پختون دہشت گرد یا محب وطن

پچھلے تین دہائیوں سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اگر جائزہ لیا جائے تو مجموعی طور پر مسلم ممالک نسبتا زیادہ متاثر ہوچکے ہیں۔ افغانستان اور عراق پر قیامت صغری برپا کرکے امریکہ نے ایسی آگ جلائی جو شرقا غربا پھیلتی گئی ۔ اس آگ نے پڑوس کے کئی ممالک کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے۔ عراق سے ہوتے ہوئے مصر کی قیادت کو اپنے طاقت کے زور پر تبدیل کر دیا گیا اور آگے بڑھ کر تقریبا پورے مشرق وسطی کو طاقت کے بل بوتے پر اپنے غلام بنانے کی کوششیں شروع کر دی۔ ادھر افغانستان میں سپر پاور کہلوانے والا امریکہ ایک ایسے قوم سے نبرد آزما ہوا جنہوں نے نصف صدی کا عرصہ حالت جنگ میں گزارا تھا۔

افغانستان میں امریکہ کے پھنسنے سے ان کی لگائی ہوئی آگ آس پاس بھی پھیلنے لگی ۔ پڑوسی ہونے اور قریبی مراسم کی وجہ سے دہشت گردی کے آگ نے وطن عزیز کو بہت جلد اپنے لپیٹ میں لے لیا۔ ابتدا سے بین الاقوامی سطح پر دہشت گرد کے لیے طالبان کا نام استعمال کیا جانے لگا جو یہود و نصاری کے خبیث ذہنیت کا مسلمانوں پر ایک نظریاتی فتح بننے لگا۔ مسلم ممالک خصوصا پختون معاشرے میں طالبان ان بچوں کو کہا جاتا تھا جنہوں نے اپنا گھر بار چھوڑ کر اپنی زندگی علوم سماویہ (قرآن و حدیث) کو سیکھنے کے لیے وقف کی تھی۔ یوں مسلمانوں کے ازلی دشمن نے دہشت گرد کے لیے طالبان کا نام استعمال کرکے باقاعدہ طور پر دینی مدارس کو ٹارگٹ بنا یا۔

پاکستان میں دہشت گردی سے متاثرہ افراد میں سب سے زیادہ پختون ہیں۔ اگر تاریخ پر غور کیا جائے تو پختون ایک ایسی قوم ہے جنہوں نے اپنے مذہب اور اپنے وطن کے لیے قربانی کی مثالیں قائم کی ہیں۔ برصغیر میں مسلم حکومت پر انگریزوں کا قبضہ ہو یا تحریک پاکستان کی تگ و دو، قیام پاکستان کے وقت مہاجرین کی آباد کاری ہو یا 1948ء میں پاک بھارت جنگ، 1965ء میں بھارت کا بزدلانہ حملہ ہو یا 1971ء میں آزاد کشمیر کی دفاع، ہر امتحان اور ہر مشکل میں پختون قوم دین و ملک کے دفاع کے لیے صف اول میں شریک رہے ہیں۔

افغانستان پر امریکہ کے حملے کے چند سال بعد پاکستان کے قبائلی علاقوں سے ہوتے ہوئے اس آگ نے پختون اور پر امن قوم کے علاقوں کو اپنے لپیٹ میں لے لیا۔ ملاکنڈ ڈویژن اور بالخصوص سوات میں امن کو نیست و نابود کر دیا گیا۔ ملکی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی گئی۔ 20 لاکھ سے زائد غیور پختونوں کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیاگیا۔ اس کے بعد قبائلی علاقہ جات کے پختون علاقے دہشت گردی کا شکار بنے۔اس کے بعد ملک کے چاروں صوبوں میں پختون علاقے وقتا فوقتا دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ لیکن اس مشکل گھڑی میں دین و ملک پر جان نثار کرنے والوں نے نہ کوئی احتجاج کیا اور نہ اسلحہ اٹھایا۔ بلکہ پر امن رہ کر امن قائم کرنے کے لیے کوشاں رہے۔

ایسے ناگفتہ بہ حالات میں چاروں صوبوں میں حالیہ دہشت گردی کے بعد ملک بھر میں اور خصوصا پنجاب میں اپریشن کا آغاز کر کے دہشت گردی میں ملوث افراد اور سہولت کاروں کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے۔ ایسے کھٹن حالات میں بعض نادیدہ قوتیں دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کو نسلی اور لسانی جنگ میں تبدیل کرنے کے درپے ہیں۔ پنجاب بھر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ تو صحیح ہے لیکن پختونوں کے خلاف جنگ کا جواز ہے؟ کیا پختونوں کو ٹارگٹ کر کے وطن عزیز کی مٹی کے ساتھ غداری نہیں؟ کیا ہر مشکل حالت میں ملکی دفاع کے لیے سر پر کفن باندھنے والے ملکی بنیادوں کو کھوکھلا کر سکتے ہیں؟ کیا وطن عزیز کے تحفظ کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کرنے والے محب وطن پاکستانی نہیں؟

میں سیکیورٹی اداروں سمیت پنجاب حکومت اور حکومت اسلامی جمہوریہ پاکستان سے گذارش کرتا ہوں کہ خداراں داڑھی اور پگڑی کو دہشت گردی کی علامت نہ بنائے، شلوار قمیص پختون ثقافت کی علامت ہے نہ کہ دہشت گردی کے۔ اس مشکل گھڑی میں فرقہ وا ریت، نسلی اور لسانی فساد پھیلانے سے گریز کرنا چاہئیں۔ پیمرا کو بھی اس امتحان میں میڈیا کو پابند کر کے ایسے خبریں نشر کرنے سے روکنا چاہئیں جن کی وجہ سے وطن عزیز میں فساد کا اندیشہ ہو۔ آئیں ہم سب عہد کریں کہ اجتماعیت کی فضا قائم کرکے ہم سب ایک پاکستانی ہو کر اسلام اور پاکستان کی دفاع کے لیے اداروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہو۔ تاکہ ہم اپنے آنے والے نسلوں کو دے سکیں اسلامی، مضبوط ، پر امن پاکستان۔
Abid Ali Yousufzai
About the Author: Abid Ali Yousufzai Read More Articles by Abid Ali Yousufzai: 97 Articles with 83105 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.