پانامہ لیک کیس کیا سیاسی جماعتوں کی میڈیا مہم کا حصہ تو نہیں
(M. Furqan Hanif, Karachi)
جس طرح سے پانامہ لیگ اپنے منطقی نتیجے کو
پہنچنے جارہا ہے وہیں اس بات کا بھی ادراک ہورہا ہے کہ ہو نہ ہو پانامہ لیک
کیس مختلف سیاسی جماعتوں کی میڈیا مہم کا ایک لازمی جز بن چکا ہے
پانامہ لیکس کا کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے امید اور دعا تو یہی ہے کہ
جلد از جلد اس کیس کا منطقی نتیجہ نکل آئے تاکہ ایک حکمران (پی ٹی آئی)
دوسرے حکمران (ن لیگ) کے خلاف پوائنٹ اسکورنگ کے کھیل سے باہر نکل آئیں۔
کتنی حیرت کی بات ہے کہ پانامہ لیکس کا فیصلہ یوں تو عدالت میں ہورہا ہے
مگر دونوں فریقین بلکہ متفرق فریقین عدالت میں اس کیس کی سماعت کے بعد جس
طرح باہر آکر پریس کانفرنس اور ایک دوسرے کے خلاف فروعی بیانات دینے لگے
ہیں اس سے عوام کو نہ تو کوئی سروکار ہے اور نہ ہی کوئی دلچسپی۔
کیا ہی بہتر ہوتا کہ دونوں فریقین کو اس بات پر راضی کرانے کے بعد کہ کیس
کا جو بھی فیصلہ ہو گا فریقین اس کومن و عن تسلیم کریں گے اس بات کا بھی
اہتمام کرلیا جاتا اور فریقین سے باقاعدہ حلف لے لیا جاتا کہ عدالت جب تک
اس کیس کا حتمی فیصلہ نہیں سنادیتی اس وقت تک کسی فریق کو باہر نکل کر یا
میڈیا کے مختلف چینلزپر بیٹھ کر تماشے دکھانے کا کوئی حق حاصل نہ ہوگا۔
کاش ہماری عدلیہ اس بات کو یقینی بنالیں کہ اس قسم کے مقدمات کے فیصلوں تک
کسی طور بھی اس کیس کے متعلق کوئی بات کوئی رائے کیس پر اثر انداز ہونے کی
کوشش شمار ہوگا اس طرح ہوتا یہ کہ شام کے تمام پروگرامز میں اس کیس کے
متعلقین مداریوں کی طرح اپنے شعبدے دکھاسکنے میں ناکام ہوتے اور اس کیس کے
متعلق عوام کے اذہان کو پراگندہ نہ کیا جاسکتا۔
ایک صاحب نے تو جلے دل کے ساتھ یہ کمینٹس بھی دئے کہ جس ملک کی عدالتیں گلو
بٹ جیسوں کو سزا نہ سناسکتی بوں وہ وزیراعظم کو کیا سزا سناسکتی ہیں اس طرح
گویا عوام کی ایک کثیر تعداد اس بات پر مصر معلوم ہوتی ہے کہ اگر بالفرض
سپریم کورٹ نے وزیراعظم کے خلاف فیصلہ دے بھی دیا تو اس فیصلہ پر عملدرآمد
ممکن نہیں اب یہ بھی تو سوچا جائے کہ اگر عدالت نے وزیراعظم کے حق میں
فیصلہ دے دیا تو کیا یہ فیصلہ مخالفین مان لیں گے ، اگر کوئی سمجھتا ہے کہ
ہاں مخالفین اپنے خلاف فیصلہ کو مان لیں گے تو یہ کلی طور پر ہماری سادگی
ہی شمار ہوگی کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ایک فیصلہ اگر آبھی
جائے تو مخالفین اسے کسی صورت ماننے پر تیار نہیں ہوتے۔
چنانچہ امید ہے کہ عدالت عالیہ کے جج حضرات بھی اپنی پبلسٹی اور روز روز
اپنے ناموں کو اخبار اور میڈیا کی زینت بنتے دیکھ کر اگر خوش ہورہیں ہیں تو
قوم پر رحم کرتے ہوئے انصاف اور قانون کے تقاضے پورے کرتے ہوئے جلد از جلد
عوام کو اس پانامہ نام کے عذاب سے محفوظ رکھیں اور آئین و قانون کی حکمرانی
قائم کریں۔
اللہ ہمارے ملک کی حفاظت فرمائیں اور ہمیں صحیح فیصلے کرنے کی توفیق عطا
فرمائے آمین
|
|