مہابلی پورم کے سنگ تراشوں کی حالت زار!

سلمان عبدالصمد / ساجد حسین ندوی

تمل ناڈو کے دارالحکومت چنئی سے کوئی ساٹھ کلو میٹر جنوب میں ساحلِ سمندرپر واقع پتھر وں کا شہر’ مہابلی پورم‘ سنگ تراشی کے لیے مشہور ہے۔ سیکڑوں برس قبل یہاں کے باد شاہوں سیرن ، سورن اور پانڈیہہ وغیرہ نے جہاں دیگر تہذیبی روایت کو فروغ دیا، وہیں سنگ تراشی کے فن کو بھی اعجا زبخشا۔ انھوں نے دور درازعلاقوں کے سنگ تراشوں کی کفالت کی اور انھیں پتھروں کے نت نئے سامان بنانے کا موقع فراہم کیا۔ حتی کہ آج بھی وہاں ایک ہی پتھر کو تراش کر بنایا گیا ایک شاندار مندر بھی موجود ہے۔ اس طرح نہ صرف سنگ تراشی کے فن کو فروغ حاصل ہوا ،بلکہ تہذیبی فروغ کی ایک روایت قائم ہوئی اور آج بھی سیاحوں کے لیے وہاں کے پتھروں سے بنے سامان میں خاصی کشش ہے ۔ ملک اور بیرون ممالک کے سیاح شوق سے پتھر کی چیزیں خریدتے ہیں۔ سنگ تراش مہابلی پورم میں واقع کالج سے باضابطہ ڈپلومہ کرنے کے بعد سنگ تراشی کے میدان میں کرشمہ دکھاتے ہیں۔ پتھروں کواپنے ہاتھوں میں موم بناکر ایسی ایسی پرکشش چیزیں تیار کردیتے ہیں، جن سے ان کے فن پر عقل حیران رہتی ہے ، تاہم یہاں ساحل پر دکانوں کی بڑھتی تعداد اورکم ہوتے سیاح کی وجہ سے سنگ تراشوں کی معاشی حالت کمزور ہورہی ہے ، جوکہ توجہ طلب معاملہ بن گیا ہے ۔

یوں تومہابلی پورم کے علاوہ تمل ناڈو کے چندشہر ، تروِنّاملئے ، مدورائے ، کنبوکم اور سیرنگم وغیرہ بھی سنگ تراشی اور نقاشی کے لیے مشہور ہیں۔ البتہ چند روزہ دورہ ٔ چنئی کے دوران ہم نے مہابلی پورم کے سنگ تراشوں سے ہی گفت وشنید کی، جس سے ان کی محنت ومشقت اور معاشی منظرنامہ کی عکاسی ہوتی ہے۔ دھانا سیکرن نامی ایک سنگ تراش، جو کوئی 36برسوں سے یہ کام کرتے چلے آئے ہیں، کہتے ہیں: ’’سنگ تراشی اور نقاشی کا کام انتہائی دقت طلب اورمہین کام ہے ۔ اس کے باوجود، ہم اس کے توسط سے پوری دنیا میں ہندوستانی کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کام سے بدن کے تمام اعضا وجوارح متاثر ہوتے ہیں۔ جو ں جوں عمر گزرتی جاتی ہے ، بدن لاغر ہوتا ہے اور فنکاری بس فنکاری ہی رہ جاتی ہے ۔ کسی بھی فنکاری کا واقعتاکوئی معاوضہ اد ا نہیں کیا جاسکتا، اس کی صداقت ہماری ہنرمندی سے بھی سامنے آتی ہے۔ہمارے کام کی نوعیت نہ صرف تاجرانہ ، بلکہ ہندوستانی کلچر کو فروغ دینے والوں کی بھی ہے ،گویا ہم ایک طرف جہاں انجینئر ہیں تو دوسری طرف کلچر کو فروغ دینے والے بھی۔

کوئی تیس برس قبل ہم نے پتھر کی نقاشی کے لیے ڈپلومہ کورس کیا ، مگر اس سے چند برس قبل ہی ہم نے یہ کام شروع کردیا تھا۔ کم وبیش 36سالہ تجارتی مرحلہ میں، بغرض اچھی تجارت مَیں نے کوئی پانچ دکانیں تبدیل کیں، تاہم اچھی دکانداری کا معاملہ ہنوز حل نہیں ہوا ہے۔ابھی بھی میری دکان کرایہ پر ہے۔ حکومتی مراعات سے ہم کوسوں دور ہیں ۔ مراعات وتعان کے بغیر اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پتھروں کی نقاشی کا کام بہ مشکل تمام ہی فروغ پاسکے ، کیوں کہ بے روزگاری کا معاملہ دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔اس لیے ہم تمل ناڈو حکومت کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ ہمیں مراعات بہم پہنچائیں، ورنہ پتھر کی نقاشی قصہ پارینہ بن جائے گی۔یہاں گزرے ہوئے راجاؤں اور مہاراجاؤں کی طرح اگر حکومتیں سنگ تراشوں کی مدد کرے گی تو ہندوستانی تہذیب کو بھی فروغ حاصل ہوگا ۔ ‘‘

ایک دوسرے سنگ تراش سی مرغاہ کہتے ہیں: ’’میری تیسری نسل اس کام میں لگی ہے ، البتہ چوتھی کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔عدم دلچسپی کے قابل توجہ متعدد اسباب ہوسکتے ہیں۔پہلی بات یہ ہے کہ ایک طرف تو دکانداری کم ہوتی ہے ، دوسری طرف معاوضہ خاطر خواہ نہیں ملتا۔ ویسے تو ہم انتہائی کم قیمت پر پتھر خرید کر لاتے ہیں، لیکن چھوٹے چھوٹے ایٹم کی تیاری میں کئی کئی دن لگ جاتے ہیں۔ مہابلی پورم کے سمندری ساحل پر آئے دن دکانوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور سیاحوں یا پتھر کی نقاشی میں دلچسپی لینے والوں کی تعداد کم ہورہی ہے۔ لیکن سیاح جب کوئی چیز خریدتے ہیں تو ہمیں دو طرح سے خوشی ملتی ہے۔ اولا ً، ہماری تجارت کو فروغ حاصل ہوتا ہے ۔ دوم ، ہندوستانی کلچر کو مضبوطی ملتی ہے۔ پتھروں کی نقاشی میں کشش رکھنے والے سیاح مذہبی علامتوں کی پروا کیے بغیر چیزیں خریدتے ہیں۔ سال بھر میں نومبر ، دسمبر، جنوری اور فروری میں سیاح یہاں کچھ زیادہ آتے ہیں ، لیکن اس سال نوٹ بندی کی وجہ سے ہمارا کام زبردست متاثر رہا ہے۔ ‘‘

تیسرے سنگ تراش اور شیپ ایٹم فروخت کرنے والے دکاندار راماچندرن کہتے ہیں’’مہابلی پورم کے سمندری ساحل پرسو سے زائد پتھر اور سیپ ایٹم کی دکانیں ہیں۔ مچھیروں سے سیپ خریدکر ہم تیزاب سے اس کی صفائی کرتے ہیں۔ اس کے بعد چابی چھلہ ، جھومڑ اور تزئین کی مختلف چیزیں بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ سامان ہم آگرہ سے بھی منگواتے ہیں، لیکن دکانداری طے نہیں ہے، کبھی ہوتی ہے اور کبھی بالکل نہیں ۔ بیشتر ایسا بھی ہوا کہ پورے پورے دن نہ کوئی پتھر کے سامان کی فروختگی ہوئی اور نہ ہی سیپ ایٹم کی۔تعجب اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ ملکی سیاحوں کی طرح ہی غیر ملکی سیاح بھی مول بھاؤ کثرت سے کرتے ہیں اور کبھی کبھی تو غیر ملکی سمجھتے ہیں کہ ہندوستانی ہمارے لیے جو بھی قیمت طے کرے ، وہ مناسب نہیں ہوتی بلکہ اس میں غیر ملکیوں سے بہت زیادہ اصول کرنے کی کوشش شامل رہتی ہے ، حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے ، ہماری محنت ومشقت کا انھیں صحیح اندازہ نہیں۔ ‘‘

بحیثیت عینی شاہدین ہم یہ کہہ سکتے ہیں تقریبا ً دو گھنٹہ کے دوران ہم نے کسی بھی غیر ملکی سیاح کو کسی بھی دکان پر نہ تو مول بھاؤاور نہ کچھ خریدتے دیکھا۔ البتہ آزاد انہ طور پر پتھر کی چیزیں بیچنے والوں کو غیر ملکی سیاحوں کے ارد گرد طواف کرتے ہوئے ضرور پایا ، جو اپنے ہاتھوں میں پتھروں کی چیزیں لیے ادھر ادھر پھر رہے تھے ، لیکن سیاحوں نے ان کی طرف التفات بھی نہیں کیا۔ اسی طرح ہم نے چند ایک سے پتھر کی چیزوں میں دلچسپی اور عدم دلچسپی کے متعلق سوالات بھی کیے ، بیشتر نے بیزاری کا اظہار کیا ۔ ان تمام صورتحال میں متعدد سوالات جنم لیتے ہیں کہ آخر ہندوستانی کلچر کو فروغ دینے والے اِن سنگ تراشوں کے معاش کا کیا ہوگا ؟ بڑھتی بے روزگاری کے دور میں ان کے لیے روزگار کے دیگر مواقع پیدا کرنا کیا ممکن ہوپائے گا؟ظاہر ہے جو صورتحال مہابلی پورم کے سنگ تراشوں کی ہے ، کم وبیش وہی معاملہ راجستھان اور مدراس کے دیگر سنگ تراشوں کا بھی ہوگا۔ ایسے میں جہاں تہذیب وکلچر کے فروغ بلکہ تحفظ کا معاملہ درپیش ہے، وہیں ذریعہ معاش میں توسیع کا مسئلہ بھی ۔
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 100825 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More