عرب
شاعر ابونواس کی ہارون الرشید کے دربار تک رسائی تھی۔ ایک بار ہارون کی
بیگم زبیدہ نے ابونواس سے کہا کہ اس کے بیٹے شہزادہ امین کو شاعری کا شوق
ہے۔ اس لئے وہ امین کو اصلاح دیا کرے۔ ابو نواس کیسے انکار کر سکتا تھا۔
امین نے اپنے اشعار اصلاح کے لئے ابو نواس کو سنائے تو اس نے عروضی غلطیوں
کی نشاندہی کی۔ امین کو غصہ آگیا۔ اس نے اُسی وقت ابونواس کو قید خانے میں
ڈال دیا۔ امین کی اس حرکت کا علم ہارون کو ہوا تو اس نے ابونواس کی رہائی
کا حکم دیا اور بات آئی گئی ہو گئی۔ ایک روز جب امین، ہارون اور ابونواس
اکھٹے تھے۔ ہارون الرشید نے امین سے کہا کہ ’’امین! تمہارے استاد موجود ہیں،
موقع سے فائدہ اٹھاو اور اپنے اشعار کی اصلاح کر والو‘‘۔ امین نے چند اشعار
پڑھے ، ابو نواس نے غور سے سنے مگر زبان سے کچھ نہ بولا۔ چب چاپ اٹھا اور
چل دیا۔ ہارون نے حیرت سے پوچھا ۔ ’’ابونواس کہا چلے ہو‘‘۔ تو ابو نواس نے
امین کو معنی خیز نظروں سے دیکھا اور جواب دیا، ’’امیرالمومنین ! قید خانے
‘‘۔
شاعرابو نواس جیسا حال آج صحافیوں کابھی ہے۔ جو امن کے لئے اصلاح کی بات کر
تے ہیں اور انہیں قید خانے بھیج دیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے واقع کے بعد
ہمارے ادارے ایسے چوکس ہوتے ہیں جیسے واقعی وہ کام کرنا شروع کر ہی دیں گے۔
حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے بعد دہشت گردوں سے نبٹنے والی ایک فورس بھی
یونہی چوکس دیکھائی دے رہی ہے ۔ جیسے وہ چند روز میں ملک میں دہشت گردوں کی
آبادی کو ختم کر دے گی۔ مگر حقیقت اسکے برعکس نظر آتی ہے۔وفاقی اور پنجاب
حکومت کی جانب سے سندھ میں فوج رینجرز کو اختیارات نہ ملنے یا اس میں بروقت
توسیع نہ ہونے پر تو خود تنقید فرماتی ہے مگر خود جب پنجاب کے حالات اور
وہاں رینجرز کو اختیارات کی بات ہو تو وزیر اعلیٰ کی سربراہی میں ایک اجلاس
بلا کر فاتحہ خوانی کے بعد ایک روائیتی پریس ریلیز جاری کر دی جاتی ہے۔ یوں
لگتا ہے کہ اس اجلاس کے بعد اب رینجرز کو اختیارات دینے کی ضرورت نہیں رہی
اور جنوبی پنجاب سمیت ملک بھر میں امن قائم ہو گیا ہے۔ اب ہر شہری کی جان و
مال محفوظ ہے اور وہ بے خوف وفکر کسی بھی مزار، درگاہ، مسجد، مندر، ریلوے
سٹیشن، بس اڈے ،سکول، کالج، یونیورسٹی، ہسپتال اور دیگر پبلک مقامات پر جا
سکتا ہے۔ یقیناًان حالات میں یہ خواب سے کم نہیں۔
جنوبی پنجاب میں مضبوط ہوتے دہشت گرد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ یہ وہ وقت
نہیں جب میڈیا کو دبا کر ملکی حالات سے عام آدمی کو بے خبر رکھا جا سکتا
تھا۔ عام آدمی سوشل میڈیا پر حکومت وقت اور اسکے اتحادیوں پر ملک میں بگڑتی
ہوئی امن و امان کی صورت حال پر تنقید کرتا نظر آتا ہے۔ وہ سوشل میڈیا پر
اپنے ہم وطنوں کوباخبر رکھنے کے لئے بھی سرگرم ہے۔
جنوبی پنجاب کی لوگ جب لاہور کی سڑک اور میٹرو پر سفر کرتے ہیں تو انہیں
چند لمحے خوشی کے ساتھ دل ہی دل میں احساس کمتری کااحساس ضرور ہوتا ہے۔
انہیں اپنے علاقے کی ڈسپنسریاں، ہسپتال یاد آ جاتے ہیں جہاں ضروری ادوایات،
وونٹی لیٹرز ، بیڈز، آکسیجن ، سٹیچرز، ایمولینس ، ایم آر آئی ، سٹی سکین یا
ایکسرے کی سہولت کا سوچنا بھی جرم ٹھہرتا ہے۔ جہاں پبلک مقامات تو کیا مقدس
مقامات بھی محفوظ نہیں۔ ہمارے ملک میں تعلیمی اداروں میں پہلے ہی بچے
اساتذہ کے رویوں، غربت، پسماندگی ، چائلڈ لیبر اور والدین میں شعور کی کمی
کے باعث نہیں جاتے ۔ اوپر سے ظالم دہشت گردی جس نے تعلیمی اداروں کو بھی
معاف نہ کیا۔ یوں ملک بھر کے پسماندہ علاقوں کی طرح جنوبی پنجاب کے بچوں کو
علم و ادب سے دور کھنے کی ایک اور وجہ مل گئی ۔
ملک بھرکی طرح پنجاب میں بھی تھانہ کلچر غریبوں کو ووڈیروں ، ایم پی اے،
ایم این اے ، وزیروں اور مشیروں سے ڈرانے کے لئے ڈیوٹی سرانجام دیتے نظر
آتے ہیں۔ جوعام رائے میں ہر الیکشن کی تیاری میں 80%سے زائد کردار ادا کرتے
ہیں۔پنجاب میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرع بھی لمحہ فکریہ ہے۔ حادثات کے بعد
حکمرانوں کے منظور نظر افراد فوٹو سیشن کے لئے جائے وقوعہ پر لمبی چوڑی
تقریریں کرتے ہیں اور اسکے بعد چند روز ملک میں غریب کے رکشے اور موٹر
سائیکل کی شامت آ جاتی ہے۔ جگہ جگہ ناکے لگا کر معصول شہریوں کو ذلیل کیا
جاتا ہے۔ ان دہشت گردوں جن کے ٹھیکانوں کا پولیس کو علم بھی ہے ۔ سیاسی
دباؤیا ڈر کے سبب انکی گلی تک نہیں گزر سکتے۔ہمیشہ سے ہی پولیس ایک ربورٹ
کی مانند کام کرتی رہی ہے جس کا ریمورٹ ہمیشہ سے حکمرانوں اور انکے بچوں کی
جیبوں میں کھلونے اور گاڑی کی چابی کی مانند رہا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ ملک
بھرکے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی امن ہو اور پنجاب کا امن جنوبی پنجاب سے
وابستہ ہے۔ جہاں رینجرزکو اختیارات نہ دینا عام آدمی کی نظر میں اسکی زندگی
کو دہشت گردوں کے رحم و کر م پر چھوڑنے سے کم نہیں۔ خادم اعلیٰ کو چاہئے کہ
وہ اپنے صوبے میں نیشنل ایکشن پلین پر اپنی اصل روح کے مطابق عمل ہونے میں
مدد کرتے ہوئے یہاں بھی رینجرز کو اختیارات دیں۔ یقین کریں اس سے حکومت کا
اعتماد عام آدمی کی نظر میں بڑھے گا۔ رینجرز کو اختیارات ملنے کے بعد وہ دن
دور نہیں جب اسلامی جمہوریہ پاکستان امن کا گہوارہ ہو گا۔
حکمرانوں کی دہشت گردوں کے خلاف پالیسی میں اصلاح ہو یا نہ ہو ہمیں لکھ لکھ
کر اپنا فرض ادا کرنا ہو گا۔ چاہے اسکے بعد ہمیں بھی ابو نواس کی طرح
حکمرانو ں کو معنی خیز نظروں سے دیکھ کر جواب دینا پڑے ’’امیرپنجاب ! قید
خانے ‘‘۔
|