مجلس کے آداب، حدیث مبارکہ کی روشنی میں

اسلام زندگی کے ہر شعبہ میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ مجلس میںبیٹھنے کے کون سے آداب ہیں؟ اور اہل مجلس سے کیسا برتاؤ کرنا چاہیے؟ ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ نے ہمیں اس کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کی ہیں۔ ذیل میں آپ ﷺ کے فرمودات کی روشنی میں مجلس کے آداب بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
انسان فطری طور پر سماج میں رہنا پسند کرتا ہے ۔ مل جل کر بیٹھنا اور اجتماعی معاملات کے سلسلے میں آپس میں مشورہ کرنا اورمجالس اس کی بنیادی ضرورت ہے ، اسی لئے شریعت نے مجلس کے متعلق ایسے آداب مقرر کیے ہیں جن سے اہل ایمان کی مجلسوں میں متانت و سنجیدگی قائم رہے ۔ مجلس کے ہر شریک کو مافی الضمیر بیان کرنے کی اجازت ہو اور اسے کسی قسم کے احساس کمتری کا شائبہ نہ ہو ۔ ذیل میں چند آداب پیش خدمت ہیں ۔

سلام کا تحفہ :
حضرت ابوہریرہؓ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ’’ تم میں سے کوئی مجلس میں آئے تو سلام کرے اور جب مجلس سے جانے لگے تو بھی سلام کرے کیونکہ پہلا سلام آخری سلام کا حق ادا نہیں کر سکتا ۔ (ترمذی )

مجلس میں جہاں جگہ ملے بیٹھ جائے :
حضرت جابر بن سمر ہؓ بیان کرتے ہیں ’’ ہم میں جب کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوتا تو مجلس کے کنارے ہی بیٹھ جاتا ، کود پھاند کر آگے جانے کی کوشش نہ کرتا۔‘‘ (ترمذی)

کسی شخص کو اس کی جگہ سے نہ اٹھایا جائے :
مجلس میں پہلے سے شریک آدمی کو اٹھا کر اس کی جگہ خود بیٹھنا ، انصاف سے دور اور اسلامی اصولوں کے منافی بات ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔’’ تم میں سے کوئی مجلس میں بیٹھے کسی شخص کو اس لئے نہ اٹھائے کہ خود اس کی جگہ بیٹھ جائے ۔ ہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کو چاہیئے کہ وہ خود آنے والوں کے لئے مجلس میں گنجائش پیدا کردیں ‘‘ ۔

مجلس سے عارضی اٹھنے والا واپسی پر اپنی پہلی جگہ کا حقدار ہے :
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تم میں سے اگر کوئی کسی ضرورت کی وجہ سے مجلس سے اٹھ کر چلا جائے تو واپس آنے پر وہی اپنی اس پہلے والی جگہ کا زیادہ حقدار ہے ‘‘۔ (مسلم )

دوآدمیوں کے درمیان بلا اجازت بیٹھنا :
مجلس میں بیٹھے دو آدمیوں کے درمیان بیٹھ جانا ان کی دل آزاری کا سبب ہے اس لئے ایسے موقع پر دونوں سے پوچھ لینا زیادہ بہتر ہے ۔ حضرت عمرو بن شعیب اپنے جد امجد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ کسی شخص کے لئے یہ حلال نہیں کہ وہ مجلس میں دو اشخاص کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر گھس کر بیٹھ جائے‘‘(ابودائود)

کسی حلقہ کے بیچ میں بیٹھنا :
بعض اوقات لوگ مجلس میں ایک دائرہ اور حلقہ بنا کر بیٹھے ہوتے ہیں ۔ ایسی صورت میں اس دائرے کے درمیان میں بیٹھنا انتہائی نادانی و بے وقوفی کی بات ہے ۔ چنانچہ حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلقہ مجلس کے درمیان جا بیٹھنے والے پر لعنت فرمائی ہے ۔ ‘‘(ترمذی )

ترشروئی اور مبہم گفتگو سے پرہیز :
حضرت ابوذر غفاری ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی حقیر نہ جانو حتی کہ اگر تم اپنے بھائی سے مسکرا کر ملو تو یہ بھی نیکی ہے ۔ ‘‘(مسلم)نیز فرمایا ’’ کسی آدمی کے اسلام کے اچھا ہونے کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ لایعنی (فضول بک بک ) چھوڑ دے ۔

اچھی اور نیک مجلسوں میں شمولیت باعث خیر و برکت ہے :
’’ہم نشین اور مصاحب کی مثال مشک بیچنے والے یا بھٹی میں دھونکنے والے کی ہے ۔ مشک بیچنے والا یا تو تجھے بطور تحفہ مشک دے گا ، یا تُو اسے خریدے گا ، ورنہ تجھے اس سے اچھی خوشبو تو پہنچے گی ۔ لیکن بھٹی دھونکنے والا یا تو تیرے کپڑے جلا د ے گا یا تجھے اس سے بدبو پہنچے گی ‘‘(بخاری)

مجلس میں کسی کے گرد یا سامنے کھڑا نہ ہونا :
قبل از اسلام لوگ اپنے بادشاہ کے سامنے تعظیما کھڑے ہوتے اور سجدہ ریز بھی ہوتے ، یوں شرک کا دروازہ کسی نہ کسی صورت کھلا رہتا ۔ انسانی مساوات کا علمبردار اسلام منصہ شہود پر جلوہ گر ہوا تو اس رسم بد کا بھی خاتمہ کیا ۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ’’ ہم میں سے کوئی آدمی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو محبوب نہ رکھتا تھا مگر اس کے باوجود ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کے لئے کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ ہمیں علم تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس امر کو اچھا نہیں سمجھتے ۔‘‘ (ترمذی) حضرت ابو مجلزؓ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن زبیرؓ اور ابن صفوان ؓ نے جب امیر معاویہؓ کو ان کے دور امارت میں آتے دیکھا تو یہ دونوں کھڑے ہو گئے۔ اس پر حضرت امیر معاویہ ؓ نے فرمایا ’’ بیٹھ جائو ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ’’جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ لوگ اس کے سامنے تعظیم کے لئے تصویر بن کر کھڑے ہو جایا کریں وہ دوزخ کی آگ میں اپنی جگہ تلاش کر لے ‘‘ (ترمذی) فائدہ : یہاں سے معلوم ہوا کہ بعض اداروں میں استاذ کے جماعت میں آنے پر طلباء اور کسی سربراہ کے آنے پر ماتحت تعظیما کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ ایسا کرنا درست عمل نہیں ہے ۔

مجلس میں معزز جگہ پر بیٹھنے کی کوشش کرنا :
مجلس میں مہمان خصوصی کے لئے اگر کوئی جگہ مخصوص ہو تو از خود وہاں بیٹھنا یا اس کے قریب بیٹھنے پر اصرارکرنا درست نہیں ۔ اس سے مجلس کا نظم و نسق خراب ہونے کے ساتھ ساتھ نمودونمائش کی خواہشمندی کے اظہار کا شائبہ بھی ہوتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’

کوئی شخص کسی جگہ کی امامت نہ کرے اور نہ اس کی مسند پر بیٹھے لیکن متعلقہ شخص خود اجازت دے تو کوئی قباحت نہیں ‘‘ (ترمذی) معلوم ہوا کہ کسی بھی قابل تعظیم ہستی کی مسند پر بیٹھنا جائز نہیں ، خواہ وہ کسی بادشاہ کا تخت ہو یا مصلی امامت ، قاضی کی کرسی ہو یا استاذ کی مسند تدریس ، جیسا کہ بعض طلباء کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کی مسند پر بلاجھجک بیٹھ جاتے ہیں ۔

مجلس میں چیز کی تقسیم کس طرف سے کرے؟
حضرت سہل ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مجلس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کوئی مشروب پیش ہوا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں ہاتھ ایک نو عمر بچہ بیٹھا ہوا تھا اور بائیں ہاتھ معمر لوگ بیٹھے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مشروب میں سے تھوڑا سا پی کر اس نو عمر سے فرمایا کہ اگر تم اجازت دو تو بقیہ حصہ ان حضرات کو دے دوں ؟ وہ کہنے لگا’’ نہیں خداکی قسم! آپ سے ملنے والے حصے میں اپنے علاوہ کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا ‘‘ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ اسی لڑکے کے ہاتھ پر رکھ دیا‘‘َ۔معلوم ہوا کہ اگر حقدار چھوٹا ہو تو اس سے پوچھ لینا چاہئے محض اپنے بڑے ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے حق کو دبانا درست نہیں ، نیز چھوٹا اپنی رائے کو آزادی سے بیان کر سکتا ہے ۔ ایسے برکت والے معاملات میں شرم کرنا اسوہ صحابہ سے مروی نہیں ۔

مجلس میں کانا پھوسی کرنا درست نہیں :
مجلس میں بیٹھ کر دو آدمیوں کے سرگوشی کرنے سے دوسروں کے دل میں بدگمانی پیدا ہونے کا خطرہ ہے اسی لئے قرآن مجید نے فرمایا ہے ’’ کانا پھوسی تو ایک شیطانی کام ہے اور وہ اس لئے کی جاتی ہے کہ ایمان لانے والے لوگ اس سے رنجیدہ ہوں ۔‘‘ (سورۃ مجادلہ )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تین آدمی بیٹھے ہوں تو دو آدمی آپس میں کھسر پھسر نہ کریں کیونکہ یہ تیسرے آدمی کے لئے باعث رنج ہوگا (بخاری ) اس جگہ سرگوشی سے مراد وہ اشارے بھی ہیں جنہیں کانا پھوسی کے ضمن میں لیا جاتا ہے ۔اور تیسرا آدمی ان کے ذریعے
کسی بدگمانی میں مبتلا ہو سکتا ہے ۔

صدر مجلس دوران گفتگو ، سب کی طرف متوجہ رہے :
حضرت حسین بن علی ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس کی کیفیت اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حاضرین مجلس میں سے ہر ایک کا حق ادا فرماتے یعنی بشاشت اور بات چیت میں جتنا اس کا استحقاق ہوتا ہمکلامی کا شرف بخشتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہر بیٹھنے والا یہی سمجھتا کہ آپ میرا سب سے زیادہ اکرام فرما رہے ہیں ۔

مجالس میں اللہ کا ذکر :
حضرت ابو ہریرہ ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ ’’ وہ مجلس ، جس میں اللہ کا ذکر کیا گیا اور نہ شرکائے مجلس میں سے کسی نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا وہ اللہ کے عذاب کی مستحق ہوگی ۔ اب یہ اس کی مرضی ہے چاہے عذاب میں مبتلا کردے اور چاہے معاف فرمادے ‘‘(ترمذی)نیز فرمایا ’’ جس مجلس میں اللہ کا نام نہ لیا گیا ، اس سے اٹھ کر آنے والے لوگوں کی مثال ایسے لوگوں کی سی ہے جو گدھے کی میت کے پاس سے اٹھ کر آرہے ہوں اور حسرت و حرماں ان کے دامن گیر ہوں ۔‘‘( ابودائود)

مجلس برخاست ہونے کی دعا:
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ کوئی شخص کسی مجلس میں بیٹھے اور وہاں فضول ، لغو اور بیہودہ باتیں ہوتی رہی ہوں تو ایسی مجلس سے اٹھنے سے پہلے درج ذیل کلمات کہے ۔ ’’ سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ ، اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوبُ اِلَیْکْ ‘‘ تو اس مجلس میں جو لغویات اس سے سرزد ہوتی رہی ہیں ان دعائیہ کلمات کی برکت سے معاف کر دی جاتی ہیں ‘‘۔(ترمذی)
عبدالصبور شاکر
About the Author: عبدالصبور شاکر Read More Articles by عبدالصبور شاکر: 53 Articles with 99317 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.