجانے کے بعد یہاں کے بہترین انتظامیہ ہوش میں آتی ہے اورشہید ہونے والوں
کے لواحقین کو انکی جانوں کی قیمت ادا کرتے ہے اور زخمی ہونے والوں کو انکے
زخموں کے عوض معاوضہ اداکر تی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں سڑک کنارے تشویشناک حالت میں پڑے مریض کو اول تو
ایمبولینس لینے بوقت نہیں پہنچ پاتی اور اگر ایمبولینس میسر آ بھی جائے تو
یہاں کی اعلی انتظامیہ کی زیرِ نگرانی چلنے والے ہسپتالوں میں ڈاکٹر حضرات
احتجاج پر ہوتے ہیں، اور اگر خوش قسمتی سے ڈاکٹر حضرات مِل جائیں تو میڈیکل
سٹور ز بوجہ ہڑتال بند ہوتے ہیں۔ یہاں کے اعلی انتظامی ڈھانچے کے ریرِ
انتظام چلنے والے پولیس کے نظام کا یہ عالم ہے کہ یہاں اگر ایک غریب آدمی
اپنے تحفظ کیلئے یہاں کے محافظین کو درخواست کرتا ہے تو اسکی حفاظت ہو نہ
ہو البتہ اسکے اپنے بارے میں تحقیقات شروع کر دی جاتی ہیں۔
انکی بہترین کار کردگی کا یہ عالم ہے کہ انکو قبل از وقت وزارتِ داخلہ
ممکنہ دھماکوں کی اطلاع دیتی ہے ، لیکن یہاں کی انتظامیہ اس وقت حر کت میں
آتی ہے جب تیرہ قیمتی انسانی جانیں لقمۂ اجل بن جاتی ہیں، اور سو سے زائد
بشر زخمی ہو جاتے ہیں۔ اور کمال در کمال یہ کہ بعد از سانحہ مشکوک افراد
بھی پکڑے جاتے ہیں۔
بات یہیں نہیں رکتی بلکہ یہاں کسی بھی حکومتی محکمے کی کار کردگی کو اٹھا
کر دیکھیں گے تو اسکی صورتِ حال ایسی ہی ملے گی لیکن دوسری طرف حکومتی دعوے
ہیں کہ کسی کو بولنے نہیں دیتے۔
اگر یہی اعلی انتظامی ڈھانچہ ہے توپھر یقین جانئیے کہ برا نظامِ حکومت کیا
ہوتا ہے اس کا اندازہ کم از کم راقم الحروف کے فہم سے بالاتر ہے۔
اور ایک بات جو ہمارے بس میں ہے کہ ہم مالکِ ارض و سماء سے یہی دعا ہے کہ
اس ملک اور اس میں رہنے والوں کی حفاظت فرمائے اور اس قوم کے نصیب میں ایسے
حکمران کرے جنکی ترجیح ملک و ملت ہوں نہ کہ ذاتی مفاداد۔ |
|