آج جب کہ دنیا میں ہر طرف بدامنی پھیلی
ہوئی ہے ،اضطراب وبے چینی اور انتشار وبدامنی کی فضا قائم ہے ۔انسانیت دم
دوڑتے نظر آرہی ہے ۔انسانیت وآدمیت کا خون بہانا ایک شوق سا بن گیا ہے۔اگر
عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو انسانی قدروں کی پامالی ایک بہت بڑا المیہ
بن چکی ہے۔ایک انسان دوسرے انسان کی جان کا دشمن بنا ہوا ہے۔خرمنِ انسانیت
مذہبی ،مسلکی،قومی اور نسلی آگ کی پوری طرح لپیٹ میں ہے اور جستہ جستہ اسے
خاکستر کرنے کے دہانے پر ہے۔جہاں مشرقِ وسطیٰ میں بے گور وکفن لاشوں کے
ڈھیر پڑے ہوئے ہیں، وہیں جنوبِ مشرقی ایشیامیں انسانیت دردوکرب اور ظلم
وستم اورفسادوخون ریزی سے کراہ رہی ہے۔پوری دنیا تماشہ بیں بنی ہوئی ہے ۔موجودہ
وقت میں اس طرح کے اور بھی کئی ایک واضح شواہد موجود ہیں جوانسانیت کی بد
ترین تصاویر پیش کرتے ہیں جس سے انسانیت وآدمیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
ان سب کے پسِ پردہ اسلام کی تعلیمات کو نشانہ بنایا جارہاہے ۔ان سب کا اسے
ہی ذمہ دارٹھرایا جارہاہے ۔ پوری دنیا میں احترامِ انسانیت کا قتل وخون
ہورہاہے،انسانی حقوق واقدارکو پامال کیا جارہاہے اور اس کے لئے اسلام کو
متہم گردانا جارہاہے تو لہذاایسے حالات میں ضرورت پڑتی ہے کہ عصرِ حاضر کے
ان انسانوں جن کی رگ وپے میں انسانیت کے خلاف خون جوش ماررہاہے اور وہ لوگ
جو اسلام کی شبیہ کو داغدار کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں، کے سامنے اسلام
کے ان روشن وتابناک پہلووں کو پیش کیایا جائے جن میں احترامِ انسانیت کا
درس پنہاہے،انسانی اقدار کا تحفظ موجودہے اور انسانیت وبھائی چارگی کا بے
مثال رشتہ ہے۔
یہاں ہم بتادیں کہ ہر وہ شخص جو اسلام کی بابت تھوڑا بہت بھی علم ومطالعہ
رکھتا ہے تو اس پر یہ حقیقت آفتابِ نیم روز کی طرح ظاہر وعیاں ہے کہ اسلام
کی آفاقی وعالم گیر تعلیمات میں سے ایک احترامِ انسانیت بھی ہے ۔جواپنے
ماننے والوں کو ہر موڑ اور ہر محاذ پر انسانوں کے ساتھ احترام وتعظیم سے
پیش آنے ،ان کے حقوق واقدارکا تحفظ کرنے اوررحم دلانہ ومشفقانہ برتاؤکرنے
کی تاکید ونصیحت کرتاہے ۔اسلام نے اپنے متبعین کو احترامِ انسانیت اور
بقائے باہمی کا ایسا درس دیا جس کی مثال سوائے تاریخ اسلام کے اور کسی
تاریخ میں نہیں ملتی ۔اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ کے اوراق انسانیت وآدمیت
کے احترام وتعظیم ،پیارومحبت اوراخلاص ومروت سے بھرے پڑے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام نے انسانیت کے خلاف کبھی بھی تشدد وعدمِ رواداری کا
درس دینا تو بہت بعیداس کی موافقت تک نہیں کیا اور نہ ہی احترامِِ انسانیت
کا معیارکبھی گرنے دیا، بلکہ تمام انسانیت پر اس کا یہ احسان ِ عظیم ہے کہ
اس نے انسانیت کو وہ مقام ومنصب عطاکیا جودنیا کے کسی مذہب نے نہیں عطا کیا۔
چنانچہ اسلام کی اس آفاقی تعلیم کو قرآن واحادیث اور تواریخ کی روشنی میں
دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ اسلام نے کس قدر انسانیت پسندی ،باہمی روادری
اوربھائی چارگی کادرس دیاہے جس کا تصور دنیا کے دیگر مذاہب میں نہیں کیا
جاسکتا۔
قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر مختلف اندازواسلوب میں انسانوں کا
ذکرموجودہے ۔
(۱)چنانچہ انسان کی حسنِ تخلیق اور عمدہ صورت کاقرآنِ کریم میں یوں ذکر ہوا
:انجیر کی قسم اور زیتون کی اور طورِ سینا کی اور اس امان والے شہر ،بے شک
ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنایا۔(سورہ تین،آیت ا)
اﷲ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیتِ کریمہ میں انسان کی حسنِ تخلیق بیان کرنے کے
لئے چار اہم اور مقدس چیزوں((۱)انجیر (۲) زیتون (۳) طورِ سینا (۴) امان
والے شہر ) کی قسم ارشاد فرمایا ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ان
اہم چیزوں کی قسم کھاکر انسانیت کا احترام ومنصب بتایااور دیگر مخلوقات کے
مقابلے اسے کتنا حسین وجمیل اور خوبصور ت پیدا کیا ہے ۔
اسی طرح دوسرے مقام پر فرمایا گیا:اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی اور
ان کو خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو ستھری چیزیں روزی دیں اور ان کو
اپنی بہت مخلوق سے افضل کیا ۔(سورہ اسرا،آیت۷۰)
اس آیت کا واضح مطلب یہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو ’’ولقد کرمنا بنی آدم‘‘
کا تاجِ زریں عطا فرماکر اسے تمام مخلوقات عالمِ میں مشرف ومعزز
فرمایا۔گویاں اسلام کا انسان پر یہ سب سے بڑا احسان ہے۔
تیسرے مقام پراﷲ تعالیٰ نے انسانوں کو ایک دوسرے کا احترام وادب کرنے کا
تاکیدی حکم فرمایا ،نیزان کے حقوق وفرائض کو اداکرنے کی ہدایت وتلقین
فرمایا۔
چنانچہ مذکور ہوا:اور اﷲ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھراؤ اور
ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس
کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام کے ساتھ بے
شک اﷲ تکبر کرنے والے اور فخر (غرور)کرنے والے کو پسند نہیں کرتا ہے۔ (سورہ
نساء،آیت۳۶)
اس آیت کی روشنی میں بھی یہ اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ اﷲ تعالیٰ نے پڑوسیوں
، رشتہ داروں ، یتیموں ،اور محتاجوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے اور ان کے حقوق
اداکرنے کی ہدایت وتاکید کرکے انسانیت کا احترام سکھایا۔
اس کے علاوہ اسلام نے بنیادی طور پر انسان کو کئی طرح کے حقوق وتحفظات
فراہم کیے ہیں ۔مثلاً جان کا تحفظ،عزت وآبرو کا تحفظ،مال کا تحفظ، اولاد کا
تحفظ، روزگار کا تحفظ، عقیدہ ومذہب کا تحفظ اور بھی اس طرح کے حقوق ہیں جن
کے ذریعہ انسان معاشرہ میں پرامن زندگی گزارسکتا ہے۔
اسی طرح بے شمار احادیث ایسی ہیں جن میں اﷲ کے پیارے رسول ﷺ نے انسانوں کے
ساتھ انتہائی رفق ونرمی ،الفت ومحبت،عدل وانصاف،شفقت ورحم دلی ،بھائی چارگی
اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے پیش آنے کی تاکید فرمائی ہے۔یہ نصیحت تو عام
حالات میں پیش آنے کے سلسلے میں ہیں ۔یہاں تک کے آپ نے غزوات وسرایا میں
بھی اپنے دشمنوں اور حریفوں کے ساتھ بدسلوکی اور غیر اخلاقی کاموں سے بچنے
کی دلکش،دل نشیں اور عمدہ انداز میں وصیت ونصیحت فرمائی ہے ۔
چنانچہ اس سلسلے میں امامِ مسلم ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ:حضرت سلیمان بن
بریدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول
اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جب کسی آدمی کو کسی لشکر یا سریہ کا امیر بناتے تو آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم اسے خاص طور پر اﷲ سے ڈرنے اور جو ان کے ساتھ ہوں ان کے
ساتھ مسلمان (مجاہدین) کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت فرماتے پھر آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے فرماتے اﷲ کا نام لے کر اﷲ کے راستے میں جہاد کرو عہد شکنی نہ
کرو اور مثلہ (یعنی کسی کے اعضاکاٹ کر اس کی شکل نہ بگاڑی جائے) نہ کرو اور
کسی بچے کو قتل نہ کرو اور جب تمہارا اپنے دشمن مشرکوں سے مقابلہ ہو جائے
تو ان کو تین باتوں کی دعوت دینا وہ ان میں سے جس کو بھی قبول کر لیں تو ان
کے ساتھ جنگ سے رک جانا پھر انہیں اسلام کی دعوت دو تو اگر وہ تیری دعوت
اسلام کو قبول کر لیں تو ان سے جنگ نہ کرنا پھر ان کو دعوت دینا کہ اپنا
شہر چھوڑ کر مہاجرین کے گھروں میں چلے جائیں اور ان کو خبر دیدیں کہ اگر وہ
اس طرح کر لیں تو جو مہاجرین کو مل رہا ہے وہ انہیں بھی ملے گا اور ان کی
وہ ذمہ داریاں ہوں گی جو مہاجرین پر ہیں اور اگر وہ اس سے انکار کر دیں تو
انہیں خبر دے دو کہ پھر ان پر دیہاتی مسلمانوں کا حکم ہوگا اور ان پر اﷲ کے
وہ احکام جاری ہوں گے جو کہ مومنوں پر جاری ہوتے ہیں اور انہیں جہاد کے
بغیر مال غنیمت اور مال فئے میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا اور اگر وہ تمہاری
دعوت قبول کر لیں تو تم بھی ان سے قبول کرو اور ان سے جنگ نہ کرو اور اگر
وہ انکار کر دیں تو اﷲ کی مدد کے ساتھ ان سے قتال کرو اورجب تم کسی قلعہ کا
محاصرہ کرلو اور وہ قلعہ والے اﷲ اور رسول کو کسی بات پر ضامن بنانا چاہیں
تو تم ان کے لئے نہ اﷲ کے ضامن اور نہ ہی اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو
ضامن بنانا بلکہ تم اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو ضامن بنانا کیونکہ
تمہارے لئے اپنے اور اپنے ساتھیوں کے عہد سے پھر جانا اس بات سے آسان ہے کہ
تم اﷲ اور اس کے رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے عہد کو توڑو اور جب تم کسی
قلعہ والوں کو محاصرہ کرلو اور وہ قلعہ والے یہ چاہتے ہوں کہ تم انہیں اﷲ
کے حکم کے مطابق قلعہ سے نکالو تو تم اﷲ کے حکم کے مطابق نہ نکالو بلکہ
انہیں اپنے حکم کے مطابق نکالو کیونکہ تم اس بات کو نہیں جانتے کہ تمہاری
رائے اور اجتہاد اﷲ کے حکم کے مطابق ہے یا نہیں۔(صحیح مسلم،ج سوم،حدیث۴۴۲۱)
اور ایک مقام پر مذکور ہے کہ :حضرت عبد اﷲ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول
اﷲ ﷺ کے کسی غزوہ میں ایک عورت مقتولہ پائی گئی تو رسول اﷲ ﷺ نے عورتوں اور
بچوں کے قتل کو نا پسند فرمایا۔(صحیح مسلم ،ج سوم،حدیث ۴۴۴۶)
مذکورہ بالا آیات واحادیث سے صریح طور پر یہ معلوم ہوگیا کہ اسلام میں
انسانوں کے عزت واحترام،حقوق وتحفظات اورہر طرح کی بنیادی ضرورتوں کا کامل
واکمل طریقے سے خیال رکھا گیا ہے۔
اسلام میں انسانیت کے تحفظ واحترام کا اندازہ اﷲ کے پیارے رسول ﷺ کے اس
تاریخی کارمانے سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے جو آپ نے انصار ومہاجرین کے
مابین رشتۂ مواخات قائم فرماکر اخوت وبھائی چارگی ،اظہارِ ہمدردری،اتحاد
ویکجہتی اور ایثار وقربانی کی وہ مثال دی کہ آج تک پوری دنیا بھی مل کر اس
جیسی مثال پیش کرنے سے عاجز وقاصر ہے۔
گویاں اب یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسلام رنگ ونسل،مذہب وملت،وطن وملک اور
تہذیب وتمدن کے سارے امتیازات کوکو ختم کرکے احترامِ انسانیت کا درس دیتا
ہے۔دنیا میں واحد اسلام ہی ایک ایسا فطری اور اعتدالی مذہب ہے جس نے
انسانوں کووسطیت واعتدال کے ساتھ زندگی گزارنے کا درس دیا۔انسانیت پر ہر
طرح کے ہونے والے ظلم وجور،قتل وقتال اور تعصب وتنگ نظری جیسے حملوں کو
انسانیت وسماجیت کے لئے انتہا پسندی اور دہشت گردی قرار دیا۔ان کے مابین
اخوت وبھائی چارگی جیسے عالم گیر رشتوں کو قائم کرکے انہیں کمالِ عروج
بخشا۔لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ باوجود اس کہ اسلام کو انسانیت کے لئے عدمِ
رواداری اور عد مِ تحفظ جیسے معاملات برتنے والا مذہب متصور کیا جارہاہے۔جو
انتہائی قابلِ افسوس اور باعث تشویش ہے ۔ مذہب ِ اسلام جس کی تعلیمات
وہدایات روزِ روشن کی طرح ظاہر وباہر ہیں،اس کے بارے میں اس طرح کے مزعومہ
خیالات وتصورات رکھنے کاصاف مطلب یہی ہے کہ اس کے بارے میں کس قدر نفرت
وعداوت چھپی ہوئی ہے۔انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ تعصب وتنگ نظر ی اور عداوت
ودشمنی کی عینک اتارکر اس کی تعلیمات کا بنظرِ غائر مطالعہ کریں ،پھر
دیکھیں اس کے بعد قلوب واذہان پر جو اثرات ونتائج مرتب ہوں گے وہکسی حسنِ
ظن سے کم نہیں ہوں گے ۔اس مذہب کی سچی تصویر پیشِ نگاہ ہوگی جو حقائق کو
سمجھنے میں معاون ثابت ہوگی اور اسی طرح مذہب اسلام کی حقانیت اس پر آشکار
ہوجائے گی ۔اور اسے یہ اعترافِ حق کرنا پڑے گا کہ واقعی اسلام کی تعلیمات
میں احترامِانسانیت پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے ۔ |