لاہور
کے بعد سیہون شریف میں دہشتگردی کے بعد پاکستان نے افغانستان سرحد پر
دہشتگردوں کی کمین گاہیں تباہ کرنے کے لئے حملے کئے۔ جن میں دہشت گردوں کو
جانی اور مالی نقصان پہنچنے کی اطلاعات ہیں۔ اس پر افغانستان احتجاج کر رہا
ہے۔ کابل میں پاکستانی سفیر کو افغان دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاج ریکارڈ
کرایا گیا۔ پاکستان نے افغانستان کے اندر سرجیکل سٹرائیکس دہشت گردوں کے
ٹھکانوں پر کیں۔ اس سے قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ نے اس سے امریکی
جنرل جان نکلسن کو افغانستان میں چھپے دہشت گردوں کے بارے میں آگاہ کیا۔
جنرل نکلسن افغانستان میں ریسولوٹ سپورٹ مشن کے کمانڈر ہیں۔ چونکہ اس علاقے
میں یہی مشن انچارج ہے، اس لئے اسے بتایا گیا کہ کس طرح دہشت گرد پاکستان
میں دہشگردی کے بعد افغانستان میں چھپ جاتے ہیں۔ انہیں افغانستان سے ہی
ہدایات ملتی ہیں۔ افغانستان میں بھارت سمیت پاکستان دشمن طاقتوں کے اڈے
قائم ہو رہے ہیں۔ وہ پاکستان میں امن کو تباہ کرنا چاہتی ہیں۔ پاکستان کو
عدم استحکام کا شکار بنانا ان کا مشن ہے۔ دہشت گردی کی کئی وارداتوں کی ذمہ
داری بھی پاکستان دشمن دہشت گردوں کے سربراہ قبول کر رہے ہیں۔ جماعت
الاحرار بھی ان میں سے ایک ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے حوالے سے صبر
و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ کیوں کہ یہ ہمارا دوست، پڑوسی اور برادر اسلامی
ملک ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان ترقی کرے، افغان عوام امن اور سکون
سے زندگی بسر کریں۔ پاکستان اور افغانستان میں دوستانہ اور برادرانہ تعلقات
ہوں۔ آپسی تجارت میں اضافہ ہو، ایک دوسرے کی سرزمین دونوں ممالک کی تعمیر
وترقی اور تعاون کے لئے استعمال ہو۔ جو افغانستان کا دشمن ہے ، وہ پاکستان
کا بھی دشمن ہے۔ افغانستان بھی پاکستان کے دشمن کو اپنا دشمن سمجھے۔ کیوں
کہ دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کے ساتھ والہانہ جذباتی و نظریاتی تعلق
رکھتے ہیں۔ سرحدی علاقوں میں ہی نہیں بلکہ دونوں ممالک کے شہروں اور دیہات
میں بھی رشتہ داریاں قائم ہیں۔ پہلے سرحدیں کھلی تھیں۔ جس سے دونوں اطراف
کے عوام فائدہ اٹھا رہے تھے۔ اب ایک بار پھر دہشت گردی اور دہشت گردوں کو
آزادانہ طور پر سرحدیں عبور کرنے سے روکنے کے لئے سرحد بند کی گئی ہے۔ یہاں
کے عوام کی یہ شکایت رہی ہے کہ پاکستان سے مال افغانستان سمگل ہونے سے ملک
میں اس کی قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اب سرحد بند
ہوئی ہے تو اشیاء کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں۔ تا ہم یہ درست نہیں کہ ہمارے
افغان بھائی یہاں کی مصنوعات سے محروم رہیں۔ مگر اس کے لئے امن ضروری ہے۔
افغان اپنی سر زمین پاکستان دشمنوں کو استعمال نہ کرنے دیں۔ بھارت اور اس
کی ایجنسیاں افغانستان میں سرگرم ہیں۔ عرصہ سے وہ افغانوں کو پاکستان کے
خلاف مشتعل کر رہی ہیں۔ پاکستان نے درجنوں دہشت گردوں کی فہرست افغانستان
کو فراہم کی ہے، جو پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ ان کی دہشت گردی
کے ٹھوس شواہد بھی موجود ہیں۔ افغانستان میں دہشت گردی کو منصوبہ بندی،
ہدایات، ٹریننگ، اسلحہ، مالی معاوت کی سہولیات فراہم ہو رہی ہیں۔ دہشت گردی
کے اس نیٹ ورک کو مسلسل گزارشات کے باوجود افغان حکومت نے نہیں توڑا۔ جس پر
پاکستان کو مجبور ہو کر کارروائی کرنا پڑی ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان
کی سالمیت اور اس کی سرحدوں کا احترام کیا ہے۔ کابل حکومت کے ساتھ تعاون کا
یہ پاکستانی جذبہ شروع سے موجود ہے۔ تا ہم سر حد پار دہشت گردوں کے ٹھکانوں
پر حملے یا سرجیکل سٹرائیکس افغان حکومت کے تعاون سے ہونے چاہیئے۔ کابل
حکومت کو اعتماد میں لیا جانا انتہائی ضروری ہے۔ کیوں کہ ان حملوں کو جواز
بنا کر بھارت ہر وقت آزاد کشمیر میں جارحیت کے لئے تیار رہتا ہے۔ ایٹمی
طاقت پاکستان کس طرح بھارتی جارحیت یا دہشتگرد کیمپوں کی آڑ میں نام نہاد
حملوں پر خاموش رہ سکتا ہے۔ کوئی ملک اپنی سرحدوں یا اپنے زیر انٹظام علاقے
کی سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دے سکتا۔ پاک فوج نے ملک میں ہونے
والی دہشت گردی کے بعد اسلام آباد میں افغان سفارتکاروں کو کی ایچ کیو طلب
کیا تھا۔ ان سے اٖفغان میں پناہ لینے والے76 دہشت گردوں کے خلاف فوری
کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ جس کا کوئی مثبت جواب نہ مل سکا۔ انہیں
پاکستان کے حوالے کرنے پر بھی غور نہ کیا گیا۔لاہور کے چیئرنگ کراس میں
ہونے والے خود کش حملے کا حملہ آور افغان تھا۔ جس کا ثبوت بھی افغانستان کو
فراہم کیا گیا ہے۔ پاکستان میں پانچ دن میں 8دھماکے ہوئے۔ جن کے تانے بانے
افغانستان سے ملتے ہیں۔ تا ہم پاکستان گرم تعاقب کے ساتھ افغان حکومت کو
بھی اعتماد میں لے کر کارروائی یقینی بنانے پر غور سکتا ہے۔ تا کہ دونوں
ممالک مل کر دہشت گردی کے خلاف آپریشن کریں اور تمام شعبوں میں تعاون کو
فروغ دے کر پاک افغان دوستی اور بھائی چارہ میں دراڑیں ڈالنے کے لیئے خواہش
مند طاقتوں کے منصوبے ناکام بنا دیئے جائیں۔ |