پتہ نہیں کیوں نجم سیٹھی اور کچھ جنون کرکٹ
کے حامل لوگوں کے سر پر یہ خبط سوار ہے کہ ہم نے پی ایس ایل کا فائینل
کرانا ہے تو لاہور میں ہی کرانا ہے۔میں اس تھیوری سے متفق نہیں ہوں کہ کہ
جب سے پی ایس ایل لاہور میں کرانے کی بات چلی ہے پاکستان نئی دھماکوں کی
سیریز کا شکار ہو گیا ہے۔گویا کہ جو دھماکے اس سے قبل ہوئے ان کی وجہ بھی
کرکٹ ہی تھی۔کسی گاؤں کے ایک فرد کی بیٹی کی ٹانگ ٹوٹ گئی اس کی بیوی اپنی
بیٹی کو دوائیاں کھلاتے ہوئے کہے جا رہی تھی میں نے کئی بار منع کیا کہ
بیٹی کو فلاں محلے میں مت دو تم نے میری ایک بار نہیں سنی اس نے بیچارگی سے
جواب دیا یہ دوسرے محلے کی سلمی ہیں ناں جس کی ٹانگ دو جگہ سے ٹوٹی ہے یہ
بھی کیا میں نے دی تھی؟
میں ان کوسنے والوں سے کہنا چاہوں گا کہ خدا را سمجھیں پاکستان کے ازلی
دشمن اسے کسی نہ کسی وجہ سے گھیرے میں لے ہی لیں گے آج ہی امریکہ سے بد
خبری آئی ہے کہ پاکستان چھٹی بڑی طاقت ہے جس سے امریکہ کو خطرہ ہے۔بھائی
لوگ اس طرف تو آتے ہی نہیں بس غصہ نکالنا ہے تو اپنے اوپر ہی۔چلیں اس بات
کی گارنٹی دے دیں کہ پی ایس ایل نہیں ہو گا تو پاکستان میں خود کش بمبار
اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے عوامی مقامات حساس مقامات پر نہیں پھٹیں
گے؟ کوئی گڑ بڑ نہیں ہو گی۔
یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ جب تک ہم اپنی آکڑ پر ڈٹے ہوئے ہیں ہمارے ایٹمی
اثاثے ہماری پگڑی کا پھول ہیں ہم ان سے کسی طور بھی دست بردار نہیں ہوں گے
۔دشمن ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا ۔
موجودہ حالات میں پورے مشرق وسطی کے غبارے سے ہوا نکالی جا چکی ہے۔کدھر گیا
عراق جس کی طاقت سے اسرائیل لرزاں تھا شام لیبیا مصر سب کی ٹائیں ٹائیں فش
ہو گئی۔سعودی عرب اسرائیل کے قدموں میں جھک گیا اس نے بھی سفارت کاری کو
گلے سے لگا ہی لیا۔ہمارا ہمسایہ ایران جتنا مرضی بڑھکیں لگائے بات جنرل
حمید گل کی ہی سچی ہے کہ ایران بہانہ ہے افغانستان ٹھکانہ ہے اور پاکستان
نشانہ ہے۔ہم پاکستان فرسٹ کے داعی کے زمانے میں ہی امریکہ کے سامنے لیٹ گئے
ایسے لیٹے کے کن اکھیوں سے دیکھ کر سوا لمیالیٹ ہو گئے۔خود امریکی سمجھتے
تھے کہ پاکستان ہمارے سات مطالبات میں سے فقط دو تین مانے گا لیکن حیران کن
بات ہے کہ وہ شخص جو کہا کرتا تھا کہ میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں۔ایسا
ڈرا کہ پاکستان کے ماتھے پر بزدلی کا کلنک لگا کر باہر کے ملک جا
بیٹھا۔شرمندگی کا احساس ایسے غائب جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوتے ہیں
پوچھو کہ مال پانی کہاں سے آیا تو ڈھٹائی سے جواب آیا کہ عرب ملک کے بادشاہ
نہ دئیے ہیں۔کیا بات ہے ان بادشاہوں کی کہ اپنے ملکوں کے عوام کو ریاستی
طاقت سے دبا کر دوسرے ملکوں کی جمہوریتوں کے مامے خان بنے ہوئے ہیں۔انتظار
کریں بچیں گے آپ بھی نہیں ۔چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں۔
میں حیران ہوں کہ ہم کہے چلے جا رہے ہیں کہ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی
ہے۔آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی۔میں سیدھا سا مسلمان ہوں
میری عقل اور بھیجے میں یہ بات سما چکی ہے کہ اس دنیا میں شر کی قوت اور
خیر کی طاقت کی لڑائی روز قیامت تک رہے گی اگر ایک جانب کلمہ شہادت کی
بنیاد پر قائم ملک پاکستان ہے اور دوسری جانب وہ قوت ہے جس نے اﷲ سے ازن لے
رکھا ہے کہ میں تیرے بندوں کو شر کی جانب ورغلاتا رہوں گا اور وہ ہے شیطانی
قوت جو بھارت کی شکل میں موجود ہے۔اگر یہ سچ ہے تو پھر تیاری اس بات کی
پکڑیں کہ شیطانی قوت کے مقابلے میں ہم پاکستانی اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے
تھام کر اس کا مقابلہ کریں گے۔وہ بم پھاڑے یا خود بم بن کر ہمارے درمیان
پھٹے ہم اس کی چیرہ دستیوں کے خلاف اپنے جگر آزمائیں گے۔وقت آ گیا ہے کہ
قوم کو ایک بڑی لڑائی کے لئے تیار کیا جائے۔اسے ہر بار مار کھانے کے بعد یہ
نہ کہا جائے کہ اب کے مار۔قوم کو صاف صاف بتا دیا جائے کہ کہ نے اگر آزادی
برقرار رکھنی ہے تو خون کی قربانی دینا ہو گی۔کم خون دینا ہے تواور حفاظتی
لڑائی لڑنے کی بجائے جارحانہ حکمت عملی اختیار کی جائے چار ادھر اٹھیں تو
جنازے اس پار بھی اتنی گنتی ہو۔جنرل راحیل نے بہت کچھ اچھا کیا مگر انہوں
نے مصلحتوں کو بھی اپنایا اور پنجاب کو ضرب عضب سے بچائے رکھا اور اب جو رد
الفساد کا آپریشن شروع ہوا ہے اس کے نام سے ہی لوگوں کو سمجھ جانا چاہیئے
کہ وہ دور لد گیا اب یہ ام الفساد تک پہنچنے والا ہے۔اگر یہ برے کی ماں تک
نہیں پہنچتا تو میں یہ سمجھتا ہوں آپریشن اپنی موت آپ مر جائے گا۔ جسے میں
نے ماں کہا ہے اس کے تانے بانے واہگہ کے اس پار ہیں اور وہیں سے ڈوریں ہلتی
ہیں۔افغانستان کے اندر گھس کر حملہ کرنا ایک درست اقدام ہے لیکن یہ یاد
رکھئے بھارت ہمارا دشمن بھی یہ طریقہ استعمال کرنے کی کوشش کر ے گا۔اس کے
لئے فوج اور عوام کوتیار رہنا ہو گا۔قوم سے کتنی قربانی چاہئیے جتنی ضرورت
ہے وہ پہلے بھی دیتی رہی ہے اور آئیندہ بھی دے گی۔
میں نے آپریشن قلع قمع ام الفساد کی بات اس لئے کی ہے ضرب عضب میں پاکستان
کے معاشی دہشت گردوں کو معاف کر دیا گیا حکمرانوں نے دولت کی طاقت کے بل
بوتے پر لاہور کو خون میں رنگا۔اس آپریشن میں سانحہ ء ماڈل ٹاؤن کے اصل
قاتلوں تک بھی پہنچنا ہو گا۔
پاکستان کے فرسودہ قوانین جو انگریز دور کے ہیں ان کا خاتمہ ضروری ہے۔یہ
بھی یاد رہے کہ کسی بھی ملک کی پولیس جتنی بھی تربیت یافتہ وہ دہشت گردوں
سے نپٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ایسے معاملات فوج اور سپیشل اداروں کے ذمہ
ہوتے ہیں۔ایک اہم بات کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ خدارا دہشت گرد کا حلیہ
پختون حلیہ نہ قرار دیں اس سے پنجاب اور پختونوں میں بڑی خلیج حائل ہو جائے
گی۔دو نومبر کے اسلام آباد لاک ڈاؤن میں جو زخم پاکستان کو لگائے گئے وہ
ابھی بھرے نہیں۔نوجوان وزراء اور وہ لوگ جو اپنے آپ کو مریم نواز شریف کی
حکومت کے وزیر سمجھ کر منہ کھول کر بد تہذیبی کے ریکارڈ قائم کر رہے ہیں
انہیں سوچنا ہو گا کہ کیا پاکستان پنجاب ہی رکھنا ہے یا سارے صوبوں کو
پاکستان میں رکھنا ہے اگر دیگر صوبوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے تو الفاظ تول
کر بولنا ضروری ہو گا۔پنجابی شاوئنزم سے بچیں۔عقل کا مرکز لاہور ہی نہیں ہے
اﷲ نے پشاور کوئٹہ کراچی بھی پاکستان میں بنائے ہیں۔جناب نجم سیٹھی اور وہ
لوگ جو بضد ہیں کہ ہم نے فائینل لاہور میں کرانا ہے انہیں ضد چھوڑ کر اسے
ادھر ہی کرا لیں جہاں ہو رہے ہیں۔میں اس بلی سے درخواست کروں گا کہ ہمیں
لنڈورہ ہی رہنے دے۔ |