میونخ
جرمنی کے سب سے بڑے صوبے باویریاکا صدر مقام ہے اور یہ برلن اور ہیمبرگ کے
بعد تیسرا بڑا شہر ہے۔تاریخی اعتبار سے یہ شہر اپنی تعمیرات، فنونِ لطیفہ
کی شاندار روایات اور رومانوی حوالوں سے پہچانا جاتاہے۔اسے دل والا عالمی
شہر بھی کہا جاتا ہے۔مگر اب اس کی شہرت وہاں ہر سال فروری کے مہینے میں
ہونے والی عالمی سیکورٹی کانفرنس ہے۔ہر سال ستمبر میں ہونے والے اقوامِ
متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے بعد یہ دنیا کا دوسرا بڑا اجتماع ہے جہاں
سب سے زیادہ عالمی رہنما جمع ہوتے ہیں۔اسی وجہ سے اب اسے سفارت کاری کا
عالمی شہر بھی کہا جاتا ہے۔یہاں اس سال 17سے 19فروری تک 53ویں سیکورٹی
کانفرنس منعقد ہوئی جس میں 47ملکوں کے وزرائے خارجہ اور 30ملکوں کے وزرائے
دفاع کے ساتھ ساتھ جرمنی، ا فغانستان،یوکرائین ،پولینڈ اور عراق کے سربراہِ
حکومت بھی شریک ہوئے ۔امریکہ کا ایک بڑا وفد نائب صدر مائیک پینس کی قیادت
میں اس اجلاس میں شریک رہا۔
اس کانفرنس کا بنیادی مقصد مکالمیت ہے اور مکالمے کے ذریعے ہی ایک دوسرے کے
مسائل کو سمجھنا اور ان کا حل تلاش کرنا ہے۔مگر اس بار مکالمے میں سوچ اور
تدبر کی جگہ الزامات کا عنصر نمایا ں رہا ہے۔جب مکالمے میں سوچ اور فکر کی
جگہ الزامات لے لیں تو پھر معاملات بننے کی بجائے بگڑنے لگتے ہیں۔امن
معاشروں سے دور ہونے لگتا ہے ۔اس کانفرنس میں یہی کچھ ہوا ہے۔دنیا کے
اکابرین کے ایسے طرزِ عمل نے مایوس کیا ہے۔امریکہ اور یورپ کا مشترکہ نظریہ
یہی ہے کہ مسلمان دہشت گردی کے سر غنہ ہیں اوروہ ہی اس دہشت گردی کو فروغ
دے رہے ہیں۔ القائدہ،طالبان،بوکوحرام اور داعش جیسی عالمی دہشت گرد تنظیموں
کے ساتھ ساتھ درجنوں علاقائی دہشت گرد تنظیمیں مسلمانوں کی ہی ہیں۔ ان کے
آپس کے اختلافات میں جب تشدد کا عنصر پیدا ہوتا ہے تو دہشت گردی پروان
چڑھتی ہے۔امریکہ اور یورپ کا یہ بھی خیال ہے کہ اس دہشت گردی کا سب سے
زیادہ خطرہ ان ہی کو ہے لہذا اس خطرے کو ختم کرنے کے لیے مسلم علاقوں میں
ہی فوجی کاروائیاں کرنی چاہیے۔بد قسمتی سے دوسری جانب مسلمانوں کی کوئی
مشترکہ سوچ سامنے نہیں آسکی۔ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے کو اپنے لیے
خطرہ سمجھتے ہیں۔افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے پر دہشت گردی کے الزامات
لگاتے ہیں۔شام،یمن،بحرین اور عراق ایک دوسرے کے ساتھ الجھے ہوئے ہیں ۔ترکی
خطے میں اپنے بالادستی چاہتا ہے۔ اسلامی ممالک کی آپس کی تقسیم کی وجہ سے
یورپ اور امریکہ کے مقابلے میں دہشت گردی کے عنوان پر مسلمانوں کا جوابی
بیانیہ تشکیل ہی نہیں پا سکا ہے۔اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کے درمیان
بڑھتی ہوئی یہ خلیج عالمی امن کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔میونخ سیکورٹی
کانفرنس اس خطرے کو بھانپ نہیں سکی۔ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی
گئی۔
اس کانفرنس میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کو بھی پرکھا گیا۔اسلامی
دنیا میں پاکستان واحد ایٹمی قوت کا حامل ملک ہے اور اس کی فوج سب سے زیادہ
منظم اور مضبوط ہے۔دہشت گردی کے خلاف لڑنے میں اس کا وسیع تجربہ ہے۔اس سب
کے باوجود پاکستان دہشت گردی پر مکمل قابو نہیں پا سکا ہے ۔اس کانفرنس میں
پاکستان کے سامنے یہی سوال اٹھا یا گیا ۔پاکستانی وفد کے سربراہ وزیر دفاع
خواجہ آصف اس سوال کا جواب مدلل انداز میں دے ہی نہیں سکے۔ان کے نزدیک حافظ
سعید پاکستانی معاشرے کے لیے خطرہ بن سکتے تھے لہذا انہیں نظر بند اور ان
کی جماعت پر پابندی لگانے کا فیصلہ دنیا کے سامنے رکھا ۔پاکستان کی یہ بد
قسمتی رہی ہے کہ اس کی کبھی بھی شفاف اورآزاد خارجہ پالیسی نہیں رہی۔یہی
وجہ ہے کہ اسے کبھی بھی عالمی سیاست کا ادارک نہیں رہا ہے۔وہ اب بھی اپنے
خلاف ہونے والی سازشوں کو سمجھ نہیں پا رہا ہے۔بھارت نے کمال ہوشیاری سے
پاکستانی افواج کا رخ اپنی سرحدوں سے ہٹا کر افغانستان کی جانب موڑ دیا
ہے۔اب پاکستان کی فوجی سرحد مشرق سے مغرب تک طویل ہو چکی ہے اور پاکستانی
فوج کی قوت تقسیم ہوئی ہے۔خواجہ آصف بھارت اور افغانستان کا دہشت گردی کو
فروغ دینے کے لیے کیا جانے والا گٹھ جوڑ دنیا کے سامنے لا ہی نہیں سکے۔دنیا
پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔خواجہ آصف نے اس کانفرنس میں ضرور
بتایا ہے کہ اسلام کا دہشت گردی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور سارے مسلمان
دہشت گرد نہیں ہیں جس کے جواب میں فرانسیسی وزیر مونٹی بورگ نے کہاکہ یہ
درست ہے کہ سارے مسلمان دہشت گرد نہیں لیکن یہ بھی درست ہے کہ سارے دہشت
گرد مسلمان ضرور ہیں۔ یورپ کا مسلمانوں کے بارے میں یہ وہ بیانیہ ہے جس پر
مسلم امہ کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔اپنے اعمال کو درست اور اپنے اختلافات کو
ختم کر کے اس کے مقابلے میں ایک مشرکہ جوابی بیانیہ بھی دنیا کے سامنے لانا
ہو گا۔اگر اب مسلمانوں نے سمجھ داری کا ثبوت نہ دیا توباقی دنیا انہیں دہشت
گرد ہی جانے گی۔
|